Express News:
2025-04-22@11:05:20 GMT

کوچۂ سخن

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

غزل
جہاں وہ خوبصورت، رونقِ محفل نہیں ہوتا 
ہمیں جانا ہی پڑتا ہے اگرچہ دل نہیں ہوتا
ذرا آہستگی سے اپنی عرضی پیش فرمائیں
محبت میں دوانہ رونقِ محفل نہیں ہوتا 
وہ آنسو بن کے بہ جاتے ہیں رخساروں کے رستے سے
مری آنکھوں میں جن خوابوں کا مستقبل نہیں ہوتا
اتار آتا ہے مچھواروں کو زندہ ریگِ ساحل پر
سمندر اپنے دشمن سے کبھی غافل نہیں ہوتا
ہمارا رشتہ سچائی کی بنیادوں پہ قائم ہے
وگرنہ جھوٹ کہنا تو کوئی مشکل نہیں ہوتا
ٹھکانہ کر لیا دل میں، بغیرِ اذنِ دربدری  
بھٹک کر بھی وہ میرے ذہن میں داخل نہیں ہوتا
بناتے اس کو اپنے تاج کا ممتاز سا ہیرا
تری پائل میں یہ پتھر اگر شامل نہیں ہوتا
(عاجز کمال رانا ۔ خوشاب)

۔۔۔
غزل
وہ تو مجھ کو ہی نہ، چلنے کے سِوا کچھ آئے 
ورنہ خطرات تو اِس راہ میں کیا کچھ آئے 
یہی بے روح طلب ہے تو غرض کیا اِس سے 
اب نہ کچھ آئے مرے ہاتھ میں یا کچھ آئے 
جانے کیا دکھتا ہے اُس رخ پہ کہ اس دفعہ بھی 
لے کے ہم کچھ گئے، اُس کو دکھا کچھ آئے 
تُو نہ اِس دامنِ خالی کو سمجھ مجبوری 
لینے والے ہوں اگر ہم تو بڑا کچھ آئے 
کچھ تو اِس گلشنِ بے رنگ میں مہکے کوئی پھول 
کسی رت میں تو تجھے چین دلا! کچھ آئے 
(زبیرحمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ)

۔۔۔
غزل
یہ مرحلہ بھی تو آخر گزر ہی جانا ہے
ترا خلا بھی کسی روز بھر ہی جانا ہے
نہ اب وہ عمر، نہ آسائشیں، نہ عشق کا روگ
کہ اب تو کام سے بس سیدھا گھر ہی جانا ہے
اے ہم سفر! کبھی تو زندگی کی بات بھی کر
بھلے جیے نہ جیے، تُو نے مر ہی جانا ہے
یہ خامشی، یہ اداسی، یہ دل کی ویرانی 
جو کہتے رہتے ہیں اک روز کر ہی جانا ہے
یہ تیرا غم ہمیں کب تک اداس رکھے گا
کہ آخرش کبھی ہم نے سنور ہی جانا ہے
نہ کوئی وعدۂ بیعت نہ صلح جوئی کوئی
کہ اب کی بار تو مقتل میں سر ہی جانا ہے
وہ شعر حضرتِ غالب کا کیوں نہ ہو اکرام
کسی کے دل پہ مگر بے اثر ہی جانا ہے
(اکرام افضل مٹھیال۔ اٹک)

۔۔۔
غزل
خوف کب ہے مجھے سزاؤں سے
میں تو شرمندہ ہوں خطاؤں سے
شور سے مجھ کو سخت نفرت ہے 
یعنی بیزار ہوں صداؤں سے
دھوپ میں کب ہوئے ہیں بال سفید
میں بھی گزرا ہوں اِبتلاؤں سے
کیا ضرورت تھی پھر دوا کی مجھے
کام  چلتا اگر دعاؤں سے
میں مسافر ہوں ایسے رستے کا
دور ہے جو گھنیری چھاؤں سے
شہر سے تو سہولتیں ملی ہیں
پیار مجھ کو ملا ہے گاؤں سے
میں دِیا ہوں فقَط محبّت کا 
مجھ کو خطرہ نہیں ہواؤں سے
بھوک ہے، خوف ہے، محبت ہے
بچّے لپٹے ہوئے ہیں ماؤں سے
آج کل کاروبار کرتے ہیں 
لُوٹ لیتے تھے جو اداؤں سے
ختم کب ہوں گی خواہشیں کیفی 
جان چھوٹے گی کب بلاؤں سے
(محمود کیفی ۔ سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل
کوئی تو حل نکالو اس بلائے ناگہانی کا 
محبت کھا گئی مجھ سے مرا حصہ جوانی کا
وصال و ہجر کے بیچوں کھڑی اس زندگانی کا
نہ جانے ختم کب ہو گا تماشا آگ پانی کا 
میسر خود کو لمحہ بھر جو ہو جاؤں، غنیمت ہے
سمجھ لو دیکھ کر مجھ کو، معانی رائیگانی کا
میں تھا تو مرکزی لیکن مجھے اب ثانوی سمجھو
ہوا کردار میرا اب ضرورت اِس کہانی کا
میں ہرگز حق شراکت کا کسی کو بھی نہ دوں اس میں
اکیلا میں ہی وارث ہوں، غموں کی راجدھانی کا
اسی اک سوچ میں غلطاں کہیں دائم ؔنہ مرجائے 
’اتارے قرض کیسے وہ  محبت کی نشانی کا‘
(ندیم دائم ۔ ہری پور)

۔۔۔
غزل
خراب حال میں سب کو خراب لگتا ہوں
بس ایک تُو ہے جسے میں نواب لگتا ہوں
میں ایک تیر کی صورت کسی نشانے پر 
اگر لگوں تو بڑا بے حساب لگتا ہوں
حروف توڑ کے پھینکا گیا ہے کاغذ پر 
بھلا کہاں سے میں تازہ نصاب لگتا ہوں
میں آئنہ ہوں تمہارے لیے بنایا گیا
تمہارے جیسا ہی بالکل جناب لگتا ہوں
ابھی تو شاخ ہری ہے کہ خشک سالی میں
تمہیں کہو گے کدھر سے گلاب لگتا ہوں
حریص لوگوں سے میری کبھی نہیں بنتی 
سو اس لیے تجھے تھوڑا خراب لگتا ہوں
(عابد حسین ۔ صائم بورے والا)

۔۔۔
غزل
پہلے پہلے مرے اندر کا فسوں ٹوٹے گا
پھر کہیں جا کے یہ اندیشۂ خوں ٹوٹے گا
میں اُسے پیار سے توڑوں گا وگرنہ وہ شخص
یوں نہ ٹوٹے گا کبھی، اور نہ یوں ٹوٹے گا
میری تنہائی تو اُس وقت مکمل ہو گی
جب کہیں سلسلۂ کُن فیکوں ٹوٹے گا
شہرِ عشّاق میں اک تازہ ہوس گھومتی ہے
دیکھنا اب کہ یہاں صبر و سکوں ٹوٹے گا
رفتگاں لوٹ کے آئیں گے اچانک مجھ میں
اور اچانک سے مرا زورِ جنوں ٹوٹے گا 
کوئی بنتا ہی نہ تھا ردِعمل کا باعث
کس نے سوچا تھا کہ ایسے یہ ستوں ٹوٹے گا
(حسن فاروق۔ فتح جنگ ،اٹک)

۔۔۔
غزل
گھٹن ہے اور عجب بے بسی ہوا میں ہے
یقین جان بڑی تشنگی ہوا میں ہے
یہ کون ہو گیا رخصت ملے بغیر ہمیں 
ہے سوگوار نگر، خامشی ہوا میں ہے 
ہر ایک پھول گھٹن کا شکار لگتا ہے
ذرا پتہ تو کرو کیا کمی ہوا میں ہے
تمہارے شہر کے سب لوگ بد مزاج ہوئے
کرخت لہجے ہیں اور بے رخی ہوا میں ہے
فلک سے آنے لگیں قہقہوں کی آوازیں
گمان ہونے لگا زندگی ہوا میں ہے
لکھا ہے نام ترا رات کی ہتھیلی پر
جہاں مہکنے لگا ہے، خوشی ہوا میں ہے
تری غزل میں جو احساس ہے نئے پن کا
یہ اُس کا فیض ہے یا تازگی ہوا میں ہے
یہ لگ رہا ہے مرے آس پاس ہو اب تک
ترے بدن کی مہک آج بھی ہوا میں ہے
(راشد انصر۔ پاک پتن)

.

..
 غزل
نمی آنکھ میں اور ہنسی کا سفر
بڑا ہے کٹھن زندگی کا سفر
کہاں مجھ کو لے جائے اب دیکھیے
مرا یہ سفر بے خودی کا سفر
کہیں تو ملے میرے دل کو قرار
کہیں تو تھمے بے کلی کا سفر
دوبارہ وہ صورت دکھائی نہ دی
کیا بار ہا اس گلی کا سفر
اڑا آسماں کی بلندی میں وہ
کیا جس نے بھی عاجزی کا سفر
میں سمجھا تھا پھولوں کا بستر مگر
تھا کانٹوں سے پر زندگی کا سفر
مری آنکھ کی روشنی لے گیا
مسلسل سفر تیرگی کا سفر
یہاں سانس لینا روا تک نہیں
میاں حبس ہے عاشقی کا سفر 
ہے ممکن میں کھو جاؤں راحل کہیں
کہ در پیش ہے آگہی کا سفر
(علی راحل۔بورے والا)

...
غزل
نہیں اے دل ربا نہ ہو سکے گی 
طویل اتنی سزا نہ ہو سکے گی 
تمہارے جسم سے لپٹی رہے گی 
مری خوشبو جدا نہ ہو سکے گی
تمہارے اور میرے درمیاں اب 
یہ دنیا مبتلا نہ ہو سکے گی 
وفاداری نبھاؤگی یہ ہم سے 
محبّت، بے وفا نہ ہو سکے 
ہمارا قرب ہے حاصل تمہی کو 
بچھڑنے کی خطا نہ ہو سکے گی 
جہاں مرضی نہیں شامل ہو میری 
تمہاری بھی رضا نہ ہو سکے گی   
ابھی تو ابتدا کرنی ہے شوبیؔ 
تمہاری انتہا نہ ہو سکے گی
(ابراہیم شوبی۔ کراچی)

...
غزل
کسی مجبور کی یہ لوگ جب امداد کرتے ہیں 
یہ لوگوں کی جمع پہلے بڑی تعداد کرتے ہیں 
میں جن سے پیار کرتا ہوں میں جن پہ جاں چھڑکتا ہوں 
وہی تو یار سب مل کر مجھے برباد کرتے ہیں 
ہمارا ہاتھ نہ پھیلے کسی مجبور کے آگے 
مرے مالک ترے آگے یہی فریاد کرتے ہیں 
یہ بچے جب جواں ہوں گے بنیں گے آسرا ان کا 
یہی تو سوچ کر ماں باپ خود کو شاد کرتے ہیں 
میں گھر سے دور رہتا ہوں مری ہے نوکری ایسی 
مرے بچے مجھے گھر میں بہت ہی یاد کرتے ہیں 
یہاں کے لوگ کیسے ہیں عجب قانون ہے ان کا 
یہاں جو قتل کرتا ہے اُسے آزاد کرتے ہیں 
(زکریا نوریز۔ پاک پتن)

...
غزل
ہاں سب سے جدا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
خوابوں میں سجا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
ہاں یار مجھے اسکی ضرورت ہے بلا کی 
ہاں سر پہ چھڑا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
جو کچھ بھی ہوا پیار کی خاطر وہ بھلا دو 
یہ کیسی سزا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
دیکھوں نہ زلیخا کی طرح ٹوٹ گیا ہوں 
یوسف کی طرح رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی
 ہاں چاہنے والے تو بہت ہے میرے لیکن 
بس دل میں بسا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
کمبخت ولی ہوگا یا  پہنچا ہوا بندہ 
وہ جس نے بھی پا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
وہ ساتھ نہیں دل کے بہت پاس ہے پھر بھی 
ہاں دل میں یہاں رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
جل جل کے میرے دل میں تو سب راکھ ہوا ہے 
ہاں ایک بچا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
 ارسل ؔجو تیرے واسطے پاگل تھا میری جاں 
اب خاک اڑا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
(ارسلان شیر ۔کابل ریور، نوشہرہ)
 

شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں،  انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہ ہو سکے گی ہی جانا ہے ہوا میں ہے نہیں ہوتا لگتا ہوں کرتے ہیں کچھ ا ئے کا سفر مجھ کو بھی تو

پڑھیں:

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

کسی شاعر نے توکہا تھا کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

مگر حادثہ کا شکار ہونے والوں سے جب پوچھا جاتا ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ اْنہیں تو پتہ ہی نہیں چلا ، اگر اْنہیں علم ہوتا کہ اْن کے ساتھ کوئی حادثہ ہونے والا ہے تو وہ گھر سے نکلتے ہی نہیں جبکہ اْسی حادثے میں جو لوگ کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے اْن کے لواحقین بتاتے ہیں کہ اِس حادثے میں زخمی ہونے یا جان بحق ہونے سے پہلے اْنہوں نے کتنے جتن کئے تھے اور وہ کون کون سی رکاوٹ پھلانگ کر حادثے کا حصہ بنے تھے ۔ بہرحال اللہ تعالی ہم سب کو ہر قسم کے حادثے سے محفوظ رکھے۔

پرانے زمانے میں حادثات کی خبروں کے حصول کا واحد ذریعہ اخبارات ہوتا تھا اور عموما صفحہ اول پر ہی ٹریفک حادثات کی خبریں شائع ہوا کرتی تھیں۔ آج کے برعکس ریڈیو اور ٹی وی پر ایسی خبریں نشر نہیں ہوتی تھیں۔ آج تو معمولی سے معمولی حادثے کی خبر بھی ٹی وی پر دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔ لوگ پوری ذمہ داری اور دلچسپی کے ساتھ وہ خبریں دیکھتے بھی ہیں اور ساتھ ساتھ یہ تبصرہ بھی کرتے ہیں کہ اگر یہ خبر نشر نہ کرتے تو کیا حرج تھا ۔

چند سال پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ کوئی ٹریفک حادثہ ہونے کے بعد یہ طے کرنا مشکل ہوتا تھا کہ حادثہ کس کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے، جبکہ آج یہ بات طے کرنا مشکل نہیں رہا کہ حادثے کا اصل ذمہ دار کون ہے ۔ کیونکہ اکثر گاڑیوں میں لگے کیمرے یہ راز کھول دیتے ہیں اور اگر کسی گاڑی میں کیمرہ نہ بھی ہو تو آس پاس کے کلوز سرکٹ کیمرے یہ راز فاش کر دیتے ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی آج بھی ایسے کئی حادثات ہوتے رہتے ہیں جن کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا جا سکتا یا نہیں ہو پاتا ۔( خصوصا ہمارے ہاں)

 شدید دھند کے موسم میں ہمارے ہاں تو بے شک موٹرویز اور ایکسپریس ویز بند کر دی جاتی ہیں مگر کئی ممالک میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا تاہم ڈرائیورز کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی تلقین کی جاتی ہے ، مگر پھر بھی حادثات ہو ہی جاتے ہیں ۔ اس صورتحال میں عموماً غلطی تو کسی ایک ڈرائیور کی ہوتی ہے مگر اْس کے پیچھے آنے والے کئی ڈرائیورز اِس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ اچانک بریک لگانے سے پیچھے آنے والی گاڑیاں ایک دوسرے میں دھنستی چلی جاتی ہیں ۔ امریکہ کی ریاست لوزیانہ کی ہائی وے پر چند سال پہلے ایسی صورت میں چند منٹوں میں کم از کم ڈیڑھ سو سے زیادہ گاڑیاں ایک دوسرے میں دھنس جانے کی وجہ سے سات افراد جان بحق ہو گئے۔

شدید سردی کے موسم میں جبکہ دھند کے باعث حدِ بصارت بہت کم ہو جاتی ہے تو ایسے میں موٹرویز تو بند ہو جاتی ہیں مگر ہائی ویز پر ٹریفک کا دباؤ پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور وہاں حادثات کی شرح خاصی بڑھ جاتی ہے ۔ ایسے میں زیادہ تر حادثات رات کے وقت ہوتے ہیں جب ڈرائیور کو یہ اندازہ کرنے میں غلطی لگ جاتی ہے کہ اْسے کہاں سے مڑنا ہے۔ ایسے میں وہ بعض اوقات گاڑی کو سڑک کے درمیان بنی دیوار سے ٹکرا دیتا ہے ۔ بعض اوقات اچھے خاصے خوشگوار موسم میں جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہوتا ہے تو کوئی جانورکسی بھی طرح سے موٹروے کی ’سیر و سیاحت‘ کے لیے آ جائے تو اْس سے بچنے یا اْس کو بچانے کے لیے ڈرائیور یکدم بریک لگا دیتا ہے تو اِس سے بھی اْس کے پیچھے آنے والی گاڑیاں اْس میں آ کر لگنے لگتی ہیں ۔

 ہمارے ہاں ٹریفک حادثات کو مقدر کا لکھا ہی تصور کیا جاتا ہے، بہت پہلے جبکہ موٹرویز ، ایکسپریس ویز اور ون ویز نہیں ہوتی تھیں اور ایک ہی سڑک پر دونوں اطراف سے گاڑیاں آ جا رہی ہوتی تھیں تو سامنے سے آنے والی گاڑی کو دیکھ کر زبان پر بے ساختہ کلمہ طیبہ کا ورد شروع ہو جاتا تھا ۔ اْس وقت دوسرے شہر جانے کے لیے زیادہ تر لوگ بسوں پر ہی سفر کیا کرتے تھے۔ سنگل سڑک پر اوورٹیک کرتے ہوئے یا سامنے سے آنے والی ٹریفک سے بچتے ہوئے بعض اوقات بس بے قابو ہو کر سڑک سے نیچے اْتر جاتی اور سامنے آئے کسی درخت سے ٹکرا کر رک جاتی ۔ ایسے ہی کسی حادثے میں بچ جانے والی ایک بڑھیا نے ڈرائیور سے سوال کیا ؛ "بیٹا جہاں درخت نہیں ہوتے، تم بس کو کیسے روکتے ہو؟‘‘۔

 اْن دنوں میں زمینی علاقوں میں سفر پہاڑی علاقوں میں سفر کی نسبت زیادہ محفوظ ہوتا تھا۔ پہاڑی راستے چونکہ تنگ اور بل کھاتے ہوئے جاتے ہیں ، اِس لیے وہاں پر گاڑی چلانے کے لیے اضافی مہارت کی ضرورت ہوتی تھی ، بلکہ آج بھی ہے۔ ایسے میں معمولی سی غفلت گاڑی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی تھی۔ پہاڑوں میں بل کھاتی سڑکوں کے کسی موڑ سے نیچے کھائی کی طرف دیکھیں تو کوئی گری ہوئی گاڑی یا بس نظر آ جاتی ہے۔

پرانے زمانے میں تو بسیں ہی گری ہوئی نظر آتی تھیں مگر اب کاریں ، خصوصاً چھوٹی اور کم طاقت والی کاریں گرتی ہیں خصوصاً جن کے ڈرائیورز نا تجربہ کار ہوتے ہیں ۔ ایسی گاڑیاں اگر ناقابل مرمت ہوں یا اْن کی ملکیت کا کوئی دعوی دار نہ ہو تو متعلقہ ادارے ایسی گاڑیاں کھائی سے نکال کر کسی ایسی جگہ رکھ دیتے ہیں کہ جہاں ہر آنے جانے والے ڈرائیور کی نظر پڑے اور وہ اْس گاڑی کی حالت سے عبرت پکڑتے ہوئے محتاط ڈرائیونگ کرے مگر اِس کے باوجود بھی جو حادثات رونما ہونا ہوتے ہیں ہو کر ہی رہتے ہیں ۔

 گاڑیوں کی ریس کو دنیا کا مہنگا ترین کھیل تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اِس میں استعمال ہونے والی عام سی گاڑی بھی پاکستانی کرنسی کے اعتبار سے کئی کروڑ روپے کی ہوتی ہے اور اْس میں بیٹھے ڈرائیور کی زندگی کی کیا قیمت ہو گی ،آپ خود اندازہ لگا لیں ۔ پھر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ کروڑوں کی گاڑی دوسری مرتبہ ریس میں حصہ لینے کے قابل بھی نہیں رہتی۔ ایسے میں بعض اوقات تو دہرا نقصان بھی ہو جاتا ہے کہ ایک تو کار بیکار ہو گئی اور دوسرا اعزاز بھی ہاتھ نہیں آیا ۔ منظم کار ریس میں عام طور پر نقصان کار کا ہی ہوتا ہے، ڈرائیور بہرحال محفوظ ہی رہتا ہے۔ یہ ریس شائقین کو دکھانے کے لیے عام طور پر مختلف کیمروں کی مدد سے بڑی سکرینوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔

بعض اوقات اِس کی فلم بندی میں مصروف فوٹوگرافر کسی حادثے کی صورت میں ڈرائیورز سے زیادہ زخمی ہو جاتے ہیں ۔ عام لوگ دوران ریس گاڑیوں کے اْلٹنے اور ٹوٹنے کے مناظر سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اْن کا لطف بے شک ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ریسلنگ، فٹبال ، کرکٹ یا کسی بھی میچ کے دوران شائقین کا ہوتا ہے۔ گاڑیوں کے اْلٹنے کی خبریں، فوٹو یا ویڈیوز تو اکثر لوگوں نے دیکھ رکھی ہیں اور اْس سے حسبِ ضرورت لوگ عبرت بھی حاصل کرتے ہیں اور لذت بھی۔ مگر اْلٹی ہوئی بس ہو یا ٹرین ، اس سے تو لوگوں نے ہمیشہ عبرت ہی حاصل کی ہے ۔

 بسوں اور گاڑیوں کے بعد زیادہ تر حادثات ٹرینوں کے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک مرتبہ ریل گاڑی کا کانٹا بدلنے والی کسی پوسٹ کے لیے انٹرویو ہو رہے تھے۔ انٹرویو لینے والے نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ اْس نے کسے چننا ہے اور وہ حاضر امیدواروں میں موجود بھی نہیں تھا ۔ اْس نے ایک امیدوار سے پوچھا کہ اگر اْسے معلوم ہو جائے کہ دو گاڑیاں ایک ہی ٹریک پر آمنے سامنے سے آرہی ہیں تو تم کیا کرو گے؟

 اْس نے جواب دیا کہ میں اسٹیشن ماسٹر سے کہوں گا کہ وہ اِس کا کوئی بندوبست کرے ۔

انٹرویو لینے والے نے کہا کہ اگر وہ موجود نہ ہو تو؟

امیدوار نے کہا پھر میں اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر سے کہوں گا۔

 اور اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر ۔۔

پھر میں سگنل مین سے کہوں گا کہ وہ دونوں گاڑیوں کو دور دور رْک جانے کا سگنل دے۔

اور اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر؟

 امیدوار نے کہا میں اپنی دادی کو بلا لاؤں گا۔

 تمہاری دادی وہاں کیا کرے گی؟ انٹرویو لینے والے نے حیرت سے پوچھا

اْنہیں ٹرینوں کی ٹکر خصوصاً ہیڈ کولیڑن دیکھنے کا بڑا شوق ہے ، وہ اپنا شوق پورا کر لیں گی ۔ امیدوار نے جواب دیا۔

 ٹرینوں کا ہیڈ کولیڑن یا ٹیل کولیڑن پاکستان میں ہوتا ہی رہتا ہے ۔ اس طرح کے حادثات پہلے تو جنوری کے مہینے میں جب کہ دھند کا راج ہوتا ہے ، ہوا کرتے تھے مگر اب جنوری تا دسمبر کسی بھی مہینے کی کسی بھی تاریخ کو رونما ہو جاتے ہیں ۔ اِن حادثات کی وجوہات اور تفصیلات بیان کرنا چونکہ اِس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے اِس لیے آگے بڑھتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ ہیڈ کولیڑن یا آمنے سامنے سے ٹکر کاروں، بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ جہازوں کی بھی ہو جاتی ہے۔

چند سال پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ ہوائی جہازکے حادثات عموماً دورانِ لینڈنگ یا ٹیک آف رن وے پر ہی رونما ہوتے تھے، پھر پرندوں کے ٹکرانے کی وجہ سے حادثات کی خبریں آنے لگیں ۔ پھر 9/11 کو جب امریکہ کے ٹوین ٹاورز سے دو جہاز ٹکرائے تو بعد میں اونچی عمارتوں سے جہاز ٹکرانے کی خبریں بھی ملتی رہیں۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے" کند ہم جنس باہم پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز" کے مصداق دو ایک جیسے طیارے آپس میں ٹکرانے کی خبریں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں یعنی مسافر اور کمرشل طیاروں کی ٹکریں رن وے کے علاوہ کھلی فضا میں بھی ہوتی ہیں ۔

 ہوائی جہاز کا سفر بے شک سب سے تیز سفر ہوتا ہے یعنی ٹرین یا بس کے ذریعے دنوں کا سفر محض چند گھنٹوں میں ہو جاتا ہے ۔ یوں تو فضائی سفر کی کمپنیاں دعوی کرتی ہیں کہ ہوائی سفر ہی سب سے زیادہ محفوظ سفر ہے اور اس کے لیے وہ مختلف تجربات بھی کرتی رہتی ہیں اور نئی نئی ٹیکنالوجیز بھی استعمال کرتی رہتی ہیں مگر پھر بھی حادثات جو ہونا ہوتے ہیں وہ ہو ہی جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکہ میں اوپر تلے کئی ہوائی حادثات رونما ہوئے تو لوگوں نے اِس کی ذمہ داری بھی نو منتخب صدر ٹرمپ پر ڈال دی مگر پھر دوسرے ممالک میں بھی ہوائی جہازوں کے حادثات ہوئے تو خاموشی چھا گئی کہ یہ تو ہوتے ہی رہتے ہیں ۔

چند سال قبل عید سے ایک دن پہلے پی آئی اے کی لاہور سے کراچی جانے والی پرواز کو کراچی لینڈ کرنے سے پہلے ایسا حادثہ پیش آیا کہ ایک کے سوا مسافروں اور عملے کے تمام افراد جان بحق ہوگئے۔ اِس کے علاوہ جہاز کا ملبہ آس پاس کی عمارتوں کی چھتوں پر گرنے سے الگ نقصان ہوا۔ اس حادثے کے بعد معلوم ہوا کہ قومی ائیر لاین کے بہت سے پائلٹس کی تربیت معیار کے مطابق نہیں ہے تو وزیراعظم نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے ایسے پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا جس سے قومی ائیر لائن کی مقبولیت کا گراف خاصا گر گیا ، بہت سے ممالک نے تو قومی ائیر لائن کا داخلہ ہی بند کر دیا تھا۔ اْس وقت کی اپوزیشن نے اعتراض کیا کہ وزیراعظم کے اس اقدام سے پاکستان کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

فضائی حادثات کی فہرست بنائی جائے تو بہت طویل بن سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجوہات میں تو مماثلت ہو سکتی ہے مگر فضائی حادثات کی صورت میں ہمیشہ نئی صورت حال ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں کینیڈا ٹورنٹوکے پیرسون ائیر پورٹ پر ڈیلٹا ائیر کاطیارہ شدید سردی کے موسم میں لینڈ کرنے کے بعد اِس طرح اْلٹ گیا کہ اِس سے پہلے کسی طیارے کو اِس حالت میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ اِس حادثے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر طیارہ ناصرف ناکارہ ہو گیا بلکہ کئی دنوں تک اْس کا ملبہ ائیر پورٹ پر ایسے پڑا رہا کہ حادثہ کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں نہیں ہوا بلکہ کسی انتہائی پسماندہ ملک میں ہوا ہے۔ جہاز ساز کمپنیاں ایسے حادثات کی وجوہات کو عوام سے چھپانے میں عموماً کامیاب ہو ہی جاتی ہیں ، ممکن ہے اِس مرتبہ بھی اْنہیں کامیابی ہو جائے ۔

متعلقہ مضامین

  • پاکپتن: لڑکی کیساتھ مبینہ زیادتی، ملزمان گرفتار
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • سرگودھا میں لڑکی والوں نے شہری کو شادی کے نام پر چونا لگادیا
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • بجلی
  • کینیا میں 14 سالہ لڑکی کو شیر کھا گیا
  • نیو کراچی انڈسٹریل ایریا سے 16 سالہ لڑکی اغوا
  • کندھ کوٹ: گھر پر فائرنگ، 17 سالہ لڑکی جاں بحق، بچی زخمی
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے