UrduPoint:
2025-04-22@09:45:45 GMT

بچوں کی کم ہوتی شرح اموات کو وسائل کی کمی سے خطرہ، یونیسف

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

بچوں کی کم ہوتی شرح اموات کو وسائل کی کمی سے خطرہ، یونیسف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 مارچ 2025ء) دنیا بھر میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں شرح اموات اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے لیکن امدادی وسائل کی شدید قلت کے باعث اس پیش رفت کو خطرات لاحق ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا ہے کہ 2023 کے دوران دنیا بھر میں پانچ سال کی عمر سے پہلے انتقال کر جانے والے بچوں کی تعداد 48 لاکھ تھی جبکہ 19 لاکھ بچوں کی پیدائش مردہ حالت میں ہوئی اور یہ تعداد ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

Tweet URL

یونیسف، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور بچوں میں شرح اموات کی نگرانی کرنے والے اقوام متحدہ کے بین الاداری نیٹ ورک (آئی جی ایم ای) نے خبردار کیا ہے کہ امدادی مالی وسائل میں آنے والی کمی، طبی نظام کو لاحق مسائل اور علاقائی عدم مساوات کے باعث یہ کامیابی ضائع ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ آج لاکھوں بچے ویکسین، غذائیت، صاف پانی اور صحت و صفائی کی سہولیات مہیا ہونے کی بدولت ہی زندہ ہیں۔ قابل انسداد اموات کی تعداد کو کم ترین سطح پر لانا بڑی کامیابی ہے لیکن پالیسی کے حوالے سے درست فیصلوں اور خاطرخواہ سرمایہ کاری کے بغیر اسے برقرار نہیں رکھا جا سکے گا۔

قابل انسداد اموات کے اسباب

یونیسف کے مطابق، پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی نصف اموات پیدائش کے پہلے مہینے میں ہوتی ہیں۔

قبل از وقت پیدائش اور زچگی کی پیچیدگیاں ان کا بنیادی سبب ہیں۔

جو بچے پیدائش کے فوری بعد موت کے منہ میں جانے سے بچ جاتے ہیں انہیں پانچ سال کی عمر سے پہلے لاحق ہونے والے جان لیوا خطرات میں نمونیہ، ملیریا اور اسہال جیسی متعدی بیماریاں نمایاں ہیں۔ علاوہ ازیں، مردہ پیدا ہونے والے نصف بچوں کی اموات دوران زچگی ہوتی ہیں۔ ماؤں کے جسم میں انفیکشن، طویل یا پیچیدہ زچگی اور بروقت علاج میسر نہ آنا اس کے بڑے اسباب ہیں۔

ماہرین نے کہا ہے کہ زچہ بچہ کو معیاری طبی نگہداشت کی فراہمی سے ان اموات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

غریب ممالک کا مسئلہ

کسی بچے کی بقا کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کون سے علاقے میں پیدا ہوا ہے۔ کم آمدنی والے ممالک میں ضروری خدمات، حفاظتی ٹیکوں اور علاج معالجے تک رسائی محدود ہوتی ہے جس کے باعث وہاں پیدائش کے فوری بعد اور پانچ سال کی عمر سے پہلے اموات کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔

یونیسف کے مطابق، ایسے علاقوں میں بچوں کو پانچ سال کی عمر سے پہلے موت کا شکار ہونے کے خطرات باوسائل ممالک کی نسبت 80 گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ان ممالک میں دیہی آبادیوں اور ناخواندہ ماؤں کے بچوں کو مقابلتاً زیادہ خطرات درپیش رہتے ہیں۔

مردہ بچوں کی پیدائش کے حوالے سے بھی یہی صورتحال ہے۔ کم آمدنی والے ممالک میں حاملہ خواتین کے لیے ایسی اموات کا خدشہ بلند آمدنی والے ممالک سے تقریباً آٹھ گنا زیادہ ہوتا ہے۔

شرح اموات اور علاقائی تخمینے

ذیلی صحارا افریقہ کے بچوں میں پانچ سال کی عمر سے پہلے اموات کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے جہاں پیدا ہونے والے ہر 1,000 میں سے 69 بچے اس عمر کو پہنچنے سے پہلے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ مجموعی طور پر براعظم افریقہ میں یہ شرح 63 ہے۔

یورپ میں ہر 1,000 بچوں میں چار، شمالی امریکہ میں 6، ایشیا میں 26، لاطینی امریکہ اور غرب الہند میں 16 اور اوشیانا خطے میں 19 پانچ سال کی عمر سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں۔

مردہ بچوں کی پیدائش کے حوالے سے بھی ذیلی صحارا افریقہ کے حالات دیگر خطوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہیں جہاں ہر 1,000 بچوں میں یہ شرح 22.

2 ہے۔ اس سے برعکس شمالی امریکہ میں یہ شرح 2.7 اور یورپ میں 2.9 ریکارڈ کی گئی ہے۔

یونیسف نے بتایا ہے کہ براعظم ایشیا میں ہر 1,000 نومولود بچوں میں 12.3 پانچ سال کی عمر کو نہیں پہنچ پاتے جبکہ لاطینی امریکہ اور غرب الہند میں یہ شرح 7.4، اوشیانا میں 9.5 اور افریقہ میں 21 ہے۔

بگڑتے طبی مسائل

بچوں کی بقا کے لیے چلائے جانے والے امدادی پروگراموں کے لیے وسائل کی کمی نے اس عدم مساوات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ وسائل کی کمی کے باعث طبی کارکنوں کی بھی کمی ہو گئی ہے، مراکز صحت بند ہو رہے ہیں، حفاظتی ٹیکوں کی مہمات میں خلل آ رہا ہے اور ملیریا کے علاج کی ادویات سمیت ضروری طبی سازوسامان کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔

انسانی بحرانوں کا شکار، قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبے اور پہلے سے ہی بچوں میں بلند شرح اموات والے ممالک ان حالات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے بچوں کی زندگیوں اور صحت کو تحفظ دینے کے لیے عالمی برادری سے تعاون بڑھانے پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملیریا پر قابو پانے، بچوں کی مردہ حالت میں پیدائش کو روکنے اور ان کی بہتر نگہداشت کے اقدامات کی بدولت لاکھوں خاندانوں کی زندگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پانچ سال کی عمر سے پہلے والے ممالک میں یہ شرح شرح اموات پیدائش کے بچوں میں وسائل کی بچوں کی پیدا ہو کے باعث کے بچوں کے لیے گئی ہے

پڑھیں:

تبدیل ہوتی دنیا

صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیز کے تحت پوری دنیا ایک تبدیلی کی لپیٹ میں ہے۔ صدر ٹرمپ کے اقدامات جو وہ آزاد تجارت کو کچلنے کے لیے اٹھا رہے ہیں، ایسی پالیسیز ماضی میں امریکا کے کسی صدر نے نہیں لاگو کیں اور دوسری طرف ہیں ماحولیاتی چیلنجز جن کا سامنا ہم نے کرنا ہے۔

انٹارکٹیکا اور الاسکا جو دنیا کے نارتھ اور ساؤتھ پول ہیں وہاں برف کے گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یقینا سمندر کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہزاروں ارب ڈالر کی اراضی اور اثاثے سمندر نگل رہا ہے۔ بہت سے علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی شروع ہو چکی ہے۔ تیسری مائیکرو چپ نے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ مصنوعی ذہانت ایک حقیقت سے زیادہ ضرورت بنتی جا رہی ہے۔

ٹرمپ کی پالیسیز دنیا کی آزاد تجارت کو کچلنے کے مترادف ہیں، ان پالیسیز نے نہ صرف دنیا بھرکے ممالک کی اسٹاک ایکسچینج کو شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ یہ پالیسیز خود امریکا کی معیشت کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔

امریکا کی بانڈز مارکیٹ دنیا کی مضبوط ترین مارکیٹ تھی۔ دنیا میں جہاں بھی سر پلس ہوا وہ امریکی حکومت کے (بانڈز) خرید کرتے تھے مگر اب ٹرمپ کی حکومت میں دنیا امریکی بانڈز خریدنے سے شش و پنج میں ہے۔ ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے میں نے اپنے کالم میں یہی لکھا تھا کہ سٹہ لگانے والے اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ ٹرمپ کی حکومت میں ڈرٹی کیپیٹل ازم پروان چڑھے گا۔

اسٹاک ایکسچینج کو ایک دم سے گرایا بھی جائے گا اور اچانک بڑھایا بھی جائے گا اور اس اتار چڑھاؤ سے کچھ مخصوص لوگ مستفید ہوںگے۔ جب صدر ٹرمپ نے چین اور دیگر ممالک جو امریکا کو اپنی اشیاء ایکسپورٹ کرتے تھے، ان پر بھاری ٹیرف عائد کیے تو اسٹاک مارکیٹ نے لگ بھگ پانچ ہزار ارب ڈالرگنوا دیے۔

ان کے اثاثوں کی قیمت گر گئی۔ پھر چند ہی دنوں میں صدر ٹرمپ نے ٹیرف عائد کرنے کا یہ فیصلہ واپس لے لیا اور نیو یارک اسٹاک مارکیٹ واپس چار ہزار ڈالر چڑھ گئی۔ ٹرمپ کے مخالف ڈیموکریٹس کا یہ کہنا ہے کہ ٹرمپ کے قریبی لوگوں کے پاس پہلے سے ہی یہ اطلاعات تھیں جن سے انھوں نے اربوں ڈالرکمائے ہوںگے۔

مشرقِ وسطیٰ کے محاذ پر ٹرمپ کی پالیسیاں، تضادات کو تیزکررہی ہیں۔ یوکرین کی معدنیات پر ٹرمپ حکومت اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہے۔ یورپ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکا کا سب سے بڑا اتحادی تھا، وہ امریکا سے بدظن ہوچکا ہے۔

امریکا کی اب کوشش یہ ہے کہ روس سے تعلقات بہتر کیے جائیں، روس اور چین کے تعلقات میں دراڑیں ڈالی جائیں۔ دوسری طرف یورپین یونین، امریکا کی ان غیر مستقل مزاج پالیسیزکو دیکھتے ہوئے دنیا کے اندر ایک نئے عالمی لیڈر کی طرف دیکھ رہی ہے اور یہ نیا لیڈر چین بھی ہو سکتا ہے۔

اس تمام منظرنامے میں ایک نئی قوت اور تیسری بڑی عالمی قیادت بہت تیزی سے ابھر رہی ہے وہ ہے بھارت۔ امریکا کی بیشترکمپنیوں نے ٹرمپ کے اتحادی ایلون مسک کی گاڑیوں کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ اسی طرح یورپ نے بھی جس سے ایلون مسک کو لگ بھگ ایک ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

مگر اس دنیا کی تیزی میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم اس قابل ہیں کہ آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں؟ کیا ہماری کوئی تیاری ہے؟کیا ہم نے کوئی متبادل راستہ ڈھونڈا ہے، جب صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی ہم پر بھی لاگو ہوںگی۔

ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر امریکا ہے۔ یقینا ہم پر بھی ان پالیسیز کے منفی اثرات مرتب ہوںگے۔ امریکا یہ چاہے گا کہ پاکستان پر اسی طرح کے دباؤ ڈال کرکچھ شرائط عائد کی جائیں اور ان شرائط کی مد میں اپنے من پسند کام لیے جائیں۔

پاکستان کی سیاست میں جب بھی امریکا نے پالیسیز بنائیں، ان سے پاکستان میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچااور خاص کر ان ادوار میں جب امریکا میں ری پبلیکن کا دورِ ہو۔یہ ہماری غلط فہمی ہوگی، اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں افغانستان، امریکا سے ٹکراؤ بڑھائے گا،کیونکہ امریکا کو بٹگرام ایئر پورٹ واپس چاہیے۔

امریکا نے اس حوالے اپنی درخواست ، طالبان کے آگے پیش بھی کردی ہے۔ امریکا، ایران کے ساتھ فوجی محاذ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، اس منظرنامے میں دونوں ہی ممالک ہمارے پڑوسی ہیں۔ دنیا کی تیسری طاقت یعنی ہندوستان بھی ہمارا پڑوسی ہے۔

اگر ہم امریکا کا جائزہ لیں تو داخلی اعتبار سے موجودہ انتظامیہ میں، پاکستان کوئی دیرینہ دوست نہیں رکھتا۔ ہماری موجودہ سول قیادت ایک سال گزار چکی ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کو اس حکومت کو ہٹانے کے لیے زیادہ دقت کا سامنا نہیں ہوگا۔

بس ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ جو معاشی بحران عمران خان کی حکومت میں آیا تھا، اب ملک اس بحر ان سے نکل چکا ہے۔ اس کا کریڈٹ یقینا شہباز شریف اور اس کی ٹیم کو جاتا ہے۔ اس دورِ حکومت میں پارلیمنٹ اور سول حکومت اتنی آزاد نہیں جتنی آزادی بانی پی ٹی آئی کے دور میں میسر تھی۔

بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے صوبوں میں جو ہلچل مچی ہوئی ہے، اس تیزی میں اس حکومت کے خلاف آوازیں ابھر رہی ہیں۔ موجودہ بحران بانی پی ٹی آئی کے لیے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کرنے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ امریکا کی مداخلت ہمیشہ پاکستان کی داخلی سیاست میں رہی۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ہمارے جیسے ممالک اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنانے میں آزاد نہیں رہے۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کے اسٹیج پر پہلی مرتبہ اتنی نمایاں اور واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اعداد و شمار کے تحت پاکستان دنیا کے سات ملکوں میں شمار ہوتا ہے جو اس بحران کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی ساحلی پٹی پر بڑی واضح تبدیلیاں آئی ہیں جس سے نقل و حمل کے امکانات زیادہ ہوگئے ہیں۔

ہماری داخلی سیاست انتہائی کمزور ہے۔ کسی مضبوط سول قیادت کا وجود نہیں جو ابھرتے ہوئے بین الاقوامی ٹکراؤ میں بھرپور انداز میں ہماری ترجمانی کرسکے بلکہ ایسی مضبوط سول قیادت بھی میسر نہیں جو چار یا تین صوبوں میں یکساں طور پر مقبول ہو۔ فیڈریشن کے حوالے سے پاکستان اس وقت انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ یہاں بلوچستان کا بیانیہ الگ ہے۔ خیبر پختونخوا کا بیانیہ الگ ہے اور اب سندھ میں بھی ایک نیا بیانیہ جنم لے چکا ہے۔

یہ تبدیلیاں بڑی تیزی سے آرہی ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کانگریس نے انگریز حکومت کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو ‘‘ کی تحریک چلائی اور ان تحاریک میں سبھاش چندر بوس جیسے لیڈر تھے جنھوں نے انگریز سامراج کو کمزور دیکھتے ہوئے جارحانہ انداز اپنایا۔صرف امید کی کرن ہے ٹیکنالوجی کے اندر انقلاب ! اس انقلاب میں چین امریکا کے ساتھ کھڑا ہے۔

لاکھ بحران سہی لیکن اس ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک کردیا ہے۔ پچیس سالوں سے دنیا میں آزاد تجارت کا سکہ چل رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی نے مزید سے مزید ترقی پائی۔صدر ٹرمپ اس وقت جو اقدامات کر رہے ہیں وہ دنیا کی آزاد تجارت کو کچل دیں گے۔

دائیں بازو کی پاپولر ازم بھی اس وقت اپنی انتہا پر ہے۔ یقینا اس کا زوال بھی ہوگا مگر جانے سے پہلے جو منفی اثرات چھوڑے گا، وہ دنیا کے لیے بہت خطرناک ہوںگے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں اگر اسی رفتار سے رواں رہیں تو دنیا ایک بہت بڑے بحران میں داخل ہو رہی ہے اور اگر ماحولیاتی تبدیلیاں ایسے بحران کو جنم نہیں دیتیں تو دائیں بازو کے پاپولر ازم کو شکست ہوگی جو دنیا کو اس وقت تیسری جنگِ عظیم کے دہانے لے آیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • زمین کے تحفظ کیلئے ہمیں قدرتی وسائل اور درخت بچانے ہیں: مریم نواز
  • جے یو آئی، جماعت اسلامی اتحاد خوش آئند ہے، حکومت کو خطرہ نہیں، ملک محمد احمد خان
  • جے یو آئی اور جماعت اسلامی اتحاد سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • وسائل کے تحفظ کیلئے آغا راحت کا بیان حقیقت پر مبنی ہے، عارف قنبری
  • امن خراب کر کے پہاڑوں پر قابض ہونے کا جواز ڈھونڈنے کی سازش ہو رہی ہے، کاظم میثم
  • پانچ ماہ کی طویل بندش: شاہراہِ کاغان کو ناران تک ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا.
  • ہیٹ ویو کا خطرہ، یکم جون سے تعطیلات کی سمری منظوری کیلئے وزیراعلیٰ کو ارسال
  • ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی معمولی جرم نہیں، اجتماعی سلامتی کے لیے خطرہ ہے: شرجیل میمن
  • گری ہوئی چیز کو اٹھا کر کھانے کا 5’ سیکنڈ رول’، حقیقت کیا ہے؟
  • تبدیل ہوتی دنیا