City 42:
2025-12-13@23:09:41 GMT

ایف بی آر کا بنیادی ڈھانچہ حساس قرار، پیکا قانون لاگو

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

 ویب ڈیسک : وفاقی حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے بنیادی ڈھانچے کو "حساس انفراسٹرکچر" قرار دیتے ہوئے پیکا قانون لاگو کر دیا اور سائبر حملوں پر سخت سزائیں نافذ کر دی گئیں۔

 ایف بی آرکی جانب سے تمام ریجنل ٹیکس دفاتر، کارپوریٹ ٹیکس آفسز، لارج ٹیکس آفسز ،میڈیم ٹیکس آفسز کے چیف کمشنرز،  اے ای او آئی زونز، بے نامی زونز کے کمشنرز ان لینڈ ریونیو اور کمشنر اپیلز، ان لینڈ ریونیو اور کسٹمز سروس کے تمام ڈائریکٹر جنرلز اور ڈائریکٹرز سمیت ملک بھر کے فیلڈ سربراہان کو مراسلہ ارسال کردیا گیا ہے۔

زیر زمین سیوریج لائن میں دھماکا، سڑک پر شگاف، عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے

مراسلے میں کہا گیا ہے کہ کابینہ ڈویڑن کی جانب سے جاری کردہ ایک میمورنڈم کے مطابق کابینہ نے ایف بی آر کے آئی ٹی انفرا اسٹرکچر، بشمول ڈیٹا سینٹرز، ایپلیکیشنز اور وہ تمام سسٹمز جو ٹیکس دہندگان کے ڈیٹا ہوسٹ کرتے ہں ان سب کو الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ(پیکا) 2016 کے تحت حساس حیثیت دینے کی منظوری دے دی ہے۔اس فیصلے کا مقصد ایف بی آر کے ڈیٹا سسٹمز کو کسی بھی ممکنہ سائبر حملے یا غیر مجاز رسائی سے محفوظ بنانا ہے، اس اقدام کے تحت کوئی بھی فرد یا گروہ جو ایف بی آر کے نظام میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے، ڈیٹا چرانے یا اس میں مداخلت کرنے کی کوشش کرے گا اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

اہلیہ کار حادثے میں بال بال بچ گئیں، سونو  سود نے معجزہ قرار دے دیا

الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ 2016 کے تحت ایسے جرائم پر قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

ایف بی آر نے تمام متعلقہ اداروں اور افراد کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس فیصلے پر مکمل عمل درآمد یقینی بنائیں اور ایف بی آر کے تنقیدی انفرا اسٹرکچر کے تحفظ کے لیے ضروری سیکیورٹی اقدامات کریں تاکہ کسی بھی ممکنہ سائبر خطرے کو روکا جا سکے۔

.

ذریعہ: City 42

پڑھیں:

جرائم کی گلیوں میں سیف سٹی کی خاموشی: ایک تحقیقی جائزہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251211-03-5
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
کراچی میں ای چالان سسٹم کے نفاذ نے بلاشبہ ٹریفک نظم و ضبط کے شعبے میں ایک نئی پیش رفت کو جنم دیا ہے۔ شہر کے مختلف مقامات پر نصب جدید کیمروں نے لاکھوں شہریوں کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان بھیجے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نظام تکنیکی اعتبار سے بھرپور فعالیت رکھتا ہے۔ تاہم صورتِ حال کا ایک پہلو ایسا ہے جو نہ صرف تشویش ناک ہے بلکہ اس پورے منصوبے کی افادیت پر ایک بڑا سوال بھی اٹھاتا ہے وہ یہ کہ اسٹریٹ کرائم میں ملوث عناصر، ٹارگٹ کلرز اور گٹر کے ڈھکن چوری کرنے والے گروہ اس پورے نظام کی آنکھوں سے اوجھل دکھائی دیتے ہیں، گویا اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی بھی ان مجرموں کے آگے بے بس ہو چکی ہو۔

سیف سٹی منصوبہ بنیادی طور پر ایک مربوط نگرانی اور کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام ہے، جس میں چہرہ شناخت (Facial Recognition) اور نمبر پلیٹ شناخت (ANPR) ٹیکنالوجی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ شہر کے مختلف مقامات پر نصب کیمروں کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ ٹریفک خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ عناصر کی حرکات پر بھی مسلسل نظر رکھی جائے۔ ٹریفک چالان کے لیے نصب کیمروں کا کام نسبتاً سیدھا ہے۔ جب کوئی گاڑی خلاف ورزی کرتی ہے تو کیمرے اس کی تصویر یا ویڈیو بناتے ہیں، اور نظام خودکار طریقے سے گاڑی کے مالک کا ڈیٹا نکال کر اس کے خلاف چالان جاری کر دیتا ہے۔ یہ تمام عمل مکمل شفافیت کے ساتھ ہوتا ہے اور شہریوں کو ویڈیو یا تصویری ثبوت بھی فراہم کیا جاتا ہے، تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔

لیکن جب بات آتی ہے جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری کی، تو یہی ٹیکنالوجی کہیں پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ Facial Recognition کیمروں کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ مطلوب اور اشتہاری ملزمان کو شناخت کرکے فوری الرٹ جاری کریں، مگر اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کا عفریت بدستور بے قابو ہے۔ رواں برس شہر میں تقریباً 59 ہزار اسٹریٹ کرائم کے واقعات رپورٹ ہوئے یوں کہا جائے کہ یہ صرف رپورٹ شدہ واقعات ہیں، تو حقیقت شاید اس سے کہیں زیادہ ہولناک ہو۔ شہریوں سے 15 ہزار سے زائد موبائل فون چھینے گئے، 6 ہزار سے زائد گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چھینی گئیں، جبکہ تقریباً 37 ہزار کے قریب وہ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بھی چوری ہوئیں جن کا سراغ آج تک نہیں ملا۔ یہ صورتحال اس حقیقت کو اُجاگر کرتی ہے کہ جرائم پیشہ نیٹ ورک نہ صرف فعال ہیں بلکہ نگرانی کے نظام سے بھی باخبر ہیں، اور بآسانی اس کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔ صورت حال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب ٹریفک خلاف ورزیوں کی بات آتی ہے تو یہ نظام روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں شہریوں کو چالان بھیجنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اسی شہر میں روزانہ اوسطاً 46 سے زائد موبائل فون چھینے جاتے ہیں، 5 سے زائد فور وہیلر گاڑیاں چھینی یا چوری ہوتی ہیں، اور 123 سے زائد موٹر سائیکلیں جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں غائب ہو جاتی ہیں لیکن ان میں سے بمشکل چند ہی وارداتوں میں ٹیکنالوجی کوئی قابل ِ ذکر کردار ادا کرتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ٹیکنالوجی ناکارہ ہے، بلکہ یہ ہے کہ اس کے استعمال کا دائرہ کار صرف ٹریفک نظم و ضبط تک محدود کیوں کر دیا گیا ہے؟

حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ٹارگٹ کلرز جیسی سنگین وارداتوں میں ملوث افراد بھی اب تک اس نظام کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ حالانکہ شہر میں چند مواقع پر Facial Recognition کی مدد سے مطلوب افراد کو پکڑا بھی گیا ہے، جیسا کہ کچھ عرصہ قبل سائوتھ پولیس نے ایک ملزم کو چہرہ شناخت ٹیکنالوجی کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا۔ یہ مثال ثابت کرتی ہے کہ نظام فعال ہے، مگر اس کا اطلاق جامع نہیں۔ اگر یہ ٹیکنالوجی چند مخصوص مقامات یا مخصوص کیٹیگریز تک محدود رہے گی تو جرائم پیشہ عناصر کبھی بھی اس کے دائرے میں نہیں آئیں گے۔

صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو جاتی ہے جب ہم ان جرائم پر نظر ڈالتے ہیں جن کے نتیجے میں براہِ راست انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ شہر میں گٹر کے ڈھکن چوری ہونے کے واقعات محض مالی نقصان نہیں بلکہ جان لیوا حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ کئی معصوم بچے اور شہری ان کھلے مین ہولز کی نذر ہو چکے ہیں، لیکن اب تک ایسا کوئی واضح ثبوت سامنے نہیں آیا کہ سیف سٹی کیمرے ان جرائم میں ملوث افراد کی نشاندہی میں کوئی کردار ادا کر سکے ہوں۔ ایک طرف ٹیکنالوجی اپنی پوری طاقت کے ساتھ ٹریفک جرمانوں کے اجرا میں سرگرم دکھائی دیتی ہے، دوسری طرف انسانی جانوں سے جڑے جرائم کے حوالے سے اس کی خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس ساری صورتحال میں سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ جب متعلقہ حکام سے سوال پوچھا جاتا ہے تو جواب میں خاموشی ملتی ہے۔ کراچی ٹریفک پولیس کے ڈی ایس پی کاشف ندیم سے ای چالان کے مکمل اعداد وشمار کے حصول کی کوشش کوئی نتیجہ نہ دے سکی، جبکہ ڈی جی سیف سٹی آصف اعجاز شیخ سے بھی جرائم کے انسداد میں اس نظام کی کارکردگی کے بارے میں موقف طلب کیا گیا، مگر وہاں سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ یہ خاموشی خود اپنے اندر کئی سوال چھپائے ہوئے ہے۔ اگر نظام کامیابی سے جرائم کو روک رہا ہے یا کم از کم ان کے سراغ میں مدد کر رہا ہے تو اس کے اعداد و شمار عوام کے سامنے لانا کسی پریشانی کا سبب کیوں ہو؟

چالان اور جرائم کے درمیان یہ واضح تضاد کراچی کے شہریوں کو اسی بڑے سوال کی طرف لے جاتا ہے: کیا سیف سٹی نظام حقیقی معنوں میں شہریوں کی حفاظت کے لیے فعال ہے، یا اس کا اصل وزن ٹریفک خلاف ورزیوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے؟ ٹیکنالوجی کے ذریعے محض جرمانوں کی وصولی کو کامیابی سمجھ لینا ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ اگر اسی نظام کو جرائم کے خلاف منظم اور مربوط حکمت ِ عملی کے ساتھ استعمال کیا جائے تو کراچی جیسے شہر میں اسٹریٹ کرائم اور ٹارگٹ کلنگ کی فضا میں بڑی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیف سٹی منصوبے کو محض ٹریفک مینجمنٹ تک محدود نہ رکھا جائے۔ اس کے تحت موجود کیمروں اور ٹیکنالوجی کو جرائم پیشہ عناصر کی شناخت، تعاقب اور گرفتاری کے لیے پوری قوت کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ جب تک یہ نظام حقیقی معنوں میں شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے فعال نہیں ہوتا، ای چالان کی برق رفتار کامیابی، جرائم کے مقابلے میں ایک اطمینان بخش حقیقت نہیں بلکہ ایک خاموش تضاد ثابت ہوتی رہے گی۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • متحدہ عرب امارات، جنسی جرائم اور جسم فروشی کی سزاؤں میں بڑی تبدیلیاں
  • آئی ایم ایف کے مطالبے پر سرکاری ملازمین کے اثاثے پبلک کرنے سے متعلق قانون سازی کرچکے: وزیر خزانہ
  • عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے اقدامات کررہے ہیں
  • فیض حمید کو ان کے جرائم کی اصل سزا نہیں ملی: ایمل ولی خان
  • فیض حمید کو ان کے جرائم کی حقیقی سزا نہیں ملی، صدر اے این پی
  • فیض حمید کو اس کے جرائم کی حقیقی سزا ابھی نہیں ملی، ایمل ولی خان
  • الیکشن کمیشن نے بلوچستان حکومت کی درخواست مسترد کرکے عوام کے حق کا احترام کیا، نیشنل پارٹی
  • لاہور میں رواں سال جرائم میں کمی آئی: رپورٹ
  • جرائم کی گلیوں میں سیف سٹی کی خاموشی: ایک تحقیقی جائزہ
  • ہر فرد کی عزت، مساوات اور انصاف کا تحفظ ریاست کی بنیادی ترجیح : صدر