Express News:
2025-04-22@06:14:23 GMT

رمضان؛ عبادات یا اعمال کی تبدیلی؟

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

آج صبح جب میں فجر کی نماز کے لیے مسجد پہنچا تو حیرت میں ڈوب گیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہو۔ مسجد، جو عام دنوں میں آدھی بھری بھی نظر نہیں آتی تھی، آج مکمل طور پر نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔

پہلی صفوں میں جگہ پانے کے لیے لوگ جلدی پہنچے ہوئے تھے، اور قرآن کی تلاوت کی گونج ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے سب کے دل کسی روشنی کی طرف کھنچے چلے آ رہے ہوں، جیسے گناہوں کا بوجھ اتارنے کی کوشش ہو رہی ہو۔

گھر سے جب آفس جانے کے لیے نکلا تو باہر کا منظر بھی بدلا ہوا تھا۔ سڑکوں پر وہ معمول کی بے ترتیبی اور شور شرابہ نہیں تھا، بلکہ ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔

دکانیں، جو عام دنوں میں صبح سویرے کھل جایا کرتی تھیں، حیرت انگیز طور پر بند تھیں۔ پان، گٹکا اور سگریٹ کے عادی لوگ، جو ہر جگہ کسی نہ کسی بہانے اپنی عادت پوری کرتے نظر آتے تھے، آج ضبط کیے ہوئے تھے۔

نہ کوئی سگریٹ کے کش لگا رہا تھا، نہ کوئی چائے کے ہوٹل پر بیٹھا وقت ضائع کر رہا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیا شہر میں کوئی نیا قانون نافذ ہو گیا ہے؟ کیا لوگوں کو کسی نئی تبدیلی کا احساس ہو چکا ہے؟ ہر طرف سکون تھا، ہر چہرے پر عجب سی سنجیدگی اور وقار تھا۔ یہ سب میرے لیے ناقابلِ یقین تھا۔

پھر اچانک مجھے احساس ہوا— آج رمضان کا پہلا روزہ تھا! وہ مہینہ جس کا آنا ہی لوگوں کو بدل دیتا ہے۔ وہ برکتوں بھرا مہینہ جو نہ صرف عبادات بلکہ انسان کے پورے وجود کو ایک نئی طہارت، نئی روشنی اور نئی امید عطا کرتا ہے۔ شام کو جب بازار کا رخ کیا تو منظر بالکل الٹ تھا۔

جو لوگ کچھ دیر پہلے نماز میں آنکھوں میں آنسو لیے گناہوں سے توبہ کر رہے تھے، وہی لوگ اب پھلوں کے دام بڑھا رہے تھے، گاہکوں سے جھوٹ بول رہے تھے، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم کر رہے تھے۔ ایک طرف افطار کے لیے کھجوریں ہاتھ میں لیے ذکر اذکار میں مصروف لوگ، اور دوسری طرف وہی کھجوریں تین گنا مہنگی بیچنے والے تاجر۔ رکشے والے، جو روزے کی حالت میں بھی پورے دن کا کرایہ ایک گھنٹے میں وصول کرنے کی کوشش میں تھے۔

مال کا ذخیرہ کرنے والے وہ سرمایہ دار جو سستی اشیاء روک کر مہنگے داموں فروخت کرنے کی تیاری میں تھے۔ میں سوچ میں پڑ گیا— یہ کیسا تضاد ہے؟ رمضان صرف عبادات کا مہینہ بن چکا ہے، اعمال درست کرنے کا نہیں۔

ہمارے معاشرے میں دین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے: 1.

عبادات (نماز، روزہ، ذکر اذکار، حج و عمرہ) 2. اعمال (ایمانداری، انصاف، سچائی، دیانت داری، دوسروں کے حقوق کی پاسداری) ہم نے دین کو اس حد تک محدود کر دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی عبادات پر نظر رکھتے ہیں اور انہی کے بارے میں مشورے اور فتوے دیتے رہتے ہیں،"جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے اعمال پر نظر رکھیں اور انہی اعمال کی بنیاد پر کسی شخص کے ایمان اور دینداری کا جائزہ لیں۔" عبادات اور اعمال کا تعلق ہم نے عبادات اور اعمال کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے، حالانکہ اسلام میں "اعمال" صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ پورے طرزِ زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔

اعمال وہ تمام کام ہیں جو انسان کی نیت، رویے اور کردار کو ظاہر کرتے ہیں، چاہے وہ کسی کے ساتھ اچھا سلوک ہو، ایمانداری ہو، انصاف ہو یا کسی کے ساتھ دھوکہ دہی، ظلم اور بددیانتی۔ ہمارے ہاں "اچھے اخلاق" کا مطلب صرف نرم لہجے میں بات کرنا سمجھا جاتا ہے، جبکہ حقیقی اخلاق کا تقاضا ہے کہ انسان سچ بولے، وعدہ پورا کرے، کسی کا حق نہ مارے، ملاوٹ نہ کرے، رشوت سے بچے، اور لوگوں کے ساتھ انصاف کرے۔ محض مسکرا کر بات کر لینا اور میٹھے الفاظ بولنا اچھے اخلاق کا مکمل معیار نہیں ہو سکتا، اگر انسان کے معاملات میں بددیانتی، جھوٹ اور خیانت شامل ہو۔ اسلام میں اعمال اور اخلاق کو الگ نہیں رکھا گیا، بلکہ عبادات کا مقصد ہی انسان کو نیک اعمال اور بہتر اخلاق کی طرف لے جانا ہے۔

اگر کوئی شخص پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، مگر اس کے معاملات میں خیانت، دھوکہ دہی، ظلم، اور جھوٹ شامل ہو تو اس کی عبادت کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ یہ تضاد صرف رمضان تک محدود نہیں، بلکہ ہماری ساری زندگی میں سرایت کر چکا ہے۔ عام دنوں میں بھی ہماری مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ بے ایمانی، جھوٹ، دھوکہ دہی، رشوت، چوری، بددیانتی اور ظلم و زیادتی بھی عروج پر ہوتی ہے۔

یہ وہ تضاد ہے جسے ہمیں ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہمارا دین صرف نماز، روزے اور ظاہری عبادات تک محدود ہے؟ یا پھر ہمارے اعمال بھی اس کے مطابق ہیں؟ کیا ہم صرف رمضان میں نیک بننے کے عادی ہو چکے ہیں؟ یا ہم سال کے باقی دنوں میں بھی دین کے اصولوں پر چلتے ہیں؟ کیا ہم اس رمضان صرف عبادات کریں گے یا اپنے معاملات بھی درست کریں گے؟

آئیے، اس رمضان کو حقیقی اصلاح کا ذریعہ بنائیں، نہ کہ محض ایک وقتی تبدیلی! اللّٰہ ہماری عبادات کو قبول فرمائے، ہمارے روزے اور نمازوں کو ہمارے اعمال کے ساتھ جوڑنے کی توفیق دے، ہمیں اچھے اخلاق اپنانے کی ہمت دے، اور ہمیں اس تضاد سے نکلنے کا شعور عطا فرمائے۔ 

تحریر عبد الباسط خان 

صاحب تحریر کراچی کے رہائشی ہیں۔ پڑھنا، لکھنا اور سیاحت کا شوق رکھتے ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے بارے میں ان کی ایک کتاب ’’چاند ہتھیلی پر‘‘ شائع ہوچکی ہے۔ موسیقی، فلموں اور شاعری کا  شوق رکھتے ہیں۔
 

 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صرف عبادات تک محدود رہا تھا رہے تھے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان

جب دنیا کی سپر پاورز خاموشی کی دبیز چادر اوڑھے غزہ کی مٹی پر بکھرے معصوم بچوں کے جسموں سے نظریں چرا رہی ہوں، جب عالمِ اسلام کے حکمران بے حسی کی چپ میں اپنی کرسیوں کو مضبوطی سے تھامے بیٹھے ہوں ، ایسے میں ایک بوڑھا پادری جس کے جسم پر بیماریوں کے نشان ہیں، جسے بار بار اسپتال لے جایا جاتا ہے، وہ اپنی تھرتھراتی آواز میں انسانیت کا مقدمہ لڑتا ہے، وہ پوپ فرانسس ہے۔ ویٹیکن کے عالی شان محل میں رہنے والا لیکن دل سے فقیروں کا ساتھی، زبان سے مظلوموں کی آواز اور عمل سے ایک نئی روایت کا آغازکرنے والا۔

اس نے کہا کہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، وہ جنگ نہیں قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ الفاظ کسی جلے ہوئے کیمپ میں پناہ گزین کسی فلسطینی کے نہیں تھے، نہ ہی یہ کسی انقلابی شاعر کے قلم سے نکلے مصرعے تھے۔ یہ ایک ایسے مذہبی ادارے کے سربراہ کے الفاظ تھے جو صدیوں سے طاقتوروں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ یہ ویٹیکن کے اندر سے آنے والی وہ صدا تھی جو صدیوں کے جمود کو توڑ رہی تھی۔

پوپ فرانسس کا اصل نام خورخے ماریو بیرگولیو ہے۔ وہ ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں پیدا ہوا۔ کیتھولک چرچ کے روایتی مزاج سے ہٹ کر وہ پوپ بننے کے بعد پہلی بار چرچ کی فضاؤں میں ایک ایسی روشنی لے کر آیا جس نے اسٹیبلشمنٹ کے اندھیروں میں لرزش پیدا کر دی۔ اُس نے ویٹیکن کی دولت جاہ و جلال اور طاقت کی دنیا کو خیر باد کہہ کر عام انسانوں کے درمیان بیٹھنا پسند کیا۔ اس نے چرچ کے نچلے طبقوں، پسے ہوئے لوگوں اور باہر دھکیلے گئے انسانوں کی آواز بننے کو اپنا منصب سمجھا۔

وہ ایک ایسی دنیا کا داعی ہے جہاں عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ اس نے ہم جنس پرست افراد کے لیے نرم الفاظ استعمال کیے، اس نے موسمیاتی بحران کو ایک مذہبی اور اخلاقی مسئلہ قرار دیا، وہ مہاجرین کے ساتھ بیٹھا، ان کے پاؤں دھوئے ان کے بچوں کو گود میں لیا اور کہا کہ مذہب صرف عبادت نہیں یہ عمل ہے، یہ انصاف ہے۔ اس نے دنیا کو بتایا کہ گرجا ہو یا مسجد جب تک وہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائیں، وہ خاموشی کے مجرم ہیں۔

جب وہ پوپ منتخب ہوا تو اس نے اپنا لقب’’ فرانسس‘‘ رکھا جو سینٹ فرانسس آف اسّیسی کی یاد میں تھا، وہ درویش پادری جو فقیری میں جیتا تھا، پرندوں سے بات کرتا تھا اور جنگ کے خلاف کھل کر بولتا تھا۔ پوپ فرانسس نے اسی روایت کو اپنایا۔ اس نے ویٹیکن کے محلات میں رہنے سے انکار کیا، ایک چھوٹے سے کمرے میں قیام کیا، عام گاڑی استعمال کی اور قیمتی جوتوں، گھڑیوں اور زیورات سے گریزکیا۔ اس نے نہ صرف کہا بلکہ عمل سے دکھایا کہ مذہب کی اصل طاقت اخلاقی سچائی میں ہے نہ کہ شان و شوکت میں۔

پھر جب فلسطین کی زمین پر بمباری ہوئی، جب اسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دب گئے تو پوپ فرانسس نے اپنے سادہ سے دفتر سے وہ بات کہی جو بڑے بڑے صدر نہ کہہ سکے۔ اس نے کہا ’’ یہ جنگ نہیں، یہ قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کی توہین ہے۔‘‘

جب مغربی میڈیا اسرائیل کے بیانیے کو آگے بڑھا رہا تھا جب یورپی حکومتیں دفاعِ اسرائیل کو اپنا حق سمجھ رہی تھیں،جب عالمی ادارے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے، تب اس نے انسانیت کی طرفداری کا علم اٹھایا۔وہ چاہتا تو خاموش رہ سکتا تھا۔

وہ کہہ سکتا تھا کہ یہ ایک پیچیدہ تنازع ہے کہ ہم فریق نہیں بن سکتے کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے، لیکن اس نے غیرجانبداری کو منافقت قرار دیا۔ اس نے کہا کہ ظلم کے وقت خاموش رہنا ظالم کا ساتھ دینا ہے۔ یہ وہ تعلیم ہے جو ہر مذہب دیتا ہے لیکن کم ہی لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔

ہم مسلم دنیا میں اکثر خود کو مظلوموں کا وکیل سمجھتے ہیں لیکن جب وقت آتا ہے تو ہماری زبانیں سوکھ جاتی ہیں۔ ہم اپنے تجارتی معاہدے اپنے خارجہ تعلقات اور اپنی کرسیوں کو مظلوموں کے خون پر ترجیح دیتے ہیں۔ پوپ فرانسس ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ مذہب کا اصل جوہر کیا ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم ظالم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے تو ہمارا ایمان محض رسم ہے روح نہیں۔

پوپ فرانسس کی اپنی صحت بھی ان دنوں کمزور ہے۔ اسے کئی بار سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوا ،اسپتال میں داخل کیا گیا، آپریشن ہوئے لیکن جیسے ہی وہ اسپتال سے باہر نکلا ،اس نے دنیا کے زخموں کو اپنی صحت پر ترجیح دی۔ وہ پھر سے کیمروں کے سامنے آیا اور کہا کہ ہمیں غزہ کے بچوں کے لیے دنیا کے مظلوموں کے لیے اور انسانیت کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔

انھیں زندہ رہنا چاہیے کیونکہ ان جیسے مذہبی رہنما کی دنیا کو ضرورت ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایک مذہبی رہنما ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ضمیر کی آواز ہے۔ ایسی آوازیں اب کم رہ گئی ہیں۔ ایسی آوازیں جو نہ رنگ دیکھتی ہیں نہ قوم نہ مذہب نہ سرحد۔ جو صرف انسان دیکھتی ہیں اور جو ہر انسان کے لیے انصاف مانگتی ہیں۔

اس دنیا میں جہاں ہر دوسرا مذہبی پیشوا سیاست دانوں کا ترجمان بنا ہوا ہے، جہاں روحانیت طاقت کی غلامی بن چکی ہے، وہاں پوپ فرانسس ایک مختلف روایت کا پرچم بردار ہے۔ وہ جس سوچ کا حامی ہے، اس میں وہ تنہا نہیں ہے مگر وہ سوچ بہت سوں کی نہیں ہے۔

وہ جو ویٹیکن کی دیواروں سے نکل کر مہاجر کیمپوں میں جاتا ہے، وہ جو عبادت گاہوں سے نکل کر میدانِ سچ میں آتا ہے، وہ جو خاموشی کو توڑتا ہے۔اس کی زندگی اس کی زبان اس کا طرزِ قیادت ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت اب بھی زندہ ہے اگر ہم اسے سننا چاہیں اگر ہم اسے اپنانا چاہیں۔ہم سب کے لیے اور خاص طور پر ہمارے مذہبی رہنماؤں کے لیے پوپ فرانسس کی زندگی ایک سبق ہے۔ وہ سبق جو ہمیں مذہب کی اصل روح سے جوڑتا ہے اور بتاتا ہے کہ اگر دل زندہ ہو تو ضمیر بولتا ہے اور جب ضمیر بولتا ہے تو دنیا کی خاموشی ٹوٹتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ماحولیاتی تبدیلی: پنجاب حکومت کا موٹرسائیکل سے متعلق اہم فیصلہ سامنے آگیا
  • بجلی
  • وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی کل گلگت بلتستان کا دورہ کرینگے
  • ڈیرہ اسماعیل خان، علامہ رمضان توقیر کا تحصیل پہاڑ پور کا دورہ
  • لاہور سمیت پاکستان بھر میں مسیحی برادری ایسٹر کا تہوار منا رہی ہے، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں
  • لیسکو چیف رمضان بٹ کا دورہ ’’نوائے وقت دفتر‘‘ ایم ڈی رمیزہ نظامی سے ملاقات 
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • بائیوڈی گریڈ ایبل پلاسٹک کی طرف تبدیلی ‘ فضلے کے مسئلے سے نمٹنے اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے.ویلتھ پاک
  • ایف آئی آر کی کہانی
  • جنس تبدیلی؛ اب کرکٹ میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں، والد کے الفاظ تھے