امریکہ کی عسکری موجودگی عراق کیلئے خطرہ ہے، عراقی تجزیہ کار
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں جمعہ العطوانی کا کہنا تھا کہ امریکی-مغربی-عربی حمایت کے تحت شام کی تقسیم نسل اور فرقے کی بنیاد پر ہو گی۔ تقسیم کے اسی نمونے کو دُہراتے ہوئے عراق کے 3 حصے کئے جائیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ عرب تجزیہ کار "جمعہ العطوانی" نے مشرق وسطیٰ کے خلاف صیہونی وزیراعظم "نتین یاہو" کے خطرناک عزائم کے تناظر میں عراق میں امریکہ کی عسکری موجودگی کے خطرات کے بارے میں خبردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ نتین یاہو اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر کا پیش کردہ منصوبہ خطے کے ممالک کی تقسیم پر مبنی ہے۔ یہ منصوبہ غزہ اور جنوبی لبنان کی تباہی سے شروع ہوا جو اب شام تک پھیل چکا ہے اور اس کا اگلا ہدف عراق ہے۔ جمعہ العطوانی نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی-مغربی-عربی حمایت کے تحت شام کی تقسیم نسل اور فرقے کی بنیاد پر ہو گی۔ تقسیم کے اسی نمونے کو دُہراتے ہوئے عراق کے 3 حصے کئے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئے مشرق وسطی کی تشکیل کے منصوبے کے ہوتے ہوئے عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی اس ملک کے وجود کے لیے ایک خطرہ ہے۔
جمعہ العطوانی نے کہا کہ عراقی حکومت ستمبر کے اوائل میں امریکی فوجیوں کی ملک سے موجودگی کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ عراقی اس منصوبے کے عملی ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ عراقی پارلیمنٹ نے 3 جنوری 2020ء کو امریکی فوجیوں کے ہاتھوں شہیدان قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المهندس کے قتل کے بعد ایک خصوصی اجلاس بلایا، جس میں اکثریتی ووٹ کے ساتھ امریکی فوجیوں کی عراق سے انخلاء کی قرارداد منظور کی۔ عراقی حکومت نے اس قرارداد کے تناظر میں امریکیوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا تا کہ انہیں اس ملک سے نکالا جا سکے، لیکن واشنگٹن مختلف بہانوں سے عراق میں اپنی فوجی موجودگی جاری رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جمعہ العطوانی امریکی فوجیوں
پڑھیں:
امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) امریکی نائب صدر جے ڈی وینس آج پیر کی صبح نئی دہلی پہنچے جن کی شام کے وقت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات متوقع ہے۔ اس ملاقات میں دیگر اہم امور کے ساتھ ہی دو طرفہ تجارتی معاہدے پر بات چیت توجہ مرکوز رہنے کا امکان ہے۔
امریکی نائب صدر وینس اپنی اہلیہ کے ساتھ بھارت آئے ہیں، جو بھارتی نژاد ہیں اور ان کا تعلق ریاست آندھرا پردیش سے ہے۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں اس دورے کو اہم سمجھا جا رہا ہے، یاد رہے کہ یہ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کے درمیان ہو رہا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ دورہ "فریقین کو دو طرفہ تعلقات میں پیش رفت کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرے گا" اور ملاقات کے دوران دونوں رہنما "باہمی دلچسپی کی علاقائی اور عالمی امور کی پیش رفت پر خیالات کا تبادلہ کریں گے۔
(جاری ہے)
"امریکی ادارے کا بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' پر پابندی کا مطالبہ
وزیر اعظم مودی کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں فروری میں مودی کے دورہ امریکہ کے دوران طے پانے والے دو طرفہ ایجنڈے کی پیش رفت پر توجہ مرکوز کرنے کا امکان ہے۔ اس ایجنڈے میں دو طرفہ تجارت میں "انصاف پسندی" اور دفاعی شراکت داری میں توسیع جیسے امور شامل ہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے، "ہم بہت مثبت ہیں کہ یہ دورہ ہمارے دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دے گا۔"
بھارت کے لیے اہم کیا ہے؟امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ امریکی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس دونوں ممالک کی باہمی تجارت 129 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی، جس میں بھارت کے حق میں 45.7 بلین ڈالر کا سرپلس ہے۔
مودی ان پہلے عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں، جنہوں نے دوسری بار اقتدار سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ بھارتی حکومت نے امریکہ سے برآمد کی جانے نصف سے زیادہ اشیا پر ٹیرف میں کمی کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔
ٹرمپ کا بڑے پیمانے پر عالمی ٹیرف کا اعلان، پاکستان بھی متاثر
مودی اور ٹرمپ کے درمیان اچھے تعلقات کا ذکر عام بات ہے، البتہ امریکی صدر نے بھارت کو "ٹیرف کا غلط استعمال کرنے والا" اور "ٹیرف کنگ" تک کہا ہے۔
ٹرمپ نے بھارتی درآمدات پر 26 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا ہے، جس پر فی الوقت 90 دنوں تک کے لیے روک لگی ہوئی ہے اور اس سے بھارتی برآمد کنندگان کو عارضی راحت بھی ملی ہے۔
امریکی نائب صدر وینس اس ماہ بھارت کا دورہ کریں گے
وینس کے دورہ بھارت کے ساتھ سے نئی دہلی کو اس بات کی امید ہے کہ 90 دن کے وقفے کے اندر ہی ایک تجارتی معاہدہ ہو جائے گا۔
بھارت رواں برس کواڈ سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والا ہے اور وینس کے دورے کو اس طرح بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اس سے بھارت میں ٹرمپ کی میزبانی کا راستہ بھی ہموار ہو سکتا ہے۔ کواڈ میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔
ادارت رابعہ بگٹی