چوہدری شافع حسین نے کہا کہ ایران سولر پینلز مینوفیکچرنگ میں مہارت رکھتا ہے، پنجاب حکومت اور ایران کے مابین سولر پینلز مینوفیکچرنگ میں اشتراک ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ کی متعدد کمپنیوں نے پنجاب میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور ترکیہ کی مزید سرمایہ کار کمپنیوں کی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ صوبائی وزیر صنعت و تجارت چوہدری شافع حسین اور صوبائی وزیر زراعت و لائیو سٹاک سید عاشق حسین کرمانی نے ایرانی قونصلیٹ کا دورہ کیا۔ جہاں ایرانی قونصل جنرل مہران مواحد فر سے ملاقات کی۔ قونصل جنرل ترکیہ ڈرمس باستک بھی ملاقات میں موجود تھے۔ ملاقات میں زراعت، لائیو سٹاک، انڈسٹری، صحت، سولر پینلز مینو فیکچرنگ اور دیگر شعبوں میں تعاون کے فروغ پر بات چیت ہوئی۔ صوبائی وزیر صنعت و تجارت چوہدری شافع حسین نے کہا کہ ایران حکومت کی دعوت پر پنجاب سے بڑا تجارتی وفد جلد ایران کا دورہ کرے گا۔ وقت آگیا ہے کہ پنجاب اور ایران کے مابین تجارتی تعاون بڑھانے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ تہران میں پنجاب کے بچوں کی ہارٹ سرجری کے حوالے سے ایران کی پیشکش کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے گا۔ ایران حکومت اور پیمپکو کے مابین تنازعہ ختم کرا دیا ہے۔ ایرانی قونصل جنرل کیساتھ ہونیوالی ملاقاتوں کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے مکمل فالو اپ کیا جائے گا۔

چوہدری شافع حسین نے کہا کہ ایران سولر پینلز مینوفیکچرنگ میں مہارت رکھتا ہے، پنجاب حکومت اور ایران کے مابین سولر پینلز مینوفیکچرنگ میں اشتراک ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ کی متعدد کمپنیوں نے پنجاب میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور ترکیہ کی مزید سرمایہ کار کمپنیوں کی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کریں گے۔ چوہدری شافع حسین نے کہا کہ اگلے ماہ بابا گرو نانک کبڈی کپ کرایا جائے گا، تین ملکی کبڈی ٹورنامنٹ میں پاکستان،ایران اور بھارت کی ٹیمیں شرکت کریں گی۔ صوبائی وزیر زراعت سید عاشق حسین کرمانی نے کہا کہ پاکستان اور ایران برادر ہمسایہ ملک ہیں، تجارتی وفود کے تبادلوں سے دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات بڑھائے جاسکتے ہیں۔ صوبائی وزیر زراعت نے کہا کہ دو طرفہ تجارتی تعاون بڑھانے کیلئے ایسی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔

ایرانی قونصل جنرل مہران مواحد فر نے کہاکہ پنجاب پاکستان کا بڑا صوبہ ہے اور اس کے ساتھ اشتراک بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ملاقاتوں کا یہ سلسلہ ایران اور پاکستان کے مابین تجارتی تعاون بڑھانے میں معاون ثابت ہوگا۔ مہران مواحد فرنے کہاکہ پنجاب سے بچوں کی تہران میں ہارٹ سرجری کی پیشکش پر قائم ہیں اور اس مقصد کیلئے دونوں جانب کی وزارتی سطح پر بات چیت ہونی چاہیے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایرانی قونصل جنرل سرمایہ کاری اور ایران ترکیہ کی کے مابین

پڑھیں:

ایران میں اقتصادی بحران سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) ایرانی ریال ایک سال کے اندر اندر اپنی نصدف سے زیادہ قدر کھو چکا ہے۔ مارچ 2024 میں ایک امریکی ڈالر چھ لاکھ ایرانی ریال کے برابر تھا۔ لیکن گزشتہ ماہ یہ شرح تبادلہ ایک ملین ریال فی ڈالر سے بھی زیادہ ہو گئی۔ ایرانی کرنسی کی قدر میں اتنی زیادہ کمی نے ملک میں مہنگائی کو مزید ہوا دی اور درآمدی اشیاء کا حصول اور بھی مشکل ہو گیا۔

یہ شدید مہنگائی ایران میں کم آمدنی والے شہریوں اور متوسط طبقے پر بہت زیادہ اضافی بوجھ کی وجہ بنی ہے۔

وسطی جرمنی کے شہر ماربرگ کی یونیورسٹی کے مشرق قریب اور مشرق وسطیٰ کے علوم کے مرکز سے منسلک ماہر اقتصادیات محمد رضا فرزانگان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا، ''معاشی بے یقینی کی صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ اخراجات زندگی کے بارے میں خدشات زیادہ سامنے آ رہے ہیں اور سماجی سطح پر سیاسی اشتراک عمل کم ہوتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

اقتصادی حوالے سے لیکن یہ بات مشکوک ہے کہ بین الاقوامی سیاسی دباؤ کے ذریعے جن مقاصد کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں مڈل کلاس کو کمزور کر کے حاصل یا آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘

ایران: کرنسی اصلاحات سے مہنگائی روکنے کی کوشش کیا ہے؟

محمد رضا فرزانگان نے حال ہی میں ایک نئی تحقیق بھی مکمل کی، جس کے لیے انہوں نے امریکہ میں برینڈیز یونیورسٹی کے ایک ماہر تعلیم نادر حبیبی کے ساتھ مل کر کام کیا۔

انہوں نے ڈی ڈؓبلیو کو بتایا کہ یہ نئی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ایران کے خلاف 2012 سے عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں نے وہاں مڈل کلاس کی ترقی کی راہ میں بہت زیادہ رکاوٹیں ڈالی ہیں۔ تہران کے خلاف یہ پابندیاں ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کی وجہ سے لگائی گئی تھیں۔ ان کے ذریعے ایران پر اقتصادی اور سیاسی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی گئی اور ایران کو ان پابندیوں کا سامنا آج بھی ہے۔

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگر ایران پر یہ بیرونی پابندیاں نہ لگائی جاتیں، تو اس ملک کی آبادی میں متوسط طبقے کا حجم ہر سال اوسطاﹰ گیارہ فیصد کی شرح سے بڑھتا رہتا۔

پابندیوں سے فائدہ ریاست سے جڑے اداروں کو

فرزانگان کا کہنا ہے کہ ایران میں متوسط طبقے کے سکڑتے جانے سے ریاست سے وابستہ اداروں پر معاشی انحصار بہت بڑھ چکا ہے۔

ایران کی کئی نجی کمپنیوں کو بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسے میں ریاست سے وابستہ ادارے، خاص طور پر وہ جو پاسداران انقلاب سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیشہ فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
ایسے پیداواری اور تجارتی اداروں نے اپنے لیے متبادل تجارتی نیٹ ورکس کو وسعت دینے کے طریقے تلاش کر لیے ہیں اور مارکیٹ میں اپنی پوزیشن بھی مضبوط بنا لی ہے۔

اس طرح ان پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی نجی شعبے کے مقابلے میں ریاست کی اقتصادی طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

ایرانی تیل کی اسمگلنگ پاکستانی معیشت کے لیے کتنی مضر ہے؟

امریکہ کی الینوئے یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات ہادی صالحی اصفہانی کے مطابق ایرانی خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ دباؤ میں ہیں۔ ان کے لیے معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنا، خاص کر ملازمتوں کی تلاش اور روزی کمانا اب بہت مشکل مرحلہ بنتا جا رہا ہے۔


ایرانی لیبر مارکیٹ کے بارے میں محمد رضا فرزانگان کی تازہ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ کم اقتصادی ترقی اور کساد بازاری کے ساتھ ساتھ کئی ثقافتی عوامل اور روایتی رول ماڈل بھی ایرانی خواتین کے لیے ملازمتوں کے حصول کو مشکل بنا رہے ہیں۔ مثلاﹰ یہ روایتی سوچ بھی کہ کسی بھی خاندان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ مردوں کو ہی ہونا چاہیے۔ یہ سب عوامل مل کر خواتین کو ایرانی لیبر مارکیٹ سے باہر دھکیلتے جا رہے ہیں۔

فرزانگان کے مطابق آئندہ مہینوں میں صورتحال میں بہتری کے امکانات کم اور خرابی کے خدشات زیادہ ہیں۔ اس لیے بھی کہ امریکی صدر ٹرمپ تہران حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی بحالی کے لیے قومی سلامتی کے ایک ایسے صدارتی میمورنڈم پر دستخط کر چکے ہیں، جس کا مقصد ایرانی تیل کی برآمدات کو مزید کم کرنا ہے، جو ایرانی ریاست کے لیے آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔

ایران نے ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم 'برکس' میں شمولیت کی درخواست دی دے

تہران توانائی کے شعبے میں مالی اعانتوں میں کمی کی تیاری میں

ایرانی حکومت نے اس اضافی دباؤ کے باعث توانائی کے شعبے میں مالی اعانتوں میں کمی کے ذریعے ریاستی اخراجات کم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ایرانی بزنس رپورٹر مہتاب قلی زادہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس اقدام سے بھی اقتصادی صورتحال میں بہتری کا کوئی حقیقی امکان نہیں۔

قلی زادہ کے مطابق، ''21 مارچ کو شروع ہونے والے نئے فارسی سال کے بجٹ میں حکومت نے تیل کی برآمدات کا ہدف دو ملین بیرل روزانہ رکھا ہے۔ تاہم ٹرمپ کے دور صدارت میں ایسا ہونا تقریباﹰ ناممکن ہے۔‘‘

ایران امریکا کشیدگی: بھارت کو کونسے خطرات لاحق ہیں؟

مہتاب قلی زادہ نے کہا کہ ایرانی بجٹ میں خسارہ بڑھنے کے امکان اور سبسڈی میں کمی کے خاتمے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی ایک نئی بڑی لہر دیکھنے میں آئے۔

حالیہ برسوں میں ایرانی عوام میں ملکی سیاسی نظام کے خلاف عدم اطمینان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے وہاں 2019 اور 2022 میں بڑے پیمانے پر عوامی اجتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے، جنہیں سختی سے دبا دیا گیا تھا۔

ماہر اقتصادیات فرزانگان کے الفاظ میں، ''لازمی نہیں کہ عوامی عدم اطمینان میں اضافہ حکومت پر منظم سیاسی دباؤ کی وجہ بھی بنے۔

اس لیے کہ جو گھرانے معاشی طور پر کمزور ہو چکے ہیں، ان کے پاس تو سیاسی سطح پر متحرک ہونے کے لیے مالی وسال بہت ہی کم ہیں۔‘‘

امریکی پابندیوں کے باوجود ایران تیل بیچ رہا ہے، ایرانی نائب صدر

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ متوسط طبقے کو کمزور کر دینے والی بین الاقوامی پابندیاں حکومت پر خود بخود ہی مزید دباؤ کی وجہ نہیں بنیں گی۔ ''اس کے برعکس ایسی پابندیاں سیاسی طور پر سرگرم سماجی طبقات کی معاشی بنیادیں کمزور کرتی اور سیاسی نظام کی طاقت میں نسبتاﹰ اضافہ کر دیتی ہیں۔‘‘
شبنم فان ہائن (عصمت جبیں)

متعلقہ مضامین

  • صوبائی وزیر صحت کا ڈپٹی کمشنرکے ہمراہ چوہنگ اور گردونواح کے علاقوں میں پولیو ٹیموں کی کارکردگی کا جائزہ
  • عراقچی کی تقریر منسوخ کردی گئی: اقوام متحدہ میں ایران کے مشن کی وضاحت
  • غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، روسی قونصل جنرل
  • سعودی عرب کیساتھ تعلقات کا جدید دور شروع ہو چکا ہے، ایرانی سفیر
  • پاکستان‘ افریقی ممالک میں سرمایہ کاری و تجارتی خلاء دور کرنا ہو گا: شافع حسین
  • ایران امریکا مذاکرات
  • آرمی چیف نے اوورسیز پاکستانیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا؛ چودھری شجاعت حسین
  • پاکستان اور افریقی ممالک کے درمیان تجارتی حجم بڑھنا چاہیے: شافع حسین
  • ایران میں اقتصادی بحران سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ
  • چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کیلئے بلاسود قرضے دئیے جا رہے ہیں: شافع حسین