آسکر ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم کے شریک فلسطینی ہدایتکار پر یہودی آبادکاروں کا حملہ، گرفتار کرلیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
اسرائیلی فوج نے آسکر ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ’نو ادر لینڈ‘ کے فلسطین سے تعلق رکھنے والے شریک ہدایت کار حمدان بلال پر حملہ کر کے انہیں گرفتار کر لیا۔
حمدان بلال کے ساتھی شریک ہدایرکار یوول ابراہم نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’آباد کاروں کے ایک گروہ‘ نے بلال پر حملہ کیا، انہوں نے اسے مارا پیٹا، جس سے اس کے سر اور پیٹ میں چوٹیں آئی ہیں، خون بہہ رہاتھا، سپاہیوں نے اس ایمبولینس پر حملہ کیا جسے اس نے بلایا تھا، اور اسے لے گئے۔ اس کے بعد سے اس کا کچھ پتہ نہیں ہے۔
قبضے کے خلاف کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سینٹر فار جیوش نان وائلنس د کے مطابق یہ واقعہ مغربی کنارے کے جنوبی گاؤں سوسیا میں پیش آیا، خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جانب سے پوچھے جانے پر فوج کا کہنا تھا کہ وہ معلومات کی تصدیق کر رہی ہے۔
اسرائیل 1967 سے مغربی کنارے پر قابض ہے۔
اسرائیلی فلسطینی کارکنوں کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’نو ادر لینڈ‘ نے رواں سال کے اکیڈمی ایوارڈز میں بہترین دستاویزی فلم کا ایوارڈ جیتا۔
اس دستاویزی فلم کی عکس بندی قریبی مسفر یاٹا میں کی گئی ہے جس میں ایک نوجوان فلسطینی کو جبری نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑ تا ہے، جب اسرائیلی فوج فائرنگ زون کے لیے جگہ بنانے کے لیے اس کی برادری کے گھروں کو مسمار کرتی ہے۔
اسرائیلی فوج نے 1980 کی دہائی میں مسفر یاٹا کو ایک ممنوعہ فوجی زون قرار دیا تھا، اسرائیل کے زیر قبضہ مشرقی بیت المقدس کو چھوڑ کر مغربی کنارے میں تقریباً 30 لاکھ فلسطینی اور تقریباً 5 لاکھ اسرائیلی آباد ہیں جو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی بستیوں میں رہتے ہیں۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دستاویزی فلم
پڑھیں:
فلسطینی ریڈ کراس نے طبّی کارکنوں پر حملے کی اسرائیلی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیدیا
جنیوا(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 )فلسطینی ریڈ کراس سوسائٹی نے طبّی کارکنوں پر حملے سے متعلق اسرائیل کی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ غزہ میں 15 طبّی کارکنوں کی ہلاکت ایک آپریشنل غلط فہمی اور احکامات کی خلاف ورزی کے باعث ہوئی ہے. عرب نشریاتی ادارے کے مطابق طبی کارکنوں کی ہلاکت کا یہ واقعہ 23 مارچ کو پیش آیا تھا جب ریڈ کریسنٹ کی ایمبولینسز، اقوامِ متحدہ کی گاڑی اور فائر بریگیڈ کی گاڑی پر مشتمل کانوائے پر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 14 طبی کارکن اور اقوامِ متحدہ کا ایک اہلکار ہلاک ہو گئے تھے.(جاری ہے)
اسرائیلی فوج نے اس واقعے کے بعد ایک کمانڈر کو برطرف کر دیا اور ایک دوسرے افسر کے خلاف بھی کارروائی کی ہے غزہ کی پٹی میں 23 مارچ کو 15 طبی کارکنوں کی ہلاکت کے واقعے کی ایک موبائل فون سے بنی فوٹیج کے تجزیے سے پتا چلا تھا کہ اس حملے کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے سو سے زیادہ گولیاں چلائیں جن میں سے چند صرف بارہ میٹر کے فاصلے سے داغی گئی تھیں. فلسطینی ریڈ کریسنٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اسرائیل کی رپورٹ درست نہیں تھی کیونکہ وہ اس واقعے کی ذمہ داری ایک ذاتی غلطی اور فیلڈ کمانڈ پر عائد کر رہی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے چیف کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ضروری تحقیقات نہیں کی گئیں. جوناتھن وٹل نے کہا کہ درست بنیادوں پر احتساب نہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے اوریہ دنیا کو مزید خطرناک جگہ بنا رہی ہے انہوں نے کہا کہ احتساب کے بغیر ہم ظلم و ستم جاری رہنے کا خطرہ مول لیتے ہیں اور اس سے ہم سب کے تحفظ کے لیے وضع کیے گئے اصول ختم ہو جائیں گے یاد رہے کہ اس سے قبل عالمی ریڈ کراس اور متعدد بین الاقوامی امدادی اداروں نے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا. اسرائیل کی جانب سے اس سے قبل دعویٰ کیا گیا تھا کہ قافلہ اندھیرے میں بنا ہیڈ لائٹس کے مشکوک انداز میں آگے بڑھ رہا تھا جس کے باعث اسرائیلی سپاہیوں نے اس پر فائرنگ کی قافلے کی آمد ورفت کے متعلق اسرائیلی فوج کو قبل از وقت آگاہ نہیں کیا گیا تھا تاہم مارے جانے والے امدادی کارکنوں میں سے ایک کی جانب سے موبائل فون کی مدد سے بنائی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زخمیوں کی مدد کے لیے جانے والی گاڑیوں کی لائٹس جلی ہوئی تھیں ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑیوں کے سڑک کنارے رکتے ہی ان پر بنا کسی وارننگ کے فائرنگ شروع ہو جاتی ہے یہ پہلا موقع نہیں اس سے پہلے بھی اپریل 2024 میں امدادی کارکنوں کی ہلاکت پر کچھ افسران کو برطرف کیا گیا تھا.