بلوچستان: بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
نیشنل عوامی پارٹی یعنی نیپ جمہوریت پر شعوری طور پر یقین رکھنے والی واحد سیاسی جماعت تھی جس نے مشرقی اور مغربی پاکستان کو سیاسی بندھن میں باندھا ہوا تھا۔ مغربی پاکستان میں اس جماعت نے پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہوا تھا۔ ولی خان، میر علی تالپور، میاں افتخار الدین، عطااللہ مینگل، عبدالصمد خان اچکزئی حاکم علی زرداری، رسول بخش پلیجو اور گل خان نصیر جیسے اونچے قد کاٹھ کے لوگ اس پلیٹ فارم پر کھڑے تھے۔ 70 کے انتخابات ہوئے تو پختونخوا اور بلوچستان میں نیپ حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوگئی۔
ایک رات عراقی سفارت خانے پر چھاپہ مار کر اسلحہ برآمد کرلیا گیا۔ کہا گیا یہ اسلحہ دو صوبوں کو ملک سے الگ کرنے کے لیے نیپ کے رہنماؤں کو بھیجا گیا تھا، بلوچستان حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ نتیجے میں پختونخوا کے وزیراعلیٰ مفتی محمود نے استعفیٰ دے دیا۔ یہ سال کون سا تھا؟ یہ 73 کا سال تھا۔ یعنی وہ سال کہ جس سال پاکستان کا آئین مرتب کیا جا رہا تھا، یعنی ہمارا آئین ایسے ماحول میں تشکیل دیا جارہا تھا کہ جب دو صوبوں میں منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کیا جا چکا تھا اور سیاسی لیڈر شپ یا جیلوں میں تھی یا اپنے کارکنوں کے جنازے اٹھا رہی تھی۔
جبر، تشدد اور لاتعلقی کے اس پورے موسم میں بھی ولی خان اور غوث بخش بزنجو نے آئین سازی کے معاملے میں سیاسی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ نیپ کے کارکن اس پر خوش نہ تھے، وہ اپنی لڈرشپ سے پوچھے جا رہے تھے کہ تم لوگوں کو حکومت کا خاتمہ، جنازے، تشدد، مقدمے اور پرچے نظر نہیں آرہے؟ تاہم رہنماؤں نے اپنے ذاتی زخموں اور کارکنوں کے سوالوں کو آئین سازی کے لیے ہونے والی پارلیمانی مشقوں پر اثر انداز نہیں ہونے دیا، لیکن آئین سازی کا عمل مکمل ہوتے ہی نیپ کے رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ صوبوں میں موجود کارکن جو اب تک دُکھی تھے، وہ ناراض ہوگئے۔
ناراضی نہ ختم ہونے والی مایوسی میں اس وقت بدل گئی جب نیپ پر باقاعدہ پابندی عائد کردی گئی اور ملک کے بڑے رہنماؤں پر حیدرآباد سازش کیس کے تحت مقدمات شروع کر دیے گئے۔ یہ دراصل ملک میں ایک بڑا سیاسی خلا پیدا ہونے جا رہا تھا۔ اس کا عملی اظہار تب ہوا جب 1988 کے انتخابات میں غوث بخش بزنجو جیسے رہنماؤں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ بلوچستان میں محض چند چہروں کی شکست نہیں تھی، یہ وہاں پارلیمانی سیاست کے خاتمے کا آغاز تھا۔
نیپ کے رہنماؤں سے مستقل جان خلاصی کے لیے یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ بلوچستان میں اب انجینیئرڈ انتخابی بندوبست کیا جائے گا، اس فیصلے نے وقت کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں ووٹر کے ٹرن آؤٹ کو ہوتے ہوتے صفر پر پہنچا دیا۔
جنرل مشرف کے دور میں ڈاکٹر شازیہ کیس میں سرکار اور نواب اکبر بگٹی کے بیچ سینگیں پھنس گئیں، ڈاکٹر شازیہ خالد کیس کے معاملے میں وہی سوال کھڑا ہوگیا تھا جو 50 سے زیادہ سرداروں کے ساتھ مل کر خان آف قلات نے اسکندر مرزا کے سامنے رکھا تھا۔ آپ لوگوں کے اطمینان کے لیے مقامی روایات کا احترام کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں ہمارے لوگوں کے سامنے بے عزت کیوں کروا رہے ہیں؟ اسکندر مرزا نے بھی اس بات کو بکواس کہا، جنرل مشرف نے بھی جہالت کہا۔
نَوبَت بَاِیں جا بَہ اِیں رَسِید کہ نواب صاحب نے پہاڑوں میں مورچہ لگالیا، یہ وہی نواب صاحب تھے جو کبھی نیپ کا خلا پُر کرنے کے لیے ریاست کو کندھا دینے آئے تھے۔ بگٹی صاحب کے لیے بھی یہ طعنہ بن گیا کہ یہ وہ ریاست تھی جس کے ساتھ سیاسی تعاون کی آپ بات کیا کرتے تھے؟ یہ وہی طعنہ ہے جو ولی خان اور غوث بزنجو کو ان کے کارکن آئین سازی کے موقع پر دے رہے تھے۔
اس مسئلے کو وفاق سے جو لوگ حل کر سکتے تھے وہ ملک سے باہر جلاوطنی کاٹ رہے تھے، بلوچستان سے جو لوگ حل کر سکتے تھے وہ وفاق کے لیے باغی کی حیثیت رکھتے تھے۔ جو سردار جنرل مشرف نے اکٹھے کیے ہوئے تھے وہ ہمارے آج کے صادق سنجرانی، انوارالحق کاکڑ اور سرفراز بگٹی کی طرح پیراشوٹ کے ذریعے ایوانوں میں اتارے گئے تھے۔ مینڈیٹ کے بغیر چوہدری شجاعت نے اپنی ٹیم کے ساتھ قدم بڑھانے کی ہمت تو کی مگر آدھے راستے سے واپس آنا پڑگیا۔
جنرل مشرف رخصت ہوئے تو بہت سارے مسائل کے ساتھ بلوچستان کو بھی سلگتا ہوا چھوڑ گئے۔ بگٹی اور مری قبائل کے کچھ لوگ جلاوطنی اختیار کرچکے تھے، کچھ پہاڑوں کا رخ کرچکے تھے۔ اچھی بات یہ تھی کہ عوامی مینڈیٹ رکھنے والی جلاوطن قیادت پاکستان واپس آچکی تھی، اور سردار عطااللہ مینگل بھی لاہور آنے جانے لگے تھے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھ میں جا چکی تھی اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آچکی تھی۔ آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری نینشل عوامی پارٹی کے ذمہ دار رہ چکے تھے۔ خود آصف علی زرداری نے نیپ کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ اپنے اسی سیاسی پس منظر کو انہوں نے نینشل عوامی پارٹی کے رہنماؤں اور ان کی اولادوں کے دل میں اترنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ زرداری صاحب کو اس معاملے میں بینظیر بھٹو سے کہیں زیادہ کامیابی ملی۔ مشکل سے ملنے والی اس کامیابی کو پائیدار بنانے کے لیے انہوں نے اٹھارہویں ترمیم کی مہر بھی لگادی۔
سال 2013 میں میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تو معاملے کو وہ دو قدم آگے لے کر چلے گئے۔ میاں صاحب عمومی طور پر تمام ہی صوبوں کو انگیج کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کا منصب انہوں نے ڈاکٹر عبدالمالک کو سونپ دیا تھا۔ گورنرشپ محمود خان اچکزئی کی جماعت کو دے دی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی پختونخوا سے ہار چکی تھی، پھر بھی مشاورت کے عمل میں انہیں شامل رکھا گیا۔
میاں صاحب اس عرصے میں خان عبدالصمد خان کی برسی میں شرکت کے لیے دو بار کوئٹہ بھی جا چکے تھے۔ تصور کریں، خان شہید جیسے ‘باغی’ کی برسی ہے اور محمود خان اچکزئی نے پنجاب کے رہنما میاں محمد نواز شریف کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا ہوا ہے۔ سیاسی استحکام کی کوشش اور کسے کہتے ہیں؟
میاں صاحب نے مکمل مینڈیٹ دیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمالک سے کہا تھا، آپ کو یہ قلمدان دینے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آپ بلوچستان کے سچے سیاسی دماغوں کو انگیج کریں گے۔ آپ نے ان کی بات بھی سننی ہے جن کو ناراض بلوچ کہا جاتا ہے، اس کے لیے جو بن سکا وہ ہم کریں گے۔ خود ڈاکٹر عبدالمالک کہتے ہیں، ہم نے بہت محنت کے بعد معاملات کو ایک فیصلہ کن موڑ تک پہنچا دیا تھا۔
بلوچستان میں نادیدہ قوتیں سرگرم ہوگئیں، سیاسی شراکت کی جو بساط بچھائی گئی تھی راتوں رات الٹ دی گئی۔ اختیار اور اعتبار رکھنے والے سارے چہرے ایوان سے نکال دیے گئے، 500 ووٹوں والے بچے کو وزارت اعلیٰ کا منصب سونپ کر بلوچستان اسمبلی کو بے وزن کردیا گیا۔ نرسری سے باپ نامی ایک پارٹی اکھاڑ کر لے آئے کہ بلوچستان کی زمام اب ان کے ہاتھ میں ہوگی۔ جن صاحب نے اسمبلی کے پر کترنے کا یہ فریضہ انجام دیا تھا ان کا نام محمود خان اچکزئی نے ہمیشہ بلند آواز سے لیا ہے۔
سیاسی شراکت کی مسلسل ناکامی نے بلوچستان کا سیاسی نقشہ مکمل طور پر بدل دیا ہے۔ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کی بات کرنے والے سیاست دانوں، اساتذہ اور دانشوروں کا رہا سہا اعتبار بھی ختم کردیا گیا ہے۔ وہ اس قابل نہیں رہے کہ وہ آنے والی نسل کو سیاسی شراکت اور قومی تعاون کا کوئی سبق پڑھا سکیں۔ یہ شراکت کی ایک فضیلت بتاتے ہیں، سیاسی کارکن آگے سے 10 مثالیں پرانی اور 10 مثالیں تازہ سامنے رکھ کر ان کی ہر فضیلت کو شرمندہ کر دیتے ہیں۔
وہاں پارلیمانی سیاست کی بات کرنے والی سیاسی جماعتوں کے نیچے سے زمین نکل چکی ہے، غیر پارلیمانی رجحانات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ یہ سچائی سن لینے میں بھی حرج نہیں ہے کہ وہاں بی ایل اے جیسی تنظیموں کی عوامی تائید میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف سیکیورٹی اداروں کی عوامی ہمدردی میں ملکی سطح پر کمی واقع ہو رہی ہے۔
اب بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ ظاہر ہے یہ ہنر فقط عوامی نمائندوں کو آتا ہے، مگر معاملہ یہ ہے کہ سردار اختر مینگل پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے کر سیاست سے لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں۔ سردار یار محمد رند کہتے ہیں، میرے ہاتھ کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا ہے، ہمیں ہمارے ہی لوگوں کی نظر میں اتنا بے اعتبار کردیا گیا ہے کہ اب مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کیا جائے اور کیسے کیا جائے۔
ثنااللہ بلوچ برسوں پہلے انہی احساسات کے ساتھ سینیٹ سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔ اپنی آخری تقریر میں انہوں نے کہا تھا، ہم یہاں تعاون کے جذبے کے ساتھ موجود تھے، مگر ہمارے جذبات کی بے توقیری ہوئی۔ اب ہم جا رہے ہیں، مگر جو جنریشن آگے آرہی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ ان کے ساتھ آپ معاملات کر پائیں گے۔
اوپر جائیں تو میاں نواز شریف نے لب سی لیے ہیں اور تہہ دار ماسک چڑھایا لیا ہے۔ اپنے مخالف کا راستہ روکنے کے لیے موجودہ عسکری قیادت کے ساتھ کھڑے تو ہوگئے ہیں مگر وہ اپنے زخم نہیں بھلا پارہے۔ آصف علی زرداری کے پاس اپنے کچھ سوال ہیں جن کا جواب ندارد ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی خفگیوں میں اضافے ہیں، پاکستان کا مقبول لیڈر اس وقت جیل میں ہے۔ ان کے کارکنوں نے سیاسی تعاون سے اس قدر انکار کر دیا ہے کہ اپنی قیادت کی بھی نہیں سن رہے۔
پختونخوا کی نمائندہ سیاسی قیادت بھی عملاً پارلیمانی سیاست سے لاتعلق ہوچکی ہے، حاجی غلام احمد بلور تو پارلیمانی سیاست سے لاتعلقی کا باقاعدہ اعلان کر چکے ہیں۔ جو پارلیمانی سیاست کے خلاف ہیں ان کی ایک آواز پر عوام کا جم غفیر سڑکوں پر نکل رہا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سیاسی نمائندگی صفر پر کھڑی ہوئی ہے۔ جو پارلیمنٹ بھیجے گئے ہیں وہ حلقے میں نہیں جا سکتے۔ جو حلقے میں جا سکتے ہیں وہ پارلیمنٹ نہیں جا سکتے۔ کشمیر میں حب الوطنی کے نعرے دم توڑ چکے ہیں اور گلگت بلتستان میں گاؤں گاؤں مزاحمتیں پل رہی ہیں۔
اب پیچھے اکیلا مسئلہ رہ جاتا ہے، مسئلہ کہہ رہا ہے کہ یہ مسئلہ میں حل کروں گا۔ ایسے کبھی ممکن ہوا ہے؟ دنیا کی کون سی منطق کے سہارے بلوچستان کو اس بات پر قائل کیا جاسکتا ہے کہ جسے آپ مسئلہ سمجھ رہے ہیں وہ در اصل مسئلے کا حل ہے؟ ناراض لوگوں کے پاس ہمیشہ ان لوگوں کو بھیجا جاتا ہے جن کے پاس اختیارکے علاوہ دکھانے کو منہ بھی ہو۔ جس کے سبب بیمار ہوئے ہوں، عطار کے اسی لونڈے سے دوا لینا کہاں کی دانائی ہے۔
بہت اندھیرا ہے مگر مسئلے کے حل کے لیے ایک آخری کھڑکی اب بھی کھلی ہے۔ اس کھڑکی کے پار کچھ ایسے وفاقی اور صوبائی چہرے بیٹھے ہیں جو ناپسندیدہ ہیں۔ مسئلے کا حل انہی ناپسندیدہ لوگوں کے پاس ہے۔ بس ہمیں اپنی انا کی قربانی دیتے ہوئے ان کے آگے سرنڈر کرنا ہے۔ انہیں مکمل مینڈیٹ اور مکمل اختیار سونپ کر انگیجمنٹ کا ایک ہدف رکھنا ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے وہ جس راستے سے ہوکر بھی جائیں، ہمیں بڑے دل کے ساتھ ان کو ان راستوں پر جانے دینا ہے۔ جو تجاویز وہ پیش کریں، ان کو قبول کرنا ہے۔
یہی آخری حل ہے، یہی آخری کھڑکی ہے، یہ کھڑکی بھی بند ہوگئی تو پھر مکمل اندھیرا ہے، اندھیرے میں ہونے والی جنگ میں بندوق تو جیت جائے گی، انسان مگر ہار جائےگا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان بلوچستان کے مسائل کا حل خیبرپختونخوا دہشتگردی سیاسی قیادت ناراض بلوچ نواز شریف وی نیوز پارلیمانی سیاست آصف علی زرداری بلوچستان میں کے رہنماؤں خان اچکزئی کردیا گیا نواز شریف لوگوں کے انہوں نے چکے ہیں کے ساتھ دیا گیا میں بھی کے پاس کیا جا کے لیے نیپ کے
پڑھیں:
اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری تقسیم
اسلام ٹائمز: فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔ خصوصی رپورٹ:
غاصب صیہونی ریاست کی فضائیہ کی پائلٹوں سے لے کر موساد کے افسران تک، جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج کی لہر اسرائیل میں اندرونی تقسیم اور دراڑ کی گہرائی کیسے ظاہر کرتی ہے؟ اس بارے میں عبرانی حلقوں کا خیال ہے کہ جنگ کے خلاف مظاہرے اور پٹیشن، جو فضائیہ کے اندر سے شروع کی گئی اور موساد جیسے حساس اداروں کے افسران میں شامل ہوتے گئے، اب نتن یاہو کی جنگی کابینہ کے خلاف اس احتجاج میں سول ملٹری اور سیاسی اشرافیہ بھی شامل ہو چکی ہے۔ یہ احتجاج اسرائیلی معاشرے میں دراڑ کی گہرائی، اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی و سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کے بڑھتے ہوئے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ صیہونی آبادکاروں کے درمیان بے چینی اور اضطراب کو ظاہر کرنیوالا ایک بے مثال منظرنامہ ہے، جس میں صیہونی حکومت کی جانب سے بڑھتے ہوئے مظاہروں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ احتجاج حکومتی، فوجی اور سیکورٹی اداروں سے نکل کر ماہرین تعلیم، ڈاکٹروں، مصنفین وغیرہ سمیت اعلیٰ طبقات تک پہنچ گیا ہے، یہ سب غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی قیدیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ احتجاج کی یہ لہر 9 اپریل کو شروع ہوئی تھی۔ جب 1200 سے زائد پائلٹوں اور فضائیہ کے ریزرو دستوں نے غزہ جنگ کے جاری رہنے اور غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے خلاف احتجاج کے طور پر خدمت جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔
معاشرے اور ریاست و حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضا:
ملٹری برانچز کے مختلف افسروں اور اہلکاروں نے بھی پٹیشن پر دستخط کیے، جن میں فوج کے سابق چیف آف اسٹاف اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ بین گوریون، تل ابیب اور ایریل یونیورسٹیوں کے سابق ڈینز سمیت 1800 سے زائد افراد نے 11 اپریل کو ایک احتجاجی پٹیشن جاری کی۔ ان مظاہروں کی لہر برف کے گولے کی مانند تھی جس نے پورے صہیونی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور فضائیہ کے یونٹوں کے علاوہ بحریہ کے افسران، بکتر بند فوج، ریزرو فورسز اور ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹ، انٹرنل سیکیورٹی وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہم جنگ کو مسترد کرتے ہیں اور قیدیوں کی فوری واپسی چاہتے ہیں۔
لیکن ان مظاہروں میں صہیونی حکام کو سب سے بڑا جھٹکا یہ لگا کہ موساد کے اندر سے مختلف عناصر بھی جنگ کے خلاف مظاہروں کی تازہ لہر کا حصہ بن گئے۔ جہاں اسپائی سروس کے 250 سابق ملازمین بشمول اس کے تین سابق سربراہان نے ایک احتجاجی پٹیشن تیار کی اور جنگ کی مخالفت کا اعلان کیا۔ ایلیٹ یونٹس جیسے شیلڈگ، شیطت 13، اور ریٹائرڈ پولیس افسران اور سابق کمشنر بھی ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ ان پٹیشنز پر دستخط کرنیوالوں میں سب سے نمایاں موساد کے سابق سربراہان جیسے ڈینی یتوم، ابراہم حلوی اور تمیر پارڈو شامل ہیں۔
اسرائیلی محکمہ صحت کے 3000 سے زائد ملازمین، نوبل انعام یافتہ شخصیات 1700 فنکاروں، اور سینکڑوں ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ، اس سلسلے میں احتجاجی پٹیشنز پر دستخط کر چکی ہیں، جس میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر، 3500 ماہرین تعلیم، 3000 تعلیمی شعبے کے ملازمین، اور 1000 طلباء ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ یہ پٹیشنز اب محض علامتی بیانات نہیں ہیں، بلکہ صیہونی حکومت کے لئے کئی دہائیوں سے اس کی بقا کا سب سے اہم عنصر سمجھنے والی اشرافیہ میں عدم اطمینان اور تقسیم اور دراڑ کی عکاسی ہے۔
قیدیوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کا اختتام اور جنگ کے خاتمے کے لیے واضح سیاسی نقطہ نظر کی عدم موجودگی صیہونی اشرافیہ کی احتجاجی مظاہروں کی لہر میں شمولیت اسرائیلی معاشرے میں گہری تقسیم کی علامت بن گئی ہے جو اسے اندر سے درہم برہم کر سکتی ہے۔ ان احتجاجی تحریکوں اور مظاہروں کی اہمیت کے حوالے سے عبرانی حلقوں کا کہنا ہے یہ رجحان اسرائیل مقتدرہ، اشرافیہ اور اداروں میں اندرونی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے اور گہری ہوتی سماجی تقسیم کے علاوہ سیاسی پولرائزیشن میں اضافے کا سبب ہے، فوجی اور سیکورٹی یونٹس کے ارکان کی جانب سے احتجاجی پٹیشنز پر دستخط اسرائیلی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں، کیونکہ اسرائیل کے فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اندر سے اتنے بڑے پیمانے پر داخلی مظاہرے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
سیاسی اور عسکری اداروں میں عدم اعتماد کا بحران:
یہ تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنگ کے خلاف احتجاجی پٹیشنز اسرائیل کی سیاسی قیادت اور عسکری کمانڈروں پر اعتماد میں کمی کی عکاسی کرتی ہیں اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے خصوصاً اشرافیہ کا کابینہ اور فوج سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اسرائیلی فوج اور سول اداروں کی طرف سے جاری احتجاجی درخواستیں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے کی بے نتیجہ جنگ کے بعد سیاسی ذرائع سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ پر بڑھتے ہوئے احتجاج اور اندرونی دباؤ کی مثال ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ایک ریزرو جنرل اسرائیل زیو نے اعلان کیا ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والی درخواستیں سول نافرمانی تو نہیں، لیکن یہ اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی کابینہ کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں اور بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔
اس صہیونی جنرل، جو اس سے قبل انفنٹری اور پیرا ٹروپرز ڈویژن کے کمانڈر، غزہ ڈویژن کے کمانڈر اور اسرائیلی فوج کے آپریشنل شعبے کے سربراہ جیسے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، نے اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کی سائیٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں تاکید کی ہے کہ جن لوگوں نے احتجاجی درخواستوں پر دستخط کیے ہیں وہ فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اشرافیہ کے اہم لوگ ہیں، یہ اس جنگ میں اسرائیل کی سیاسی قیادت کی ناکامی پر گہری تشویش کا اظہار ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پٹیشنز پر دستخط کرنے والے نیتن یاہو پر بھروسہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے، ذاتی مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لیے اسرائیلیوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں، اور وہ غزہ سے قیدیوں کی واپسی کے لیے کوشش نہیں کر رہے، اس کا مطلب ہوگا واضح قومی اور فوجی اہداف کے بغیر جنگ جاری رہے گی، جس سے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں ہے۔
صیہونی فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔