جاوید محمود
ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکی معیشت کو سست شرح نمو اور مہنگائی میں اضافے کے دور میں بھیج رہی ہے گزشتہ چند ہفتوں میں انتظامیہ نے امریکہ کے اعلی تجارتی شراکت داروں سے درآمدات کی ایک وسیع رینج پر بھاری محصولات نافذ کیے اور مزید ڈھمکیاں دیں ہزاروں وفاقی حکومت کے کارکنوں کو فارغ کر دیا۔ انتظامیہ کے اچانک اقدامات نے اس بارے میں غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے ایک طرف یورپین ممالک اور کینیڈا سے دوری پیدا ہوئی جبکہ بھارت سمیت دیگر ممالک بھی ٹیرف کے لگنے سے پریشان ہیں۔ اگر یہی پالیسی جاری رہی تو امکان یہ ہے کہ امریکہ تنہائی کا شکار ہو جائے گا اور سپر پاور کا تنہائی میں جانا اس کی ساکھ کو بری طرح سے مجروح کر سکتا ہے۔
بیسویں صدی کی وسط سے دنیا پر امریکی کرنسی یعنی ڈالر کا غلبہ ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران متعدد مواقع پراس غلبہ کے ٹوٹنے ختم ہونے یا کمزور پڑھنے کی پیشنگوئیاں کی جاتی رہی ہیں۔ یکم جنوری 1999 میں یورپی کرنسی یورو کے متعارف ہونے کے بعد اور 2008 میں امریکہ سے شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران کے بعد بھی امریکی ڈالر کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا ۔روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بھی ڈالر کے خاتمے کی بات کی گئی مگر یہ کرنسی بدستور بڑی کرنسی کی صورت میں دنیا میں موجود ہے ڈالر کے مقابلے میں تین حقائق کا حوالہ دیا گیا ہے ۔سب سے پہلے امریکہ کے بڑے حریف چین نے اقتصادی اور کاروباری حجم کے لحاظ سے یورپی یونین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب چین امریکی مارکیٹ پر نظریں رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ میں موجود سیاسی تنازعات امریکہ کی انتہائی قابل بھروسہ قرض لینے والے اور قرض دینے والے کے طور پر ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں جس کی ایک مثال دو سال قبل ڈیفالٹ کے خطرے کی صورت میں سامنے آئی۔ امریکہ بہت تیزی سے ان ممالک کو سبق سکھانے کے لیے ڈالرز کا استعمال کر رہا ہے جو اس کے مطابق امریکہ یا اس کے اتحادی ممالک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں ۔یعنی سادہ الفاظ میں امریکہ براہ راست جنگ میں ملوث ہونے یا کسی ملک پر حملہ کرنے کے بجائے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے بے دریغ پیسے کا استعمال کر رہا ہے۔ سب سے پہلے ڈالر ایک ریزرو کرنسی ہے یعنی جس کے پاس اضافی پیسہ ہے ۔وہ اسے ڈالر کی شکل میں محفوظ رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ڈالر اکاؤنٹ کی کرنسی ہے اور نہ صرف امریکہ بلکہ بیشتر دنیا کے ممالک اشیاء اور خدمات کی ادائیگی ڈالر کے ذریعے کرتے ہیں۔ چین ،روس، برازیل، انڈیا اور دیگر ترقی پذیر معیشتوں کے روپے اور یوان کے ذریعے تجارت کرنے کی کوششوں کے باوجود ڈالر کی بطور سیٹلمنٹ کرنسی پوزیشن اب بھی مضبوط ہو رہی ہے۔ گزشتہ سال کے آخر تک دنیا میں تقریبا 12 کھرب ڈالر مالیت کے کرنسی ذخائر جمع ہو چکے تھے۔ اس ریزرو کا تقریبا 60فیصد امریکی ڈالر کی شکل میں ہے ۔لگ بھگ 20فیصد یورو تین فیصد یوان جبکہ باقی دوسری کرنسیاں ہیں۔ بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹس کے مطابق پچھلی تین دہائیوں میں ڈالر کا حصہ 80فیصد سے 90فیصد ہو گیا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں بھی یہ مقبول رہا اور 2010میں ڈالر کا تمام بین الاقوامی ادائیگیوں میں 85فیصد حصہ تھا جو 2022 میں بڑھ کر 88فیصد ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈالر اکاؤنٹ کی مرکزی کرنسی ہے جس کے باعث اس کی مرکزی ریزرو کرنسی کے طور پر بھی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے۔ کیونکہ دنیا سمجھتی ہے کہ اس کرنسی کو برے دنوں کے لیے بچانا اچھا ہے۔ اس کے علاوہ ڈالر میں تمام ادائیگیاں دنیا کے سب سے بڑے امریکی بینکوں کے ذریعے کی جاتی ہے اور امریکی حکام اس کرنسی کی نقل و حرکت پرنظر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ماہرین دلیل دیتے ہیں کہ ڈالر وقت کے ساتھ تصفیہ کی کرنسی سیٹلمنٹ کرنسی کے طور پر اپنی جگہ کھو دے گا۔ تاہم ایسا مستقبل قریب کا معاملہ نہیں ہے ۔وہ زور دیتے ہیں کہ کیونکہ دنیا میں امریکی مالیاتی منڈیوں کا سائز استحکام یا کھلے پن کے لحاظ سے کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس لیے ڈالر کا مقابلہ کرنا مشکل ہے ترقی پذیر ممالک میں صرف چین ہی دنیا کے مالیاتی مرکز کے طور پر امریکہ کو چیلنج کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے اسے سامان تجارت کی فراہمی کے مالی معاہدوں کے لیے اپنی کھلی اور لیکوڈ مارکیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ اگر سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک اپنا سارا تیل دنیا کے سب سے بڑے خریدار یعنی چین کو یوان میں فروخت کرنے پر راضی ہو جاتا ہے۔ تب بھی عالمی تیل کی منڈی میں شنگھائی انرجی ایکسچینج کا حصہ موجودہ پانچ فیصد سے بڑھ کر صرف سات فیصد ہو جائے گا۔ ڈالر کے اثاثوں کی مانگ امریکہ کو بڑے تجارتی اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ بیجنگ میں کارنیگی سینٹر کی ایک امریکی ماہر معاشیات مائیکل پیٹس کہتے ہیں کہ یہ اچھا نہیں ہے ۔امریکہ میں داخل ہونے والے غیر ملکی سرمائے سے سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ صرف بجٹ کی شکل میں محفوظ ہو جاتا ہے اور ملکی قرض میں اضافہ کرتا ہے۔ مالی منڈیاں صرف ایک حد تک معیشت کی مدد کرتی ہیں جس کے بعد وہ ملک کے بجائے بینکوں کو فائدہ پہنچانے کا باعث بنتی ہیں ۔ان کے مطابق کمزور ہوتا ہوا ڈالر عالمی معیشت کو فائدہ دے گا لیکن یہ ان ممالک کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوگا جن کے پاس تجارتی سرپلس ہے ماہرین اقتصادیات تسلیم کرتے ہیں کہ یوان آہستہ آہستہ ایک ریزرو کرنسی بن سکتا ہے۔
امریکی اور یورپی ماہرین اقتصادیات کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق چین اپنی کرنسی میں تجارتی تصفیوں کو فعال طور پر فروغ دے رہا ہے اس طرح اس کے تجارتی شراکت داروں کے مرکزی بینکوں میں یوان جمع ہو رہے ہیں ۔ واضح ہے کہ ڈالر ریزرو کرنسی کے طور پر اپنی حیثیت کھو سکتا ہے لیکن جب ایسا ہوگا تو دنیا کو بہت سے دوسرے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈالر کا اپنی عالمی حیثیت کھو دینا صرف اس صورت میں ممکن ہوگا جب امریکہ دنیا میں اپنا جو اثر رسوخ کھو بیٹھے گا ۔بعض معروف ماہرین یہاں تک دلیل دیتے ہیں کہ ڈالر کی بالا دستی خود امریکہ کے لیے نقصان دہ ہے۔ کیونکہ دنیا کی اہم ترین ریزرو کرنسی کا اجراکنندہ ہونا کوئی استحقاق نہیں بلکہ ایک بوجھ ہے ۔اگر امریکہ نئی غلطیاں کرتا رہتا ہے اور ماضی کا تجزیہ کرنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ وقت آئے گا جب دنیا ڈالر سے دور ہو جائے گی۔ بہت سے ممالک پہلے ہی اس سے دور ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ۔موجودہ صورتحال میں ڈونلڈ ٹرمپ کا معاشی جنگ کا اعلان امریکہ کو بہت سے بحرانوں میں دھکیل سکتا ہے۔ یورپی ممالک سے اختلافات ،کینیڈا سے الجھنا ،چین اور میکسیکو پر ٹیرف لگانے کی دھمکیاں امریکہ کو تنہائی کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ان حالات میں چین اپنی مثبت پالیسیوں کی مدد سے ایک بڑی قوت بن کے ابھر سکتا ہے۔ چین کی اپنی کرنسی کو بین الاقوامی بنانے کی کوشش یو ان کے غلبہ کو یقینی نہیں بنائے گی۔ بلکہ ایک کثیرقطبی کرنسی کی دنیا جہاں ڈالریورو یوان ایک ساتھ موجود ہوں گے، ان حالات میں ڈالر اپنا غلبہ کھو سکتا ہے۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: امریکہ کو کے طور پر کے مطابق دنیا میں سکتا ہے ڈالر کا ڈالر کی دنیا کے کہ ڈالر کہ دنیا ڈالر کے ہیں کہ کی ایک کے لیے رہا ہے ہے اور کے بعد
پڑھیں:
ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔
ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔
افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
بڑے پیمانے پر احتجاج:
ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔