Express News:
2025-04-22@11:09:24 GMT

ہشیار رہئے!!

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

’’ باجی… ‘‘ لمبی سی سر کے ساتھ کسی نے مجھے مخاطب کیا تھا۔ میں نے پلٹ کر سوالیہ نظر سے دیکھا۔ سر تا پا برقعہ نما لباس میں ملبوس، آواز سے نوجوان لڑکی محسوس ہوئی تھی مگر دل میں خیال آیا کہ وہ اس بھیس میں لڑکا بھی ہو سکتا تھا۔ باجی!!! کہنے کا انداز بھی بھکاریوں جیسا مخصوص انداز تھا۔ ’’ باجی مجھ سے کنگھی خرید لیں، دو دن سے میرے ہاں چولہا نہیں جلا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ چولہا جلانے والی گھر میں نہ ہو گی تو چولہا کیونکر جلے گا۔

’’ پہلے مجھے یہ بتائیں بیٹا کہ آپ یہاں داخل کیسے ہوئیں؟‘‘ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ اس قسم کی gated اور walled سوسائٹی میں وہ اندر آئی کس طرح تھی جہاں پر بغیر پاس کے یا شناختی کارڈ جمع کروائے کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ ’’ میں چیک کرتی ہوں کہ آپ کس طرح اندر آ گئی ہیں۔ میں نے اپنے پرس میں سے جتنی دیر میں فون نکالا، اتنی دیر میں وہ یوں غائب ہوئی جیسے کہ وہ تھی ہی نہیں۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا کہ مجھے شاید کوئی خواب آیا تھا، یوں جاگتے ہوئے اور دن دیہاڑے۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی، میں دکان سے کچھ خرید کر نکلی تو اسی نوعیت کی ایک اور خاتون قریب آئی، میں اس وقت گاڑی میں سامان رکھ کر پلٹی تھی۔ میںنے غور سے دیکھا، وہ فرق خاتون تھی۔ ’’ میڈم جی… ‘‘ اسی مخصوص انداز میں اس نے آغاز لیا، ’’ کچن کی صفائی والے کپڑے لے لو جی!!‘‘

’’ اچھا کتنے کا ہے؟ ‘‘ میںنے گاڑی کی ڈگی میں سامان رکھ کر پلٹ کر سوال کیا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میں اس سے درشتی سے سوال کروں کہ وہ یہاں کیسے داخل ہوئی تھی اور وہ غائب ہو جائے ۔ میرے سوال نے اسے کچھ امید دلائی تھی، یہی میں نے چاہا تھا۔

ساٹھ روپے کا ایک ہے جی اور اگر آپ چار لیں تو میں دو سو میں دے دوں گی۔‘‘ اس نےbuy four and get 70% off    جیسی پیش کش کی۔ پرس میں سے کچھ تلاش کرنے کی اداکاری کرتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے پاس ہزار روپے کا چھٹا تھا کہ نہیں۔ اسی دوران میں نے پرس میں رکھے فون سے صاحب کو پیغام بھیجا اور اپنا حدود اربعہ بتاتے ہوئے مختصراً مسئلہ بھی بتایا۔ اس نے بتایا کہ اس کے پاس چھٹا تھا۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ یا تو وہ اتنا چھٹا ساتھ لے کر آئی تھی یا صبح سے اس نے صفائی والے اتنے کپڑے بیچ لیے تھے۔ ’’ چلو پانچ سو بھی شاید مل جائیں۔‘‘ میں نے اسی طرح پرس میں کچھ تلاشنے کی اداکاری کی ۔ ’’ کہاں سے آتی ہوں بیٹا؟‘‘ میںنے سوال کیا تو اس نے ایک قریبی قصبے کا بتایا، ’’ اچھا اندر کیسے آتے ہیں آپ لوگ، پہلے بھی ایک لڑکی مجھے ملی ہے وہ کنگھیاں بیچ رہی تھی؟‘‘ میںنے کہا تو اس نے خوشی سے بتایا کہ وہ بھی اسی کے ساتھ آتی تھی، ’’ یہاں اس کالونی میں اندرکیسے آجاتے ہو آپ لوگ؟‘‘

’’ میرا واسطہ اس سے پہلے بھی ایسی خواتین سے پڑ چکا ہے جو پہلے کچھ بیچنا چاہتی ہیں مگر جب اس سے کچھ خریدا نہ جائے تو وہ بھیک مانگنے لگتی ہیں۔‘‘ میں نے اس سے کہا۔ مجھے اتنی ہی دیر میں نظر آ گیا تھاکہ ہماری کالونی کی سیکیورٹی کا نمایندہ وہاں پہنچ چکا تھا، جب تک میں اس سے بات چیت کر رہی تھی، اسے یہی امید تھی کہ میں اس سے چار رومال لے لوں گی۔

سیکیورٹی کے نمایندے نے اس کے پاس پہنچ کر اپنی بائیک کھڑی کی اور اس سے اس کا پاس مانگا۔ اس نے پاس نکال کر دکھایا اور اس پر معمول کی کارروائی شروع ہوئی، اس کا پاس ضبط کر لیا گیا۔ جس حد تک ممکن ہو ان کے سامنے رقوم ، زیورات، اپنی جائیدادوں اور مہنگی اشیاء کی قیمتوں کی باتیں نہ کریں۔ اللہ کی ذات پر توکل کریں ضرور مگر اس سے پہلے اپنا اونٹ باندھ لیں، یہ بڑی دانائی کی بات ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سے کچھ

پڑھیں:

فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے

دنیا کے نقشے پر اگرکہیں ظلم کی سب سے بھیانک اور خوفناک تصویر نظر آتی ہے۔ زمین کے نقشے پر اگرکوئی خطہ سب سے زیادہ زخم خوردہ ہے، اگر کہیں مظلومیت روز جیتی ہے اور انسانیت روز مرتی ہے، اگرکہیں معصوم بچوں کے کٹے پھٹے جسم انسانی ضمیرکو جھنجھوڑتے ہیں اور پھر بھی دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تو وہ فلسطین ہے۔

آج فلسطین صرف ایک سرزمین نہیں، بلکہ قیامت زدہ قبروں کا میدان ہے، جہاں بچوں کے جنازے روزانہ اٹھتے ہیں، جہاں عورتوں کی چیخیں دیواروں سے ٹکرا کر دم توڑ دیتی ہیں، جہاں ملبے تلے کچلی ہوئی زندگی کراہ رہی ہے اور جہاں پوری دنیا کی خاموشی انسانی تاریخ کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔

یہ صرف ایک قوم کا المیہ نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کی غفلت، بے حسی اور زوال کی تصویر ہے۔ آج غزہ صرف ملبے کا ایک ڈھیر نہیں، بلکہ تاریخ انسانی کی سب سے تاریک داستانوں میں سے ایک ہے، جو ہر باشعور انسان سے سوال کر رہی ہے۔ ’’کیا تم واقعی انسان ہو؟ ‘‘

غزہ پر پچھلے ڈیڑھ سال سے جو قیامت ٹوٹی ہے، اس نے ظلم اور وحشت کی ساری حدیں پار کردی ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آئے روز ہونے والے فضائی حملے، ٹینکوں کی گولہ باری، ڈرونز سے میزائل برسائے جانے اور زمین دوز بموں نے اس علاقے کو کسی کھنڈر میں بدل دیا ہے، جہاں زندگی باقی نہیں رہی، صرف موت کا راج ہے۔

غزہ کی گلیاں اب زندگی کی نہیں، موت کی تصویر ہیں۔ ہر طرف بکھری لاشیں، خون میں نہائے بچے، روتی بلکتی مائیں اورکھنڈرات میں چھپتے بے سہارا انسان، یہ سب کچھ ہمیں صرف ایک تصویر دکھاتے ہیں کہ انسانیت ہار چکی ہے۔

ہزاروں معصوم بچے جنھوں نے ابھی دنیا دیکھی بھی نہ تھی، دنیا چھوڑگئے۔ وہ بچے جو اسکول جانا چاہتے تھے،کتابوں سے دوستی کرنا چاہتے تھے، آج ان کی کتابیں خون میں لت پت ملبے تلے دبی پڑی ہیں۔ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کے لاشے سینے سے لگائے بیٹھی ہیں اور دنیا کی بے حسی پر ماتم کر رہی ہیں۔ غزہ کے کئی علاقے مکمل طور پر نیست و نابود کردیے گئے ہیں۔

پورے محلے، بستیاں، سڑکیں، اسپتال، مساجد، اسکول اور یونیورسٹیاں ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ پینے کا صاف پانی ہے، نہ کھانے کو کچھ میسر، نہ دوا ہے، نہ علاج۔ بیمار مرتے ہیں، زخمی سسکتے ہیں اورکوئی مدد کو نہیں آتا۔

ظلم صرف غزہ میں نہیں ہو رہا، بلکہ فلسطین کے کئی علاقوں میں اسرائیلی فوجی گھروں میں گھس کر نہتے شہریوں کو مار رہے ہیں، نوجوانوں کو اغوا کیا جا رہا ہے، عورتوں کی بے حرمتی ہو رہی ہے اور مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملے معمول بن چکے ہیں۔

فلسطین پر ظلم کوئی نیا واقعہ نہیں۔ یہ ایک مسلسل کہانی ہے، جو پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت سے ہی فلسطینی قوم کو اپنی سرزمین سے بے دخل کیا گیا، ان کے گھروں پر قبضے کیے گئے، ان کی زمینیں چھینی گئیں اور ان کی نسل کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔

کبھی ’’نقب‘‘ کیمپوں میں، کبھی ’’ صبرا و شتیلا‘‘ میں، کبھی ’’جنین‘‘ اور کبھی ’’غزہ‘‘ میں۔ ہر جگہ اسرائیل نے ظلم کی نئی تاریخ رقم کی، لیکن جو کچھ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہوا، وہ محض ظلم نہیں، بلکہ انسانیت کا جنازہ ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ فلسطین جلتا رہا، معصوم بچے مرتے رہے، عورتیں چیختی رہیں، بوڑھے کراہتے رہے، مگر مسلم دنیا کے حکمران اپنی کرسیوں سے ہلنے کو تیار نہیں۔

او آئی سی، جو کہ اسلامی تعاون تنظیم کہلاتی ہے، صرف بیانات تک محدود رہی۔ عرب لیگ کے اجلاس منعقد ہوئے، لیکن ان اجلاسوں میں صرف قراردادیں منظور ہوئیں، جن کا زمین پر کوئی اثر نہ پڑا۔ کہیں سے نہ تجارتی بائیکاٹ ہوا، نہ سفارتی دباؤ، نہ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمات دائرکیے گئے۔

یہاں تک کہ مسلم دنیا اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ پر بھی متحد نہ ہو سکی۔ کیا یہ ہمارے ایمان کی کمزوری نہیں؟ کیا یہ ہمارے ضمیرکی موت نہیں؟جہاں مسلم حکمرانوں کی بے حسی شرمناک ہے، وہیں عالمی طاقتوں کا کردار اور بھی زیادہ مجرمانہ ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو مہلک ہتھیار فراہم کیے، اس کی ہر ظلم کی پشت پناہی کی اور اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کے حق میں آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ انصاف کے نہیں، مفادات کے علمبردار ہیں۔

برطانیہ، جرمنی، فرانس جیسے ممالک جو انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں، وہ بھی اسرائیل کی صف میں کھڑے نظر آئے۔ اقوام متحدہ، جو امن و انصاف کا عالمی ادارہ کہلاتا ہے، فلسطین کے معاملے میں محض تشویش، افسوس اور فوری جنگ بندی کی اپیل جیسے کمزور الفاظ سے آگے نہ بڑھ سکا۔

یہ ادارہ اگر شام، لیبیا، یوکرین یا کسی اور مغربی مفادات سے جڑے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر متحرک ہو سکتا ہے تو فلسطین کے معاملے میں اتنا بے بس کیوں ہے؟ کیا فلسطینی انسان نہیں؟ کیا ان کے خون کی قیمت کم ہے؟ یہ سب دیکھ کر دل چیخ اٹھتا ہے کہ کیا انسانیت واقعی مر چکی ہے؟ کیا اب دنیا صرف طاقتور کے حق کو تسلیم کرتی ہے؟ کیا اب معصوم بچوں کی لاشیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں رہیں؟

اس وقت پوری دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہمیں ایک عظیم سبق دے رہا ہے کہ صرف جذباتی تقریریں، روایتی احتجاج اور سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ چلانا کافی نہیں۔ اب وقت ہے کہ مسلم دنیا اپنے وسائل، اپنی طاقت، اپنی وحدت کو یکجا کرے۔

وہ ملت جو ڈیڑھ ارب سے زیادہ افراد پر مشتمل ہو، جس کے پاس بے پناہ دولت، افرادی قوت اور وسائل ہوں، وہ اگر متحد نہ ہو تو اس کا بہت بڑا جرم ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے فلسطینیوں کے لیے کیا کیا؟ ہم میں سے ہر فرد جواب دہ ہے۔

کیا ہم نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا؟ کیا ہم نے اپنے حلقے میں شعور اجاگرکیا؟ کیا ہم نے مظلوموں کے لیے دعا بھی کی؟ کیا ہم نے ان کے حق میں آواز بلند کی؟ کیا ہم نے قلم اٹھایا؟ کیا ہم نے بچوں کو بتایا کہ فلسطین کیا ہے؟ اگر ہم نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کیا، اگر ہم نے سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی، اگر ہم نے اپنی اولاد کو فلسطین کی حقیقت نہیں بتائی تو ہم بھی مجرم ہیں۔

خاموشی بھی ظلم کا ساتھ دینا ہے اور ظلم کے سامنے خاموش رہنے والا بھی ظالم کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔ آج فلسطین ملبے تلے صرف معصوم انسانوں کی لاشیں نہیں دفن ہو رہیں، بلکہ انسانیت کی روح بھی کچلی جا رہی ہے، اگر آج ہم نے آنکھیں بند رکھیں، زبانیں بند رکھیں، ہاتھ روک لیے اور ضمیر کو سلا دیا تو کل جب ہماری باری آئے گی تو کون ہمارے لیے بولے گا؟ کون ہمارا پرسان حال ہوگا؟ یہ وقت محض تماشائی بنے رہنے کا نہیں، عملی اقدامات کا ہے۔ یہ وقت بیدار ہونے کا ہے۔ آج ہم خاموش رہے تو کل تاریخ ہم پر بھی خاموشی کا پردہ ڈال دے گی۔ آج غزہ ختم ہو رہا ہے، کل بیت المقدس پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ ظلم کو آج نہ روکا گیا تو یہ کل ہم سب کو نگل لے گا۔

متعلقہ مضامین

  • وقف بورڈ قانون کو لیکر مجھے سپریم کورٹ پر بھروسہ ہے، ڈمپل یادو
  • بھارت، طلبہ نے امتحانی کاپیوں میں جوابات کے بجائے پاس کرنے کیلئے فرمائشیں لکھ دیں
  • لگتا تھا طلاق ہوگئی تو مرجاؤں گی، عمران خان کی سابق اہلیہ کا انکشاف
  • بجلی
  • ہسپتال میں 77 سالہ بزرگ پر ڈاکٹر کا بہیمانہ تشدد ، ویڈیو وائرل
  • بی جے پی نے مجھے مارنے پر انعام رکھا ہے‘، سکھ رہنما کی نائب امریکی صدر سے دورہ بھارت میں معاملہ اٹھانے کی درخواست
  • ’بی جے پی نے مجھے مارنے پر انعام رکھا ہے‘،گرپتونت سنگھ پنوں کا امریکی نائب صدر کو خط
  • کومل میر کی کاسمیٹک سرجری اور وزن میں اضافے پر لب کشائی
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے