فاتح خیبر‘ خلیفہ چہارم امیر المومنین سید نا حضرت علی المرتضی ؓ
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
اسلام میں سرور کائناتﷺ کے بعد جو چند نام سرفہرست آتے ہیں ان میں حضرت علیؓ ایک عنوان جلی ہیں جن سے علم و سخاوت اور فکرو شجاعت کی کتنی ہی روایتیں وابستہ ہیں۔نام، نسب، خاندان ۔ آپ کا نام علیؓ، لقب اسد اللہ اور کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہے والد کا نام ابو طالب تھا۔
سلسلہ نسب یہ ہے۔ علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لولی، چونکہ ابوطالب کی شادی اپنے چچا کی لڑکی سے ہوئی تھی اسلئے حضرت علیؓ نجیب الطرفین ہاشمی اور آنحضرتﷺ کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے۔ خاندان ہاشم کو عر ب اور قبیلہ قریش میں جو وقعت و عظمت حاصل تھی وہ محتاج اظہار نہیں خانہ کعبہ کی خدمت اور اسکا اہتمام بنو ہاشم کا مخصوص طغرائے امتیاز تھا اور اس شرف کے باعث ان کو تمام عرب میں مذہبی سیادت حاصل تھی۔
نبی کریمؐ کے اور بھی کئی چچا تھے مگر آپؐ کو جو تعلق حضرت علیؓ کے والد ابوطالب کے ساتھ تھا وہ کسی اور سے نہ تھا۔ اس زمانے میں جب حضورؐ ہر طرف سے مشرکین مکہ کے نرغے میں گھرے ہوئے تھے اور ہر وقت نبی خدا کو تکلیفیں پہنچانے کے درپے رہتے تھے اس وقت ابوطالب آپؐ کی حمایت میں پیش پیش رہتے اور ہر موقع پر آپؐ کی پشت پناہی کرتے تھے۔ ابو طالب کی مالی حالت اچھی نہ تھی۔ عیال کا بوجھ زیادہ تھا اس لئے رسول اللہؐ نے اپنے مشفق چچا کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے حضرت علیؓ کو اپنے دامن عاطفت میں لے لیا اس طرح ابتداء ہی سے حضرت علیؓ نے آغوش نبوت میں پرورش پائی۔
قبول اسلام۔ حضرت علیؓ کی عمر ابھی صرف دس سال ہی تھی کہ ان کے شفیق مربی کو دربار خداوندی سے نبوت کا خلعت عطا ہوا۔ چونکہ حضرت علیؓ آپؐ کے ساتھ ہی رہتے تھے اس لئے ان کو اسلام کے مذہبی مناظر سب سے پہلے نظر آئے۔
چنانچہ ایک روز آنحضرتؐ اور ام المومنینؓ کو مصروف عبادت دیکھا۔ اس موثر نظارہ نے اثر کیا ۔ طفلانہ استعجاب کے ساتھ پوچھا ، آپ دونوں کیا کر رہے تھے۔ سرور کائناتؐ نے نبوت کے منصب گرامی کی خبردی اور کفر و شرک کی مذمت کر کے توحید کی دعوت دی۔ حضرت علیؓ کے کان ایسی باتوں سے آشنا نہ تھے ، متحیر ہو کر عرض کی، اپنے والد ابو طالب سے دریافت کروں اسکے متعلق ؟ چونکہ آپؐ کو ابھی اعلان عام منظور نہ تھا اسلئے فرمایا اگر تمہیں تامل ہے تو خود غور کرو ، لیکن کسی سے اس کا تذکرہ نہ کرنا، آنحضرتؐ کی پرورش سے فطرت سنور چکی تھی، توفیق الٰہی شامل ہوئی اس لئے زیادہ غور وفکر کی ضرورت پیش نہ ہوئی اور دوسرے ہی دن بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ تمام تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں میں سب سے پہلے دعوت اسلام قبول کرنے والے حضرت علیؓ ہیں۔
قبول اسلام کے بعد حضرت علیؓ وعظ و نصیحت کے جلسے اور دعوت اسلام کے مجمعوں میں ہمیشہ نبی علیہ السلام کے ساتھ رہتے تھے۔ بعثت کے چوتھے سال جب قریبی اعزہ کو عذاب الٰہی سے ڈرانے کا حکم آیا اور آپؐ نے اسکی تعمیل میں کوہ صفا پر چڑھ کر اپنے قبیلہ اور خاندان کے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا۔
’’ اے بنی مطلب ، میں تمہارے سامنے دنیا اور آخرت کی بہترین نعمت پیش کرتا ہوں ۔ تم میں سے کون میرا ساتھ دیتا ہے اور کون میرا معاون و مددگار بنتا ہے‘‘ اسکے جواب میں صرف ایک آواز آئی کہ ’’ گو میں عمر میں چھوٹا ہوں اور میری ٹانگیں کمزور ہیں تاہم میں آپ کا معین و مددگار ا ور دست بازو بنوں گا، یہ آواز حضرت علی بن ابی طالبؓ کی تھی، آنحضرتؐ نے تین بار اسی سوال کو دھرایا اسکے جواب میں ہر مرتبہ حضرت علیؓ ہی کی آواز آئی۔ اس کے جواب میں آپؐ نے فرمایا، ’’ تم میرے بھائی ہو‘‘ حضرت علیؓ کا یہ دعویٰ محض زبانی نہ تھا۔ آپؓ کا عمل اس سے بھی بڑھ کر رہا۔
جب دعوت اسلام گھر گھر پہنچنے لگی تو مشرکین مکہ بہت تلملائے ایک روز سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ حضورؐ کی ذات اقدس ہی کو ختم کر دیں۔ یہ مذہب خود بخود ختم ہو جائے گا۔ وحی الٰہی نے آنحضورؐ کو مشرکین کے ارادوں سے باخبر کر دیا، ہجرت مدینہ کا حکم آگیا۔ سرور کائنات نے اس خیال سے کہ مشرکین کو شبہ ہو گیا تو فوراـ پیچھا شروع کر دیں گے اور مکہ سے نکلنا دشوار ہو جائے گا۔ حضرت علیؓ کو اپنے حجرہ مبارک میں بستر پر آرام کرنے کا حکم دیا اور خود حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ کیلئے روانہ ہو گئے۔ اس وقت حضرت علیؓ کی عمر زیادہ سے زیادہ بائیس برس کی تھی اس عنفوان شباب میں اپنی زندگی کو قربانی کے لئے پیش کر دینا فدائیت اور جانثاری کاعدیم المثال کارنامہ ہے رات بھر مشرکین حجرہ مبارک کا محاصرہ کئے رہے اس خطرہ کی حالت میں یہ نوجوان انتہائی سکون و اطمینان کے ساتھ محو خواب رہا۔ تمام رات کفار مکہ اس غلط فہمی میں رہے کہ خود سرور کائناتؐ اپنے بستر پر آرام فرما رہے ہیں صبح ہوئی تو وہ اپنے ناپاک ارادہ کی تکمیل کیلئے اندر آئے لیکن یہ دیکھ کر سب انگشت بدنداں رہ گئے کہ سرور کونین کے بجائے آپؐ کا جانثار اپنی جان کا نذرانہ دینے کیلئے محو خواب ہے، شہنشاہ دو عالم کے بستر پر حضرت علیؓ کو دیکھ کر مشرکین کو اپنی غفلت پر طیش آیا اور حضرت علیؓ کو چھوڑ کر اپنے مقصود کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ حضرت علیؓ نبی علیہ السلام کے تشریف لے جانے کے بعد دو یا تین دن مکہ میں مقیم رہے اور آنحضرتؐ کی ہدایت کے مطابق لوگوں کی امانتیں اور قرضے چکا کر مدینہ کیلئے روانہ ہو گئے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر جب نبی کریمؐ نے مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کرایا تو حضورؐ نے حضرت علیؓ کو اپنا بھائی بنایا۔
مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے چند روز بعد 2 ہجری میں نبی علیہ السلام نے آپؓ کو اپنی دامادی کا شرف بخشا اور محبوب ترین بیٹی سیدۃ النساء فاطمہ الزہراءؓ سے نکاح کر دیا۔ فاطمہ الزہراءؓ سے عقد کی درخواست سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کی تھی اسکے بعد حضرت عمرؓ نے۔ لیکن آنحضرتؐ نے کوئی جواب نہ دیا ان دونوں کے بعد حضرت علیؓ نے خواہش ظاہر کی۔ حضورؐ نے پوچھا تمہارے پاس مہر کیلئے کیا ہے ، حضرت علیؓ نے جواب دیا ایک گھوڑے اور ایک زرہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ حضورؐ نے فرمایا ۔ گھوڑا تو لڑائی کیلئے ہے البتہ زرہ کو فروخت کر دو۔ حضرت علیؓ نے زرہ حضرت عثمان غنیؓ کے ہاتھ چار سو اسی درہم میں فروخت کر دی اور قیمت لا کر آنحضرتؐ کی خدمت میں پیش کر دی۔ آپؐ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ بازار سے عطر اور خوشبو خرید لائیں۔ پھر آپؐ نے خود نکاح پڑھایا اور میاں بیوی پر وضو کا پانی چھڑک کر خیروبرکت کیلئے دعا کی۔ (جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حضرت علی کے ساتھ کی تھی
پڑھیں:
سوشل میڈیا پر مشہور ہونے کیلئے فوڈ چین پر حملہ کیا: ملزمان کا عدالت میں بیان
اسکرین گریبزبین الاقوامی فوڈ چین پر حملہ کرنے والے 6 ملزمان کو راولپنڈی کی مقامی عدالت پیش کر دیا گیا۔
ملزمان کو سول جج ممتاز ہنجرا کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
عدالت میں بیان دیتے ہوئے ملزم کامران سجاد نے کہا کہ سوشل میڈیا پر مشہور ہونے کے لیے ایسا کیا، معلوم نہیں تھا یہ نتائج ہوں گے، سچے دل سے معافی مانگتا ہوں مجھے معاف کیا جائے۔
کراچی نارتھ کراچی میں گذشتہ روز انٹر نیشنل فوڈ چین...
ملزم نصیر احمد نے اپنے مؤقف میں کہا کہ سوشل میڈیا پر مشہور ہونے کے لیے یہ سب کیا، اپنے عمل پر افسوس ہے، کوئی شخص بھی ایسا کام نہ کرے جس سے رسوائی ہو، ہمارے ایسے عمل سے ملک کی بدنامی ہوئی، ہم نے کسی کے کہنے پر ایسا نہیں کیا۔
یاد رہے کہ راولپنڈی میں ملزمان نے بین الاقوامی فوڈ چین میں ہنگامہ آرائی اور خواتین کو ہراساں کیا تھا۔
ملزمان کے خلاف بین الاقوامی فوڈ چین پر حملے کا مقدمہ تھانہ وارث خان میں درج ہے۔