Daily Ausaf:
2025-04-22@07:25:23 GMT

دنیا کی محبت، اخلاقیات کی اہمیت، اور روحانی زندگی

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

دنیا کی زندگی عارضی ہے، اور اس میں مال و دولت، شہرت، اور دنیوی آرائش کی محبت انسان کو اپنے اصل مقصد سے دور کر دیتی ہے۔ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں بار بار اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انسان کو دنیا کی محبت میں اندھا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور آخرت کی اصل حقیقی دائم زندگی کی تیاری کو بنانا چاہیے۔ اخلاقیات، انسانیت، اور روحانی پاکیزگی وہ بنیادی ستون ہیں جن پر ایک مضبوط اور کامیاب معاشرہ تعمیر ہوتا ہے۔
دنیا کی محبت کا خطرہ ‘قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ترجمہ:تمہیں مال و اولاد کی کثرت نے غفلت میں ڈال دیا ہے یہاں تک کہ تم قبروں تک جا پہنچے۔(سورہ التکاثر، آیت1-2 )
اس آیت میں اللہ تعالیٰ ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ مال و دولت کی دوڑ اور دنیاوی زندگی کی رونق ہمیں اپنے اصل مقصد سے غافل نہ کر دے۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی مفر نہیں، اور ہمارے ساتھ ہمارا مال و دولت نہیں جائے گا۔ ہمارے اعمال اور نیکیاں ہی ہمارے ساتھ جائیں گی۔
اخلاقیات کی اہمیت‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ترجمہ:میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔
اخلاق کسی بھی قوم کی روح ہیں۔ اگر اخلاق تندرست ہوں تو قوم مضبوط، باوقار اور خوف سے پاک رہتی ہے۔ اگر اخلاق خراب ہو جائیں تو قوم ٹوٹ جاتی ہے، اس کی طاقت ناکام ہو جاتی ہے، اور وہ لالچی اور دشمنوں کا نشانہ بن جاتی ہے۔ قومیں تب تک زندہ رہتی ہیں جب تک ان کے اخلاق باقی رہتے ہیں۔ اگر اخلاق ختم ہو جائیں تو قوم بھی بے وقار ہو کر ختم ہو جاتی ہے۔لوگوں کی عمارتیں اور ترقی اس وقت تک خوشحال نہیں ہوسکتی جب تک ان کے اخلاق درست نہ ہوں۔ ایک انسان کی قدر و قیمت اس کے مال و دولت سے نہیں، بلکہ اس کے اخلاق، اقدار اور آدرشوں سے ہوتی ہے۔ خوبیاں، اقدار، اور اخلاق وہ ہیں جو کسی قوم کو بلند مقام پر پہنچاتے ہیں۔ ان کے بغیر زمین پر موجود تمام سونے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔
دین اور معاملات کی درستگی‘حدیث مبارکہ میں آیا ہے۔دین ہی معاملہ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دین صرف عبادت تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہمارے معاملات، اخلاق، اور رویے دین کا اصل حصہ ہیں۔ اگر ہمارے اخلاق درست ہوں تو ہمارے معاملات بھی درست ہوں گے۔ روح کو اخلاق سے درست کیا جائے تو وہ سیدھا ہو جاتا ہے۔ اسلامی اخلاق دین سے نکلتے ہیں، مکمل بھلائی کی ضمانت دیتے ہیں، اور تمام لوگوں کے لیے مفید ہیں۔
صحابہ کرام کی اخلاقی زندگی ‘صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیاں اخلاقیات کا بہترین نمونہ تھیں۔ انہوں نے مکتبِ نبوی سے تعلیم و تربیت پائی اور اخلاق کے ذریعے ہی انہوں نے دنیا بھر میں اسلام کا پرچم لہرایا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا۔ترجمہ:اور بے شک آپ بڑے اخلاق والے ہیں۔(سورہ القلم، آیت 4)
صحابہ کرامؓ نے اخلاق کے ذریعے ہی دلوں کو فتح کیا اور معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا اسلام میں غریبوں، مسکینوں، اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ترجمہ:تم میں سے بہترین وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔
چاہے مالی مدد ہو، راہنمائی ہو، یا صرف اچھے بول، ہر نیک عمل صدقہ ہے۔ہر اچھا کلمہ صدقہ ہے۔ غریبوں کی مدد کرنا نہ صرف ہمیں اللہ کے قریب کرتا ہے بلکہ معاشرے میں محبت اور ہمدردی کو بھی فروغ دیتا ہے۔
عاجزی اور نرمی اختیار کرنا‘تکبر اور غرور ایمان کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ترجمہ:جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(صحیح مسلم)
اس لیے ہمیں عاجزی، نرمی، اور درگزر کو اپنانا چاہیے۔ دوسروں کے بارے میں اچھا گمان رکھنا، غیبت سے بچنا، اور کسی کو بھی برا بھلا کہنے سے پرہیز کرنا ایک مومن کی پہچان ہے۔ معاف کرنا اور دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرنا دل کو پاکیزگی اور سکون عطا کرتا ہے۔
روحانی زندگی کی اہمیت‘دنیا کی زندگی عارضی ہے، اور اس میں مال و دولت کی محبت انسان کو روحانی ترقی سے دور کر دیتی ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا کو بنانا چاہیے۔ نماز، ذکر،اخلاق و ادب اور نیک اعمال کے ذریعے اللہ سے تعلق مضبوط کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی، خود کو پرکھنا اور اپنے اخلاق کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دنیا کی زندگی ایک امتحان ہے، اور مال و دولت اس امتحان کا ایک حصہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس عارضی زندگی میں مال و دولت کے پیچھے بھاگنے کے بجائے، اللہ کی رضا اور آخرت کی تیاری کو اپنا مقصد بنائیں۔ غریبوں کی مدد کریں، دوسروں کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آئیں، اور تکبر سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دنیا کی محبت سے بچائے اور ہمیں ایک پاکیزہ اور روحانی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تقوی کا معنی ہی یہ کہ انسان ہر وقت خبردار رہے کہ دنیا کی زندگی فانی ہے، اور ہمیں اپنی توجہ آخرت کی تیاری پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ اخلاقیات، ادب و امداد‘انسانیت اور روحانی پاکیزگی وہ بنیادی اقدار ہیں جو ہمیں کامیابی کی راہ پر گامزن کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور ہمیں اپنے مقصدِ حیات کو پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی زندگی فرمایا ترجمہ دنیا کی محبت اور روحانی اللہ تعالی مال و دولت جاتی ہے کی مدد

پڑھیں:

Rich Dad -- Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘ والد ٹھیکیدار تھا‘ جنرل ایوب خان کے دور میں ملک میں ترقیاتی کام شروع ہوئے‘ سڑکیں بنیں‘ ڈیم بننے لگے اور بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں بچھنے لگیں‘ والد نے اس دور کا بھرپور فائدہ اٹھایا‘ اس نے منگلا ڈیم سے مٹی نکالنے کا ٹھیکہ لیا‘ پھر سندھ میں اسکولوں کی عمارتیں بنانے اور آخر میں بلوچستان میں ہیلتھ یونٹس کی تعمیر کا کام سنبھال لیا‘ یہ کام، کام نہیں تھے‘ یہ سونے کی کانیں تھیں‘ والد ان کانوں کا جتنا سونا سمیٹ سکتا تھا اس نے سمیٹ لیا‘ وہ سمجھ دار آدمی تھا۔

 اس نے جو کمایا پراپرٹی میں لگا دیا‘ بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی خوب کیا‘ لڑکے ایچی سن میں پڑھے اور لڑکیوں نے کانونٹ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کی‘ والد نے بچوں کو دنیا کی ہر نعمت فراہم کی‘ یہ لوگ اس وقت ذاتی گاڑیوں پر اسکول اور کالج جاتے تھے جب نوے فیصد پاکستانی تانگوں پر سفر کرتے تھے‘ دنیا میں دولت 80 فیصد لوگوں کو خراب کر دیتی ہے‘ یہ لوگ شراب‘ شباب کباب اور جوئے کے عادی ہو جاتے ہیں یا پھر نمود ونمائش کے ذریعے اللہ کے دیے رزق کو آگ لگانے لگتے ہیں لیکن ان کا والد مختلف انسان تھا‘ دولت نے اسے خراب نہیں کیا‘ وہ آخری سانس تک سادہ اور شریف آدمی رہا‘ پانچ وقت کا نمازی‘ زندگی میں تین حج اور دس عمرے اور سگریٹ تک کو منہ سے نہیں لگایا‘ بچے بھی بہت اچھے تھے۔

 یہ پانچوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے چنانچہ خاندان کی زندگی میں ہر طرف امن ہی امن‘ سکون ہی سکون اور خوش حالی ہی خوش حالی تھی لیکن پھر اچانک ہر چیز بدل گئی‘ حالات نے پلٹا کھایا‘ خاندان ٹوٹا اور پانچوں بہن بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے‘ ان پانچوں کی باقی زندگی عدالتوں‘ کچہریوں اورو کیلوں کے دفتروں میں دھکے کھاتے گزری‘ کیوں؟ ہم اس کیوں کی طرف آنے سے پہلے اس واقعے کی طرف جائیں گے جو اس خوشحال فیملی کو بکھیرنے کی وجہ بنا‘ ان کا والد 1972ء میں اچانک فوت ہو گیا۔

 والد کی تدفین کے بعد جائیداد کے کاغذات اکٹھے کیے گئے‘ پتہ چلا والد نے کراچی‘ لاہور‘ کوئٹہ اور ڈھاکہ میں کروڑوں روپے کی کمرشل پراپرٹی چھوڑی‘ فیصل آباد کے مضافات میں زرعی زمین بھی تھی اور ملتان میں دو فیکٹریاں بھی۔ جائیداد کی تقسیم پہلا تنازع تھا جس نے ان بہن بھائیوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جنھیں ایک دوسرے کو دیکھے بغیر نیند نہیں آتی تھی‘ یہ تنازع بڑھتے بڑھتے دشمنی بن گیا‘ پانچوں بہن بھائی جائیداد میں حصے کے لیے عدالتوں میں گئے اور پھر اس کے بعد واپس نہ آئے‘ جائیداد کی دشمنی اب تیسری نسل میں منتقل ہو چکی ہے‘ اب کزن ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں‘ یہ لوگ بھی نہ جانے کب تک لڑتے رہیں گے۔

آپ یقینا ان پانچ بہن بھائیوں کو لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم کہیں گے لیکن میں ان کو مظلوم اور بے گناہ سمجھتا ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ میری نظر میں یہ لوگ لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم نہیں ہیں‘ ان کا والد تھا‘ وہ ایک ایسا ظالم اور لالچی شخص تھا جو دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اپنی اولاد کے لیے فساد کی بے شمار جڑیں چھوڑ گیا‘ یہ والد کی چھوڑی ہوئی وہ زمین‘ جائیداد‘ ملیں اور رقم تھی جس نے 53 برسوں تک بچوں کو اکٹھے نہیں بیٹھنے دیا‘ جس نے انھیں ایک دوسرے کی خوشیوں اور غمیوں میں بھی جمع نہیں ہونے دیا اور جس نے بہن کو بہن اور بھائی کو بھائی نہیں رہنے دیا چنانچہ آپ فیصلہ کیجیے‘ ظالم اور لالچی کون تھا‘ بچے یا والد؟ آپ جتنا غور کریں گے۔

 آپ بھی اتنا ہی والد کو اس سارے فساد کا ذمے دار قرار دیں گے‘ اب سوال یہ ہے‘ کیا یہ صرف ایک خاندان یا چند لوگوں کی داستان ہے؟ جی نہیں‘ آپ دائیں بائیں دیکھیں‘ آپ کو اپنے ہر طرف ایسے ہزاروں خاندان نظر آئیں گے جن کے والدین اپنے بچوں کے لیے عمر بھر خوشحالی جمع کرتے رہے‘ جو زندگی بھر اپنی آل اولاد کے لیے دولت کے انبار لگاتے رہے لیکن جوں ہی ان کی آنکھ بند ہوئی‘ ان کی وہ اولاد ان کے جنازے میں ہی لڑ پڑی جس کی خوشحال اور مطمئن زندگی کے لیے وہ تنکا تنکا جمع کرتے رہے تھے‘ ان کی اولاد پھر کبھی اکٹھی نہ بیٹھ سکی۔

 بچے عمر بھر وکیلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے رہے اور جب بچوں کا آخری وقت آیا تو ان کی کوئی بہن‘ بھائی‘ بھتیجا اور بھانجا ان کا منہ دیکھنے کے لیے نہیں آیا چنانچہ پھر ظالم کون ہوا‘ والد یا اولاد؟ آپ ان کے مقابلے میں اب ان لوگوں کو دیکھئے‘ جو اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں چھوڑ کر جاتے‘ یہ لوگ زندگی میں جتنا کماتے رہے‘ اتنا کھاتے رہے‘ کرائے کے چھوٹے مکانوں میں زندگی گزاری‘ گھر بنایا تو وہ بھی تنگ اور چھوٹا تھا‘ ایک آدھ گاڑی خریدی اور کپڑے اور جوتے بھی زیادہ نہیں تھے لیکن بچوں کی تربیت‘ تعلیم اور صحت پر بے انتہا توجہ دی‘ اپنی اولاد کو خود اسکول چھوڑ کر آئے‘ ان کے لیے کتابیں خریدیں‘ ان کے ساتھ میدانوں میں دوڑ لگائی‘ کرکٹ کھیلی‘ ہاکی اور فٹ بال سے لطف لیا‘ قہقہے لگائے‘ لطیفے سنائے اور باربی کیو کیا۔

 یہ لوگ جب یہ مشکل اور غریب زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی اولاد کے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی جسے یہ آپس میں تقسیم کرتے اور اس تقسیم کے دوران کوئی تنازع پیدا ہوتا چنانچہ اولاد نہ صرف والدین کے انتقال کے بعد بھی ایک دوسرے سے ملتی رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی محبت میں اضافہ بھی ہوتا گیا‘ آپ کبھی ملک میں ’’کزن میرجز‘‘ پر بھی تحقیق کریں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ’’کزن میرج‘‘ کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے دادا اور نانا ترکے میں زمین جائیداد چھوڑ کر نہیں جاتے‘ والدین نے کیونکہ دولت نہیں چھوڑی ہوتی چنانچہ بچے آپس میں ملتے رہتے ہیں اورجب ان کی اولاد جوان ہوتی ہے تو بھائی بھائی سے رشتہ مانگ لیتا ہے اور بہن اپنی بیٹی بھتیجے سے بیاہ دیتی ہے اور یوں محبت اور رشتے آگے بڑھتے جاتے ہیں جبکہ آپ ان کے مقابلے میں امیر خاندان کے بچوں کو اپنے کزنز کے گلے کاٹتے دیکھیں گے‘ یہ غریب اور امیر خاندانوں کی زندگی کا ایک پہلو ہے‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے۔

میں نے زندگی میں غریب والدین کے زیادہ تر بچوں کو ترقی کرتے دیکھا‘ آپ بھی سروے کریں‘ آپ بھی زندگی کے مختلف شعبوں کے کامیاب لوگوں کا بیک گراؤنڈ دیکھیں‘ آپ کو اسی فیصد کامیاب لوگوں کا بچپن غربت اور عسرت میں لتھڑا دکھائی دے گا‘ والد غریب تھا‘ وہ لوہا کوٹتا تھا‘ وہ موچی‘ کسان‘ سیلز مین یا فیکٹری مزدور تھا‘ وہ کلرک یا سیکشن آفیسر تھا‘ وہ مزارع تھا یا پھر وہ معمولی دکاندار تھا لیکن بیٹا سیٹھ بن گیا‘ مل مالک‘ اعلیٰ افسر‘ جرنیل‘ سائنس دان یا اداکار ہو گیا‘ آپ یہ ڈیٹا جمع کریں اور پھر اپنے آپ سے پوچھیں‘ کیوں؟ اور کیسے؟ آپ وجہ جان کر حیران رہ جائیں گے۔

 غربت میں دس ہزار خرابیاں اور ایک لاکھ خامیاں ہوتی ہیں لیکن اس میں ایک ایسی حیران کن خوبی ہوتی ہے جو دنیا کی کسی دوسری چیز میں نہیں پائی جاتی‘ غربت دنیا کا سب سے بڑا طعنہ ہے‘ یہ طعنہ انسان کے اندر غربت کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دیتا ہے اور انسان سینہ ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے‘ یہ غربت سے لڑ پڑتا ہے اور ہمیشہ کامیاب ہو جاتا ہے‘ میں غریب والدین کے کامیاب بچوں سے ہمیشہ عرض کرتا ہوں‘ آپ اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے غریب والد کا شکریہ ادا کریں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ کی یہ ساری کامیابی آپ کے والد کی غربت کا رد عمل ہے‘ آپ کو آپ کے ناکام اورغریب والد نے کامیاب اور امیر بنایا‘ آپ اگر بچپن میں غربت اور ناکامی نہ دیکھتے تو آپ کے دل میں کبھی ناکامی اور غربت کے خلاف اتنی نفرت پیدا نہ ہوتی اور آپ کے دل میں اگر یہ نفرت سر نہ اٹھاتی تو آپ کبھی کامیاب نہ ہوتے‘ میں اسی طرح سخت ماں باپ کے کامیاب بچوں سے بھی عرض کرتا ہوں‘ آپ اپنے والدین کی سختی کا شکریہ ادا کریں۔

 وہ اگر آپ پر سختی نہ کرتے تو آپ شاید گھر سے نہ بھاگتے‘ آپ شاید کتابوں‘ اسپورٹس اور کاروبار میں پناہ نہ لیتے اور شاید آپ میں حالات کے خلاف لڑنے کا اتنا حوصلہ پیدا نہ ہوتا‘ یہ حوصلہ‘ سختی کا مقابلہ کرنے کی یہ ہمت آپ کی کامیابی کا اصل گُر ہے اور آپ نے یہ گُر اپنے والدین کی سختی‘ ظلم اور منفی رویوں سے کشید کیا‘ وہ اگر نرم نہ ہوتے تو آپ اس وقت کامیابی کی آخری سیڑھی کی بجائے میاں چنوں میں بوریاں جھاڑ رہے ہوتے یا پھر آپ نے لاڑکانہ میں آلو چھولے کی ریڑھی لگائی ہوتی‘ یہ آپ کے والدین کی سختی تھی جس نے آپ کو زندگی کے نئے میدان تلاش کرنے پر مجبور کیا‘ یہ سختی تتلی کے انڈے کا وہ باریک سوراخ ثابت ہوئی جس سے نکلنے کی کوشش میں قدرت تتلی کے جسم پر خوبصورت پر اگا دیتی ہے‘ انڈے کا سوراخ جتنا چھوٹا ہوتا ہے‘ تتلی کے پر اتنے ہی خوبصورت اور لمبے ہوتے ہیں اور یہ سوراخ جتنا بڑا ہوتا ہے۔

 تتلی کے مرنے کے چانس بھی اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں‘ زندگی میں اگر سختی‘ غربت اور مسائل نہ ہوں تو شاید دنیا میں کوئی ایڈیسن‘ آئن سٹائن‘ نیوٹن‘ شیکسپیئر‘ مائیکل اینجلو‘ مارک زکر برگ اور بل گیٹس پیدا نہ ہو‘ دنیا کے زیادہ تر کامیاب لوگ سختی اور غربت کی پیداوار ہوتے ہیں‘ یہ مشکلات کے کوکون سے نکلتے ہیں چنانچہ آپ اگر امیر ہیں تو آپ جان لیں آپ کی جائیداد آپ کے بعد آپ کے بچوں کو اکٹھا نہیں بیٹھنے دے گی اور آپ اگر غریب ہیں تو آپ ہرگز ہرگز شرمندہ نہ ہوں‘ آپ کی یہ غربت آپ کے بچوں کی کامیابی کا ذریعہ بنے گی اور یہ ان کو ایک دوسرے سے جوڑے بھی رکھے گی‘ غریب باپ امیر باپ کے مقابلے میں ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • یقینی بنانا چاہیے کہ ٹیکنالوجی انسانوں اور کرہ ارض کے لیے مثبت کردار ادا کرے، احسن اقبال
  • صدر، وزیر اعظم کا پوپ کے انتقال پر اظہار افسوس
  • Rich Dad -- Poor Dad
  • پانی کے مسئلے پر ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے: احسن اقبال
  • تحریک طالبان پاکستان کا بیانیہ اسلامی تعلیمات، قانون، اخلاقیات سے متصادم قرار
  • باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسیحی آج ایسٹر کا تہوار منا رہے ہیں
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسیحی برادری آج ایسٹر کا تہوار منا رہی ہے
  • ڈیتھ بیڈ
  • تسخیر کائنات اور سائنسی ترقی کا لازم فریضہ