WE News:
2025-04-22@01:40:46 GMT

بلوچستان ماضی حال اور مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

ماضی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر خوشیاں منائی جا سکتی ہیں، اس پر جشن منایا جا سکتا ہے یا پھر اس پر آنسو بہائے جا سکتے ہیں، اس پر ماتم کیا جا سکتا ہے مگر اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے مگر بلوچستان کے حوالے سے یہ سچ زیادہ تکلیف دہ ہے۔

بلوچستان کے ماضی میں بہت ابہام بھی ہے، دھوکہ بھی ہے، بے وفائی ہے، تکالیف بھی ہیں، جبر بھی ہے اور صبر بھی ہے۔

تاریخ کا سبق یہی ہے کہ بلوچوں کے ساتھ وفا کرنے والے کم رہے ہیں اور جفا کرنے والے بے شمار۔ کوئی بلوچستان کی تاریخ کو خان آف قلات سے شروع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا۔ کوئی ماتم کرتا ہے کہ خان آف قلات نے دھوکہ دیا۔ کوئی ایوب خان کو دوش دیتا ہے اور کوئی ان کو ہیرو قرار دیتا ہے ۔ کوئی نیپ کی حکومت گرانے پر بھٹو کو الزام دیتا ہے، کوئی اکبر بگتی کو بلوچوں پر ستم کی وجہ قرار دیتا ہے۔ کوئی 70 کی دہائی کو خونچکاں قرار دیتا ہے، کوئی 80 کی دہائی پر دہائی دیتا ہے۔

 کوئی مشرف کو بگتی کا قاتل بتاتا ہے کوئی مشرف کو محسن بلوچستان بناتا ہے۔ کوئی گوادر کو گیم چینجر بتاتا ہے، کوئی اس کی بین الاقومی اہمیت کو وجہ عناد بتاتا ہے۔ کسی کے خیال میں ساری دنیا کی نظر بلوچستان کے پہاڑوں میں دفن معدنیات پر ہے، کوئی ان پہاڑوں کو فراریوں/ دہشتگردوں کی آماجگاہ بتاتا ہے۔ کوئی ایران کو دوش دیتا ہے کوئی افغانستان پر الزام دھرتا ہے اور کوئی چین پر انگلی اٹھاتا ہے۔  کوئی ماہ رنگ بلوچ کے حق میں ہے، کوئی دہشتگردوں کے ذریعے غیر بلوچوں کی نسل کشی پر پشیمان ہے۔ کوئی بی ایل اے کو نجات دہندہ کہتا ہے۔ کوئی  اس پر را کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتا ہے۔

تاہم سچ یہ ہے بلوچوں کے ساتھ وفا کسی نے نہیں کی۔ سرداری نظام نے بلوچوں کو صرف مطیع بنایا اور استعمال کیا۔ اس نظام نے بلوچوں کو کیا دیا اس سوال کے جواب میں تاریخ خاموش ہے۔ کوئی ڈکٹیٹروں کو الزام دیتا ہے، کوئی مفاد پرست سیاست دانوں کو دوش دیتا ہے، کسی کے خیال میں بیورو کریسی بلوچستان کو کھا گئی، کسی کے خیال میں افغان جنگ بلوچوں کو مروا گئی۔ کوئی کہتا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں گھس بیٹھیوں نے بلوچستان کو حق نہیں ملنے دیا۔ کوئی کہتا ہے کہ آزادی اظہار کی قدغنوں نے بلوچستان کی آواز بلند نہیں ہونے دی۔ یہ الزامات تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہی بلوچستان کا ماضی ہیں مگر ماضی کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

بلوچستان کے حال میں 2 قوتیں ایک دوسرے سے نبرد آزما دکھائی دیتی ہیں۔ ایک قوت کی وجہ سے دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بسوں سے غیربلوچوں کو نکال  کر قتل کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں نوجوان خواتین کو بلیک میل کر کے انہیں خود کش بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بی ایل اے اور بی وائے سی جیسی علیحدگی پسند آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ سیکورٹی فورسز پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ بلوچستان کے پہاڑوں سے خون بہہ رہا ہے۔ اور حال کی دوسری صورت یہ ہے کہ سعودی عرب ریکوڈک میں سرمایہ کاری کرنے پر رضامند دکھائی دیتا ہے۔ گوادر پورٹ دنیا کی آنکھ کا تارا بنتی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم اکثر بلوچستان کا دورہ کر کے بلوچ قیادت سے رابطہ کرتے ہیں، ان کے دکھ سکھ سنتے ہیں۔ وفاق بلوچستان کے حقوق پورے کرنے میں مدت سے سرگرم عمل ہے۔

2008 میں پیپلز پارٹی کے ’آغاز حقوق بلوچستان‘ سے لے کر آج تک  بلوچوں کو وفاق اپنا پیٹ کاٹ کر حصہ دے دہا ہے۔ بلوچستان سے وفاقی خزانے میں آنے والی رقم نہ ہونے کے برابر ہے مگر وفاق سے بلوچستان جانے والے فنڈز کثیر ہیں۔ ان سب اقدامات کے باوجود بلوچستان کی محرومی دور نہیں ہو رہی ہے۔

اگر بلوچستان میں منفی اور مثبت قوتوں کی جنگ اسی طرح چلتی رہی تو محرومی کے اس احساس میں اضافہ ہو گا، چاہے یہ کتنا ہی جھوٹ کیوں نہ ہو۔ ماضی اور حال کی تفصیل جان کر بلوچستان کے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

بلوچوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ بلوچستان کس کے ساتھ ہے۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ خود کش دھماکے کرنے والے بلوچستان سے مخلص ہیں؟ کیا شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو ذبح کرنے والے بلوچستان کے ہمدرد ہیں؟ کیا ٹرینوں کو ہائی جیک کرنے والے بلوچستان کا بھلا چاہتے ہیں؟ ان سب سوالات کے جوابات نفی میں ہیں۔ جو لوگ ان واقعات میں ملوث ہیں، دراصل وہ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں۔ جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں، انہوں نے جس دھرتی پر جنم لیا ہے، اسی دھرتی کے خلاف نعرے لگا  رہے ہیں۔ یہ بلوچستان سے دوستی نہیں بلکہ بلوچوں اور بلوچستان سے سب سے بڑی دشمنی ہے۔

ان دہشتگرد تنظیموں کو اگر بلوچستان کی فلاح عزیز ہوتی تو یہ بلوچستان میں پھیلی غربت کے خلاف احتجاج کرتے، بے روزگاری کے خاتمے کے لیے آواز بلند کرتے، جہالت کو ختم کرنے کے لیئے یونیورسٹیوں کا مطالبہ کرتے، بلوچستان کی ترقی کے لیے انفرا سٹرکچر کی بات کرتے مگر انہوں نے ریاست کے خلاف مزاحمت کا رستہ اپنایا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ریاست کسی بھی دہشتگرد گروپ سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ یہ ساری دنیا میں مسلمہ ہے کہ ریاست کی طاقت کو چیلنج کرنے والے نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔ خود دیکھیں کہ چین نے باغیوں کو کیسے کچلا، روس میں ریاست سے لڑنے والوں کا کیا حشر ہوا۔ امریکا میں کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ کیا بنی۔ برطانوی فسادات میں سرکاری املاک پر حملے کرنے والوں کا کیا حشر ہوا۔

یہ مثالیں اس لیے دینا ضروری ہیں کہ ریاست پاکستان بھی اپنی سلامتی کے معاملے میں مخلف نہیں ۔ یہاں بھی بات اگر ریاست کی سلامتی پر آ گئی تو کوئی دہشت گروپ نہیں بچے گا ۔ تو یہ سمجھ لیجیے کہ بلوچستان کا مستقبل صرف اور صرف  پاکستان سے وابستہ ہے۔ یاد رکھیے کہ جب سبز پرچم کو بلوچستان کے کونے کونے میں پوری حرمت سے لہرایا جائے گا تو بلوچستان دہشتگردی کے اس بھنور سے نکل آئے گا۔ یہی بلوچستان کے مسائل کا حل ہے یہی درس سات دہائیوں کی ریاضت کا پھل ہے۔

یہ واحد طریقہ ہے، جس سے بلوچستان کے ماضی کی تلخیاں دور ہوں گی، حال روشن بنے گا اور مستقبل تابناک رہے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

اردو کالم بلوچستان عمار مسعود.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اردو کالم بلوچستان بلوچستان کے بلوچستان کی بلوچستان کا بلوچستان سے کیا جا سکتا کرنے والے کہتا ہے رہے ہیں نہیں کی کے ساتھ دیتا ہے بھی ہے ہے اور رہا ہے ہے مگر

پڑھیں:

نکیال آزاد کشمیر۔۔۔ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں

اسلام ٹائمز: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ صاحب! ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں، یہ بچی ہمیں یہ سمجھا گئی ہے کہ فرقہ پرست مُلاّں یہ شعور نہیں رکھتے کہ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ ​​​​​​​بچیوں کے جنازوں پر فرقوں کی سیاست نہیں کی جاتی۔ بچیاں، محبت کا وہ معصوم روپ ہوتی ہیں، جو کسی ایک مسلک، قبیلے یا قوم کی ملکیت نہیں ہوتیں بلکہ وہ کائنات کے حُسن کی روشن تجلی ہیں۔ انکے قہقہے، انکی شرارتیں، انکے ننھے ہاتھوں کی معصوم دعائیں۔۔۔ بیٹیاں خدا کیجانب سے انسانوں کو دی گئی وہ رحمتیں ہیں، جنہیں کوئی دیوار، کوئی فرقہ، کوئی جغرافیہ محدود نہیں کرسکتا۔ جب ایک بچی فوت ہو جاتی ہے، تو گویا بہاروں کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے اور جب ایک معصوم بچی کے جنازے پر کوئی مولوی فساد کھڑا کرے تو یہ صرف ایک بدنصیب خاندان کا سانحہ نہیں ہوتا بلکہ ایسا فساد پورے معاشرے کے ماتھے پر شرمندگی کی ایک نمایاں انمٹ سلوٹ بن جاتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

دریڑی پلانی، نکیال گاؤں میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ سوشل میڈیا کے مطابق ایک حادثے یا ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں شدید زخمی ہونے والے مولانا چوہدری ساجد رحمانی کا کہنا ہے کہ پہلی ٹکر میں ہم لوگ معمولی زخمی ہوئے، لیکن ڈرائیور نے دوبارہ گاڑی ریورس کرکے مجھے، میری بیوی اور بچی پر گاڑی چڑھا دی، جس سے ہم شدید زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کے حوالے سے شیعہ علماء کونسل آزاد کشمیر کے وفد نے ڈپٹی کمشنر کوٹلی، میجر (ر) ناصر رفیق اور ایس ایس پی کوٹلی، عدیل لنگڑالوی سے اہم ملاقات کی ہے۔ شنید ہے کہ جس گاڑی نے موٹر سائیکل پر سوار مولانا کو ٹکر ماری، وہ نکیال کے ہی کسی شخص کی ملکیت ہے۔ دمِ تحریر مولانا چوہدری ساجد رحمانی کی بیوی اور بچی اس دارِ فانی سے کوچ کرچکی ہیں۔

یہ واقعہ فرقہ وارانہ منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ ریاستی اداروں کو کرنا چاہیئے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر میں مقامی سطح پر نہ فرقہ واریت کے نیٹ ورکس موجود ہیں اور نہ ہی مذہبی ٹارگٹ کلنگ کے۔ جب بھی ایسا کوئی واقعہ رونماء ہوتا ہے تو اُس کے تانے بانے آزاد کشمیر سے باہر کے دینی مدارس یا عسکری تنظیموں سے جا ملتے ہیں۔ اس سے قبل عباس پور اور مظفرآباد میں بھی ایسا بہت کچھ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہاں پر یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کا مشترکہ اور ازلی دشمن ہندوستان ہے۔ ماضی میں انڈین ایجنسی را کی گود میں بیٹھنے والے ہمارے نام نہاد مجاہد بھائیوں نے جس بے دردی سے  مساجد، امام بارگاہوں، اولیائے کرام کے مزارات، پبلک مقامات، صحافیوں، شاعروں، ڈاکٹروں اور پولیس و فوج کے اہلکاروں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ہے، اُسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس بربریت کا براہِ راست فائدہ ہندوستان کو پہنچا اور  بارڈر کے دونوں طرف کے کشمیری یہ نعرہ لگانا ہی بھول گئے کہ "کشمیر بنے گا پاکستان۔"

لوگوں کو یہ خوف لاحق ہوگیا کہ یہ نام نہاد "مجاہدین" اپنے جرگے بٹھا کر اور خود ساختہ عدالتیں لگا کر ہمیں درختوں سے لٹکا کر گولیاں ماریں گے اور ہماری خواتین و بیٹیوں کو کنیز بنا لیں گے۔ سانحہ اے پی ایس، سانحہ کوہستان، سانحہ بابوسر۔۔۔ یہ سب سانحات گواہ ہیں کہ ایسے عناصر انسانیت سے عاری ہوتے ہیں اور ان کے لیے نہ کوئی فرقہ اہم ہوتا ہے، نہ قوم، نہ عمر، نہ جنس، نہ بچہ اور نہ بچی۔۔۔۔ آزاد کشمیر جو اولیائے کرام کی سرزمین ہے، وہاں مولانا چوہدری ساجد رحمانی کی معصوم بچی کے جنازے کے موقع پر دھنگا فساد کرانے کی کوشش کوئی معمولی بات نہیں۔ نکیال سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ شاہ نواز علی شیر، جو کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کے ممبر اور بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری جنرل بھی ہیں، انہوں نے اپنے کالم میں بالکل درست کہا ہے کہ  "حکامِ بالا! اگر آج آپ خاموش رہے، تو کل یہ آگ کسی تھانے، مدرسے، مسجد، اسکول یا بازار تک پہنچ جائے گی۔ یہ محض ایک جنازے پر جھگڑا نہیں تھا؛ یہ معاشرے کے ضمیر کی موت، قانون کی بے بسی اور انسانیت کے چہرے پر ایک سیاہ داغ تھا۔

محترم کالم نگار کے مطابق، مولانا چوہدری ساجد رحمانی کا مسلک شیعہ ہے۔ موقع پر موجود ویڈیوز اور عینی شاہدین کے مطابق، اہلِ تشیع نے ہمیشہ کی طرح واضح کیا کہ جنازے دو ہی ہوں گے؛ ایک اہلِ سنت کے مطابق اور دوسرا اہلِ تشیع کے مطابق۔ اس وضاحت کے باوجود ایک مولوی صاحب نے اہلِ سنت کے عمومی اخلاق کے برعکس، یہ اعلان کیا کہ "نہیں، جنازہ تو صرف ایک ہی ہوگا اور وہ بھی صرف اہلِ سنت طریقے کے مطابق۔ ہم دوسرا جنازہ نہیں پڑھنے دیں گے۔" انسان کے اندر سب سے قیمتی چیز اس کا اخلاق ہے اور یہی اخلاق اس کی شناخت اور مقام کی گواہی دیتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ رویہ اہلِ سنت کا اخلاق نہیں ہوسکتا، کیونکہ آزاد کشمیر میں اہلِ سنت کے اندر مدبر، تعلیم یافتہ اور روشن فکر شخصیات کی کمی نہیں۔ 

اس موقع پر بچی کے ورثاء نے کہا کہ اگر ایک ہی جنازہ ہونا ہے، تو پھر ہمیں اپنا شیعہ جنازہ پڑھانے دیں اور اہلِ سنت حضرات ہماری چوتھی رکعت کے اختتام پر اپنی نماز مکمل کرلیں۔ اس پر وہی مولوی صاحب چِلانے لگے کہ صرف اہلِ سنت کی چار تکبیریں "اصلی" ہیں، اس لیے صرف وہی جنازہ پڑھائیں گے۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ یہ اخلاق اہلِ سنت کا نہیں۔ لہٰذا اس مولوی صاحب کے بارے میں تحقیق ہونی چاہیئے کہ کہیں وہ اس حسّاس سرحدی علاقے میں بھارتی انٹیلیجنس "را" کے لیے تو کام نہیں کر رہے؟ ان دنوں بلوچستان اور افغان بارڈر سمیت پورے پاکستان میں را کی سرگرمیوں اور ایجنٹوں کی موجودگی میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ ایسے میں نکیال جیسے حساس سرحدی علاقے میں ایسی حرکت کسی دشمن ملک کے ایجنڈے کا حصہ بھی ہوسکتی ہے۔

بہرحال عوامِ علاقہ کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ جب ہم انسانی احترام اور حب ُّ الوطنی کو فراموش کر دیتے ہیں، تو پھر ہم جنگ انسانیت اور اپنے ہی وطن کے خلاف لڑ رہے ہوتے ہیں، نہ کہ کسی مذہب یا فرقے کے خلاف۔ نکیال کے ایڈوکیٹ نے بجا طور پر مطالبہ کیا ہے کہ فرقہ واریت کو ہوا دینے والے عناصر کے خلاف فوری، غیرجانبدار اور مؤثر قانونی کارروائی کی جائے۔ جنازوں اور لاشوں کی بے حرمتی کو سختی سے روکا جائے۔ تحصیل و ضلع کی سطح پر بین المسالک ہم آہنگی کے لیے نمائندہ کمیٹی تشکیل دی جائے۔ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے SOPs مرتب کیے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو تحصیل و ضلعی سطح پر جمع کرکے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے، جس میں واضح کیا جائے کہ معصوموں کے جنازے، دعائیں اور تدفین کسی مسلک سے بالاتر ہیں۔

شاہ نواز علی شیر کا یہ جملہ ہر باشعور انسان کے دل کو چھو لیتا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایک ایسا ماحول چھوڑنا ہے، جہاں جنازے رشتوں کو توڑیں نہیں، جوڑیں۔ جہاں مذہب دلوں کو نرم کرے، سخت نہ کرے۔ جہاں تکبیر کی تعداد نہیں، دعا کی تاثیر دیکھی جائے۔ وہ اپنے سماج سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم سب کو یہ یاد دلانا ہوگا کہ اسلام اخلاص کا نام ہے، نمازِ جنازہ ایصالِ ثواب اور دعا کا عمل ہے، نہ کہ فرقوں کی برتری کا میدان۔ شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ کے اس جملے کے بعد میرے لکھنے کو کچھ نہیں بچتا کہ ان فتنہ گروں کے بیچ وہ معصوم بچی صرف ایک کفن چاہتی تھی، ایک دعا اور ایک پُرامن رخصتی۔ شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ صاحب! ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں، یہ بچی ہمیں یہ سمجھا گئی ہے کہ فرقہ پرست مُلاّں یہ شعور نہیں رکھتے کہ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔

بچیوں کے جنازوں پر فرقوں کی سیاست نہیں کی جاتی۔ بچیاں، محبت کا وہ معصوم روپ ہوتی ہیں، جو کسی ایک مسلک، قبیلے یا قوم کی ملکیت نہیں ہوتیں بلکہ وہ کائنات کے حُسن کی روشن تجلی ہیں۔ ان کے قہقہے، ان کی شرارتیں، ان کے ننھے ہاتھوں کی معصوم دعائیں۔۔۔بیٹیاں خدا کی جانب سے انسانوں کو دی گئی وہ رحمتیں ہیں، جنہیں کوئی دیوار، کوئی فرقہ، کوئی جغرافیہ محدود نہیں کرسکتا۔ جب ایک بچی فوت ہو جاتی ہے، تو گویا بہاروں کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے اور جب ایک معصوم بچی کے جنازے پر کوئی مولوی فساد کھڑا کرے تو یہ صرف ایک بدنصیب خاندان کا سانحہ نہیں ہوتا بلکہ ایسا فساد پورے معاشرے کے ماتھے پر شرمندگی کی ایک نمایاں انمٹ سلوٹ بن جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فضل الرحمان حافظ نعیم ملاقات: فلسطین کا مسئلہ اجاگر کرنے کے لیے ’مجلس اتحاد امت‘ کے نام سے فورم بنانے کا اعلان
  • بچوں کے روشن مستقبل کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائیگا :  پولیو کے مکمل خاتمہ تک چین سے نہیں بیٹھیں گے : وزیراعظم : لاہور سے باکو پیآئی اے کی براہ ست پر وازوں کا آگاز سفارتی فتح قرار
  • بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش
  • ہمارا آئین اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے: صدر آصف زرداری
  • امریکا و ایران کا نیو کلیئر ڈیل سے متعلق مستقبل میں معاہدہ کرنے کے اصولوں پر اتفاق
  • امریکا و ایران کا نیوکلیئر ڈیل سے متعلق مستقبل میں معاہدہ کرنے کے اصولوں پر اتفاق
  • نکیال آزاد کشمیر۔۔۔ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں
  • مستقبل کے ‘فیب فائیو’ کون ہوں گے؟ کین ولیمسن نے بتا دیا
  • نیا واٹس ایپ فراڈ: تصویر ڈاؤن لوڈ کرنے سے فون ہیک اور بینک اکاؤنٹ خالی ہونے کی حقیقت کیا؟
  • بلوچوں کا مطالبہ سڑکوں کی تعمیر نہیں لاپتہ افراد کی بازیابی ہے، شاہد خاقان عباسی