Express News:
2025-12-13@23:09:38 GMT

بدلتے ہیں رنگ سابق کرکٹرز کیسے کیسے

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

کراچی:

آج میں آپ کو کرکٹ تجزیہ نگار بننے کا فارمولہ بتانے والا ہوں،مجھے پتا ہے کہ آپ میں سے بیشتر اس کھیل کو گہرائی تک سمجھتے ہیں لیکن سابق کرکٹر کا لیبل یا کسی میڈیا ہاؤس میں ملازمت نہ کرنے کے سبب تجزیے صرف دوستوں کی محفل تک ہی محدود رہتے ہوں گے۔

کبھی کسی ایک ٹیسٹ کھیلے ہوئے سابق کھلاڑی کو جب ٹی وی پر چیختے چلاتے سنیں تو یہ خیال ضرور آتا ہو گا کہ اسے کس نے یہاں بٹھا دیا ،اس کا جواب ہے قسمت، ماضی میں بیچارے سابق کھلاڑیوں کو کوئی نہیں پوچھتا تھا ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی دنیا ویران ہو جاتی تھی۔

پھر الیکٹرونک میڈیا آیا تو سب کی چاندی ہو گئی،ٹی وی پر تبصروں کے پیسے ملنے لگے،ایسے میں پی سی بی کے خلاف بھی باتیں ہوئیں تو ملازمت دے کر نوٹوں سے منہ بن کرائے جانے لگے،یہ فارمولہ چل گیا۔

سابق کرکٹرز نے بورڈ کی نظروں میں آنے کیلیے تنقید شروع کی تو انھیں کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کیا جاتا رہا،یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن ایڈوانس طریقہ استعمال کرتے ہوئے اب بعض کھلاڑیوں کو ملازمتیں بھی دے کر خود ٹی وی چینلز پرتبصروں کی اجازت دی گئی تاکہ بورڈ کا دفاع بھی ہوتے رہے ورنہ ماضی میں تو کوئی سابق کھلاڑی پی سی بی کا ملازم بنے تو ٹی وی پر کام نہیں کر سکتا تھا۔

ارے وہ فارمولے والی بات تو رہ ہی گئی،آپ کو کرنا صرف یہ ہے کہ ٹاس جیت کر اپنی ٹیم پہلے بیٹنگ کرے اور ہار جائے تو کہیں یہی فیصلہ شکست کی وجہ بنا،بابر اعظم اور محمد رضوان کو کھلائیں تو کہیں سست بیٹنگ کی وجہ سے ہار گئے ،نہ کھلائیں تو کہیں باہر بٹھایا اس لیے نہ جیت سکے۔

جونیئرز زیادہ ہوں تو کہیں اتنے سارے نئے کھلاڑی کھلا دیے،کم ہوں تو کہیں ینگسٹرز کو موقع ہی نہیں دیا جا رہا، نئی ٹیم جیتے تو کہیں ٹیلنٹ کی بھرمار ہے، ہارے تو بولیں ہمارے پاس نئے پلیئرز ہی نہیں ہیں۔ 

مجھے حال ہی میں کسی نے سرکاری ٹی وی کے اسپورٹس اینکرز و تجزیہ نگاروں کی تنخواہوں کی لسٹ بھیجی جسے دیکھ کر حیران رہ گیا،6،7 لاکھ سے کم تو کوئی بات ہی نہیں کر رہا،چیخنے چلانے والے بھائی کی تنخواہ بھی اتنی ہی ہے۔

کچھ خاتون اینکرز بھی پیسے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہیں ،یہ سب رقم آپ اپنے بجلی کے بلز کے ساتھ بھر رہے ہیں،خیر بات سابق کرکٹرز کی ہو رہی تھی،یہ ہوا کے رخ پر چلتے ہیں،اگر ٹیم جیت جائے تو تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں ہارے تو ملک میں کرکٹ ہی ختم ہو جاتی ہے۔

چیمپئنز ٹرافی میں شکست کے بعد ایک سابق کپتان نے بیان دیا کہ 6،7 کھلاڑیوں کو بدل دینا چاہیے،چند دن بعد وہی کہہ رہے تھے کہ موجودہ کرکٹرز پر ہی اعتماد رکھنا چاہیے،بیشتر کا خیال تھا کہ ملک میں نیا ٹیلنٹ ہی موجود نہیں۔

لیکن ایک میچ کے بعد ہی انھیں حسن نواز میں جاوید میانداد کی جھلک دکھائی دینے لگی،اب اگلا میچ ہار گئے تو پھر ٹیم کی دھجیاں اڑائی جائیں گی، محمد رضوان نے عمرے کی ادائیگی کے بعد قومی ٹی ٹوئنٹی کپ نہیں کھیلا تو ایک سابق کرکٹر (اسٹار لکھنا مناسب نہیں لگتا) ان کیخلاف ایکشن کا مطالبہ کرنے لگے۔

قسمت سے بڑے چینل کی اسکرین مل جائے تو لوگ خود کو کیا سمجھنے لگتے ہیں،سر پوچھ تو لیتے کیوں نہیں کھیلا، کوئی تو وجہ تھی، مسئلہ یہی ہے ہمارے سابق کرکٹرز درست تجزیہ  نہیں کرتے۔

اگر ٹیم ہار بھی جائے تو دنیا ختم نہیں ہو جاتی لیکن بعض سابق کھلاڑی ٹی وی پر ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں جنھیں سن کر اشتعال میں آئے لوگ اگر ٹیم کے کسی رکن تو باہر دیکھیں تو منہ ہی نوچ لیں۔

متوازن سوچ کے حامل تجزیہ نگار کم ہی نظر آئیں گے،ہوا کے رخ پر چلنا بڑی بات نہیں،سچی بات مہذب انداز میں کرنا ہی اصل کامیابی ہے لیکن مسئلہ ہمارا بھی ہے،جو بندہ جتنی چیخ و پکار کرے دوسروں کی پگڑی اچھالے اسے ہی ریٹنگ ملتی ہے۔

کئی مثالیں موجود ہیں آپ خود جانتے ہیں،جس طرح عیدکے مواقع پر درزیوں یا۔۔ کا سیزن آتا ہے اسی طرح جب کوئی آئی سی سی ایونٹ ہو تو سابق کرکٹرز کی لاٹری کھل جاتی ہے،دو میچز کھیلنے والے بھی فارغ نظر نہیں آتے،پھر وہ ٹی وی پر بیٹھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں جیسے اپنے دور میں بریڈمین کے ہم پلہ تھے یا شوکیس میں ٹرافیز کا ڈھیر لگا ہو۔

چیمپئنز ٹرافی کو ہی دیکھ لیں شکست کے بعد جو لوگ ٹیم پر آگے بڑھ چڑھ کر تنقید کر رہے تھے وہ خود اپنے دور میں کوئی بڑا ٹائٹل نہیں جیت سکے تھے،ان سے پوچھیں کہ بھائی آپ نے کتنی بار بھارت کو ہرایا تھا تو بغلیں جھانکیں گے۔

تنقید کرنا مشکل نہیں لیکن ساتھ اصلاح بھی کرنی چاہیے،الفاظ کا چناؤ بھی درست کریں،آپ کو بابر اعظم یا شاہین آفریدی کی کوئی خامی نظر آئے تو انھیں براہ راست فون کر کے بھی بتا سکتے ہیں لیکن کوئی ایسا نہیں کرتا،کسی کو شکوہ ہوگا کہ فلاں نے مجھے سلام نہیں کیا یا میں نے اپنے بندے کو ایجنٹ بنوانے کا کہا تو کیوں نہیں بنایا اب دیکھو میں اسے ٹی وی پر کیسے اڑاتا ہوں۔

تنقید بھی ایجنڈے کے تحت ہوتی ہے،اگر کوئی پسند ہو تو اسے ٹیم میں واپس لانے یا کپتان بنانے کیلیے باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے،پسند نہ ہو تو اس کے ہیئر اسٹائل پر بھی تنقید شروع کر دیتے ہیں، ماضی میں تو یہاں تک ہوتا رہا کہ کھانے کے بل کی طرح ٹی وی پر بورڈ کے دفاع میں بولنے والے سابق کرکٹر رسیدیں جمع کراتے تھے کہ فلاں چینل پر بیٹھا اتنے روپے،فلاں جگہ گیا اتنے روپے،اسی کلچر نے سابق کرکٹرز کی ساکھ ختم کر دی،اب چند ہی ہوں گے جن کے تبصروں کو سنجیدگی سے سنا جاتا ہوگا۔

ایک فتح کے بعد دیکھ لیں جو ہر وقت انگارے برساتے تھے ان کے منہ سے پھول جھڑنے لگے،اب ٹیم چوتھا میچ اور سیریز ہار گئی تو وہی دوبارہ سے ملک میں کرکٹ کو پھرختم قراردیتے نظر آئیں گے۔

کاش یہ کھلاڑی ایجنڈے یا مفادات سے ہٹ کر سوچتے تو ہماری کرکٹ اتنی پیچھے نہیں جاتی، ویسے حارث رؤف نے غلط نہیں کہا تھا کہ پاکستان میں لوگ ٹیم کے ہارنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ تنقید کے نشتر برسا سکیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سابق کرکٹرز کی سابق کھلاڑی ٹی وی پر جائے تو تو کہیں نہیں کر کے بعد

پڑھیں:

میرٹ کی جنگ میں کراچی کے طلبہ تنہا؛ کیا کوئی سنے گا؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251212-03-3
کراچی کے تعلیمی مستقبل کے ساتھ یہ مسلسل ناانصافی کب ختم ہوگی؟ یہ شہر جو پورے ملک کی معاشی ریڑھ کی ہڈی ہے، جہاں کے بچے روزانہ ہزاروں مشکلات، ٹریفک، شور، اکیڈمک پریشر، مہنگی کوچنگ، اور محدود تعلیمی سہولتوں کے باوجود شب و روز محنت کرتے ہیں، انہیں ہر سال صرف اس لیے دھکیل دیا جاتا ہے کہ ان کے پاس نہ طاقت ہے نہ سفارش۔ کراچی کے تعلیمی ادارے برسوں سے زبوں حالی کا شکار ہیں، سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کمی، لیب اور لائبریری کا فقدان، اور امتحانی سسٹم کی سختی کے باوجود یہاں کے طلبہ بہتر سے بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ جب بات سب سے اہم مرحلے میڈیکل داخلوں پر آتی ہے تو ان کی محنت کو بیرونی امیدواروں کی جعلی رپورٹس، غیر منصفانہ میرٹ، اور کمزور نظام کے نیچے دفن کر دیا جاتا ہے۔ کراچی کے بچوں سے صرف اکیڈمک نہیں بلکہ بنیادی انصاف بھی چھینا جا رہا ہے، اور یہ ظلم اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔

کراچی کے سرکاری تعلیمی بورڈ سے انٹر کرنے والے طلبہ و طالبات ایک بار پھر میڈیکل کالجوں میں داخلوں سے محروم رہے اور یہ المیہ نئی بات نہیں بلکہ کئی برسوں سے جاری حقیقت ہے۔ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کی 3 دسمبر 2025 کو جاری کردہ ایم بی بی ایس داخلہ فہرست نے شہر بھر میں شدید بے چینی پیدا کی ہے، کیونکہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی کراچی بورڈ کے طلبہ بڑے پیمانے پر نظرانداز ہوئے ہیں۔ میرٹ پالیسی کی شفافیت، انتظامی ساکھ اور داخلہ طریقہ کار پر سنگین سوالات نے نہ صرف والدین کو پریشان کیا ہے بلکہ کراچی کے تعلیمی مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

داخلہ فہرست میں ایسے امیدوار شامل ہیں جن کے انٹرمیڈیٹ کے نمبر غیر معمولی حد تک زیادہ ہیں، ایسے نمبر جو کراچی کے سخت امتحانی معیار میں لینا تقریباً ناممکن ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس کراچی کا انٹر نتیجہ اس سال بھی کم رہا جبکہ ایم ڈی کیٹ 2025 کو پورے ملک میں سخت ترین امتحان قرار دیا گیا تھا، مگر حیرت انگیز طور پر وہی امیدوار کراچی کی 860 ایم بی بی ایس سیٹوں میں سے 500 سے زائد سیٹیں لے اڑے۔ یہ توازن خود بخود اس نظام کی شفافیت پر بڑا سوال اُٹھاتا ہے جہاں کراچی کا طالب علم اپنی اصل محنت کے باوجود مقابلے سے باہر کر دیا جاتا ہے۔

تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اندرونِ سندھ کے درجنوں امیدواروں نے جعلی کراچی ڈومیسائل بنوا کر کراچی کوٹے پر داخلے حاصل کیے۔ یہ صرف ضابطہ جاتی غلطی نہیں بلکہ کراچی کے حق پر براہ راست ڈاکا ہے۔ ڈومیسائل ویریفکیشن بورڈ اور داخلہ کمیٹیاں اپنی بنیادی ذمے داری نبھانے میں بری طرح ناکام رہیں۔ مزید افسوسناک انکشاف یہ ہے کہ کچھ ایسے امیدوار بھی داخلہ فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے ایم ڈی کیٹ 2025 کا امتحان ہی نہیں دیا تھا، مگر پھر بھی انہیں میڈیکل کالجوں میں نشستیں الاٹ کر دی گئیں۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی کی انتظامیہ داخلی بے ضابطگیوں، مبینہ کرپشن اور بدترین غفلت میں مبتلا ہے۔ یہ معاملہ صرف ڈاؤ تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، وفاقی وزیر ِ صحت، اور سندھ کے صوبائی وزیر ِ صحت کی نااہلی کا ثبوت بھی ہے۔ اگر ادارے اپنی نگرانی، اسکروٹنی اور میرٹ پالیسی پر عمل درآمد کو سنجیدگی سے لیتے تو ایسے جعلی ڈومیسائل، مشکوک اسناد اور غلط میرٹ لسٹیں کبھی سامنے نہ آتیں۔ لیکن افسوس کہ کراچی کی آبادی اور اس کے وسائل کو استعمال کرنے والے ادارے جب کراچی کی نوجوان نسل کے مستقبل پر بات آتی ہے تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔

کراچی کے عوام کا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ شہر سے مینڈیٹ لینے والی سیاسی جماعتیں اس سنگین ناانصافی پر ایک لفظ تک نہیں بول رہیں۔ ہر انتخابی جلسے میں کراچی کے حقوق کا راگ الاپنے والے رہنما آج ان بچوں کی آواز بننے کے لیے تیار نہیں۔ گزشتہ سال بھی یہی مسئلہ سامنے آیا تھا، عدالتوں تک بات گئی، میڈیا نے اُٹھایا، احتجاج ہوئے، مگر اصلاحات نہ ہوئیں اور اس سال دوبارہ وہی معاملہ سامنے آ گیا۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ کراچی کا مینڈیٹ لینے والے اس وقت تو بڑے دعوے کرتے ہیں جب ووٹ چاہیے ہوتا ہے، مگر جب شہر کا مستقبل لٹ رہا ہو تو سب اپنی ذمے داریوں سے نظریں چرا لیتے ہیں۔

کراچی کے طلبہ آج دہائی دے رہے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو آنے والے برسوں میں صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ ایسا لگتا ہے جیسے کراچی کے بچوں کے ساتھ ایک منظم ظلم کیا جا رہا ہو، اور ان کی محنت کو کسی منفی نظام کے نیچے روند دیا جاتا ہو۔ طلبہ نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر ِ اعلیٰ سندھ، اور پی ایم ڈی سی سے فوری شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے تاکہ کراچی کے بچوں کو ان کا حق مل سکے۔ یہ صرف داخلوں کا مسئلہ نہیں بلکہ نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ اگر اس شہر کے بچوں کے ساتھ یہ ناانصافی اسی طرح جاری رہی تو کراچی کی محنتی نسل مایوسی، بیگانگی، اور عدم اعتماد کا شکار ہوتی چلی جائے گی، اور یہ وہ نقصان ہوگا جس کا ازالہ صرف بہتر پالیسیوں سے نہیں بلکہ مضبوط اور منصفانہ نظام سے ہی ہو سکے گا۔ کراچی صرف احتجاج نہیں چاہتا، کراچی انصاف چاہتا ہے اور وہ بھی اب، اسی وقت، بغیر کسی تاخیر کے۔

دلشاد عالم سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • تہران اور بیجنگ کے تعلقات کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے، چینی سفیر
  • سارہ علی خان کے سابق بوائے فرینڈ ویر پہاڑیہ اور تارا ستاریا کی محبت کا آغاز کیسے ہوا؟
  • انڈے کھانے کیلئے محفوظ ہیں یا نہیں، ابالنے سے قبل کیسے معلوم کیا جائے؟
  • بی بی ایل میں پاکستانی اسٹارز کی شمولیت، ایرون فنچ نے کھلاڑیوں کو گلوبل اسٹارز قرار دے دیا
  • فیض حمید کی سزا کسی حکومت کی فتح نہیں: طارق فضل چوہدری
  • روس ڈونباس پر کنٹرول چاہتا ہے لیکن اسے قبول نہیں کریں گے، زیلینسکی
  • میرٹ کی جنگ میں کراچی کے طلبہ تنہا؛ کیا کوئی سنے گا؟
  • چین: 30سال بعد شہری کے پیٹ سے فعال لائٹر برآمد
  • چین: فعال لائٹر شہری کے پیٹ سے 30 سال بعد برآمد
  • جیل ذرائع نےبانی پی ٹی آئی کی اڈیالہ سے کہیں اور منتقل کی تردید کردی