بوڑھا دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا!
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
ب نقا ب /ایم آر ملک
خواب اور تعبیر
وہ امرتسر کا ایک گائوں تھا جس کے زیادہ باسی ہندو اور سکھ تھے ، مسلمانوں کے چند گھر انے تھے ، جن میں ہمارا گھرانہ بھی شامل تھا، چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا میں تھا ، میری بڑی بہن جس کی عمر 24سال کے قریب تھی میرے چچا زاد کی منکوحہ تھی پھر میرا بھائی تھا جو تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا اور میرے باپ کی آنکھوںکا تارا !میرا باپ پکا کانگریسی تھا اور گائوں کا ایک بڑا زمیندار ،میرا بھائی جو گھر میں سب سے زیادہ میرے باپ کا لاڈلا تھا مسلم ا سٹوڈنٹس فیڈریشن کا سب سے سرگرم نوجوان تھا ۔
قائد اعظم محمد علی جناح اُن دنوں دو قومی نظریئے کے پرچارک تھے، اُن کی کہیں بھی تقریر یا جلسہ ہوتا میرا بھائی اُس میں ضرور شامل ہوتا۔ گھر میں چولہے کے گرد جب سب گھر والے جمع ہوتے ،میرے بھائی اور والد کے درمیان مسلم لیگ اور کانگریس کے متضاد نظریات اکثر زیرِ بحث ہوتے، میرا باپ کہتا کہ وہ کلین شیو وکیل محمد علی اس ملک کا بٹوارہ کرنا چاہتا ہے لیکن برِ صغیر پر ساڑھے سات سو برس تک مسلمان حکمران رہے ،بابری مسجد اور لال قلعہ ہمارا ہے ہم اپنی جائیدادیں چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے، میرا بھائی کہتا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں ہندو مسلمان کے وجود کو کسی طور برداشت نہیں کرتا ہمارا مذہب الگ ،رہن سہن ،تہذیب و تمدن الگ الگ ،قائد اعظم محمد علی جناح کروڑوں محکوم مسلمانوں کی جنگ لڑ رہے ہیں انگریز یہاں سے جانے کے بعد ہمیں ہندوئوں کی غلامی میں دے جائیگا، مجھے نہیں یاد میرے باپ نے کبھی اس بحث کے دوران ڈانٹا ہو میرے بھائی نے جب ان موضوعات کو مسلم لیگ کے جلسوں میں موضوع تقریر بنایا توہندو اور سکھ ہمارے مخالف ہوگئے ۔
ایک روز گائوں کے ہندوئوں اور سکھوں نے اکٹھ کیا اور اس اکٹھ میں میرے باپ کو بلایا، میرا باپ جب چوپال میں پہنچا تو ہندوئوں اور سکھوں کے تیور بدلے ہوئے تھے گائوں کے ایک سر پنچ رنجیت سنگھ نے میرے باپ پر برستے ہوئے کہا کہ کرم داد تمہارا بیٹابہت پر پرزے نکال رہا ہے اس کی زبان کانگریس کے خلاف قینچی کی طرح چلنے لگی ہے اسے لگام دو کرم داد !اُوطاق میں بیٹھے ہندوئوں کا رویہ بھی جارحانہ تھا میرا باپ واپس آیا تو اُس نے میرے بھائی سے کسی بات کا ذکر نہ کیا عام انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ بھاری اکثریت سے جیتی یہ 23مارچ 1940کو پاس ہونے والی قرارداد کا شاخسانہ تھا 1947کا ماہ جولائی تھا جب پورے گائوں نے ہمارا سوشل بائیکاٹ کر دیا ،اگست میں علیحدہ وطن بنا تونواحی علاقوں سے سکھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی خبریںآنے لگیںایک روز میرے باپ نے میرے بڑے بھائی اور ماں سے کہاکہ میری بڑی بہن کواُس کے سسرال چھوڑ آئو ۔
دوسرا روز کسی قیامت سے کم نہ تھا سورج نکلنے سے پہلے گائوں کے ایک شخص نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹا کر کہا کہ کرم داد ٹرپئی جانے والی شاہراہ پر تمہارے بیٹے اور بیوی کو قتل کردیا گیا ہے، میں اور میری ااٹھارہ سالہ بہن سکتے کی حالت میں تھے میرے بڑے بھائی کے جسم کے چھوٹے چھوٹیٹکڑے شاہراہ کے کنارے بکھرے پڑے تھے ،قاتلوں نے ماں پر یہ احسان کیا کہ اُس کا سر کاٹ کر ایک درخت پر لٹکا دیا اور سرکٹا دھڑ درخت کے نیچے پڑا تھا مگر میری بڑی بہن غائب تھی ۔میں نے اُس روز اپنے باپ کا پہاڑ حوصلہ دیکھا تھا ،وہ میرے بھائی کے تمام اعضاء ایک گٹھڑی کی شکل میں باندھ کر گھر لائے اور سربریدہ میری ماں کی لاش بھی ہمارے صحن میں پڑی تھی میرے باپ نے وہ گٹھڑی کھولی اور میرے بھائی کے اعضاء جوڑنے لگا میرا باپ بھائی کے ایک ایک اعضاء کو اُٹھا کر نام لے رہا تھا تمام اعضاء کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے بعد وہ سفید کفن لائے اور میرے بھائی کی لاش کو لیکر کمرے میں اپنے آپ کو مقید کر لیا دو تین گھنٹے کے بعد جب میرا باپ کمرے سے باہر نکلا تو اُس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور میرے بھائی کی لاش بوری کی شکل میں سوئی دھاگے سے سلی ہوئی تھی ۔
پھر چوتھے روز میری بہن کی برہنہ لاش ملی جنگلی درندوں کے علاوہ انسانی درندوں نے ظلم کا ہر حربہ آزمایا تھا گائوں کے سر پنچوں نے ایک بار پھر میرے باپ کو بلا کر باور کرایاکہ کرم داد یہ سب تمہارے بیٹے کا کیا دھرا ہے میرا باپ وہاں سے سر جھکا کر چلا تو راستے میں اُسے ہندو اور سکھ نوجوان آوازے کستے اور قہقہے لگاتے ملے یہ وہی نوجوان تھے جنہوں نے ہمارا پورا پریوار مار ڈالا تھا دوسرے روز میرے باپ نے مجھے کہا کہ تم تیاری کرو پرسوں ہم دونوں یہاں سے کوچ کر جائیں گے ۔
لیکن ابا جان باجی !
وہ نہیں جائے گی میں اُسے آج رات قتل کر دوں گا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ بننے سے بہتر ہے وہ قتل ہو جائے ۔اُس روز میں اپنی بڑی بہن کا چہرہ دیکھتا رہا تھا وہ ہاتھ جنہوں نے مجھے اُٹھا کر گود کھلایا تھا اُنہیں کچھ خبر نہ تھی ۔
آدھی رات تک میرا باپ چھری تیز کرتا رہا مجھے یاد ہے میری بہن نے پوچھا تھا کہ ابا جان آپ یہ چھُری کیوں تیز کر رہے ہیں انہوں نے جھوٹ بولتے ہوئے کہاتھا کہ بیٹی کہیں ہم پر رات کو دشمن حملہ آور نہ ہو جائیں لیکن دوسرے روز میری بہن سلامت تھی میرے باپ نے مجھے کہا تھا کہ میرا حوصلہ نہیں پڑا ،پھر دوسری شب جب ہم تینوں کمرے میں سو رہے تھے میرے باپ نے چپکے سے مجھے ہلا کر اُٹھایا میری بہن کی چارپائی اور کمرے کی دوسری اشیاء پر مٹی کاتیل چھڑکا مجھے باہر نکالنے کے بعد میرے باپ نے کمرے میں آگ لگا دی اور باہر سے دروازے کو کنڈی لگا دی میری معصوم بہن کی چیخیں کمرے میں گونج رہی تھیں کمرہ جل گیا تو اُس کی چیخیں بھی دم توڑ گئیں۔ اپنے گھروں پر حسرت بھری نظریں ڈالنے کے بعد ہم وہاں سے روانہ ہوئے ،ایک روز ایک قافلے کے ہمراہ ہم نے پاک سر زمین پر قدم رکھے یہاں آکر میرے باپ نے اپنی زمین کا کلیم داخل کرایا جس کی پیشیاں بھگتتے بھگتتے وہ مٹی میں جا سویا، پاکستان کے قیام کے ساتھ جہیز میں آنے والے روایتی جاگیرداروں نے جن کے بارے میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ یہ کھوٹے سکے ہیں، آر ایل ٹو میں ردوبدل کرکے ہمارا کلیم اپنے نام کرا لیا تعلیم کے حصول کے بعد میں نے شادی کر لی میرے دو بیٹے ہوئے جنہیں میں نے پڑھایا لکھایا اعلیٰ تعلیم دلائی میرا ایک بیٹا مجاہد بن گیا جبکہ دوسرا اپنی ڈگریاں اُٹھائے جس دفتر بھی پہنچا اس کی ملازمت میں رکاوٹ دو بڑے ناسو ر رشوت اور سفارش بن گئے، ایک روز اُس نے بیروزگاری سے تنگ آکر ایک درخت کے ساتھ جھول کر خود کشی کر لی، جبکہ نائن الیون کے نام نہاد واقعہ کے بعد دوسرا بیٹا مجاہد سے دہشت گرد بن گیا ۔
23مارچ 1940کو میری آنکھوں نے جو خواب دیکھا کیا اُس کی تعبیر یہی تھی ؟کیا یہی وہ پاکستان تھا جس کیلئے جاگ جاگ کر جناح کی آنکھوں کے سوتے خشک ہو گئے ؟میرے پاس بوڑھے کے کسی سوال کا بھی جواب نہیں تھا ۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: میرے باپ نے میرے بھائی میرا بھائی بھائی کے گائوں کے میرا باپ اور میرے ہندو اور ایک روز بڑی بہن تھا کہ کے بعد
پڑھیں:
57 سال کے میرے اثاثے
میں سچ کہوں گی، سچ کے سوا اور کچھ نہیں کہ میری ماں نے میری گھٹی میں سچ ہی گھول کر پلایا تھا۔
سامعین ذی وقار! اس ضمن میں، میں سب سے پہلے ماہنامہ ’’اطراف‘‘ کے مدیر اعلیٰ محمود شام کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتی ہوں، ’’مبارکاں!‘‘
محمود شام کو نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے، علم و ادب کی خدمت کرتے ہوئے:
نصف صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
اپنی سالگرہ کے موقعے پر انھوں نے ہم سب قلم کاروں کو ایک کتابچہ بعنوان ’’57 سال کے میرے اثاثے‘‘ مرحمت فرمایا تھا جس میں ان کی تحریر کردہ چالیس کتابوں کے نام اور تعارف موجود ہے کہ وہ کن حالات کے تناظر میں تخلیق کے مرحلے سے گزریں۔
چالیسویں کتاب ’’شام بخیر‘‘ جوکہ خود نوشت ہے اور 2023 میں اس کی اشاعت ہوئی، ’’شام بخیر‘‘ کے عنوان سے ایک ناول بھی لکھ رہے ہیں، جلد ہی قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا انشا اللہ۔ محمود شام اپنی خداداد صلاحیتوں، مثبت سوچ اور اعلیٰ فکر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی نگارشات قلم بند کررہے ہیں۔
ان کے ناول ہوں،کالم اور تبصرے اور تجزیے ہوں یا وہ ہفتے میں 2 بار جمعرات اور اتوار کو حالات حاضرہ پر گفتگو فرمائیں، شاعری نذر حاضرین کریں، ان کی ہر تحریر مدلل اور فلاح کی طرف گامزن ہے، انھوں نے اپنے دل و دماغ میں ’’حی علی الفلاح‘‘ کی گونج اتار لی ہے۔
انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وطن عزیز تنزلی کی طرف گامزن ہے لیکن وہ امید کا دامن نہیں چھوڑتے ہیں وہ امید جو سحر کا پتا دیتی ہے۔انھوں نے صحافت میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، وہ بے باک، نڈر اور باہمت صحافی ہیں۔
ان کی صحافت کا دائرہ ممالک غیر تک جا پہنچا ہے اسی وجہ سے ان کا شمار بین الاقوامی شخصیات میں ہوتا ہے۔ بڑی بڑی کامیابیاں سمیٹنے کے بعد بھی ان کے مزاج میں انکساری اور درویشی ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے آج سے تقریباً تیس سال قبل ان کے آفس میں محمود شام کے پاس ان تحریروں کو لے کر گئی تھی جوکہ ایدھی سینٹر کی مظلوم خواتین کے حوالے سے تھیں وہ ایک بڑے عہدے پر فائز تھے میں نے اپنا مدعا بیان کیا وہ بے حد شفقت و خلوص سے بولے کہ فلاں خاتون سے جاکر مل لیں۔ غالباً ان کا نام فریدہ یعنی فریدہ صاحبہ تھا اور پھر وہ انٹرویوز ’’یہ زندگی ہے‘‘ کہ عنوان سے کئی ہفتوں شایع ہوتے رہے، ان کی زندگی اس شعر کے مترادف ہے:
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
ماہنامہ ’’اطراف‘‘ کی اشاعت کا مقصد صرف اور صرف دکھی انسانیت کی خدمت ہے، ہر شمارہ پاکستانیوں کے بے شمار مسائل کی نشان دہی کرتا ہے، ناخواندگی، غربت، افلاس، غیر منصفانہ رویے اور بلوچستان کے نوجوانوں کی محرومی، بنگلہ دیش کے مہاجرین اور کیمپوں میں حشرات الارض کی زندگی گزارنے والے غیور باعزت اور محب وطن پاکستانیوں کے دکھوں کو ماہنامہ اطراف آشکارا کرتا ہے۔
آج کے دن سالانہ اطراف، اعتراف خدمت اعزاز کی تقریب کا انعقاد ہو رہا ہے جوکہ خوش آیند ہے، اسٹیج پر براجمان قابل ذکر خواتین کو ان کی اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر ایوارڈز پیش کیے جانے کا اہتمام کیا گیا ہے، خواتین کی کاوشوں اور شام و سحر کی محنت کو سراہنا تو چاہیے تاکہ حوصلہ مزید پروان چڑھے، محمود شام یہ کام کافی عرصے سے انجام دے رہے ہیں۔
یقیناً یہ بڑی بات، مثبت سوچ اور تفکر کے نگینوں سے مرصع نظر آتی ہے۔ میں خلوص دل کے ساتھ اپنی بہت قابل احترام خواتین کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ طلوع اسلام سے قبل عورت اپنے بنیادی حقوق سے محروم تھی، پیدا ہوتے ہی بچیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا کہ وہ باعث ذلت تھیں۔ اسے ستّی کیا جاتا، اسے چڑیل اور جادوگرنی قرار دیا گیا، عہد حاضر کے شاعر فضا اعظمی نے عورت پر ہونے والے تشدد کو لفظوں کا پیکر اس طرح عطا کیا ہے:
چڑھایا اس غرض سے صنفِ نازک کو صلیبوں پر
اسے باندھا، اسے مارا، اسے کھینچا زمینوں پر
سجائیں سولیاں ایسی کہ انسانوں کا دل دہلے
اسے بھونا دہکتے کوئلوں پر اور شعلوں پر
وہ چیخیں گونجتی تھیں جن سے گردوں کانپ اٹھتا تھا
وہ بے دردی کا عالم تھا فلک آنسو بہاتا تھا
کل اور آج میں زیادہ فرق نہیں ہے، موجودہ دور میں بھی عورت کی عزت و ناموس کا جنازہ سربازار نکالا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ شعور کی کمی، تعلیم سے دوری ہے۔ محمود شام سلگتی ہوئی فضا کو بدلنے کے لیے یادگار شامیں برپا کرتے ہیں، عورت کی اہمیت اس کی قدر و منزلت کو اجاگر کرتے ہیں کہ عورت کسی لحاظ سے کم تر نہیں ہے، اسے عزت و احترام تو اسے اس کے مذہب نے عطا کیا ہے۔
ایک پوری سورۃ اللہ رب العزت نے ’’النساء‘‘ کے نام سے نازل فرمائی جس میں عورتوں کے حقوق اور وراثت میں ملنے والے حصے کا حکم اور دوسرے احکامات کو بھی بیان کیا گیا ہے، مہر کی ادائیگی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
عورت کی تعظیم و عزت، اس کے حقوق اور جائز آزادی سے بھی اسے اسلام نے محروم نہیں رکھا ہے، اسے جہاد میں حصہ لینے کا بھی حق حاصل ہے۔ حضرت فاطمۃ الزہرہ اور دوسری کئی صحابیات کے نام تاریخ اسلام کے صفحات پر دمک رہے ہیں۔اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر عورت کے حقوق کی حفاظت کے بارے میں فرمایا کہ:
’’آگاہ رہو کہ تمہاری عورتوں کا تم پر حق ہے۔‘‘
’’لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘
نپولین نے کہا تھا ’’ تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔ بچے کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہوتا ہے۔ عبدالقادر جیلانیؒ نے ڈاکوؤں سے سچ بولا تھا کہ ’’ ہاں! میرے پاس چالیس دینار ہیں، جو میری ماں نے میرے کُرتے میں سی دیے ہیں‘‘ ڈاکوؤں کے پوچھنے پر (لڑکے ) شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا کہ’’ سچ بولنے کی تلقین میری والدہ نے کی تھی کہ ہمیشہ اور ہر قیمت پر سچ بولنا ہے۔‘‘
اسٹیج پر تشریف فرما بہنیں اور مائیں ہیں ان کی سچائی اور دیانت داری کے اثرات یقینا ان کی اولاد بلکہ ان کے حلقہ احباب پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوتے رہے ہیں۔ عورت کی حیثیت معاشرتی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔
معاشرے کی گھٹن اور حبس اسی وقت ختم ہوگا جب حکومت تعلیم کو عام اور خواتین کے لیے آسانیاں پیدا کرے گی، جب ایک ماں، ایک عورت پر سکون ہوگی، خوشحال ہوگی تب پورا گھر چاند تاروں کا ہم سفر بن جائے گا۔ اور محمود شام دوسرے فلاحی ادارے، سماجی خدمات انجام دینے والی خواتین یہی تو چاہتی ہیں کہ امن کی بانسری کا سُر دور تک جائے۔ فیض نے عورت کو موسمِ گل کا نام دیا ہے:
رنگِ پیراہن، خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
پھر نظر میں پھول مہکے دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام
اپنے مضمون کے اختتام پر میں خصوصی طور پر محمود شام کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ ان کے حسن نظر نے میرے ادبی امور اورکالم نگاری کا احاطہ کیا اور مجھے ایوارڈ سے نوازا۔ آپ سب کی سماعتوں کا بہت شکریہ۔
(شامِ اطراف پر لکھا گیا مضمون)