کراچی شہر کی حالت زار کی ایک بہت افسوس ناک کہانی ہے، کبھی یہ شہر اس ملک کا دارالحکومت ہوا کرتا تھااوربانی پاکستان کی جائے پیدائش کی وجہ سے اس کی بہت اہمیت تھی۔
قائد اعظم محمد علی جناح کو اس شہر سے بہت محبت تھی اور وہ اس شہر کو دنیا کے چند بہترین دارالحکومتوں میںشمار کروانا چاہتے تھے لیکن قدرت نے انھیں مہلت نہیں دی اور وہ پاکستان بننے کے صرف ایک سال بعد ہی اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔1960 میں اس شہر سے دارالحکومت منتقل ہوا۔ وفاقی حکومت کی ساری توجہ اب نئے شہر اسلام آباد کو بنانے اورآباد کرنے پر مرکوز ہوگئی۔سارے حکومتی دفاتر اورادارے یہاں سے وہاں منتقل ہونے لگے ۔ رفتہ رفتہ یہ شہر مشکلات کی گہرائیوں میں گرتا چلاگیا۔
سقوط ڈھاکا کے بعد 1972 میں پہلے منتخب جمہوری وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے حکومتی اداروں میں ملازمتوں کے لیے سارے سند ھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کردیا۔جس نے اس شہر سے قابلیت اورعلمیت کا جنازہ بھی نکال دیا ۔
اب اردو زبان بولنے والوں کے لیے سرکاری نوکریاں ختم کردی گئیں اورکوٹہ سسٹم کے تحت معیار اورقابلیت کے بجائے جائے پیدائش کی ترجیح دی جانے لگی ۔ سندھ کے لوگوں کے احساس محرومیت کو کم کرنے اوربظاہر انھیں خوشحال کرنے کے لیے بڑی بڑی پوسٹوں پر ڈومیسائل کی بنیادوں پر تقرر ہونے لگاجس نے سارانظام ہی برباد کرکے رکھ دیا۔یہ کوٹہ سسٹم اس وقت محض دس سالوں کے لیے نافذ کیاگیاتھا لیکن جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور میں سندھ کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اس میں مزید دس برسوں کا اضافہ کردیا۔
یہ کوٹہ سسٹم کبھی بھی ختم نہیں ہوسکا۔ پاکستان بھر میں کسی صوبہ میں بھی یہ سسٹم نافذ نہیں ہے حالانکہ پنجاب اوربلوچستان کے اندرونی مقامات پر ضروری سہولتوں کا ویسا ہی فقدان ہے جیسے ہمارے اندرون سندھ میں موجود ہے۔ کوٹہ سسٹم نافذ کرنے والوں نے سندھ میں دیگر سہولتوں کے نہ ہونے کا بہانہ بناکریہ کوٹہ سسٹم نافذ تو کردیا لیکن وہاں کے اصل مسائل پر کوئی توجہ نہیںدی۔ وہاں آج بھی اسکولوں ، کالجوں اوردیگر عوامی ضرورتوں کا وہی حال ہے جو 1972 میں تھا۔
گاؤں دیہاتوں کے لوگ آج بھی وہی پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں جیسے پہلے گزارا کرتے تھے۔ اسکولوں اور درسگاہوں کا وہی حال ہے جیسے پہلے ہوا کرتاتھا۔ اندرون سندھ کے کئی تعلیمی ادارے جانوروں کے اصطبل بنے ہوئے ہیں۔ بچوں کو پڑھانے والے استادوں اورٹیچروں کی اپنی قابلیت میٹرک کے طالب علموں سے بھی کم ہے۔ ذہانت اور قابلیت کا معیار اس قدر کم اورپست ہے کہ افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے بچوں کو کیا پڑھائیں گے اورکیسے یہ صوبہ باقی صوبوں کی طرح ترقی کرپائے گا۔ تعلیم پرخرچ ہونے والا سارا بجٹ اِن جیسے استادوں کی بھاری بھاری تنخواہوں پر خرچ ہوجاتا ہے اور حاصل کچھ نہیں ہوتا۔
اب آئیے شہرکراچی کی حالت زار کی طرف ، یہاں اسی فیصد سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکرموئن جو ڈرو کا منظر پیش کررہی ہیں لیکن حکمرانوں کی جانب سے کوئی توجہ نہیں ہے۔وہ اگر نئے سرے سے تعمیر بھی ہوتی ہیں تو معیار اس قدر ناقص ہوتا ہے کہ صرف چھ ماہ میں وہ پھرسے ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔شہر کا پانی ہائی ڈرنٹ مافیا کو فروخت کردیا جاتا ہے اورعوام کئی کئی دنوں تک پانی کو ترستے رہتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ سسٹم پر بیس پچیس سالوں تک کوئی توجہ نہیںدی گئی اورشہر کے لوگ مزدا کوچ کے بد اخلاق ڈرائیور اورکنڈکٹر کی بدتمیزیوں کے شکار ہوتے رہے۔
اب جاکے کچھ نئی بسوں کا انتظام کیا گیا ہے لیکن وہ اس عظیم شہر کے تمام لوگوں کو میسر نہیں ہے۔ گرین بس کے نام پرجس میٹرو سروس کا اہتمام وفاقی حکومت نے کیا تھا وہ بھی سارے شہر کے لیے ناکافی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان بسوں کا کرایہ پنجاب کی نسبت بہت زیادہ ہے ، لاہورمیں آج بھی میٹرو بس سروس کاکرایہ 27 کلومیٹر کے لیے بیس تیس روپے ہے جب کہ کراچی کے لوگ تقریباً اسی فاصلے کے لیے 120 روپے ادا کرتے ہیں، وہاں اورینج ٹرین کے نام سے لاہور کے باسیوں کو جدید سہولت بھی حاصل ہے اور اس کاکرایہ بھی بہت ہی کم ہے۔
یہ اس شہر ہی کی بدقسمتی نہیں ہے کہ وہ جس حکومت کے زیر تسلط کئی دہائیوں سے گزر بسر کررہا ہے اسے مال بنانے کے علاوہ کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ اندرون سندھ تو اور بھی برا حال ہے۔دیگر صوبوں کی ترقی دیکھتے ہوئے اب شاید یہاں کی حکومت کو بھی کچھ خیال آگیا ہے اوروہ چند ایک کام کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔کراچی کے مسائل اتنے گہرے اور گھمبیر ہیں کہ صرف پیوند کاری سے کام نہیں چلے گا۔سابقہ وفاقی حکومتوں نے اگر اس شہر کی خوشحالی کے لیے کوئی توجہ دی ہوتی تو کیا وجہ ہوتی کہ آج یہ شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہوتا۔
2018 میں اس شہر نے تحریک انصاف کو بھرپور مینڈیٹ دیا تھا لیکن اس پارٹی نے بھی یہاں ایک بڑا منصوبہ بھی شروع نہیں کیا۔ دیکھا جائے تو قومی اسمبلی کی چودہ نشستیں کچھ کم نہ تھیں ، اِنہی چودہ نشستوں کی وجہ سے خان صاحب کو پارلیمنٹ میںاکثریت حاصل ہوئی تھی لیکن انھوں نے ا س شہر کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔ اس کے علاوہ MQM بھی ایک پارٹی ہے جس نے 1980 سے اس شہر کے بلدیاتی اداروں کی ترجمانی کی ہے مگر اس پارٹی نے بھی اپنے ووٹرں کے لیے کچھ کام بھی نہیں کیا بلکہ بھتہ خوری ، جبری چندہ وصولی اورقربانی کی کھالوں کی چھینا جھپٹی نے اپنے لوگوں کا جینا ہی حرام کرکے رکھ دیا۔آئے دن کی ہڑتالوں ، احتجاجوں اورٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے شہر کے لوگوں کے کاروبار کو بھی برباد کردیا۔
جس کوٹہ سسٹم کے خلاف یہ معرض وجود میں آئی تھی وہ کوٹہ سسٹم بھی وہ ختم کروانہ سکی۔الٹا اردوبولنے والوں کی شناخت بھی مسخ کرکے رکھدی۔کراچی والے آج کئی سالوں سے K-ELECTRIC کی زیادتیوں کا شکار ہورہے ہیں لیکن کوئی بھی اُن کی فریاد سننے کو تیار نہیںہے۔ دنیا کا کوئی اوربڑا شہراتنے مسائل سے دوچار نہیں ہے جتنا کراچی شہر۔ کبھی یہ شہر سارے ملک کے بزنس کا حب ہواکرتاتھا اورملک کے ذرایع مبادلہ بڑھانے میں اس کا بڑا اہم کردار تھا۔ جب سے اس شہر کی یہ شناخت اس سے چھین لی گئی ہے پاکستان بھی معاشی طور پر کمزور ہوتاچلاگیا ہے،یہ ملک اب شاید اسی وقت ترقی کرپائے گا جب اس شہرکراچی کو اس کا حق اوراس کی شناخت واپس کی جائے گی ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کوئی توجہ کوٹہ سسٹم سسٹم نافذ نہیں ہے کے لیے بھی یہ کے لوگ ہے اور شہر کے یہ شہر
پڑھیں:
فیکٹ چیک: کیا سابق چینی وزیر اعظم نے واقعی سزائے موت کی تجویز دی؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) بیشتر لاطینی امریکی ممالک میں سزائے موت تو ختم کر دی گئی ہے لیکن آج بھی وہاں اس موضوع پر کبھی کبھی عوامی سطح پر بحث کی جاتی ہے۔ اور اکثر اس بحث میں غلط معلومات یا مس انفارمیشن کا عنصر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
مثلاﹰ اس حوالے سے یہ دعویٰ سامنے آیا: ''چین نے ترقی کے حصول کے لیے پیرو اور لاطینی امریکی ممالک کو سزائے موت (نافذ کرنے) کی تجویز دی۔
‘‘لیکن کیا ایسا واقعی ہوا؟ یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو کی فیکٹ چیک ٹیم نے اس پر تحقیق کی۔
دعویٰ کہاں سامنے آیا؟یہ دعویٰ ایک فیس بک پوسٹ میں کیا گیا، جسے تقریباﹰ 35,000 صارفین نے شیئر کیا۔
اس پوسٹ میں کہا گیا تھا، ''سابق چینی وزیر اعظم ون جیاباؤ نے کولمبیا، وینیزویلا، ایکواڈور، پیرو اور بولیویا سمیت لاطینی امریکی اور وسطی امریکی ممالک کو وہاں سلامتی سے متعلق بحران کے حل اور اس سے بھی بڑھ کر ترقی کے حصول کے لیے سزائے موت کے نفاذ کی تجویز دی ہے۔
(جاری ہے)
‘‘اس پوسٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ون جیاباؤ نے بدعنوان سیاستدانوں کو سزائے موت دینے اور ان کی تنخواہوں میں کمی کی حمایت کی۔
فیس بک کے علاوہ یہ پوسٹس ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی گردش کرتی رہیں۔
فیکٹ چیک ٹیم کی تحقیق کا نتیجہڈی ڈبلیو کی فیکٹ چیک ٹیم کی جانب سے تحقیق کے بعد اس دعوے کے مستند ہونے کے کوئی ثبوت و شواہد نہیں ملے۔
تو اس طرح یہ دعویٰ غیر مصدقہ ہی رہا۔تحقیق کے دوران ایسے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوں کہ ون جیاباؤ نے کبھی بھی کوئی ایسا بیان دیا ہو جس میں انہوں نے سزائے موت کو ترقی سے منسلک کیا ہو۔ اس حوالے سے ہسپانوی اور چینی دونوں زبانوں میں متعلقہ کی ورڈز کی سرچ بھی کی گئی، لیکن اس دعوے کو ثابت کرتی کوئی مستند خبر یا سرکاری ریکارڈز نہیں ملے۔
اور چینی وزارت خارجہ کی آفیشل ویب سائٹ پر بھی یہ بیان موجود نہیں ہے۔چینی میڈیا کے مطابق ون جیاباؤ نے سزائے موت کے موضوع پر 14 مارچ 2005ء کو ایک پریس کانفرنس کے دوران بات کی تھی۔ ایک جرمن صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا: ''موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر چین سزائے موت ختم نہیں کر سکتا لیکن ایک نظام کے تحت یہ یقینی بنایا جائے گا کہ سزائے موت منصفانہ طریقے سے دی جائے اور اس میں احتیاط برتی جائے۔
‘‘اس موضوع پر ون جیاباؤ کا عوامی سطح پر دیا گیا یہ واحد بیان ہے جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس بیان میں وہ صرف چین کے حوالے سے بات کر رہے تھے اور انہوں نے لاطینی امریکی ممالک کا کوئی ذکر نہیں کیا، نہ ہی کسی اور ملک کو کوئی تجویز دی۔
پھر بھی دیگر ممالک کو سزائے موت کی تجویز دینے کا بیان ان سے کئی برسوں سے منسلک کیا جاتا رہا ہے۔
اسے 2015ء سے کئی ویب سائٹس نے شائع کیا ہے، تاہم قابل اعتبار ذرائع کا حوالہ دیے بغیر۔تو یہاں یہ بات بھی اہم ہو جاتی ہے کہ ون جیاباؤ صرف 2012ء تک ہی چین کے وزیر اعظم رہے تھے۔ ایسے میں اس بات کا امکان بہت کم ہے انہوں نے 2015ء یا اس کے بعد ایسا کوئی بیان دیا ہو گا۔
کیا تصویر میں واقعی ون جیاباؤ ہی ہیں؟اس پوسٹ میں مبینہ طور پر ون جیاباؤ کی تصویر بھی لگائی گئی ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی تصویر میں موجود شخص ون جیاباؤ ہی ہیں۔
اس تصویر میں وہ اپنی دیگر تصویروں سے کچھ مختلف نظر آ رہے ہیں۔ سال 2012 سے پہلے لی گئی تصویروں میں ون جیاباؤ کے بال کم تھے۔ یہ کمی بالخصوص ان کی پیشانی کے پاس یعنی ہیئر لائن میں واضح تھی۔ تاہم اس تصویر میں ان کی ہیئر لائن قدرے گھنی نظر آتی ہے۔
اسی طرح ان کی دیگر تصاویر کے مقابلے میں اس فوٹو میں ان کی ناک، کان اور ہونٹ بھی کچھ مختلف لگ رہے ہیں۔
علاوہ ازیں، کہا جاتا ہے کہ کئی تصاویر میں ون جیاباؤ کے چہرے پر کچھ داغ نمایاں رہے ہیں، لیکن اس تصویر میں ایسا نہیں ہے۔
چناچہ ڈی ڈبلیو کی فیکٹ چیک ٹیم نے اس فیس بک پوسٹ میں استعمال کی گئی تصویر کی ریروس امیج سرچ کی، لیکن اس میں موجود شخص کی شناخت کے حوالے سے کوئی حتمی ثبوت نہیں مل سکا۔
(مونیر قائدی، ہواوہ سمیلا محمد، ہوان ہو) م ا / ر ب