Express News:
2025-04-22@07:27:44 GMT

افغانستان و پاکستان کشیدگی کا حل مذاکرات

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

افغانستان کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے خاتمے کی کوششیں تیز کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کثیر الجہتی مذاکرات کی بحالی پر متفق ہوگئے، ان میں سیکیورٹی، سرحدی تنازعات اور افغان مہاجرین کے امور بھی شامل ہیں۔ پاکستانی وفد میں شامل وزارت تجارت کے حکام نے پاک افغان تجارت، ٹرانزٹ میں رکاوٹوں پر بات چیت کی ۔

 پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے سے تعلقات میں کشیدگی کا جو عنصر جنم لے چکا ہے، اس کی وجہ سے یہ تعلقات باہمی ناراضگی کا سبب بن رہے تھے اور اس کے اثرات نہ صرف سماجی تعلقات پر پڑ رہے تھے بلکہ خصوصاً تجارتی سرگرمیاں بھی اس کی زد میں آ کر منفی رجحانات کا پتہ دیتی تھیں اس دوران میں متعدد مرتبہ سرحدوں کی بندش اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال دونوں طرف کے عوام کے لیے رابطوں میں مشکلات کا باعث تھی، تاہم اب یہ خبر تازہ ہوا کا جھونکا ہے کہ بالٓاخر ان تعلقات میں مثبت اشارے ملنے لگے اور تعلقات کی بحالی کی حوصلہ افزا خبریں سامنے آرہی ہیں۔

 درحقیقت افغانستان ایک لینڈ لاکڈ مُلک ہے، یعنی اس کے پاس سمندر سے تجارت کا کوئی راستہ نہیں اور اس کی زیادہ تر تجارت کراچی بندرگاہ سے ہوتی رہی ہے۔ پاکستان کا افغان قوم پر یہ بھی احسان ہے کہ حالات خواہ کیسے بھی رہے ہوں، اس نے افغان شہریوں کو اِس سہولت سے کبھی محروم نہیں کیا، اِسی لیے افغانستان میں کبھی مال و اسباب کی قلت نہیں ہوئی۔

پاکستان کے دو صوبے، خیبر پختون خوا اور بلوچستان، افغان سرحد سے ملحق ہیں، جب کہ وسط ایشیا کے درمیان ایک کوریڈور یا پٹّی، واخان کے نام سے ہے، جو پاکستان، افغانستان، تاجکستان اور چین کو آپس میں ملاتی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے (متحدہ ہندوستان کے دور سے) باہمی تجارت میں منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ یہ تجارت آگے وسط ایشیائی ریاستوں تک پھیلی ہوئی تھی تاہم بعد میں کمیونسٹ روس کے قیام کے بعد یہ صرف کابل تک محدود ہو کر رہ گئی تھی مگر اب کچھ عرصے سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں بوجوہ کشیدگی کی وجہ سے یہ تجارت بھی مختلف پابندیوں کی زد میں ہے اور جہاں پاکستان سے مختلف اشیاء خصوصاً گندم، آٹا، تیل و گھی، دالیں، چاول وغیرہ کی برآمد متاثر ہو رہی ہے وہاں افغانستان سے تازہ پھلوں اور خشک میوہ جات کی درآمد مشکلات کا شکار ہے، بہرحال اب جب کہ بالاخر بات چیت کا سلسلہ چل پڑا ہے اور جو خبریں مل رہی ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں اور نہ صرف باہمی تعلقات میں بہتری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں بلکہ تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کی امیدیں بھی روشن ہو رہی ہیں۔

 دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح وفود کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب پاکستان میں غیر قانونی مقیم تمام غیر ملکیوں کو ملک چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔ دوسری جانب افغانستان عبوری حکومت سرکاری طور پر افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی کی موجودگی سے انکار کرتی رہی ہے، جب کہ پاکستان کا موقف ہے کہ ٹی ٹی پی نہ صرف افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے بلکہ وہ افغان شہریوں کو ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے بھرتی کر رہی ہے۔

ماضی و حال دونوں میں پاکستان افغان حکام سے درخواست کرتا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی قیادت کے خلاف کارروائی کریں یا دوحہ معاہدے کے تحت عسکریت پسندوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکیں۔ یہ معاہدہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ اس وعدوں کا امتحان ہوگا اور اس کی بین الاقوامی ساخت کو متاثر کرے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان نے طالبان کی حمایت اور افغانستان میں انڈین اثرورسوخ کو قابو کرنے اور ٹی ٹی پی کو روکنے کے لیے طالبان کو اقتدار دلانے میں مبینہ سہولت فراہم کی تھی۔

باوجود اس کے کہ دونوں گروہوں کی نسلی، سیاسی، نظریاتی اور میدان جنگ میں دیرنیہ وابستگیاں ہیں، تاہم اس دفعہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے افغان طالبان سے مطالبہ کر رہا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ تین سال سے افغان عبوری حکومت کے پاس سرمایہ ہے اور نہ ہی کوئی نظامِ حکومت۔ وہاں کے عوام سردی میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر مر جاتے ہیں، لیکن کوئی عالمی تو کیا، علاقائی مُلک بھی اس عبوری حکومت اور افغان شہریوں کی مدد کو تیار نہیں۔ آج افغانستان کا شمار دنیا کے تین سب سے غریب اور پس ماندہ ممالک میں ہوتا ہے، لیکن بعض پاکستانی ماہرِ مالیات اُس کی کرنسی کی مضبوطی کی جھوٹی کہانیوں سے یہاں کے لوگوں کو فریب دیتے ہیں۔

سب سے زیادہ لوگ افغانستان میں غربت کی لکیر سے نیچے ہیں، لیکن ہمیں پڑھایا اور بتایا جاتا ہے کہ یہ کبھی شکست نہ کھانے والی قوم ہے۔خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں سیکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں عام شہریوں کے ساتھ، سیکوریٹی اہل کاروں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ ایک تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں صرف دو ایسے قبائل ہیں، جو سرحد کے دونوں اطراف رہتے ہیں۔ افغان جنگوں کے درمیان افغان پناہ گزینوں کو خیبر سے کراچی تک بلا روک ٹوک آنے جانے کی اجازت دی گئی۔

شاید اِتنی آزادی تو انھیں اُن کے اپنے مُلک میں بھی حاصل نہ تھی کہ وہ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر عام کرتے رہے۔ ظاہر شاہ کا دورِ حکومت سامنے کی بات ہے، جو ایک مکمل بادشاہت تھی اور وہ بھی روسی ساختہ۔ وہ حکومت پہلے دن ہی سے پاکستان کے خلاف تھی۔ ہمارے ہاں افغان پناہ گزینوں کو تنظیمیں تک بنانے کی اجازت تھی۔ ان افغانوں کے رہنما، جو آج طالبان حکومت میں اہم عُہدوں پر ہیں، ہمارے ہاں معزز مہمان ٹھہرے۔ کرزئی صاحب پاکستان میں ڈاکٹری کرتے، ملا عُمر نے اسامہ اور القاعدہ کو پناہ دی، مگر پاکستان کے پچیس کروڑ عوام آج تک ساری دنیا میں دہشت گردی کا الزام بُھگت رہے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستانیوں کو غیر ممالک جانے کے لیے ویزے نہیں ملتے، جب کہ افغان شہری آسانی سے اسائلم حاصل کر لیتے ہیں۔ 

چونکہ افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے اس لیے وہ مکمل آزادی کے ساتھ افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر تے ہیں اور حملہ کر کے واپس اپنی پناہ گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے، اعداد و شمار بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی توقعات کے برعکس کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں کمی کے بجائے اِن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ مشکل میں افغانستان کا ساتھ دیا، سالہا سال تک افغان شہریوں کو یہاں پناہ دی،اب اسے بھی پاکستان میں معاملات کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے۔

افغانستان کو کسی بھی دوسرے کی باتوں میں آ کر اسے پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ دراصل پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کا ایک اہم پہلو معاشی ہے۔ سرحدی تنازعات اور سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان افغانستان کا ایک اہم تجارتی شراکت دار رہا ہے، لیکن موجودہ حالات نے اس تعلق کو نقصان پہنچایا ہے۔ امریکا کی افغانستان سے واپسی کے بعد، خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہوا ہے۔

چین اور روس جیسی طاقتیں اب افغانستان میں زیادہ فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس بات میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کا منبع افغانستان ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکا بہادر جاتے جاتے اپنا سارا اسلحہ افغانستان چھوڑ گیا جو بعد ازاں تحریک طالبان کے ہتھے چڑھ گیا۔ ٹی ٹی پی امریکا کو بھگانے کا کریڈٹ لیتی ہے۔ شاید اسی مغالطے کے سبب انھوں نے یہ خواہش پال رکھی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر بھی اپنی مرضی کا نظام لانے کے لیے کوشش کر سکتی ہے۔

موجودہ کشیدہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ٹھوس افغان پالیسی بنانے کی ضرورت آن پڑی ہے جو اب تک ہماری ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہی ہے اور ہم نے چل چلاؤ سے کام لیا ہے۔ حکومت کا تاجکستان میں موجود افغان تاجک لیڈروں کے ساتھ مل کر افغان حکومت پر پریشر بڑھانا ایک بہتر پالیسی ہے۔ ہمیں افغان حکومت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ طالبان کو کنٹرول کرے۔ افغان حکومت کے ساتھ بڑھتا ہوا تضاد پاکستان کے لیے کسی طور پر بھی فائدہ مند نہیں کیونکہ اسرائیل، امریکا اور بھارت کے بڑھتے ہوئے گٹھ جوڑ کے اشارے پاکستان کے لیے کوئی اچھے اشارے نہیں ہیں۔

بھارتی میڈیا پاک افغان کشیدگی کو ایکسپلائٹ کر رہا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان کی پالیسیاں بھارت نواز ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ پاک افغان کشیدگی اور اس کے ساتھ جڑے تمام معاملات کو قومی تناظر میں دیکھیں کیونکہ اگر پاک افغان ایشو پر دیگر ممالک دخل اندازی کرتے ہیں تو وطن عزیز کے لیے ایسی صورتحال نقصان کا باعث ہوسکتی ہے۔

یہاں وہ طاقتیں بھی شامل ہوسکتی ہیں جو تباہی چاہتی ہیں۔ ملکی سالمیت کے لیے ہمیں باہم مل بیٹھنا ہوگا۔ خطے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمے داری سب پر عائد ہوتی ہے، اگر افراتفری کی کیفیت ہو گی تو اس کے اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ بات طے ہے کہ ہر معاملے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے، یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان پاکستان کے خلاف افغانستان میں افغان شہریوں پاکستان میں افغان حکومت کہ پاکستان تعلقات میں سے پاکستان پاک افغان کے درمیان ٹی ٹی پی رہی ہیں کے ساتھ کے لیے رہا ہے کر رہی اور اس رہی ہے ہے اور

پڑھیں:

معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے

پاکستان کے ڈپٹی وزیراعظم اور وزیرخارجہ ایک روزہ دورے پر کابل پہنچے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ انہوں نے ایک مشترکہ پریس ٹاک کی۔ سفارتی دوروں میں اگر مشترکہ بیان جاری کیا جائے، اس سے مراد دونوں ملکوں کا اتفاق رائے ہونے سے لیا جاتا ہے۔ الگ الگ پریس نوٹ جاری کرنے سے مراد ہوتی ہے کہ اتفاق رائے نہیں ہوا۔ مشترکہ پریس کانفرنس اتفاق رائے کے مثبت اظہار کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
پاکستانی وفد کے استقبال کے لیے امیر خان متقی خود ائیر پورٹ نہیں آئے تھے۔ ڈپٹی وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر نے اسحق ڈار سے طے شدہ ملاقات سے گریز کیا۔ رئیس الوزرا ملا حسن اخوند سے البتہ ان کی ملاقات ہو گئی۔

ڈار نے کابل میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بہت اہم باتیں کی۔ ٹرانس افغان ریلوے پراجیکٹ پر کام شروع کرنے اعلان کیا۔  ازبکستان سے آنے والا ریلوے ٹریک خرلاچی (کرم ایجنسی) کے راستے پشاور سے مل جائے گا۔ افغانستان کو گوادر اور کراچی دونوں بندرگاہوں تک رسائی مل جائے گی۔

افغانستان کے لیے 1621 آئٹمز پر پاکستان 10 فیصد ڈیوٹی وصول کرتا تھا۔ اس لسٹ سے 867 آئٹم کو ڈیلیٹ کرنے کے ایک بڑے ریلیف کا بھی اعلان کیا گیا۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ جو 2021 میں ختم ہو چکا ہے، اسے بھی اسی سال فائنل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ خیبر پختون خوا حکومت افغان آئٹم پر 2 فیصد سیس ڈیوٹی عائد کرتی تھی اس کو کم کر کے ایک فیصد کر دیا گیا ہے۔ افغان تاجروں کو امپورٹ کے لیے زرضمانت جمع کرنا پڑتا تھا اس کا بھی خاتمہ کرکے بینک گارنٹی لینے کی افغان حکومت کی تجویز مان لی گئی ہے۔ این ایل سی کے علاوہ بھی 3 مزید کمپنیوں کو تجارتی سامان کی ترسیل میں شامل کرنے کی افغان تجویز بھی مان لی گئی ہے۔

پاکستان، افغانستان اور چین کا سہ ملکی فارمیٹ بحال کرنے کا بھی اعلان ہوا۔ دونوں ملکوں کی قائم کردہ جوائنٹ کو آرڈینیشن کمیٹی کی تعریف کرتے ہوئے اسحق ڈار نے سیاسی امور کے لیے بھی فوری طور پر ایک رابطہ کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔ افغان مہاجرین کی واپسی ان کے ساتھ زیادتیوں اور جائیداد کے معاملات کے حل کے لیے بھی ہیلپ لائن بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس مشترکہ پریس ٹاک میں ہونے والے اعلانات کو دیکھا جائے تو زیادہ تر باتیں تجارتی اقتصادی حوالے سے کی گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے وزیر صنعت و تجارت نورالدین عزیزی نے تعلقات بحالی کے لیے بہت محنت کی ہے۔ ایک ہی دن 16 اپریل کو پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ سطحی وفود کابل اور اسلام آباد پہنچے تھے۔ نورالدین عزیزی کی قیادت میں وفد پاکستان آیا تھا۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ کابل پہنچے ہیں۔

17 ماہ کے طویل وقفے کے بعد پاک افغان جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس کابل میں ہو سکا تھا۔ امارت اسلامی افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جے سی سی اجلاس کے موقع پر کہا کہ اس فورم نے ہمیشہ مسائل حل کیے ہیں۔ اس بار سیکیورٹی ایشوز، تجارت، ڈیورنڈ لائن پر ٹینشن ( ٹی ٹی پی، لوگوں کی آمد و رفت اور افغان مہاجرین ) کے ساتھ لوگوں کی آمد و رفت کو آسان بنانے پر بات چیت ہو گی۔

جے سی سی میں افغان وفد کی قیادت ملا عبدالقیوم ذاکر نے کی تھی۔  ذاکر امریکا اور اتحادیوں کے خلاف لڑائی کے دوران افغان طالبان کے ملٹری کمیشن کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ ملا اختر منصور کے بعد طالبان کا نیا امیر بننے کا مضبوط امیدوار بھی سمجھا جا رہا تھا۔  عبدالقیوم ذاکر جے سی سی اجلاس میں افغانستان کی نمائندگی کے لیے ایک ہیوی ویٹ شخصیت ہیں۔ اس کا پتہ تب لگے گا جب آپ ان کا پروفائل دیکھیں گے، ان کا نام اور کام ایران بلوچستان امریکا اور شمالی افغانستان تک دکھائی دے گا۔

پاکستان افغانستان مہاجرین کی واپسی، ٹی ٹی پی اور دوسرے اختلافی امور کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان اختلافی امور کا حل ضروری ہے۔ معیشت وہ پوائنٹ ہے جہاں موجود امکانات دونوں ملکوں کو دوبارہ قریب لائے  ہیں۔ پاکستان دہشتگردی کے ساتھ اپنے انداز میں نپٹنے کے لیے تیار ہے۔ پاک افغان باڈر پر اب ریموٹ کنٹرول چیک پوسٹیں قائم کی جا رہی ہیں۔  افغان طالبان حکومت مہاجرین کی واپسی کو برداشت کرے گی۔ معیشت اب وہ ڈرائیونگ فورس ہے جو بہت متنازعہ معاملات کو بھی غیر متعلق کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

متعلقہ مضامین

  • افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟
  • معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے
  • علی امین گنڈاپور نے اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان پر ردعمل دے دیا
  • 3387 مزید غیر قانونی افغان باشندے باحفاظت افغانستان روانہ
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل
  • افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے، اسحق ڈار
  • افغان مہاجرین کی باعزت واپسی، اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، پاکستان افغانستان کا اتفاق
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی اور امن و سلامتی سے متعلق مذاکرات شروع