Express News:
2025-04-21@23:32:54 GMT

اعتکاف

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

اللہ پاک کے قرب و رضا کے حصول کے لیے گذشتہ امتوں نے ایسی ریاضتیں لازم کرلی تھیں جو اللّہ نے ان پر فرض نہیں کی گئی تھیں۔ قرآن حکیم نے ان عبادت گزار گروہوں کو رہبان اور احبار سے موسوم کیا ہے۔ حضرت محمد مصطفیﷺ نے تقرب الی اللّہ کے لیے رہبانیت کو ترک کرکے اپنی امت کے لیے اعلٰی ترین اور آسان ترین طریقہ عطا فرمایا، جو ظاہری خلوت کی بجائے باطنی خلوت کے تصور پر مبنی ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لیے دنیا کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دینا اصل کمال ہے۔ان طریقوں میں سے ایک طریقہ اعتکاف ہے۔

اعتکاف لغوی اعتبار سے ٹھہرنے کو کہتے ہیں جب کہ اصطلاحِ شریعت میں اعتکاف کا معنی ہے: مسجد میں اور روزے کے ساتھ رہنا، جماع کو بالکل ترک کرنا اور اللّہ تعالٰی سے تقرب اور اجروثواب کی نیت کرنا اور جب تک یہ معانی نہیں پائے جائیں گے تو شرعاً اعتکاف نہیں ہوگا، لیکن مسجد میں رہنے کی شرط صرف مردوں کے اعتبار سے ہے۔ عورتوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے بلکہ خواتین اپنے گھر میں نماز کی مخصوص جگہ کو یا کسی الگ کمرے کو مخصوص کرکے وہاں اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہیں۔ ہر مسجد میں اعتکاف ہوسکتا ہے، البتہ بعض علما نے اعتکاف کے لیے جامع مسجد کی شرط لگائی ہے۔ (احکام القرآن: جلد1صفحہ242)

اعتکاف کی تاریخ
اعتکاف کی تاریخ بھی روزوں کی تاریخ کی طرح بہت قدیم ہے۔ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس کا ذکر بھی یوں بیان ہوا ہے۔ ارشادِخداوندی ہے:

ترجمہ: اور ہم نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کو تاکیدکی کہ میرا گھر طواف کرنے والوں کے لیے، اعتکاف کرنے والوں کے لیے اوررکوع کرنے والوں کے لیے خوب صاف ستھرا رکھیں۔ (سورہ البقرہ: آیت نمبر125)

یعنی اس وقت کی بات ہے جب جدالانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کعبۃ اللہ کی تعمیرسے فارغ ہوئے تھے یعنی اس زمانہ میں اللّہ تعالٰی کی رضا کے لیے اعتکاف کیا جاتا تھا۔

اعتکاف کی فضیلت واہمیت
حضوراکرم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ اعتکاف کیا ہے اور اس کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ چناںچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہا فرماتی ہیں کہ بے شک حضور نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ ﷺ خالق حقیقی سے جاملے۔ پھر آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

تین خندقیں 
رسول اللہﷺ نے ایک دن کے اعتکاف کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص اللّہ تعالٰی کی خوش نودی کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرے گا، اللّہ تعالٰی اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کردے گا جن کی مسافت آسمان و زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی۔ (کنزالعمال)

ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب
رسول اللّہﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص خالص نیت سے بغیر ریا اور بلاخواہش شہرت ایک دن اعتکاف بجا لائے گا، اس کو ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب ملے گا اور اس کے اور دوزخ کے درمیان فاصلہ پانچ سو برس کی راہ ہوگا (تذکرۃ الواعظین)

تین سو شہیدوں کا ثواب 
رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص خالص لوجہ اللّہ رمضان شریف میں ایک دن اور ایک رات اعتکاف کرے تو اس کو تین سو شہیدوں کا ثواب ملے گا (تذکرۃ الواعظین)

سبحان اللہ چند گھنٹوں کے اعتکاف کی اس قدر فضیلت ہے تو جو رمضان شریف میں پورے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ہیں ان کی شان کیا ہوگی۔

دوحج اور دو عمروں کا ثواب
حضرت حسین رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے رمضان المبارک میں آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا تو گویا کہ اس نے دو حج اور دو عمرے ادا کیے ہوں۔ (شعب الایمان)

حضرت عبداللّہ بن عباس رضی اللّہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معتکف (اعتکاف کرنے والے) کے بارے میں فرمایا کہ: وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیاں اس کے واسطے جاری کردی جاتی ہیں، اس شخص کی طرح جو یہ تمام نیکیاں کرتا ہو۔ (سنن ابن ماجہ، مشکو ۃ)

اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ معتکف یعنی اعتکاف کرنے والا، اعتکاف کی حالت میں بہت سی برائیوں اورگناہوں.

...مثلاً غیبت، چغلی، بری بات کرنے، سننے اور دیکھنے سے خودبہ خود محفوظ ہوجاتا ہے، ہاں البتہ اب وہ اعتکاف کی وجہ سے کچھ نیکیاں نہیں کرسکتا، مثلاً نمازِجنازہ کی ادائی، بیمار کی عیادت ومزاج پرسی اور ماں باپ واہل وعیال کی دیکھ بھال وغیرہ۔ اگرچہ وہ ان نیکیوں کو انجام نہیں دے سکتا لیکن اللّہ تعالی اسے یہ نیکیاں کیے بغیر ہی ان تمام کا اجرو ثواب عطافرمائے گا، کیوںکہ معتکف اللّہ کے پیارے رسول ﷺ کی سنت مبارکہ ادا کررہا ہے جو درحقیقت اللہ تعالٰی کی ہی اطاعت وفرماںبرداری ہے۔

اعتکاف کی غرض وغایت، شب قدرکی تلاش
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرمﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا، پھر درمیانے عشرے میں بھی ترکی خیموں میں اعتکاف فرمایا، پھر خیمے سے سراقدس نکال کر ارشاد فرمایا کہ: میں نے پہلے عشرے میں شب قدر کی تلاش میں اعتکاف کیا تھا پھر میں نے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا پھر میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور مجھ سے کہا کہ شب قدر آخری عشرے میں ہے، پس جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرتا تھا تو اسے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کرنا چاہیے۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اس اعتکاف کی سب سے بڑی غرض وغایت شب ِقدرکی تلاش وجستجو ہے اور درحقیقت اعتکاف ہی اس کی تلاش اوراس کو پانے کے لیے بہت مناسب ہے، کیوںکہ حالت اعتکاف میں اگر آدمی سویا ہوا بھی ہو تب بھی وہ عبادت وبندگی میں شمارہوتا ہے۔ نیز اعتکاف میں چوںکہ عبادت وریاضت اور ذکروفکر کے علاوہ اور کوئی کام نہیں رہے گا، لہٰذا شب قدر کے قدردانوں کے لیے اعتکاف ہی سب سے بہترین صورت ہے۔ حضور سیدعالمﷺ کا معمول بھی چوںکہ آخری عشرے ہی کے اعتکاف کا رہا ہے، اس لیے علما کرام کے نزدیک آخری عشرہ کا اعتکاف ہی سنت موکدہ ہے۔

اعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔
٭  اول…اعتکاف ِ واجب
٭  دوم.... اعتکاف ِ سنت
٭  سوم.... اعتکافِ مستحب

اعتکاف ِ واجب
اعتکاف واجب یہ ہے کہ کسی نے نذر مانی کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو میں اتنے دن کا اعتکاف کروں گا اور اس کا وہ کام ہوگیا تو یہ اعتکاف کرنا اور اس کا پورا کرنا واجب ہے ادائی نہیں کی تو گناہ گار ہوگا۔ واضح رہے کہ اس اعتکاف کے لیے روزہ بھی شرط ہے، بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہیں ہوگا۔

اعتکاف سنت
اعتکافِ سنت رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کیا جاتا ہے یعنی بیسویں رمضان کو سورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد (جائے اعتکاف) میں داخل ہوجائے اور تیسویں رمضان کو سورج غروب ہوجانے کے بعد یا انتیسویں(29ویں) رمضان کو عیدالفطر کا چاند ہوجانے کے بعد مسجد (جائے اعتکاف) سے نکلے.... واضح رہے کہ یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر محلہ کے سب لوگ چھوڑدیں گے تو سب تارکِ سنت ہوں گے اور اگر کسی ایک نے بھی کرلیا تو سب بری ہو جائیں گے۔ اس اعتکاف کے لیے بھی روزہ شرط ہے، مگر وہی رمضان المبارک کے روزے کافی ہیں۔

اعتکافِ مستحب
اعتکاف ِمستحب یہ ہے کہ جب کبھی دن یارات میں مسجد میں داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرلے۔ جتنی دیر مسجد میں رہے گا، اعتکاف کا ثواب پائے گا۔ یہ اعتکاف تھوڑی دیر کا بھی ہوسکتا ہے اور اس میں روزہ بھی شرط نہیں ہے، جب مسجد سے باہر نکلے گا تو اعتکاف ِمستحب خود بہ خود ختم ہوجائے گا۔

اعتکاف کی نیت
نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کرلیا کہ میں سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں تو یہی کافی ہے۔ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بہتر ہے۔ اپنی مادری زبان میں بھی نیت ہوسکتی ہے۔ اگر عربی زبان میں نیت آتی ہو تو بہتر و مناسب ہے۔

اعتکاف کی نیت عربی میں یہ ہے۔

نویت سنت الاعتکاف للّہ تعالٰی
ترجمہ: میں نے اللہ تعالٰی کی رضا کے لیے سنت اعتکاف کی نیت کی۔

مسئلہ: مسجد کے اندر کھانے، پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہوتی، مگر اعتکاف کی نیت کرنے کے بعد اب ضمناً کھانے، پینے اور سونے کی بھی اجازت ہوجاتی ہے، لہذا معتکف دن رات مسجد میں ہی رہے، وہیں کھائے، پیئے اور سوئے اور اگر ان کاموں کے لیے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

مسئلہ: اعتکاف کے لیے تمام مساجد سے افضل مسجد حرام ہے۔ پھر مسجد نبوی شریف، پھر مسجد اقصی (بیت المقدس) پھر ایسی جامع مسجد جس میں پانچ وقت باجماعت نماز ادا کی جاتی ہو۔ اگر جامع مسجد میں جماعت نہ ہوتی ہو تو پھر اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔ 

مسئلہ: اعتکاف کا اہم ترین رکن یہ ہے کہ آپ اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود ہی میں رہیں اور حوائج ضروریہ کے سوا ایک لمحہ کے لیے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلیں، کیوںکہ ایک لمحے کے لیے بھی شرعی اجازت کے بغیر حدود مسجد سے باہر چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔

مسئلہ: کسی شرعی عذر کے بغیر مسجد سے باہر نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ بول وبراز کے لیے اور نمازِ جمعہ کی لیے جانا شرعی عذر ہے.... وضو کے لیے اور غسل جنابت کے لیے جانا بھی عذرشرعی ہے....کھانے، پینے اور سونے کے لیے مسجد سے باہر جاناجائزنہیں ہے اور اگر کوئی مریض کی عیادت کے لیے یا نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے مسجد سے باہر گیا تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

اعتکاف کی قضاء
فقیہ الامت علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمتہ (متوفی1252ھ)لکھتے ہیں کہ: رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف ہرچندکہ نفل (سنت موکدہ) ہے، لیکن شروع کرنے سے لازم ہوجاتا ہے۔ اگر کسی شخص نے ایک دن کا اعتکاف فاسدکردیا تو امام ابویوسف کے نزدیک اس پر پورے دس کی قضالازم ہے، جب کہ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام محمدبن حسن شیبانی رحمۃاللّہ علیہما کے نزدیک اس پر صرف اسی ایک دن کی قضا لازم ہے۔

اعتکاف کی قضا صرف قصداً و جان بوجھ کر ہی توڑنے سے نہیں بلکہ اگر کسی عذر کی وجہ سے اعتکاف چھوڑدیا، مثلاً عورت کو حیض یانف اس آگیا یا کسی پر جنون وبے ہوشی طویل طاری ہوگئی ہو تو اس پر بھی قضا لازم ہے اور اگر اعتکاف میں کچھ دن فوت ہوں تو تمام کی قضا کی حاجت نہیں بلکہ صرف اتنے دنوں کی قضا کرے، اور اگرکل دن فوت ہوں تو پھرکل کی قضالازم ہے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالٰی معتکفین کے اعتکاف کو قبول فرمائے اور سنت کے مطابق اعتکاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رمضان المبارک کے مسجد سے باہر اعتکاف کرنے علیہ السلام الل ہ تعال ی میں اعتکاف ہ تعال ی کی اعتکاف میں رضی الل ہ لازم ہے کی تلاش اور اگر جاتا ہے کا ثواب اور اس ہے اور کی قضا ایک دن

پڑھیں:

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

کسی شاعر نے توکہا تھا کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

مگر حادثہ کا شکار ہونے والوں سے جب پوچھا جاتا ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ اْنہیں تو پتہ ہی نہیں چلا ، اگر اْنہیں علم ہوتا کہ اْن کے ساتھ کوئی حادثہ ہونے والا ہے تو وہ گھر سے نکلتے ہی نہیں جبکہ اْسی حادثے میں جو لوگ کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے اْن کے لواحقین بتاتے ہیں کہ اِس حادثے میں زخمی ہونے یا جان بحق ہونے سے پہلے اْنہوں نے کتنے جتن کئے تھے اور وہ کون کون سی رکاوٹ پھلانگ کر حادثے کا حصہ بنے تھے ۔ بہرحال اللہ تعالی ہم سب کو ہر قسم کے حادثے سے محفوظ رکھے۔

پرانے زمانے میں حادثات کی خبروں کے حصول کا واحد ذریعہ اخبارات ہوتا تھا اور عموما صفحہ اول پر ہی ٹریفک حادثات کی خبریں شائع ہوا کرتی تھیں۔ آج کے برعکس ریڈیو اور ٹی وی پر ایسی خبریں نشر نہیں ہوتی تھیں۔ آج تو معمولی سے معمولی حادثے کی خبر بھی ٹی وی پر دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔ لوگ پوری ذمہ داری اور دلچسپی کے ساتھ وہ خبریں دیکھتے بھی ہیں اور ساتھ ساتھ یہ تبصرہ بھی کرتے ہیں کہ اگر یہ خبر نشر نہ کرتے تو کیا حرج تھا ۔

چند سال پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ کوئی ٹریفک حادثہ ہونے کے بعد یہ طے کرنا مشکل ہوتا تھا کہ حادثہ کس کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے، جبکہ آج یہ بات طے کرنا مشکل نہیں رہا کہ حادثے کا اصل ذمہ دار کون ہے ۔ کیونکہ اکثر گاڑیوں میں لگے کیمرے یہ راز کھول دیتے ہیں اور اگر کسی گاڑی میں کیمرہ نہ بھی ہو تو آس پاس کے کلوز سرکٹ کیمرے یہ راز فاش کر دیتے ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی آج بھی ایسے کئی حادثات ہوتے رہتے ہیں جن کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا جا سکتا یا نہیں ہو پاتا ۔( خصوصا ہمارے ہاں)

 شدید دھند کے موسم میں ہمارے ہاں تو بے شک موٹرویز اور ایکسپریس ویز بند کر دی جاتی ہیں مگر کئی ممالک میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا تاہم ڈرائیورز کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی تلقین کی جاتی ہے ، مگر پھر بھی حادثات ہو ہی جاتے ہیں ۔ اس صورتحال میں عموماً غلطی تو کسی ایک ڈرائیور کی ہوتی ہے مگر اْس کے پیچھے آنے والے کئی ڈرائیورز اِس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ اچانک بریک لگانے سے پیچھے آنے والی گاڑیاں ایک دوسرے میں دھنستی چلی جاتی ہیں ۔ امریکہ کی ریاست لوزیانہ کی ہائی وے پر چند سال پہلے ایسی صورت میں چند منٹوں میں کم از کم ڈیڑھ سو سے زیادہ گاڑیاں ایک دوسرے میں دھنس جانے کی وجہ سے سات افراد جان بحق ہو گئے۔

شدید سردی کے موسم میں جبکہ دھند کے باعث حدِ بصارت بہت کم ہو جاتی ہے تو ایسے میں موٹرویز تو بند ہو جاتی ہیں مگر ہائی ویز پر ٹریفک کا دباؤ پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور وہاں حادثات کی شرح خاصی بڑھ جاتی ہے ۔ ایسے میں زیادہ تر حادثات رات کے وقت ہوتے ہیں جب ڈرائیور کو یہ اندازہ کرنے میں غلطی لگ جاتی ہے کہ اْسے کہاں سے مڑنا ہے۔ ایسے میں وہ بعض اوقات گاڑی کو سڑک کے درمیان بنی دیوار سے ٹکرا دیتا ہے ۔ بعض اوقات اچھے خاصے خوشگوار موسم میں جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہوتا ہے تو کوئی جانورکسی بھی طرح سے موٹروے کی ’سیر و سیاحت‘ کے لیے آ جائے تو اْس سے بچنے یا اْس کو بچانے کے لیے ڈرائیور یکدم بریک لگا دیتا ہے تو اِس سے بھی اْس کے پیچھے آنے والی گاڑیاں اْس میں آ کر لگنے لگتی ہیں ۔

 ہمارے ہاں ٹریفک حادثات کو مقدر کا لکھا ہی تصور کیا جاتا ہے، بہت پہلے جبکہ موٹرویز ، ایکسپریس ویز اور ون ویز نہیں ہوتی تھیں اور ایک ہی سڑک پر دونوں اطراف سے گاڑیاں آ جا رہی ہوتی تھیں تو سامنے سے آنے والی گاڑی کو دیکھ کر زبان پر بے ساختہ کلمہ طیبہ کا ورد شروع ہو جاتا تھا ۔ اْس وقت دوسرے شہر جانے کے لیے زیادہ تر لوگ بسوں پر ہی سفر کیا کرتے تھے۔ سنگل سڑک پر اوورٹیک کرتے ہوئے یا سامنے سے آنے والی ٹریفک سے بچتے ہوئے بعض اوقات بس بے قابو ہو کر سڑک سے نیچے اْتر جاتی اور سامنے آئے کسی درخت سے ٹکرا کر رک جاتی ۔ ایسے ہی کسی حادثے میں بچ جانے والی ایک بڑھیا نے ڈرائیور سے سوال کیا ؛ "بیٹا جہاں درخت نہیں ہوتے، تم بس کو کیسے روکتے ہو؟‘‘۔

 اْن دنوں میں زمینی علاقوں میں سفر پہاڑی علاقوں میں سفر کی نسبت زیادہ محفوظ ہوتا تھا۔ پہاڑی راستے چونکہ تنگ اور بل کھاتے ہوئے جاتے ہیں ، اِس لیے وہاں پر گاڑی چلانے کے لیے اضافی مہارت کی ضرورت ہوتی تھی ، بلکہ آج بھی ہے۔ ایسے میں معمولی سی غفلت گاڑی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی تھی۔ پہاڑوں میں بل کھاتی سڑکوں کے کسی موڑ سے نیچے کھائی کی طرف دیکھیں تو کوئی گری ہوئی گاڑی یا بس نظر آ جاتی ہے۔

پرانے زمانے میں تو بسیں ہی گری ہوئی نظر آتی تھیں مگر اب کاریں ، خصوصاً چھوٹی اور کم طاقت والی کاریں گرتی ہیں خصوصاً جن کے ڈرائیورز نا تجربہ کار ہوتے ہیں ۔ ایسی گاڑیاں اگر ناقابل مرمت ہوں یا اْن کی ملکیت کا کوئی دعوی دار نہ ہو تو متعلقہ ادارے ایسی گاڑیاں کھائی سے نکال کر کسی ایسی جگہ رکھ دیتے ہیں کہ جہاں ہر آنے جانے والے ڈرائیور کی نظر پڑے اور وہ اْس گاڑی کی حالت سے عبرت پکڑتے ہوئے محتاط ڈرائیونگ کرے مگر اِس کے باوجود بھی جو حادثات رونما ہونا ہوتے ہیں ہو کر ہی رہتے ہیں ۔

 گاڑیوں کی ریس کو دنیا کا مہنگا ترین کھیل تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اِس میں استعمال ہونے والی عام سی گاڑی بھی پاکستانی کرنسی کے اعتبار سے کئی کروڑ روپے کی ہوتی ہے اور اْس میں بیٹھے ڈرائیور کی زندگی کی کیا قیمت ہو گی ،آپ خود اندازہ لگا لیں ۔ پھر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ کروڑوں کی گاڑی دوسری مرتبہ ریس میں حصہ لینے کے قابل بھی نہیں رہتی۔ ایسے میں بعض اوقات تو دہرا نقصان بھی ہو جاتا ہے کہ ایک تو کار بیکار ہو گئی اور دوسرا اعزاز بھی ہاتھ نہیں آیا ۔ منظم کار ریس میں عام طور پر نقصان کار کا ہی ہوتا ہے، ڈرائیور بہرحال محفوظ ہی رہتا ہے۔ یہ ریس شائقین کو دکھانے کے لیے عام طور پر مختلف کیمروں کی مدد سے بڑی سکرینوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔

بعض اوقات اِس کی فلم بندی میں مصروف فوٹوگرافر کسی حادثے کی صورت میں ڈرائیورز سے زیادہ زخمی ہو جاتے ہیں ۔ عام لوگ دوران ریس گاڑیوں کے اْلٹنے اور ٹوٹنے کے مناظر سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اْن کا لطف بے شک ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ریسلنگ، فٹبال ، کرکٹ یا کسی بھی میچ کے دوران شائقین کا ہوتا ہے۔ گاڑیوں کے اْلٹنے کی خبریں، فوٹو یا ویڈیوز تو اکثر لوگوں نے دیکھ رکھی ہیں اور اْس سے حسبِ ضرورت لوگ عبرت بھی حاصل کرتے ہیں اور لذت بھی۔ مگر اْلٹی ہوئی بس ہو یا ٹرین ، اس سے تو لوگوں نے ہمیشہ عبرت ہی حاصل کی ہے ۔

 بسوں اور گاڑیوں کے بعد زیادہ تر حادثات ٹرینوں کے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک مرتبہ ریل گاڑی کا کانٹا بدلنے والی کسی پوسٹ کے لیے انٹرویو ہو رہے تھے۔ انٹرویو لینے والے نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ اْس نے کسے چننا ہے اور وہ حاضر امیدواروں میں موجود بھی نہیں تھا ۔ اْس نے ایک امیدوار سے پوچھا کہ اگر اْسے معلوم ہو جائے کہ دو گاڑیاں ایک ہی ٹریک پر آمنے سامنے سے آرہی ہیں تو تم کیا کرو گے؟

 اْس نے جواب دیا کہ میں اسٹیشن ماسٹر سے کہوں گا کہ وہ اِس کا کوئی بندوبست کرے ۔

انٹرویو لینے والے نے کہا کہ اگر وہ موجود نہ ہو تو؟

امیدوار نے کہا پھر میں اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر سے کہوں گا۔

 اور اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر ۔۔

پھر میں سگنل مین سے کہوں گا کہ وہ دونوں گاڑیوں کو دور دور رْک جانے کا سگنل دے۔

اور اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر؟

 امیدوار نے کہا میں اپنی دادی کو بلا لاؤں گا۔

 تمہاری دادی وہاں کیا کرے گی؟ انٹرویو لینے والے نے حیرت سے پوچھا

اْنہیں ٹرینوں کی ٹکر خصوصاً ہیڈ کولیڑن دیکھنے کا بڑا شوق ہے ، وہ اپنا شوق پورا کر لیں گی ۔ امیدوار نے جواب دیا۔

 ٹرینوں کا ہیڈ کولیڑن یا ٹیل کولیڑن پاکستان میں ہوتا ہی رہتا ہے ۔ اس طرح کے حادثات پہلے تو جنوری کے مہینے میں جب کہ دھند کا راج ہوتا ہے ، ہوا کرتے تھے مگر اب جنوری تا دسمبر کسی بھی مہینے کی کسی بھی تاریخ کو رونما ہو جاتے ہیں ۔ اِن حادثات کی وجوہات اور تفصیلات بیان کرنا چونکہ اِس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے اِس لیے آگے بڑھتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ ہیڈ کولیڑن یا آمنے سامنے سے ٹکر کاروں، بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ جہازوں کی بھی ہو جاتی ہے۔

چند سال پہلے تک صورتحال یہ تھی کہ ہوائی جہازکے حادثات عموماً دورانِ لینڈنگ یا ٹیک آف رن وے پر ہی رونما ہوتے تھے، پھر پرندوں کے ٹکرانے کی وجہ سے حادثات کی خبریں آنے لگیں ۔ پھر 9/11 کو جب امریکہ کے ٹوین ٹاورز سے دو جہاز ٹکرائے تو بعد میں اونچی عمارتوں سے جہاز ٹکرانے کی خبریں بھی ملتی رہیں۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے" کند ہم جنس باہم پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز" کے مصداق دو ایک جیسے طیارے آپس میں ٹکرانے کی خبریں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں یعنی مسافر اور کمرشل طیاروں کی ٹکریں رن وے کے علاوہ کھلی فضا میں بھی ہوتی ہیں ۔

 ہوائی جہاز کا سفر بے شک سب سے تیز سفر ہوتا ہے یعنی ٹرین یا بس کے ذریعے دنوں کا سفر محض چند گھنٹوں میں ہو جاتا ہے ۔ یوں تو فضائی سفر کی کمپنیاں دعوی کرتی ہیں کہ ہوائی سفر ہی سب سے زیادہ محفوظ سفر ہے اور اس کے لیے وہ مختلف تجربات بھی کرتی رہتی ہیں اور نئی نئی ٹیکنالوجیز بھی استعمال کرتی رہتی ہیں مگر پھر بھی حادثات جو ہونا ہوتے ہیں وہ ہو ہی جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکہ میں اوپر تلے کئی ہوائی حادثات رونما ہوئے تو لوگوں نے اِس کی ذمہ داری بھی نو منتخب صدر ٹرمپ پر ڈال دی مگر پھر دوسرے ممالک میں بھی ہوائی جہازوں کے حادثات ہوئے تو خاموشی چھا گئی کہ یہ تو ہوتے ہی رہتے ہیں ۔

چند سال قبل عید سے ایک دن پہلے پی آئی اے کی لاہور سے کراچی جانے والی پرواز کو کراچی لینڈ کرنے سے پہلے ایسا حادثہ پیش آیا کہ ایک کے سوا مسافروں اور عملے کے تمام افراد جان بحق ہوگئے۔ اِس کے علاوہ جہاز کا ملبہ آس پاس کی عمارتوں کی چھتوں پر گرنے سے الگ نقصان ہوا۔ اس حادثے کے بعد معلوم ہوا کہ قومی ائیر لاین کے بہت سے پائلٹس کی تربیت معیار کے مطابق نہیں ہے تو وزیراعظم نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے ایسے پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا جس سے قومی ائیر لائن کی مقبولیت کا گراف خاصا گر گیا ، بہت سے ممالک نے تو قومی ائیر لائن کا داخلہ ہی بند کر دیا تھا۔ اْس وقت کی اپوزیشن نے اعتراض کیا کہ وزیراعظم کے اس اقدام سے پاکستان کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

فضائی حادثات کی فہرست بنائی جائے تو بہت طویل بن سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجوہات میں تو مماثلت ہو سکتی ہے مگر فضائی حادثات کی صورت میں ہمیشہ نئی صورت حال ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں کینیڈا ٹورنٹوکے پیرسون ائیر پورٹ پر ڈیلٹا ائیر کاطیارہ شدید سردی کے موسم میں لینڈ کرنے کے بعد اِس طرح اْلٹ گیا کہ اِس سے پہلے کسی طیارے کو اِس حالت میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ اِس حادثے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر طیارہ ناصرف ناکارہ ہو گیا بلکہ کئی دنوں تک اْس کا ملبہ ائیر پورٹ پر ایسے پڑا رہا کہ حادثہ کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں نہیں ہوا بلکہ کسی انتہائی پسماندہ ملک میں ہوا ہے۔ جہاز ساز کمپنیاں ایسے حادثات کی وجوہات کو عوام سے چھپانے میں عموماً کامیاب ہو ہی جاتی ہیں ، ممکن ہے اِس مرتبہ بھی اْنہیں کامیابی ہو جائے ۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • بجلی
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
  • صیہونی سوشل میڈیا پر مسجد اقصیٰ کو گرانے کی مذموم مہم شروع
  • Forwarded As Received
  • ایف آئی آر کی کہانی
  • اور ماں چلی گئی
  • لاہوریے فلسطینیوں کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے، شہر بھر میں مظاہرے