Daily Ausaf:
2025-04-22@18:55:12 GMT

مقامِ قاب قوسین کی حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

تاریخ شاہدعادل ہے کہ جمیع مسلمانانِ عالم اِیمان بالغیب اور قدرتِ اِلہیہ کے ظہور پراِیمان رکھنے کی وجہ سے بغیر دلیل معجزاتِ مصطفی ﷺ کے ہمیشہ قائل رہے۔ عہدِ حضور ﷺ، عہدِ صحابہ اور بعد میں آنے والے ان مسلمانوں کا اِیمان قابلِ رشک اور قابلِ داد تھا کہ ظہورِ قدرتِ اِلہیہ کے ناقابلِ فہم و اِدراک ہونے کے باوجود ان کا اِیمان کبھی متزلزل نہیں ہوا،ان کے آئین دل پر کبھی بھی شبہات کی گرد اور وسوسوں کی دھول نہیں پڑی،ان کے آئین شعورمیں بھی کبھی کوئی بال نہیں آیا۔ آج سے1400سال قبل عقلی بنیادوں پر دورانِ معراج آن کی آن میں ساتوں آسمانوں کی حدود سے گزرکرلامکاں تک جاپہنچنااوراسی لمحے میں اس کھربوں نوری سال کی مسافت کوطے کر کے واپس سرزمینِ مکہ پرتشریف لے آناتو کجا زمین کی بالائی فضامیں پروازکاتصوربھی ناقابلِ یقین محسوس ہوتاہے اوردوسری طرف آج کا اِنسان اللہ رب العزت کی عطا کردہ تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت عالمِ اسباب کے اندررہتے ہوئے اپنی کی سی اِتباعِ معجز معراج میں کائنات کو مسخرکرنے کاعزم لے کرنکلاہے۔ اگرچہ آج کااِنسان صبح وشام فضائے بسیط میں محوِپروازہے لیکن اگرواقع معراج کواپنی تمام ترجزئیات کے ساتھ حیط شعورمیں لایاجائے توخلائی سفرکے مخصوص لوازمات کے بغیرکر فضاسے باہرایتھر(Ather) میں کروڑوں نوری سال کاسفرطے کرنے کا تصور آج بھی ناممکن دِکھائی دیتاہے۔ہوائی سفرکی مشکلات پربتدریج قابوپایاجا رہا ہے اوراب یہ سفرکسی حد تک محفوظ خیال کیاجاتاہے لیکن خلائی سفرمیں اِنسان کوفنی اور تیکنیکی پیچیدگیوں کاہی سامنانہیں کرناپڑتابلکہ نفسیاتی الجھنیں بھی اس کا دامن تھام لیتی ہیں۔خلا کا سفرخطرات سے خالی نہیں،لیکن جذب تسخیر ِکائنات عزم کوعمل کے سانچے میں ڈھالتاہے تو اِنسان چاندکی سطح پراپنی عظمت کا پرچم نصب کرنے کے بعداپنے خلائی سفرکے اگلے مرحلے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہوجاتاہے۔ بیسویں صدی میں یہ کارنامہ سراِنجام دیاجاچکاہے۔ خلائی تحقیقات کے امریکی اِدارے (NASA) کی طرف سے تسخیرِماہتاب کیلئے شروع کئے گئے دس سالہ اپالو مِشن کے تحت جولائی1969میں چاند کا پہلاکامیاب سفرکرنے والیاپالو11کے مسافر امریکی خلانوردنیل آرمسٹر انگ(Neil Armstrong)اورایڈون بز (Edwin Buzz) تاریخِ اِنسانی کے وہ پہلے افراد تھے جو چاند کی سطح پر اترے جبکہ ان کا تیسرا ساتھی کولنز (Collins) اس دوران مصنوعی سیارے کی مانند چاند کے گرد محوِ گردش رہا۔ اِس دوران امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم زمینی مرکز (KSC)میں موجود سائنسدان انہیں براہِ راست ہدایات دے رہے تھے۔ضروری تجربات کے علاوہ مختلف ساخت کے چندپتھروں کے نمونے وغیرہ لے کر،روانگی سے محض دودن بعدخلانوردوں کایہ مہم جوقافلہ واپس زمین پرآگیا۔ اِس مہم کے دوران پل پل کی خبرٹی وی اورریڈیوکے ذریعہ زمین کے مختلف خطوں میں بسنے والے اِنسانوں تک پہنچائی جاتی رہی۔عالم اِنسانیت کی اِن خلائی فتوحات اورتسخیرِماہتاب کاذِکرچودہ صدیاں قبل صحیف کمال یعنی قرآنِ مجید میں پوری وضاحت کے ساتھ کردیا گیاتھا۔ اِرشادِ خداوندی ہے:قسم ہے چاندکی جب وہ پورادکھائی دیتاہے، تم یقینا طبق درطبق ضرورسواری کرتے ہوئے جاگے، توانہیں کیاہوگیا ہے کہ قرآنی پیشینگوئی کی صداقت دیکھ کر بھی اِیمان نہیں لاتے۔ (الانشقاق، 18-20)
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
قرآنِ حکیم کے علاوہ بائبل سمیت دیگر صحائفِ آسمانی اور مذہبی کتب میں اِس قدر درست سائنسی حوالے بالکل نہیں ملتے۔درج بالا آیتِ مبارکہ میں تسخیرِ ماہتاب کاجوواضح اِشارہ ہے، بیسویں صدی کے اِنسان نے اس اِشارے کی عملی تفسیراپنی آنکھوں سے دیکھی۔آج کے اِنسان نے کامیابی وکامرانی کی ان گنت منازِل طے کرلی ہیں۔علومِ جدیدہ اِنسان کے ذِہن کوکشادگی بخش رہے ہیں۔الجھی ہوئی گرہیں کھل رہی ہیں اور کائنات اپنی ازلی صداقتوں کے ساتھ نکھرکر ا س کے سامنے بے نقاب ہوتی چلی آرہی ہے لیکن اپنی تمام ترمادی ترقی کے باوجودابھی تک اِنسان روشنی کی رفتارسے سفرکرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرسکا۔ روشنی 1,86,000 میل(تین لاکھ کلومیٹر) فی سیکنڈکی رفتارسے سفرکرتی ہے اور سائنس کی زبان میں اِس قدررفتارکاحصول کسی بھی مادی شئے کیلئے محال ہے ۔اب جدید سائنس بھی اپنی تحقیقات کوبنیادبنا کر اِس کائناتی سچائی تک رسائی حاصل کرچکی ہے کہ رفتارمیں کمی وبیشی کے مطابق کسی جسم پروقت کاپھیلنااور سکڑ جانااو جسم کے حجم اور فاصلوں کا سکڑنااورپھیلناقوانین فطرت اور منشائے خداوندی کے عین موافق ہے۔ربِ کائنات نے اپنی آخری آسمانی کتاب قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں طء زمانی اورطء مکانی کی بعض صورتوں کا ذِکر فرماکربنی نوع اِنسان پریہ واضح کردیاہے کہ اِنسان توبیسویں صدی میں اپنی عقل کے بل بوتے پروقت اورجگہ (Time & Space)کے اِضافی (Relative) تصورات کواپنے حیط اِدراک میں لانے میں کامیاب ہوگالیکن ہم ساتویں صدی عیسوی کے اوائل ہی میں اپنی وحی کے ذریعہ اپنے محبوب رسولﷺپر اِن کائناتی سچائیوں کو منکشف کررہے ہیں۔لاکھوں کروڑوں کلومیٹرزکی وسعتوں میں بکھری مسافتوں کے ایک جنبشِ قدم میں سِمٹ آنے کواِصطلاحاً’’طئی مکانی‘‘کہتے ہیں۔ صدیوں پر محیط وقت کے چند لمحوں میں سمٹ آنے کو اِصطلاحا ’’طئی زمانی‘‘کہتے ہیں۔خدائے قدیروخبیر اپنے برگزیدہ انبیائے کرام میں سے کسی کومعجزہ اور کرامت کے طورپرطئی زمانی اورکسی کوطئی مکانی کے کمالات عطاکرتاہے لیکن حضور رحمتِ عالم ﷺ کا سفرِ معراج معجزاتِ طء زمانی اور طء مکانی دونوں کی جامعیت کامظہرہے۔ سفرکاایک رخ اگر طئی زمانی کاآئینہ دارہے تواس کا دوسرا رخ طئی مکانی پرمحیط نظرآتاہے۔معراج النبی ﷺ کے دوران میں اِن معجزات کاصدورنصِ قرآن و حدیث سے ثابت ہے،جن کی صحت میں کسی صاحبِ اِیمان کیلئے اِنحراف کی گنجائش نہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ملک سبابلقیس کے تخت کے بارے میں اپنے درباریوں سے سوال کرتے ہیں :(حضرت سلیمان علیہ السلام )نے فرمایا : اے درباروالو!تم میں سے کون اس(ملکہ)کاتخت میرے پاس لاسکتاہے،قبل اِس کے کہ وہ لوگ فرمانبردارہوکر میرے پاس آجائیں۔ (النمل، 27:38)ملک سبا بلقیس کا تخت دربارِ سلیمان علیہ السلام سے تقریباً 900 میل کے فاصلے پر پڑا ہوا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام چاہتے تھے کہ ملک سبا جو مطیع ہو کر ان کے دربار میں حاضر ہونے کیلئے اپنے پایہ تخت سے روانہ ہو چکی ہے، اس کا تخت اس کے آنے سے قبل ہی سرِدربار پیش کر دیا جائے۔ قرآنِ مجید کہتا ہے :ایک قوی ہیکل جن نے عرض کیا : میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بے شک میں اس (کے لانے) پر طاقتور (اور)امانت دار ہوں۔ (النمل، 27:39)
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سلیمان علیہ السلام ہے لیکن

پڑھیں:

اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ

پہلی بار نہ سہی مگر اکادمی ادبیات پاکستان نے ادبی ایوارڈ زکی صورت میں جو اندھا یدھ برپاکیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔قومی معاملات میں مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تو ہوہکار کے طوفان تو اٹھتے اور بیٹھ جاتے ہو ئے دیکھے ہیں مگر علم و دانش اور شعر و ادب کے حوالے سے ایسی رستاخیز کبھی برپا نہیں ہوئی تھی۔اس پر مستزاد اہل قلم مداہنت آمیز خاموشی…! اور تو اور جن کا قلم درد و الم کی گنگا بہانے کی’’خیالی نقش گری‘‘ میں کمال مہارت رکھتا ہے ، جن کی زنبیل میں سیاسی بد عنوانیوں اور بداعمالیوں پر ڈالنے کے لئے اطلس و کم خاب کے پارچہ جات کی کمی نہیں ،وہ جو ہر فیصلے اپنی پسند و ناپسندی کی جہت دینے کے وسیع اختیارات رکھتے ہیں ۔جو سفید کو سیاہ اور سیاہ کے سفید ہونے کی تصدیقی مہریں ہر پل اپنی جیبوں میں رکھتے ہیں اور طاقت پرواز ایسی کہ کاغذی بیمانوں پر سوار ہوکر جدہ پیلس پناہ جلینے میں ساعت بھر نہیں لگاتے ۔اپنا یہ حسن ظن بھی خیال خام ثابت ہوا کہ اس بار وہ بچ بچا کر ہونے والے امکانات کی روشنی میں فیصلے صادر کروائیں گے کہ اس پیرانہ سالی میں کفاروں کی ادائیگی کا اہتمام صاف و شفاف دکھائی دے گا ۔مگر وائے افسوس وہ دہکتے ہوئے ادبی ماحول کی بابت کچھ کہنے کی بجائے ’’لق و دق صحرا میں بگولے کی طرح رقص کرتے گھمن گھیریاں کھاتے‘‘
پی ٹی آئی کے وجود کا نوحہ لکھنے ہی میں مست رہے ،کیونکہ ان کے حکم اذاں کی تعمیل کے لئے عمرہ جاتی یا جاتی عمرہ کی جانب رخ انور سجائے رکھنا ضروری ہے ۔ اکادمی ادبیات کی نیاز بانٹنے والوں نے جو ’’یدھ‘‘ مچایا اس کی مثال نہیں ملتی اور مجال کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ قومی خزانے پر انہیں کا حق ہے جنہیں ان کے اجداد سانپ کی طرح اس کی نگرانی پر مامور کر گئے تھے۔یوں بھی اپنے اپنے خدا گھڑلینے کا رواج اب نہیں پڑا یہ بہت پرانی رسم ہے زمین پر خدا بنالینے والوں کی اپنی احتیاجات اور اپنی ضروریات ہوتی ہیں ۔مورت گری کے فن پر دسترس ہوتو ضمیر آڑے نہیں آتا کہ یہ تو ہنر ہی باد فروشوں ہی کا ہے ۔اب کی بار اکادمی ادبیات کی شہ نشین صنف نازک ہیں نزاکتوں بھرے فیصلے ہی ان کی زبانی سنوائے جانے تھے ،انہیں کیا خبر عدل کیا ہوتا ہے ؟ انصاف کسے کہتے ہیں ؟ کہ ان کے زریں دور میں تو ایسے ہی غیر شفاف فیصلوں کا چلن ہے ،پھر ان پر کیا دوش کہ ان کے گرد بھی تو باد سنجوں کی ایک فوج ظفر موج ہوگی ، جنہیں سچ کہنے اور حق کرنے کا بھلے یارہ ہی کس نے بخشا ہوگا اور وہ بھی لکھے ہوئے فیصلوں پر دستخط کرنے کا اختیار رکھتی ہیں، خط تنسیخ کی اجازت آنہیں کہاں تفویض کی گئی یہ اختیار تو سنا ہے ریاست اور حکومت کے سربراہ کے پاس بھی نہیں ہوتا ،سوائے اس کے کہ فیصلے سارے اسی کے ہیں ہماری بابت اختیار بس اتنا کہ خبر میں رہنا ہے کتنے سخن ساز ہیں ،قلم کار ہیں بھوک رات دن جن کے آنگنوں میں رقص کرتی ہے مگرکسے خبر ہے ہمارے اندر ہر ایک منظر بہ چشم تر ہے کسے خبر ہے (مصدق سانول) ایک نابغہ روزگار نوجوان شاعر تھا عین شباب میں داعی اجل ہوا ۔آج تک کسی کی نظر سے نہیں گزرا ،اس کی نظمیں ،اس کی گائی ہوئی کافیاں ،سرائیکی شعری سرمایہ سب حالات کی بھینٹ چڑھ گیا ۔
سرائیکی وسیب کے منفرد لہجے کے شاعر حبیب فائق کسے یاد ہیں،یاد تو فقیر منش سرائیکی شاعر اسلم جاوید بھی کسی کو نہیں جو ابھی زندہ ہے اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔کس کس کا ذکر کریں کہ یہاں یہ رسم رہی ہے کہ ’’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘ مقبول تنویر سرائیکی مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے عین جوانی میں داغ مفارقت دے گئے ۔مرحوم ڈاکٹر مقصود زاہدی اردو رباعی کے بادشاہ کبھی کسی ایوارڈ کے مستحق نہیں ٹھہرائے گئے اور ممتاز اطہر اردوغزل کو نئی جہت اور جدید رنگ عطا کرنے والے ،غربت و افلاس کے اندھیروں میں بھٹکرہے ہیں کسی نے ان کی انگلی نہیں تھامی کہ بے روزگاری کے اندھے کنویں سے نکل آتے ۔ایسے کئی اور رتن ہوں گے جو آسودہ خاک ہوئے اور وہ ہیں کہ ابھی بے سمتی اور بے حکمتی کے لق و دق صحرا میں رقص کرتی، پی ٹی آئی پر ہی سوئی اڑائے ہوئے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پر فائرنگ سے کم از کم 5افراد ہلاک ، متعدد زخمی
  • ’شہد کی مکھی کے خاتمے سے انسانیت کا ایک ہفتے میں خاتمہ‘، آئن سٹائن کی تھیوری کی حقیقت کیا؟
  • عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
  • پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں بات چیت ہوسکے، فضل الرحمان
  • وسائل کے تحفظ کیلئے آغا راحت کا بیان حقیقت پر مبنی ہے، عارف قنبری
  • اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ
  • عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت
  • گری ہوئی چیز کو اٹھا کر کھانے کا 5’ سیکنڈ رول’، حقیقت کیا ہے؟
  • میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی