قراردادِ پاکستان دراصل اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتی ہے، ظفراللہ خان
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
معروف ماہر تعلیم، مصنف، محقق اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ظفر اللہ خان نے کہا ہے کہ قراردادِ پاکستان یا قراردادِ لاہور برصغیر کے دستوری یا آئینی حل کے طور پر پیش کی گئی اور اُس میں جس زونل فیڈریشن کی بات کی گئی ہے اُس فیڈریشن کے اندر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔ اگر دستور پر عمل کیا جائے، اِس ملک کی کثیر القومیتی شناخت کو تسلیم کیا جائے تو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اگر ہم کثیر القومیتی تصور کو تسلیم نہیں کریں گے تو اُس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ قراردادِپاکستان کے اندر علیحدہ ملک اور صوبائی خودمُختاری دونوں تصورات موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں یوم پاکستان پریڈ اس بار محدود پیمانے پر کیوں ہوگی؟
ظفر اللہ خان نے کہاکہ قراردادِ پاکستان کے اندر ان دونوں تصورات کو سمجھنا ہوگا۔ قراردادِ پاکستان وہ وقت ہے جب 1935 کا آل انڈیا ایکٹ آ چُکا ہے، دو گول میز کانفرسیں ہو چکی ہیں، وزارتوں کا تجربہ ہو چُکا ہے۔ قرارداد پاکستان کی تیاری میں کئی ایسے لوگ شامل تھے جو ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے اور قائدِاعظم خود بھی لکھنؤ معاہدے کی وجہ سے ہندو مسلم اتحاد پر یقین رکھتے تھے۔
انہوں نے کہاکہ اُن لوگوں نے شمال مغربی اور جنوب مشرقی علاقوں کو مشرقی اور مغربی زون بنانے کی بات کی اور کہاکہ ان کو ملا کر ریاستیں بنائی جائیں۔ اُس وقت اُن لوگوں میں یہ تصور راسخ ہو چُکا تھا کہ ہم نے اکثریت کا استبداد وزارتوں کی شکل میں دیکھ لیا اور اب اگر انگریز ایسے اس ملک کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو اقلیتوں کا کیا ہوگا۔
ظفر اللہ خان نے کہاکہ سابق بھارتی وزیرخارجہ جسونت سنگھ اپنی کتاب میں لکھ چُکے ہیں کہ نہرو اور پٹیل کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کابینہ مشن پلان ناکام ہوا جس کی وجہ سے تقسیم ہوئی۔
پاکستان میں بھارت کی نسبت اقلیتوں کی نمائندگی زیادہ ہےظفر اللہ خان نے کہاکہ بھارت میں مسلم آبادی 15 فیصد ہے جبکہ وہاں کی لوک سبھا یا ایوان زیریں میں مسلمانوں کی نمائندگی 4.
انہوں نے کہاکہ برصغیر کی تقسیم اِس اعتبار سے قدرتی ہے اگر آپ یہاں کی اکثریتی آبادی کا مذہب دیکھیں، لیکن ایسا نہیں کہ یہاں ایک ہی مذہب کے افراد آباد تھے، فاٹا میں آج بھی سکھ برادری کے افراد موجود ہیں، بلوچستان میں ہندو تھے کچھ تو ہماری پارلیمنٹ کا حصہ بھی رہے، سندھ میں ہندو کمیونٹی کی آبادی تھی اور پنجاب میں بھی تھی، جب پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی بات کی جارہی تھی تو اُس وقت پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ایس پی سنگھا مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے تھے، اور ہمارا خطہ ایک کثیر المذہبی خطہ تھا۔
قائدِاعظم نے کوشش کی پنجاب تقسیم نہ ہوظفر اللہ خان نے بتایا کہ قائدِاعظم محمد علی جناح نے کوشش کی تھی کہ پنجاب تقسیم نہ ہو لیکن اُس وقت ہمارے سکھ بھائیوں کا نقطہ نظر کچھ اور تھا، اب وہ بھی کرتار پور آنا چاہتے ہیں اور ہم بھی بُلانا چاہتے ہیں اور اُنہوں نے بھی دیکھ لیا کہ بھارت میں اُن کے ساتھ کیا ہوا۔
انہوں نے کہاکہ تقسیم صرف دو صوبے ہوئے پنجاب یا بنگال، خیبرپختونخوا تب بھی ایسے ہی موجود تھا جیسے اب موجود ہے۔ بلوچستان کمشنریٹ صوبے کی شکل میں تب بھی موجود تھا اب بھی موجود ہے۔ اسی وجہ سے مشرقی پنجاب میں تڑپ ہے وہ ریفرنڈم کراتے پھر رہے ہیں، اُس وقت اگر تقسیم نہ ہوتا تو شاید فسادات بھی نہ ہوتے۔
پاکستان میں شناخت کے بحران کی بنیاد کیا ہے؟اس سوال کے جواب میں ظفراللہ خان نے کہاکہ پاکستان کا کوئی صوبہ کسی ایک مخصوص نسلی گروہ پر مشتمل نہیں بلکہ مختلف نسلی گروہ اُس کو آباد کرتے ہیں۔ اِس لیے کوئی اگر یہ کہے کہ یہ خطہ ارضی صرف اِس مخصوص نسلی گروہ کا مسکن ہے تو یہ بات درست نہیں۔
ظفراللہ خان نے کہاکہ اس مُلک کے بحران کی بنیاد دستوری ہے، دستور کو چلنے ہی نہیں دیا گیا، قوموں کو جو چیز جوڑتی ہے وہ اُس کا دستور ہوتا ہے۔ قراردادِ پاکستان کا متن بھی دستوری ہے جس میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔ ہمیں دستور بنانے میں 9 سال لگے اور ہم نے اُس میں بڑے سمجھوتے بھی کیے۔ 1973 کا دستور دو بار معطل ہوا لیکن اُس پر اِس ملک کی تمام سیاسی قیادت کے دستخط ہیں، ڈنڈے کے زور پر تمام لوگوں کو ایک نہیں بنایا جا سکتا۔
بھارت کی جمہوریت بھی بیمار ہے اور ہماری بھیبھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور اُس کے جمہوریت پر اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ظفراللہ خان نے کہاکہ بھارت میں زیادہ عرصہ ایک جماعت یعنی کانگریس کی حکومت رہی ہے اور جہاں زیادہ عرصہ ایک ہی جماعت کی حکومت رہے وہاں مذہبی عنصر غالب آ جاتا ہے، لیکن پھر بھی وہاں جمہوری تسلسل رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کی خرابیوں کو مزید جمہوریت سے درست کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں تو لمبے لمبے جمہوری تعطل آتے رہے، ایسے کئی سال ہیں جب پاکستان میں جمہوریت تھی ہی نہیں۔ بھارت کی جمہوریت بھی بیمار ہے اور ہماری جمہوریت بھی، لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جمہوریت سے رخصت لے لی جائے۔
یہ بھی پڑھیں تمام اقلیتیں آزادہیں، ہمیں رنگ و نسل، ذات پات سے بالا تر ہو کر آگےبڑھناہوگا، وزیراعظم شہبازشریف
تمام متفق ہیں کہ دستور پر عمل ہی واحد حل ہےظفر اللہ خان نے کہاکہ پاکستان میں تمام طبقات اور تمام قوتیں اس اتفاقِ رائے پر پہنچ چُکی ہیں کہ ملک کو دستور کے مطابق چلانا ہی مسائل کا حل ہے، دستور کی تعلیم ایک مسئلہ ہے، لوگوں کو دستور کی تعلیم دی جانا ضروری ہے لوگوں کو اُن کے حقوق و فرائض سے آگاہی ہو، آئین کی چھتری کے نیچے چلیں گے تو آگے منزلیں ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اقلیتیں برصغیر بھارت پاکستان تقسیم برصغیر جمہوریت قرارداد پاکستان مختلف مذاہب وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقلیتیں بھارت پاکستان جمہوریت قرارداد پاکستان مختلف مذاہب وی نیوز ظفر اللہ خان نے کہاکہ انہوں نے کہاکہ ظفراللہ خان پاکستان میں کی نمائندگی بھارت میں کی بات کی جاتا ہے فیصد ہے کے حقوق اور ہم لیکن ا ہیں کہ ہے اور کی گئی
پڑھیں:
اوورسیز کا زمینوں کے تحفظ، خصوصی عدالتوں اور سرمایہ کاری سہولت مرکز کے قیام کا مطالبہ
اسلام آباد: پاکستان بزنس فورم فرانس کے سرپرست اعلیٰ محمد ابراہیم ڈار نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں منعقدہ اوورسیز کنونشن ایک خوش آئند آغاز ہے، جو بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری اور تحفظ فراہم کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی زمینوں پر قبضے کے واقعات کا فوری نوٹس لیتے ہوئے واگزار کرانے کے لیے چاروں صوبوں، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں، جبکہ سرمایہ کاروں کے لیے تمام متعلقہ اداروں پر مشتمل ’ون ونڈو آپریشن‘ کا قیام بھی فوری عمل میں لایا جائے۔
وہ وزارتِ اوورسیز پاکستانیز کے فوکل پرسن اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری اطلاعات و نشریات غلام مصطفیٰ ملک کی جانب سے دیئے گئے ظہرانے سے خطاب کر رہے تھے، جس میں پاک فیڈریشن اسپین کے سیکرٹری جنرل ایاز عباسی، یو اے ای کے ممتاز بزنس مین سہیل ممتاز، اور اسلام آباد کے سینئر صحافیوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔
وزارت اووسیز پاکستانیز کے فوکل پرسن و سیکرٹری اطلاعات پاکستان مسلم لیگ ق ،غلام مصطفیٰ ملک نے تقریب کے شرکاء کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی بھرپور شرکت سے تین روزہ کنونشن کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ انہوں نے کہا کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے لیے سرمایہ کاری کے سازگار مواقع فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
محمد ابراہیم ڈار نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن مستقل مسائل اور رکاوٹیں آئندہ نسلوں کے رجحان کو متاثر کر سکتی ہیں، جن پر حکومت اور اداروں کو فوری توجہ دینا ہوگی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاک فیڈریشن اسپین کے سیکرٹری جنرل ایاز عباسی نے کہا کہ حکومت کی یہ کوشش قابلِ تحسین ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع دیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ سال اوورسیز کنوینشن مزید بہتر اور مؤثر ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہے اور ہماری خواہش ہے کہ ہم پاکستان میں سرمایہ کاری کر کے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
یو اے ای کے ممتاز بزنس مین سہیل خاور ممتاز نے کہا کہ یہ کنونشن حکومت، فوج اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ایک مضبوط پیغام تھا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے ایک بہترین ملک ہے۔
تقریب کے دوران معزز مہمان محمد ابراہیم ڈار کو خوش آمدید کہنے کے لیے ظفر اقبال قاضی اور جاوید شہزاد(مرحوم) کی نمائندگی کرتے ہوئے خرم شہزاد نے انہیں گلدستہ پیش کیا۔
تقریب کے اختتام پروزارت اووسیز پاکستانیز کے فوکل پرسن و مسلم لیگ ق کے سیکرٹری اطلاعات و نشریات غلام مصطفی ملک کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا ،شرکاء نے ان کو مبارکباد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔