WE News:
2025-04-22@09:42:26 GMT

امریکا سکستھ جنریشن فائٹر طیارہ کیوں بنا رہا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

   امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ امریکا سکستھ جنریشن فائٹر طیارہ بنائے گا۔ اوول آفس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ اس طیارے کا نام  ’ایف-47‘ ہوگا۔ صدر ٹرمپ کے مطابق ایف-47 ایک ایسا طیارہ ہوگا جس کی خصوصیات اور صلاحیتیں بے مثال ہوں گی اور دنیا نے ایسا طیارہ پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا، اس طیارے کی رفتار، گولہ بارود لے جانے کی صلاحیت اور دیگر خصوصیات کا دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں۔

  اس طیارے کی تیاری کا کنٹریکٹ امریکی کمپنی بوئنگ کو دیا جا رہا ہے۔ ابھی تک اس حوالے سے تفصیلات سامنے نہیں آئیں، انہیں خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہ اس میں کیا کیا خصوصیات ہوں گی۔ البتہ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ دنیا کا مہنگا ترین طیارہ ہوگا۔ سکستھ جنریشن طیارے کا نام F-47 رکھنے کے حوالے سے ایک رائے یہ بھی ہے کہ چونکہ ٹرمپ امریکا سکے 47ویں صدر ہیں تو انہوں نے اپنے دور اقتدار کی مناسبت سے یہ نام رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’خلیفہ‘ کا زوال

 سوال یہ ہے کہ سکستھ جنریشن فائٹر طیارے کیا ہے اور امریکا کے اس اعلان کا دنیا میں کیا امپیکٹ پڑے گا اور چین جیسی قوتوں کے لیے کیا نیا چیلنج پیدا ہوجائے گا؟

 فائٹر طیارے کے حوالے سے ایک بات سمجھ لیں کہ جیسے جیسے جنریشن بڑھے گی، ویسے ہی وہ طیارہ جدید ترین صلاحیتوں کا حامل ہوگا، دوسری جنگ عظیم کے زمانے کے سکینڈ جنریش طیارے تھے، پھر تھرڈ جنریشن آئے۔ ایف 16 فورتھ جنریشن طیارہ ہے جو کہ ایک طرح سے گیم چینجر تھا۔

  ایف 16 کے بھی مختلف بلاک آئے، جو پاکستان کے پاس ایف 16 ہیں، وہ پرانے ہیں اس کے بعد اسی فورتھ جنریشن میں کئی اپ گریڈیشن ہوچکی ہیں۔ پاکستان اور چین کی مشترکہ پروڈکشن جے ایف تھنڈر  بھی فورتھ جنریشن طیارہ ہے۔

  روس کے  سخوئی 27 اور سخوئی 30 بھی فورتھ جنریش لڑاکا طیارے ہیں۔ مِگ 29 بھی اسی کیٹیگری میں ہے۔ چین نے بھی پچھلے 10-15 برسوں میں ہتھیاروں کی طرف توجہ دی ہے اور اچھے فائٹر طیارے بنائے ہیں۔ چین کے جے 10 اور جے 11 فورتھ جنریشن طیارے ہیں۔

 اس کے بعد فورتھ جنریش سے کچھ بہتر طیارے بھی بنائے گئے، جنہیں فور  پلس یا فور پلس پلس یا 4.

5 جنریشن سمجھ لیں۔ انہیں فورتھ جنریشن پر کسی حد تک سبقت حاصل ہے۔ فور پلس جنریش طیاروں میں جدید ایوانکس سسٹم کے علاوہ کسی حد تک اسٹیلتھ صلاحیت بھی موجود ہے۔

  اسٹیلتھ سے مراد یہ ہے کہ طیارہ ریڈار میں نظر نہ آئے یا بہت کم اور تاخیر سے نظر آئے۔ اس کے لیے ان طیاروں کے مخصوص ڈیزائن کے علاوہ اور ان پر وہ مخصوص پینٹ لگایا جاتا ہے جو ریڈار کی ویوز کو واپس بھیجنے کے بجائے جذب کر لے یا پھر کسی اور طرف موڑ دے تاکہ ریڈار بروقت اطلاعات حاصل نہ کر سکے۔

  فورتھ پلس جنریش طیاروں میں امریکا کا ایف 18 ہارنیٹ نمایاں ہے، جبکہ  فرانسیسی طیارہ رفال بھی اس حوالے سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت نے فرانس سے یہی رفال طیارہ لے رکھا ہے تاکہ پاکستانی ایف 16 اور جے ایف تھنڈر 17 پر سبقت لے سکے ، تاہم پاکستان نے اس کا توڑ چینی فور اینڈ ہاف جنریشن لڑاکا طیارہ لیکر کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان کو ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی چاہیے 

  انگلینڈ، جرمنی، اسپین اور اٹلی کی مشترکہ پروڈکشن یورو فائٹر ٹائفون بھی اسی کیٹیگری میں ہے۔ ایف 16 کا وائپر ویرائنٹ بھی اسی زمرے میں سمجھا جاتا ہے۔ امریکا ہی کا ایف 15 ای ایکس ایگل بھی اہم فائٹر طیارہ ہے۔ چین کا جے 16 فور اینڈ ہاف جنریشن فائٹر طیارہ ہے۔ جے ٹوئنٹی(J20) کو ففتھ جنریش طیارہ بھی کہا جاتا ہے مگر بعض مغربی ناقدین اسے فور اینڈ ہاف میں شمار کرتے ہیں۔ بہرحال یہ اہم فائٹر طیارہ ہے۔

  آپ جانتے ہیں کہ جدید ہتھیاروں کی دوڑ کبھی ختم نہیں ہوتی، ایک دوسرے پر سبقت لینے کی خواہش مزید آگے بڑھنے پر اکساتی ہے۔ امریکا نے دیکھا کہ جب دیگر ممالک بھی فورتھ اور فور اینڈ ہاف جنریشن طیارے بنا چکے ہیں تو پھر امریکی ففتھ جنریش فائٹر طیارے کی طرف چلے گئے۔ اس کی سب سے اہم خوبی اس کا جدید ترین ایوانکس اور مکمل اسٹیلتھ صلاحیت ہے، ساتھ لانگ رینج میزائل بھی موجود ہے۔

  یہ ففتھ جنریشن طیارے گیم چینجر ہیں، ان کا مقابلہ تب ہی ممکن ہے جب مقابلے  میں ففتھ جنریش فائٹر ہو۔ آپ خود سوچیں کہ کوئی فائٹر طیارہ کہیں پر حملہ آور ہو اور وہ ریڈار میں نظر ہی نہ آئے تو اس پر کیسے راکٹ وغیرہ فائر کیا جا سکتا ہے؟ اوپر سے یہ لانگ رینج میزائل یعنی ڈیڑھ 2 سو کلومیٹر دور سے کارروائی کر کے واپس چلا جائے تو مخالف کے پاس کیا جواب ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔ اکثر اوقات یہ ففتھ جنریش فائٹر کارروائی کر کے واپس جاتے ہوئے کہیں ریڈار میں نظر آ گیا تو آ گیا، ورنہ اس کا پتا ہی نہیں چلتا۔

   امریکی ففتھ جنریش طیاروں میں سے سرفہرست ایف  22ریپٹر ہے۔ جبکہ دوسرا اہم ایسا طیارہ ایف 35 ہے۔ یہی وہ طیارہ ہے جو امریکا اپنے نہایت قابل اعتماد اتحادی ممالک کو دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو بھی ایف 35 دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ ملٹی رول اسٹیلتھ فائٹر طیارہ ہے جو ایئر ٹو گراؤنڈ اور ایئر ٹو ایئر لڑائی کا بادشاہ ہے۔

  روس کا سخوئی 57 فیلن بھی اہم طیارہ ہے۔ بھارت پہلے یہ لینا چاہ رہا تھا، مگر اب امریکی دباؤ پر اسے ایف 35 کی طرف جانا پڑے گا۔ چین کا جے ٹوئنٹی بھی ففتھ جنریش طیارہ ہے جبکہ اس کا جے 35 بھی کمال کا ففتھ جنریش فائٹر طیارہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی اس طیارے کو لینے میں انٹرسٹڈ ہیں۔ ویسی ترکی بھی ففتھ جنریشن طیارے کان پر کام کر رہا ہے، امکان ہے کہ 3-4 برسوں میں یہ طیارہ مکمل ہوجائے گا۔ پاکستان کا اس سلسلے میں بھی بات چل رہی ہے۔کوریا اور چند دیگر ممالک بھی اس طرف کام کر رہے ہیں۔

   فضائی لڑائی میں اگر ایک طرف ففتھ جنریش طیارہ ہو تو دوسری طرف چاہے فورتھ جنریش ہو یا فور اینڈ ہاف مقابلہ یک طرفہ ہی ہوگا۔ البتہ فورتھ جنریشن اور فور اینڈ ہاف جنریشن کا کسی حد تک مقابلہ ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’امریکا فرسٹ‘ بمقابلہ ’سب سے پہلے پاکستان‘

   اس پس منظر میں آپ اندازہ لگائیں کہ امریکا کا سکستھ جنریشن فائٹر طیارہ بنانے کا اعلان کیسا تہلکہ خیز اور ہلچل مچا دینے والا ہے۔ امریکا کے پاس بے پناہ وسائل ہیں، جدید ترین ٹیکنالوجی اور دنیا بھر سے  جمع کردہ بہترین ذہن، امریکی سکستھ جنریش فائٹر طیارے کی طرف جا سکتے ہیں، دیگر ممالک تو ابھی تک ففتھ جنریشن طیارہ بنانے کو ہی اپنا کمال سمجھ رہے ہیں۔ تاہم غزہ، لبنان، ایران کی لڑائیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جدید جنگوں میں ایئرفورس بہت زیادہ اہم ہے۔ اس لیے اب چین اور روس کو بھی سکستھ جنریشن فائٹر طیارے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

  اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی پوری کوشش کریں گے کہ سکستھ جنریشن طیارے کی خصوصیات چھپائی جائیں کیونکہ اگر یہ تفصیلات باہر آ گئیں تو ان کا توڑ ہو پائے گا اور انہیں کاپی بھی کر لیا جائےگا۔ ہر ملک اپنے ایسے خاص طیاروں کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ خود چین کے جے 35 کے بارے میں بھی زیادہ معلومات سامنے نہیں آئیں۔

  بہرحال یہ طے ہے کہ جس ملک کے پاس زیادہ جدید ایئرفورس، جدید ڈرون اور جدید ترین اینٹی میزائل شیلڈ ہوگی، مستقبل کی جنگوں میں برتری صرف اسے ہی حاصل رہے گی۔

  اب یہ سبقت کس کے پاس رہتی ہے، امریکا کے پاس یا چین اسے کاؤنٹر کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، اس کا جواب وقت ہی دے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

امریکا انڈیا ایف 16 پاکستان ٹرمپ چین ڈونلڈ ٹرمپ روس سخوئی سکستھ جنریش ففتھ جنریشن طیارہ فور جنریشن مگ

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا انڈیا ایف 16 پاکستان چین ڈونلڈ ٹرمپ سکستھ جنریش فور جنریشن

پڑھیں:

جمہوریت کی مخالفت کیوں؟

گزشتہ دنوں میرے ایک دوست جو درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، میری ان سے ملاقات ہوئی۔ میرے یہ دوست جمہوریت کے سخت ترین مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک ہماری تمام تر سیاسی نظام کی خرابیوں کی جڑ پاکستان میں رائج یہ جمہوری نظام ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان کے نزدیک اسلام کا سیاسی نظام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔

اپنے اس دوست کی سوچ کے برعکس راقم التحریر جمہوری نظام کی تمام تر خرابیوں کے باوجود اس کا حامی رہا ہے۔ میرے نزدیک ہماری تمام سیاسی نظام میں خرابیوں کی وجہ جمہوری نظام کا تسلسل کے ساتھ جاری نہ رہنا ہے۔

بار بار کے مارشل لا اور سیاست میں مداخلت کے نتیجے میں یہ خرابیاں پیدا ہوئیں اور عوام جمہوریت کے حقیقی ثمرات سے محروم رہے۔ مجھے دینی اور مذہبی موضوعات پر اپنی کم علمی اورکم فہمی کا ہمیشہ احساس رہا ہے، اس لیے میں عموماً دینی اور مذہبی موضوعات پر علمی گفتگو سے گریز کرتا ہوں۔ تاہم جب جمہوریت کا موضوع ہمارے درمیان دوران گفتگو آیا تو اس گفتگو نے مکالمے کی صورت اختیار کر لی۔

جمہوریت کی مخالفت کے حوالے سے میرے دوست کا کیا موقف ہے، اسے اپنے اسلوب میں بیان کر رہا ہوں۔ میرے دوست کے نزدیک ایک صالح اور مہذب حکومت وہی ہو سکتی ہے جس کی بنیاد اخلاقی اقدار اور تصورات پر قائم ہو۔

دنیا کے سیاسی نظاموں میں اخلاقی اقدارکی کوئی جگہ نہیں، اس میں نمایندگی کا اہل وہی شخص تصورکیا جاتا ہے جو ڈپلومیٹک اور چرب زبان ہو، چاہے اخلاقی حوالے سے کتنا ہی گرا ہوا کیوں نہ ہو۔ یہ عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اس نظام میں قانون سازی کا حق شہری کا حق ہے۔ لازمی اس قانون سازی میں انسانی خواہشات کو اولین حیثیت حاصل ہوگی اس طرح انسان کی روحانی زندگی تباہ ہو جائے گی اور انسان نفس کا غلام بن کر رہ جائے گا۔

اسلام میں نسلی اور مذہبی گروہ بندی جائز نہیں۔ جمہوری طریقہ انتخاب میں نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کو ابھارکر عوامی جذبات کو استعمال کرکے اسے اپنی کامیابی کا زینہ بنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں کشمکش اور تصادم کی فضا پیدا ہوتی ہے۔

جمہوریت کی بنیادی خوبی محض عددی برتری تصورکی جاتی ہے یہ منطقی لحاظ سے درست نہیں،کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ 200 کے مقابلے 201 کی رائے زیادہ درست اور دانش مندانہ ہے۔ اس نظام میں افراد کی گنتی کی جاتی ہے انھیں تولا نہیں جاتا، یعنی صلاحیت اور قابلیت کی اس نظام میں کوئی اہمیت نہیں۔

جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کا مزاج سیکولر ہے، یہی وجہ ہے کہ جو مذہبی اور دینی جماعت اس میں حصہ لیتی ہے، اس کا مزاج سیکولر ہو جاتا ہے۔ اس نظام میں کامیابی کے لیے تمام طبقات کی حمایت درکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ جماعتیں مصلحت کا شکار ہو کر خدائی احکامات کے نفاذ کے بجائے انسانی خواہشات کی تکمیل میں سرگرم عمل ہو جاتی ہیں یہ طرز عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔

میرے دوست کی یہ تمام باتیں جزوی طور پر درست ہیں کلی طور پر نہیں۔ میرا موقف یہ تھا کہ انسانی معاشرے کو مہذب اور تمدنی معاشرہ کہلانے اور عوام الناس کو اجتماعیت کے دائرے میں رکھنے کے لیے کسی نہ کسی نظام حکومت کی ضرورت لازمی طور پر ہوتی ہے اب یہ نظام حکومت کیسے وجود میں آئے گا، اس نظام کے خد و خال کیا ہوں گے؟

حکومت کرنے والوں کے اختیارات کی حدود کیا ہوں گی، ان کا انتخاب کس طرح کیا جائے گا اور سیاسی استحکام کس طرح پیدا ہوگا۔ اس حوالے سے مختلف زمانے میں مختلف تجربات سامنے آئے ہیں، اس میں ایک تجربہ جمہوری نظام بھی ہے۔ دنیا نے اب تک کے تجربات سے جمہوری نظام کو اس کی بہت سی خرابیوں کے باوجود ایک بہتر نظام سیاست پایا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو دنیا بھر میں فروغ حاصل ہوا۔

اگر آپ جمہوری نظام کو اس کی چند خرابیوں کی بنیاد پر مسترد کرتے ہیں تو آپ کو دنیا کے سامنے ایک واضح سیاسی نظام پیش کرنا ہوگا۔ محض ہوا میں قلعے بنانے سے کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔

جہاں تک اسلام کے نظام حکومت کی بات ہے تو ہمیں اسے تاریخی پس منظر میں سمجھنا ہوگا۔ اسلام کے سیاسی نظام میں خلاف راشدہ کے دور کو رول ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دور حکومت 30 سال کے عرصے پر محیط ہے، اس مدت میں چار صحابی خلیفہ مقرر ہوئے چاروں خلفا کا تقرر چار مختلف طریقوں سے ہوا۔ اس کے بعد جو ماڈل سامنے آیا اسے خاندانی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔

اسلام کی پوری سیاسی تاریخ اس پس منظر میں چلتی رہی، اسی پس منظر میں مسلم حکومتیں قائم ہوئیں۔ اس میں زیادہ تر حکمران وہی تھے جو خاندانی حکومت کے اصول کے تحت حکمران بنے تھے۔ یہ خاندانی ماڈل خلافت راشدہ کے رول ماڈل سے مختلف تھا لیکن کیونکہ اس ماڈل میں اہل اسلام کو امن اور حفاظت کے ساتھ دین پر عمل کرنے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا کام بخوبی انجام پا رہا تھا، اس لیے عوام الناس نے اس نظام کو قبول کیا عرب کے بعض ممالک میں یہ نظام آج بھی رائج ہے۔

اس تاریخی پس منظر کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے۔ اسلام کسی لگے بندھے نظام کی تجویز یا خاکہ پیش نہیں کرتا بلکہ ایسے بنیادی اصول قائم کرتا ہے جو کسی حکومت کے عمومی خدوخال کی تشکیل کرتے ہیں وقت اور حالات کے تحت طرز حکومت کیسا ہونا چاہیے اس کا فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیا ہے یہ میری ناقص رائے ہے اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار مذہبی اسکالر اور علما دین ہی کر سکتے ہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس وقت دنیا میں جمہوری نظام کامیابی سے جاری ہے۔ جمہوری نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایسا نظام حکومت ہے جس میں حکومتی مدت پوری ہوتی ہے اس میں پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ موجود ہے۔

عوامی رائے عامہ کے ذریعے اسے قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو سیاسی استحکام حاصل ہوتا ہے اس لیے اس نظام کو غیر اسلامی قرار دینا درست عمل نہیں ہے اور نہ ہی اسے مغربی طرز حکومت کا نام دیا جانا چاہیے۔ بعض لبرل اور سیکولر عناصر سیاست میں دینی اور مذہبی جماعتوں کی شمولیت کے خلاف ہیں میری ذاتی رائے میں اگر ملک کی اکثریت کسی نظام حیات کو قبول کرکے اس کے نفاذ کی کوشش کرتی ہے تو اس کے اس جمہوری حق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اسے تسلیم کیا جانا جمہوریت کی روح کے عین مطابق ہے۔

یہ ہے دونوں جانب کا نقطہ نظر، کون درست ہے کون غلط اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پی ایس ایل؛ کنگز کے آل راؤنڈر عامر جمال پر جرمانہ، مگر کیوں؟
  • برطانوی طیارہ بردار جہاز بحر ہند اور بحر الکاہل میں جنگی گروپ کی قیادت کرے گا
  • فلم ’جوش‘ میں کاجول اور عامر خان نے شاہ رخ کیساتھ کام کرنے سے کیوں منع کردیا تھا؟
  • پاکستانی یوٹیوبرز کے بینک اکاؤنٹس کیوں بند ہوئے، اصل سبب کیا بنا؟
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
  • ایدھی فاؤنڈیشن نے ایئر ایمبولینس کیلئے ایک اور طیارہ خرید لیا
  • ایئر ایمبولینس سروس میں اضافہ، ایدھی فاؤنڈیشن نے ایک اور طیارہ خرید لیا
  • ایدھی فاونڈیشن نے ایک اور طیارہ خرید لیا
  • ایدھی فاؤنڈیشن نے ایک اور طیارہ خرید لیا