بڑھتے ہوئے سائبر فراڈز میں اے آئی کا استعمال، جعل سازی سے کیسے بچا جائے؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
”مجھے میرے چاچو کے واٹس اپ نمبر سے پیغام ملا کہ انہیں فوری کچھ رقم درکار ہے، تحریری پیغام کے فوری بعد ان کا وائس نوٹ بھی ان کی ہی آواز میں آیا، جس میں انہوں نے ایک دوسرے نمبر پر فوری پیسے بھیجنے کا کہا، میں نے ان کی ہدایت کے مطابق مطلوبہ رقم اکاوٹ میں بھیج دی، مگر کچھ ہی وقت بعد پتہ چلا کہ نہ تو وہ میسیج ان کا تھا اور نہ ہی وائس نوٹ انہوں نے بھیجا، بلکہ یہ ایک فراڈ تھا جو ”سائبر ٹولز’ ‘کے ذریعے نمبر ہیک کر کے کیا گیا”
یہ کہانی ہے اسلام آباد کے جی سیون سیکٹر کے رہائشی زین احمد کی، جو ہارڈ ویئرکے کاروبار سے منسلک ہیں، ایک ہی وقت میں نہ صرف انہیں بلکہ ان کے خاندان کے دیگر 3 افراد کو بھی اسی طریقے کے ذریعے اے آئی کی مدد سے کیے گئے فراڈ کا نشانہ بنایا گیا۔
نمبر ہیک کرنے کے بعد آرٹیفیشل اینٹیلی جنس کی مدد سے متعلقہ شخص کی ہی آواز کو استعمال کر کے رقم منگوانے کا یہ فراڈ دیگر کئی افراد کے ساتھ بھی رپورٹ ہو چکا ہے۔
زین احمد نے وی نیوز کو بتایا کہ جب اُنہیں اِن کے چاچو کی طرف سے پیسے بھیجوانے کا پیغام موصول ہوا تو وہ حیران رہ گئے، کیوں کہ وہ عموما اِن سے رقم نہیں منگواتے، مگر واٹس ایپ نمبر اِن کے چاچو کا تھا، جس کی ڈی پی پر اُن کی تصویر لگی ہوئی تھی اور وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی اِیسے بھی فراڈ کر سکتا ہے۔
زین کے مطابق جیسے ہی انہیں ٹیکسٹ پیغام ملا تھوڑی دیر بعد چاچو کی آواز میں رقم بھیجوانے کیلئے وائس نوٹ بھی موصول ہو گیا جس پر انہوں نے عمل کیا۔
تقریبا 10 منٹ بعد اِن کے بھائی کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور ان کے خاندان کے ایک اور فرد سے بھی فراڈ کے ذریعے رقم منگوا لی گئی۔
انہوں نے بعد ازاں جب تصدیق کی تو پتہ چلا کہ کوئی ایسا اے آئی ٹول دستیاب ہے جس کو استعمال کر کے فراڈ کا یہ نیا راستہ کھل گیا ہے۔
نمبر ہیک کر کے اے آئی کے ذریعے متعلقہ شخص کی آواز کاپی کی جاتی ہے اور یوں متاثرہ شخص کسی تصدیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔
حالیہ عرصے میں جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس نئے اے آئی ٹول نے انسانوں کیلئے خد مات اور علم کا ایک نیا جہاں کھول دیا ہے، وہیں اس سے فراڈ، سائبر کرائم اور ڈیپ فیک ویڈیو کا ایک نیا سیلاب آیا ہے۔ بالخصوص پاکستان جیسی سوسائٹی جہاں قوانین پر نفاذ کے حالات پہلے ہی کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں۔
سائبر کی دنیا میں کرائم کے نت نئے ٹولز اور بالخصوص اے آئی کے مارکیٹ میں آنے کے بعد اس طوفان سے کیسے نمٹا جائے۔ فیڈرل انیویسٹی گیشن ایجنسی کے سائبر کرائم ونگ سے منسلک آفیسر نے وی نیوز کو بتایا کہ جیسے جیسے کرائم کی دنیا میں جدت آ رہی ہے ایسے ہی متعلقہ حکومتی ایجنسی کی استعداد کار میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اے آئی کے حوالے سے مخصوص کورسز اس کا حصہ ہیں، ہماری کوشش ہے کہ انویسٹی گیشن آفیسر کرمنل کے ذہن سے ایک قدم آگے سوچے، انہوں نے تسلیم کیا کہ حالیہ عرصے میں لوگوں سے پیسے بٹورنے کے اس گھناونے کاروبار میں کئی سو گنا اضافہ ہوا ہے۔
عام شہری اس نادیدہ فراڈ سے کیسے بچے؟ایف آئی اے آفیسر کے مطابق اس طرح کے سائبر حملے جن میں تصدیقی عمل مشکل ہوتا ہے۔ اِس سے بچنے کیلئے شہریوں کو انتہائی محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ مالی فراڈ سے بچنے کے لیے پیغامات کو واٹس ایپ گروپس یا فیس بک کے ذریعے خاندان اور دوستوں تک پہنچایا جائے۔ اگر کوئی ایسا شخص آپ سے رقم کا مطالبہ کرے جس کے ساتھ بالعموم لین دین نہیں ہوتا تو یہ ایک مشکوک معاملہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کیلئے یقینی بنائیں کہ وہ رقم کی منتقلی کی تصدیق کے لیے فزیکل کال کریں اس صورت میں سائبر کرائم کا خدشہ انتہائی کم رہ جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص کال کرے اور نمبر سے موصول ہونے والے کوڈ (OTP) کو شیئر کرنے کے لیے کہے تو اسے کبھی شیئر نہ کیا جائے۔ وٹس ایپ کی بحالی کے لیے سم پر او ٹی پی طلب کیا جائے تو اس صورت میں واٹس ایپ 12-14 گھنٹے کے اندر بحال کر دیا جاتا ہے۔
آرٹیفیشل اینٹیلی جنس کا جہاں سروسز، ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر، ریسرچ، صحت سمیت ہرشعبے میں بے پناہ استعمال ہے تو دوسری جانب اس کے ذریعے فراڈ ”ڈس انفارمیشن” اور جعل سازی کا بھی ایک طوفان آ گیا ہے۔
فراڈ کی اس جدید شکل سے کیسے بچا جائے اور اے آئی کو کیسے جعل سازی کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے؟اس حوالے سے پاکستان انسٹیٹوٹ فار آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے سربراہ ڈاکٹر یاسر ایاز نے وی نیو ز کو بتایا کہ اے آئی کسی بھی آواز کو کاپی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ایسے فراڈ میں ملوث افراڈ سائبر کرائم کے ذریعے نمبر ہیک کرتے ہیں پھر اے آئی کو استعمال کر کے ڈیٹا پر موجود متعلقہ شخص کا آڈیو یا ویڈیو مواد استعمال کرتے ہیں، یہ ڈیپ فیک کی ایک شکل ہے۔
انہون نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور اے آئی جس ایڈوانس لیول پر پہنچ گئے ہیں، جعلسازی بھی اسی طریقے سے نئی شکلیں اختیار کرتی ہے۔ بہت سارے سافٹ ویئر آن لائن دستیاب ہیں جن میں بعض تو مفت میں مل جاتے ہیں جو ایسے فراڈ اور جعل سازی میں معاون ہیں۔
ڈاکٹر یاسر ایاز کے مطابق آن لائن کئی ایسے سافٹ ویئر بھی موجود ہیں جنہیں استعمال کر کے آسانی سے جعلی مواد کو پکڑا جا سکتا ہے۔ اے آئی کے ذریعے ”جرنیٹ” کیا گیا ڈیٹا ایسے سافٹ ویئر الگ کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر یاسر ایاز کے مطابق نیشنل سینٹر فار آٹیفیشل انٹیلی جنس کے تحت بھی ایسے سافٹ ویئر تیار کیے گئے ہیں، جو اے آئی کے ذریعے تیار کی گئی آڈیو یا ویڈیو میں تفریق کر سکتے ہیں، ایف آئی اے سمیت دیگرادارے جو ایسی شکایات کے ازالے یا کرائم کی روک تھام کیلئے موجود ہیں، ان کی صلاحیتوں میں اضافے کی ضرورت ہے۔
متعلقہ افسران کی ٹریننگ، جدید ٹولز اور سافٹ ویئرز سے آگاہی ناگزیر ہے، اس حوالے سے تمام تر سہولیات مقامی اور عالمی سطح پر دستیاب ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: استعمال کر کے نمبر ہیک کر سافٹ ویئر اے آئی کے واٹس ایپ کے مطابق انہوں نے کے ذریعے سے کیسے کے ساتھ کے لیے سے بھی
پڑھیں:
مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) اس کی ایک واضح مثال 1861ء سے 1865ء تک جاری رہنے والی امریکی خانہ جنگی ہے۔ مورخین اس کے اسباب پر منقسم ہیں۔ ایک گروہ کا ماننا ہے کہ یہ جنگ غلامی کے خاتمے کے لیے لڑی گئی، جبکہ دوسرا گروہ اسے یونین کے تحفظ سے جوڑتا ہے۔ تیسرے گروہ کی رائے ہے کہ شمالی ریاستیں، جو صنعتی ترقی کی راہ پر تھیں، جنوبی ریاستوں کے زرعی کلچر اور غلامی پر مبنی معیشت کو ختم کرنا چاہتی تھیں۔
جنوبی ریاستوں کے بڑے زمیندار، جن کی دولت غلاموں کی محنت سے حاصل شدہ زرعی پیداوار پر منحصر تھی، غلامی کو جائز قرار دیتے تھے۔ وہ دعویٰ کرتے تھے کہ افریقی غلاموں کو ان کے ''پسماندہ معاشروں‘‘ سے نکال کر امریکہ میں آباد کیا گیا، جہاں انہیں عیسائیت قبول کروا کر ''نجات اور معاشی استحکام‘‘ دیا گیا۔
(جاری ہے)
جب کوئی تاریخی واقعہ متنازع ہو جاتا ہے، تو ہر گروہ اپنے موقف کے دفاع کے لیے نئے تاریخی مآخذ تلاش کرتا ہے یا موجودہ مآخذ کی نئی تشریحات پیش کرتا ہے۔
اس عمل سے تاریخ کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے اور نئے خیالات اسے تازگی عطا کرتے ہیں۔ تاہم یہ عمل تاریخ کو مسخ کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔یورپی سامراجی ممالک نے اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو بہت حد تک مسخ کیا ہے۔ انہوں نے مقامی باشندوں کا استحصال کیا، ان کا قتل عام کیا اور ان کی دولت لوٹ لی لیکن ان مظالم کا تذکرہ ان کی تاریخی کتابوں میں شاذ و نادر ہی ملتا ہے۔
اس کے برعکس، وہ اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ایشیا اور افریقہ کی ''پسماندگی‘‘ کو ختم کر کے انہیں ''مہذب‘‘ بنایا۔اسی طرح، جن یورپی ممالک نے غلاموں کی تجارت کی، انہوں نے افریقہ سے غلاموں کو جہازوں میں بھر کر امریکہ کی منڈیوں میں فروخت کیا اور کریبین جزائر میں ان سے شکر اور کافی کی پیداوار کروائی۔
ان مظالم کی تفصیلات ان کی تاریخ سے غائب ہیں۔تاریخ کا ارتقاء کیسے ہوتا ہے؟
وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ 1830ء کی دہائی میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے غلامی کا خاتمہ کیا اور وہ اسے اپنی مذہبی و اخلاقی اقدار کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ حقیقت سے دور ہے۔ غلامی کا خاتمہ مذہبی یا اخلاقی وجوہات کی بجائے تکنیکی ترقی کی وجہ سے ہوا۔
جب مشینوں نے غلاموں کی محنت سے زیادہ پیداوار دینا شروع کی تو غلام معاشی بوجھ بن گئے۔ نتیجتاً، انہیں آزاد کیا گیا لیکن آزادی کی قیمت بھی غلاموں سے ہی وصول کی گئی۔ مالکان نے دعویٰ کیا کہ غلام ان کی ملکیت ہیں، اس لیے انہیں آزادی کے بدلے چار سے پانچ سال تک بغیر معاوضے کے کام کرنا پڑا۔ یورپی ممالک نے غلاموں کی نسلوں سے لی گئی محنت کا کوئی معاوضہ ادا کرنے پر غور نہیں کیا اور غلامی کے کاروبار کو جرم قرار دینے سے گریز کیا۔
یورپی سامراج نے اپنی غربت کم کرنے کے لیے افریقہ میں کالونیاں قائم کیں۔ سیسل روڈز (وفات: 1902ء) نے موجودہ زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے برطانوی غریبوں کو آباد کیا۔ جرمنی نے نمیبیا اور ہرارے میں نابا قبائل کو ختم کر کے جرمن آباد کاروں کو بسایا۔ اس طرح، یورپی ممالک نے ''اپنی غربت ختم کر کے افریقیوں کو غریب‘‘ بنا دیا لیکن ان کی تاریخ ان جرائم پر خاموش ہے۔
تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل قوم پرستی اور وطن پرستی کے نام پر بھی کیا گیا۔ 1937ء میں جاپان نے چین پر حملہ کیا اور نانجِنگ سمیت کئی شہروں میں لوٹ مار اور قتل عام کیا۔ نانجِنگ میں شہریوں کا قتل، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور منچوریہ میں آبادی کا خاتمہ جاپانی بربریت کی واضح مثالیں ہیں۔
عالمگیر تاریخ
جاپان نے فلپائن اور کوریا میں بھی یہی مظالم دہرائے، جہاں کوریائی خواتین کو ''کمفرٹ ویمن‘‘ کے نام سے جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا۔
لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپانی مورخین نے قوم پرستی کے نام پر ان مظالم کو نظرانداز کیا۔ نانجنگ کے قتل عام کو تاریخی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، حالانکہ تصاویر اور شواہد موجود ہیں، جن میں شہریوں کی لاشیں سڑکوں پر بکھری نظر آتی ہیں۔کچھ جاپانی فوجیوں نے فخریہ طور پر اپنی ڈائریوں میں لکھا کہ انہوں نے شہریوں کو قطار میں کھڑا کر کے یہ دیکھا کہ ایک گولی سے کتنے لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔
ایسی تفصیلات جاپانی تاریخ سے غائب ہیں۔جاپان نے اپنی نئی نسل کو تاریخی حقائق کے بجائے قومی عظمت کی داستانیں سنائیں اور مظالم کو قومی مفاد کے نام پر چھپایا۔ یورپی سامراجی ممالک نے بھی اپنی کالونیوں کی آزادی کے وقت تاریخی دستاویزات کو یا تو جلا دیا یا اپنے ممالک میں منتقل کر دیا۔ آزادی کے بعد لکھی گئی تاریخ میں ایشیا اور افریقہ کی سامراجی مزاحمت کو نظر انداز کیا گیا اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا۔
مسخ شدہ تاریخ کو درست کرنا اس لیے مشکل ہے کہ متعلقہ دستاویزات یا تو موجود نہیں یا یورپی ممالک کے قبضے میں ہیں، جہاں تک ایشیا اور افریقہ کے ممالک کی رسائی نہیں۔ بدقسمتی سے ایشیا اور افریقہ کے ان ممالک میں، جہاں آمرانہ حکومتیں رہی ہیں، وہاں بھی تاریخ کو مسخ کیا گیا۔ آمروں نے اپنے ظلم و ستم کو قوم پرستی کے نام پر چھپایا اور مورخین نے ان واقعات کو مکمل طور پر بیان کرنے سے گریز کیا۔
جب تاریخ کو مسخ کر کے نصابی کتب میں شامل کیا جاتا ہے، تو نوجوان نسل تاریخی شعور سے محروم ہو جاتی ہے۔ وہ ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے گمراہی کا شکار ہوتی ہے۔ تاریخ کو درست کرنے کی ذمہ داری مورخین اور معاشروں پر عائد ہوتی ہے تاکہ آنے والی نسلیں حقائق سے آگاہ ہو سکیں اور ماضی کے تجربات سے سیکھ سکیں۔
ادارت: امتیاز احمد