بحیرہ احمر میں امریکی بحری بیڑہ ناکام ہو گیا، سربراہ انصار الله
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں سید عبدالمالک الحوثی کا کہنا تھا کہ امریکہ اپنے ان بحری بیڑوں کے ذریعے دوسرے ممالک کو ڈراتا ہے لیکن یمن کے مقابلے میں یہ بیڑے امریکہ کے کندھوں پر بوجھ بن گئے۔ اسلام ٹائمز۔ یمن میں انقلاب کے روحانی پیشواء اور وہاں کی مقاومتی تحریک "انصار الله" کے سربراہ "سید عبد المالک بدر الدين الحوثی" نے کہا کہ بحیرہ احمر میں امریکہ کے دوسرے بحری بیڑے کی آمد کا مطلب پہلے والے طیارہ بردار بحری بیڑے "ٹرو مین" کی شکست کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اپنے ان بحری بیڑوں کے ذریعے دوسرے ممالک کو ڈراتا ہے لیکن یمن کے مقابلے میں یہ بیڑے امریکہ کے کندھوں پر بوجھ بن گئے۔ انصار الله کے سربراہ نے مزید وضاحت کے ساتھ کہا کہ کسی بھی بڑے ملک کو دبانے کے لئے ایک امریکی بحری بیڑہ ہی کافی ہے البتہ یمن کے مقابلے میں یہ ہتھیار بھی ناکام ہو گیا۔ واضح رہے کہ یمنی فورسز نے حال ہی میں امریکی حملوں کے جواب میں طیارہ بردار بحری بیڑے کو 18 میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا۔ جس سے اس بیڑے کو شدید نقصان پہنچا۔
قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ ان 6 مہینوں میں مغربی ایشیاء میں اپنے بحری بیڑوں کی تعداد بڑھا کر دو کر دے گا۔ اس حوالے سے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتایا کہ امریکی وزیر دفاع Peter Brian Hegseth نے یہ فیصلہ یمنی فورسز پر حملوں میں اضافے کے دوران کیا ہے۔ اس نیوز ایجنسی کے مطابق، Peter Brian Hegseth نے جمعرات کو یو ایس ایس ہیری ٹرومین کی موجودگی کو کم از کم ایک ماہ کے لیے بڑھانے کے احکامات پر دستخط کیے۔ انہوں نے بحرالکاہل میں موجود "یو ایس ایس کارل وینسون" کو بھی مشرق وسطیٰ کی جانب حرکت کرنے کے احکامات صادر کر دئیے ہیں جو اگلے مہینے تک مذکورہ علاقے میں پہنچ جائے گا۔ بعض ماہرین نے ڈونلڈ ٹرامپ کے ماضی کے مطابق مغربی ایشیاء میں اپنی عسکری طاقت میں اضافے کو اُن کا وہ حربہ قرار دیا ہے جسے "بزدلوں کا کھیل" کہا جاتا ہے تاکہ مخالف فریقوں کو دھونس کے ذریعے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جا سکے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
افریقہ میں امریکہ کا غیر ضروری سفارت خانے اور قونصل خانے بند کرنے پر غور
مسودے کے مطابق موجودہ افریقہ بیورو کو ختم کردیا جائے گا، اس کی جگہ افریقی امور کے لیے خصوصی ایلچی دفتر ہوگا جو محکمہ خارجہ کے بجائے وائٹ ہاؤس کی داخلی قومی سلامتی کونسل کو رپورٹ کرے گا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ براعظم افریقہ میں امریکی سفارتی موجودگی کو کم کرنے پر غور کررہے ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس میں زیرغور حکم نامے کے مسودے کے مطابق امریکا، افریقہ میں اپنی سفارتی موجودگی کو ڈرامائی طور پر کم کرے گا اور محکمہ خارجہ کے آب و ہوا کی تبدیلی، جمہوریت اور انسانی حقوق سے متعلق دفاتر کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔
وائٹ ہاؤس میں اس نوعیت کے زیرغور حکم نامے کی موجودگی کی خبر نیویارک ٹائمز نے افشا کی، جس کے بعد امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا کہ نیویارک ٹائمز، ایک اور دھوکے کا شکار ہوگیا ہے، یہ خبر جعلی ہے۔ تاہم اے ایف پی کی طرف سے دیکھے گئے ایگزیکٹو آرڈر کے مسودے کی نقل میں اس سال یکم اکتوبر تک محکمہ خارجہ کی مکمل ساختی تنظیم نو کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
حکم نامے کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ اس کا مقصد مشن کی ترسیل کو ہموار کرنا، بیرون ملک امریکی طاقت کو پیش کرنا، فضول خرچی، فراڈ، بدسلوکی کو کم کرنا اور محکمہ کو امریکا فرسٹ اسٹریٹجک ڈاکٹرائن کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ سب سے بڑی تبدیلی امریکی سفارتی کوششوں کو چار خطوں یوریشیا، مشرق وسطیٰ، لاطینی امریکا اور ایشیا پیسیفک میں منظم کرنا ہوگی۔
مسودے کے مطابق موجودہ افریقہ بیورو کو ختم کردیا جائے گا، اس کی جگہ افریقی امور کے لیے خصوصی ایلچی دفتر ہوگا جو محکمہ خارجہ کے بجائے وائٹ ہاؤس کی داخلی قومی سلامتی کونسل کو رپورٹ کرے گا۔ مسودہ حکم میں کہا گیا ہے کہ سب صحارا افریقہ میں تمام غیر ضروری سفارت خانے اور قونصل خانے بند کر دیے جائیں گے، باقی تمام مشنوں کو ہدف شدہ، مشن پر مبنی تعیناتیوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک خصوصی ایلچی کے تحت مضبوط کیا جائے گا۔
زیر بحث تازہ ترین تجویز امریکی میڈیا میں ایک اور مجوزہ منصوبے کے لیک ہونے کے بعد سامنے آئی ہے جس کے تحت محکمہ خارجہ کے پورے بجٹ کو نصف کردیا جائے گا، تازہ ترین منصوبے میں، آب و ہوا کی تبدیلی اور انسانی حقوق سے متعلق موجودہ دفاتر کو ختم کر دیا جائے گا۔ کینیڈا میں، جو واشنگٹن کا ایک اہم اتحادی ہے اور جس کے بارے میں ٹرمپ نے بارہا تجویز دی ہے کہ اسے ضم کر کے 51ویں ریاست بنا دیا جائے، ٹیم کو نمایاں طور پر محدود کیا جائے گا، اور اوٹاوا میں سفارت خانے کے عملے کے حجم میں بھی کمی لائی جائے گی۔