بلوچستان کا اصل دشمن کون؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
افغانستان میں طالبان کو حکومت دلا کر پاکستان نے کیا حاصل کیا؟ وہاں کی سرزمین کا کیا پاکستان کے خلاف استعمال ختم ہوگیا؟ کیا طالبان نے ٹی ٹی پی کو پاکستان میں دہشت گردی کرنے سے روک دیا؟ اب تو دہشت گردی پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت کی حکومت نے شاید بغیرکسی منصوبہ بندی کے اور افغانوں کی پرانی پاکستان دشمنی کو سامنے رکھے بغیر فیصلہ کیا تھا۔
افغانستان نے تو قیام پاکستان کو بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ یہی نہیں وہ ایک عرصے تک پختونستان کے شوشے کی پشت پناہی کرتے رہے تھے اور بھارت سے دوستانہ مگر پاکستان سے دشمنوں جیسے تعلقات قائم رکھے تھے۔ ہم سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ طالبان کو افغانستان میں کسی طرح اقتدار تو دلا دیا مگر ان سیکچھ لیا نہیں۔
بس اسی غلطی کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔ ہم نے غور ہی نہیں کیا تھا کہ تمام طالبان یکجا نہیں ہیں، وہ مختلف گروپس میں بٹے ہوئے ہیں، ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں سے بھی تمام طالبان گروہوں کے روابط تھے۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد طالبان کا فرض تھا کہ وہ انھیں پاکستان میں دہشت گردی سے باز رکھتے مگر وہ تو ان کا دفاع کرنے لگے اور یہ جواز پیش کرنے لگے کہ انھوں نے ان کی امریکا کے خلاف جنگ میں ساتھ دیا ہے، اس لیے وہ انھیں افغانستان سے نہیں نکال سکتے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی ایکشن لے سکتے ہیں۔
بس جب ہی پاکستانی حکومت کو سمجھ جانا چاہیے تھا کہ افغانستان سے اشرف غنی حکومت کے خاتمے اور امریکی فوج کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور وہ اس کے بعد بھی پاکستان کے دشمن ہی رہیں گے مگر ہم نہ جانے کیوں افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے حق میں ایک قدم اور آگے بڑھ گئے، ہم نے انھیں پاکستان میں آباد ہونے کی اجازت بھی دے دی جس سے انھیں پاکستان میں دہشت گردی کرنے میں مزید سہولت میسر آگئی۔
بھارت بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت کے ختم ہونے اور وہاں بھارت کے خلاف عوامی لہر سے بہت پریشان تھا ، ایسے میں بھارت نے افغانستان کے طالبان کے قریب جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے خارجہ سیکریٹری کو افغانستان بھیج کر نئے تعلقات پیدا کر لیے حالانکہ تعلقات سے بھارت کوکوئی مالی فائدہ نہیں ہوگا مگر محض پاکستان کو نشانہ بنانے کا موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔
پاکستان شروع سے کشمیریوں کی آزادی کا حمایتی ہے اور بھارت کشمیریوں کی حمایت کا پاکستان سے بدلہ بلوچستان میں دہشت گردی پھیلا کر لے رہا ہے۔ خوش قسمتی سے ابھی چند سال سے وہاں پہلے جیسی دہشت گردی نہیں ہو رہی تھی چنانچہ اب اس نے طالبان سے گٹھ جوڑ کرکے بلوچستان میں پھر سے دہشت گردی کو تیز سے تیز ترکرنے کی کوشش کی ہے۔
بھارت کا طالبان سے یہ گٹھ جوڑ یقینا اجیت دوول کی سوچ اور چابکدستی کا شاہکار ہوگا ۔ امریکا میں مقیم سکھ لیڈر گریتونت سنگھ نے جعفر ایکسپریس حملے کا ذمے دار بھارت اور خصوصاً اجیت دوول کو قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں مودی حکومت کی اندرونی گھناؤنی سیاست کا ذمے دار امیت شا ہے اور بیرونی دہشت گردانہ کارروائیوں کا انچارج اجیت دوول ہے۔
ان دونوں کے گٹھ جوڑ سے ہی بھارتی مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری ہے اور صرف پڑوسی ممالک ہی نہیں دنیا بھر میں بھارت کے حق میں دہشت گردی جاری ہے تاکہ وہ بھارت سے مرعوب رہیں اور بھارت کو ایک طاقتور ملک مانیں۔
خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کبھی بھی بھارت کی طاقت اور دہشت گردی سے مرعوب نہیں ہوا ہے اور اس کے جارحانہ عزائم کے خلاف ہمیشہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا رہا ہے۔ جہاں تک بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی کا تعلق ہے اس وقت اسے طالبان حکومت کا سہارا حاصل ہوگیا ہے۔ تاہم طالبان کو معلوم ہونا چاہیے کہ بھارت ان کا ازلی دشمن ہے، وہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنا تو کجا اس کے خلاف مہم چلاتا رہا ہے، وہ طالبان حکومت کو انتہا پسند کٹر مذہبی حکومت قرار دے کر امریکا اور یورپی ممالک کو ان کے خلاف بھڑکاتا رہا ہے تاہم اب طالبان حکومت کا اسے گلے لگانا معنی خیز ہے۔
خبریں آ رہی ہیں کہ حقانی گروپ طالبان حکومت سے علیحدگی اختیار کر رہا ہے کیا پتا اس کی وجہ بھارت ہی ہو؟ تاہم طالبان حکومت کو نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان ہی وہ ملک ہے جس کی وجہ سے انھیں افغانستان میں کامیابی ملی حالانکہ اس سلسلے میں پاکستان کو امریکا اور اس کے حواری ممالک سے دشمنی مول لینا پڑی۔ پاکستان ہی اسے عالمی برادری سے تسلیم کرانے کی مہم چلاتا رہا اور عرب ممالک سے اسے مالی امداد دلائی۔
آیندہ بھی وہ پاکستان سے دشمنی مول لے کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ بی ایل اے اور دیگر بھارت کے ایما پر متحرک دہشت گرد تنظیمیں اپنے ہی عوام اور اپنے ہی صوبے کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ایک طرف وہ بلوچستان کی پسماندگی کا ذکر کرتے نہیں تھکتیں اور خود ہی گوادر جیسے خوشحالی کے بڑے پروجیکٹ پر حملہ آور ہوتی ہیں۔
یہی لوگ وہاں سڑکیں نہیں بننے دے رہے، صنعتیں نہیں لگنے دے رہے، کاروبار کو پنپنے نہیں دے رہے، سرمایہ کاروں پر گولیاں برسا رہے ہیں، ٹرانسپورٹ کو چلنے نہیں دے رہے حتیٰ کہ ریل گاڑیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ عوامی ایجنڈا تو ہرگز نہیں ہو سکتا یہ تو یقینا دشمن کے ایجنڈے پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے چنانچہ کہنا پڑے گا کہ یہی لوگ دراصل بلوچستان کی پسماندگی کے ذمے دار ہیں اور بلوچ قوم کے اصل دشمن ہیں۔ تاہم وہ حریت پسندی کا لبادہ اوڑھ کر بلوچ قوم کو زیادہ دیر تک دھوکا نہیں دے سکیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: طالبان حکومت پاکستان میں حکومت کو کے خلاف دے رہے ہے اور رہا ہے
پڑھیں:
مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
اسلام ٹائمز: دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔ تحریر: حنیف غفاری
ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی اور اسٹنفورڈ یونیورسٹی سمیت کئی چھوٹے اور بڑے تعلیمی مراکز کے خلاف انتہاپسندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کا مقصد ان تعلیمی مراکز سے فلسطین کے حامیوں اور غاصب صیہونی رژیم کے مخالفین کا صفایا کرنا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں انسانی حقوق، تعلیمی انصاف اور آزادی اظہار کے دعویداروں نے اس قابل مذمت رویے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بہت سے غیر ملکی طلبہ و طالبات جو مکمل طور پر قانونی طریقے سے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے اب نہ صرف انہیں تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا گیا ہے بلکہ اف بی آئی اور امریکہ کی سیکورٹی فورسز نے انہیں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی سمیت ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت میں طلبہ و طالبات کی سرگرمیاں فوراً روک دیں۔
امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی ایشیا خطے میں جاری حالات سے متعلق طلبہ و طالبان کو یونیورسٹی کے احاطے میں اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہ دیں اور جو طلبہ و طالبان ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کی تمام معلومات سیکورٹی اداروں کو فراہم کریں۔ یوں امریکہ میں یونیورسٹی اور تعلیمی مراکز فوجی چھاونیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکہ کی وزارت داخلہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو وارننگ دی ہے کہ اگر اس کی انتظامیہ حکومتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی تو اس کا غیر ملکی طلبہ و طالبات کو داخلہ دینے کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ امریکہ کی وزارت داخلہ اور وائٹ ہاوس جس انداز میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز سے برتاو کر رہے ہیں وہ انسان کے ذہن میں "تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی" کا تصور قائم کر دیتا ہے۔
ریاستی دہشت گردی کی آسان تعریف یہ ہے کہ کوئی حکومت سیاسی اہداف کی خاطر عام شہریوں کے خلاف غیر قانونی طور پر طاقت کا استعمال کر کے انہیں خوفزدہ کرے۔ ہم ایک طرف غزہ کی پٹی میں بھرپور انداز میں جاری مسلسل نسل کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں شہداء کی تعداد 52 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ غاصب اور بے رحم صیہونی رژیم کی جانب سے شدید محاصرے اور انسانی امداد روکے جانے کے باعث ہر لمحے معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی حکمران یہودی لابی آئی پیک کی کاسہ لیسی کی خاطر ملک کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کو بے حس، خاموش تماشائی بلکہ جرائم پیشہ صیہونی رژیم کی حامی بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ تعلیمی مراکز کے خلاف اس ریاستی دہشت گردی کا سرچشمہ وائٹ ہاوس، نیشنل سیکورٹی ایجنسی اور موساد ہیں۔
یہاں ایک اور مسئلہ بھی پایا جاتا ہے جو شاید بہت سے مخاطبین کے لیے سوال کا باعث ہو۔ یہ مسئلہ صیہونی رژیم اور امریکی حکومت کی جانب سے خاص طور پر ہارورڈ یونیورسٹی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اس یونیورسٹی کو ملنے والا 2 ارب کا بجٹ روک دیا ہے۔ یہ کینہ اور دشمنی اس وقت کھل کر سامنے آیا جب غزہ جنگ شروع ہونے کے تین ماہ بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک سروے تحقیق انجام پائی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس یونیورسٹی کے 51 فیصد طلبہ و طالبات جن کی عمریں 18 سے 24 سال تھیں جعلی صیہونی رژیم کے خاتمے اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حامی ہیں۔ اس اکثریت کا خیال تھا کہ صیہونی حکمران آمر اور ظالم ہیں جبکہ فلسطینیی ان کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دینے میں پوری طرح حق بجانب تھے۔
اسی وقت سے امریکی حکومت اور صیہونی حکمران ہارورڈ یونیورسٹی اور اس سے متعلقہ اداروں کے خلاف شدید غصہ اور نفرت پیدا کر چکے تھے۔ امریکہ میں صیہونی لابی آئی پیک (AIPAC) نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اس سروے تحقیق کی انجام دہی کو یہود دشمنی قرار دے دیا۔ مزید برآں، اس سروے رپورٹ کے نتائج کی اشاعت نے یہودی لابیوں کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ اب سب کے لیے واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ میں نئی نسل نہ صرف غاصب صیہونی رژیم کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس کے ناجائز وجود کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ اب صیہونی لابیاں امریکہ کے ایسے یونیورسٹی طلبہ سے انتقام لینے پر اتر آئی ہیں جنہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی ہے اور کسی قیمت پر بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ بھی اس واضح ناانصافی اور ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔