Express News:
2025-04-22@01:13:59 GMT

بلوچستان کے حالات کی سنگینی

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

بلوچستان کے حالات بہت سنگین ہیں ، اس کا ادراک دیگر صوبوں کے لوگوں کو بہت زیادہ نہیں ہوسکتا۔جو وہاں کے حالات کو جانتے ہیں، وہ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس وقت بلوچستان میں حالات کیا ہیں۔بلوچستان محض ایک صوبائی نہیں بلکہ قومی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے فیصلہ ساز بلوچستان کو صوبائی فریم ورک میں دیکھ رہے ہیں جو حالات کو مزید سنگین بنا رہا رہا ہے۔بلوچستان کا مسئلہ محض امن وامان کا نہیں ہے بلکہ دہشت گردی جیسے سنگین بحران کا سامنا ہے۔وفاقی حکومت اور دیگر صوبائی حکومتوں کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان میں دہشت گردی کے خاتمے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔

ابھی تک ہماری پالیسی بلوچستان میں طاقت کے استعمال سے جڑی ہوئی ہے۔ہم نے بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے علیحدگی پسندوں کے خلاف کئی آپریشن کیے ہیں لیکن اس میں کوئی بڑی کامیابی ہمیں نہیں مل سکی ہے اور بدستور بلوچستان کا صوبہ دہشت گردی کا شکار ہے۔

اس صوبے کی دہشت گردی نے مجموعی طور پر ملک کے جہاں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کو پیدا کیا ہے وہیں قومی سلامتی یا سیکیورٹی کے تناظر میں ہمیں مزید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ بلوچستان کے حالات کو دیکھیں تو سب سے بڑا المیہ وہاں اختیار کی جانے والی سیاسی حکمت عملیوں سے جڑا ہوا ہے۔ صوبے میں مصنوعی سیاسی بندوبست کے کھیل نے حالات کو مزید خراب کیا ہے۔

بلوچستان میں بیٹھی ہوئی سیاسی قیادت جو ووٹ کی بنیاد پر اور جمہوریت کو بنیاد بنا کر اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہے ۔اس وقت بھی بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے جو بھی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے ان میں بلوچستان میں موجود سیاسی لوگوں کا کردار بہت کم دیکھنے کو نظر آتا ہے۔

ایک طرف علیحدگی پسند عناصر ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں تو دوسری طرف بلوچستان کی سیاسی قیادت بھی ریاستی اور وفاقی سطح پر حکومت کی پالیسیوں پر شدید تحفظات رکھتی ہے۔وفاقی حکومت کی پالیسی بنیادی طور پر رد عمل کی سیاست سے جڑی ہوئی ہے اور ایک مستقل پالیسی اور اعتماد کا بحران ہمیں بلوچستان کے تناظر میں وفاقی سطح پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔

پاکستان کی قومی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی سر فہرست ہیں ان کا بھی کوئی موثر کردار بلوچستان کے حالات کے تناظر میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔بلکہ بلوچستان کی علاقائی جماعتوں کو ان قومی جماعتوں سے بہت گلہ ہے کہ انھوں نے اپنے اقتدار کے مختلف ادوار میں بلوچستان کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے طاقت کا ضرور استعمال کیا جائے اور بالخصوص ان لوگوں کے خلاف جو ریاست کی رٹ کو نہ صرف چیلنج کر رہے ہیں بلکہ ریاست کے خلاف بغاوت کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری سیاسی حکمت عملی میں بلوچستان کی موجودہ سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا شامل نہیں ہے اور ہم کیوں ان کی مدد اور مشاورت کے ساتھ آگے نہیں بڑھنا چاہتے؟

بلوچستان کی سیاسی قیادت کے جو بھی سیاسی تحفظات ہیں ان کو دور کرنا ریاستی اور حکومتی ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے۔کیونکہ بلوچستان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر بلوچستان کا بحران حل نہیں ہو سکے گا۔ ہمیں محمود خان اچکزئی،سردار اختر مینگل،مولانا فضل الرحمن اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جیسے لوگوں کی گفتگو سننی چاہیے اور ان کے جو بھی تحفظات ہیں ان کو دور کیا جانا چاہیے۔اسی طرح بلوچستان میں موجود لوگوں کے اور بالخصوص نوجوانوں کے جو بھی بنیادی انسانی حقوق ہیں ان کی فراہمی ریاست اور حکومتی ترجیحات میں اولین ہونی چاہیے۔مگر پہلے یہ اعتراف کیا جانا چاہیے کہ صوبے کی صورتحال اچھی نہیں ہے ۔

ا صوبے میں سیاسی اور جمہوری مقدمہ مضبوط بنانا بھی ہماری سیاسی ترجیحات کا بنیادی نقطہ ہونا چاہیے۔غیر سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر اختیار کی جانے والی کوئی بھی پالیسی چاہے وہ طاقت کی بنیاد پر ہو یا مصنوعی لوگوں کے ساتھ اختیار کی جائے ہمیں کسی بڑی کامیابی کی طرف نہیں لے کے جا سکے گی۔

بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے معاملات کو محض بیان بازی کی بنیاد پر نہیں دیکھنا چاہیے۔بلوچستان کے حالات غیر معمولی بھی ہیں اور ان غیر معمولی سطح کے حالات میںہمیں غیر معمولی اقدام درکار ہیں۔بلوچستان کے حالات کی درستگی کے لیے پارلیمنٹ کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کیا جانا چاہیے اور اس کا واحد نقطہ بلوچستان کے حالات کی درستگی اور ریاستی و حکومتی سطح کی حکمت عملی کووضع کرنے تک محدود ہونا چاہیے۔

اسی طرح بلوچستان کی جو جماعتیں یا دیگر صوبوں کی جماعتیں جو اس وقت پارلیمنٹ میں نہیں ہے ان کے ساتھ بھی گفتگو ہونی چاہیے اور ان کی تجاویز کو بھی حالات کی درستگی میں مدنظر رکھ کر قومی پالیسی بلوچستان کے تناظر میں سامنے آنی چاہیے۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ صوبے میں بہت سی خرابیاں ہیں اور ان کی وجہ بھی ہماری اپنی کوتاہیاں اور پالیسیاں ہیںاور ان کا تجزیہ کیا جانا چاہیے کہ ناکامی کی کیا وجوہات ہیں ۔سیاسی قیادت بھی چاہے وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف میں ان کی طرف سے اس سوچ کو پروان چڑھانا کے حالات کی درستگی کو ممکن بنانے میں ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے، غلط سوچ ہے ۔

 اگر ہم نے سیاسی اور معاشی استحکام کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے تو بلوچستان کے حالات کی درستگی کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔بلوچستان کے سیاسی حالات کی خرابی کا علاج بھی سیاسی حکمت عملیوں میں ہی تلاش کرنا ہوگا اور مختلف فریقین جن میںصوبہ کی سطح پر موجودہ سیاسی قیادت،سوسائٹی،میڈیا اور وکلا تنظیمیوں کو بھی اپنی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بنانا چاہیے۔

اسی طرح اگر ہم نے صوبہ میں بھارت کی مداخلت یا سہولت کاری کے عمل کو کمزور کرنا ہے تو اس میں بھی ہمیں داخلی استحکام درکار ہے ۔یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی وجہ کئی دہائیوں سے جاری ہماری ناقص اور غیر سیاسی پالیسیاں یا حکمت عملیاں ہیں اور اسی رد عمل کی وجہ سے وہاں علیحدگی پسندوں کو تقویت ملی ہے۔

اگر ہم بلوچستان سمیت مجموعی طور پر ملک کے حالات کو درست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سیاست جمہوریت، آئین اور قانون کی پاسداری کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔کیونکہ یہ ہی وہ نقاط ہیں جو ریاست کے نظام کو بھی مضبوط اور ریاست کے نظام پر لوگوں کے اعتماد کو بحال کرتے ہیں۔

اس وقت مسئلہ ہی یہ ہے کہ ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور بداعتمادی کے ماحول کو کم کیا جا سکے۔کیونکہ یہ عمل جتنا بڑھے گا اتنا ہی بلوچستان کا مقدمہ بھی کمزور ہوگا اور ریاست کو مزید مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم سے بھی غلطیاں ہو رہی ہیں۔اس لیے داخلی سطح کی غلطیوں کا ادراک کر کے ایک جامع پالیسی کا بننا، اس پر اتفاق رائے پیدا کرنا اور اس پر عمل درآمد کا شفافیت پر مبنی نظام کا ہونا ہی بلوچستان کے حالات کو درست کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی حکمت عملی کیا جانا چاہیے بلوچستان میں میں بلوچستان کے تناظر میں بلوچستان کی سیاسی قیادت بلوچستان کا کی بنیاد پر کے حالات کو اختیار کی لوگوں کے نہیں ہے رہے ہیں اور ان ہیں ان ہے اور جو بھی

پڑھیں:

سیاستدان کو الیکشن اور موت کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے، عمر ایوب

سیاستدان کو الیکشن اور موت کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے، عمر ایوب WhatsAppFacebookTwitter 0 21 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)پی ٹی آئی رہنما اور اپوزیشن لیڈر عمرا یوب نے کہا ہے کہ سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔عمران خان سے جیل میں ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر توہین عدالت کیس مقرر نہ ہونے پر عمر ایوب اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے، جہاں بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2 دن پہلے درخواست دائر کی تھی، تاحال ہماری درخواست مقرر نہیں ہوئی، اس پر دائری نمبر لگ چکا ہے۔

میڈیا کے نمائندوں گفتگو میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ 2دن پہلے ہائی کورٹ میں بانی پی ٹی آئی کی بہنیں اور قیادت موجود تھی ۔ چیف جسٹس کے پاس پیش ہونا چاہا مگر وہ شاید جمعہ کی وجہ سے چلے گئے تھے ۔انہوں نے بتایا کہ پٹیشن کو دائری نمبر لگا دیا گیا ہے مگر وہ ابھی تک فکس نہیں ہوئی۔ پہلے بھی ہمارے کیس یہاں پر لگتے رہے ہیں، اس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔ اس وقت کوئی زمین آسمان اوپر نیچے نہیں ہوا۔عمر ایوب کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر پی ٹی آئی کی قیادت جو گرفتار ہیں وہ سیاسی قیدی ہیں ۔ مجھ پر بسکٹ چوری تک کے کیس لگائے گئے ہیں۔ ہم لوگ یہاں آئے ہیں اور انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ ہی کھٹکھٹائیں گے۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہم ریاست کا حصہ ہیں، ریاست کی جو تعریف یہ لوگ کرتے ہیں وہ یکسر مختلف ہے۔ عقل کے اندھوں سے کہتا ہوں کے آئین کا مطالعہ کر لیں تو سمجھ آئے گا کہ ریاست کیا ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ہارڈ اسٹیٹ نہیں کیوں کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہی نہیں،یہاں صرف جنگل کا قانون چل رہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نہ ڈھیل مانتے ہیں نہ ہی ڈیل کو مانتے ہیں۔ بانی کی بہنوں کو سیاست میں لانا ناجائز ہے ، بہنیں بطور فیملی ممبر ملاقات کرتی ہیں۔انہوں نے اپنے استعفے کی خبروں کی تردید بھی کی اور کہا کہ سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے ۔ پی ڈی ایم حکومت میں ہم نے دھاندلی کیسے کرلی؟ میرے خلاف امیدوار ہار مان چکے ہیں لیکن ریموٹ کنٹرول والوں کو چین نہیں آرہا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمیانوالی، پنجاب پولیس اور سی ٹی ڈی کا آپریشن، 10دہشتگرد ہلاک، متعدد زخمی میانوالی، پنجاب پولیس اور سی ٹی ڈی کا آپریشن، 10دہشتگرد ہلاک، متعدد زخمی اسلام آباد، اسلامک یونیورسٹی کی 22سالہ طالبہ کو روم میٹس کی موجودگی میں نجی ہاسٹل میں قتل کر دیا گیا جنوبی وزیرستان میں انسداد پولیو ٹیم پر حملہ، کانسٹیبل شہید اور دہشت گرد ہلاک ججز سنیارٹی کیس: وفاقی حکومت نے ججز تبادلوں پر تمام خط و کتابت عدالت میں جمع کرا دی پی ٹی آئی سے اتحاد نہ کرنے کی خبریں مصدقہ نہیں، ترجمان جے یو آئی قونصلیٹ جنرل حکومت اور اوورسیزپاکستانیوں کے درمیان موثر رابطہ کاری کا ذریعہ ہے، مصباح نورین TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
  • پنجاب میں حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی، عظمی بخاری
  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے، عمر ایوب
  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے : عمر ایوب
  • ہم موجودہ حالات میں اپوزیشن اتحاد کے حق میں نہیں، حافظ حمد اللہ
  • معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ
  • جو مرضی کر لیں این آر او نہیں ملے گا، فیصل کریم کنڈی
  • وفاق سے تلخی کے بجائے سیاسی و پارلیمانی سطح پر بات ہونی چاہیے: گورنر کے پی
  • سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے عوام کو استعمال کیا، مولانا ہدایت الرحمان
  • بلوچستان کے مسائل معاشی ترقی سے حل نہیں کئے جاسکتے: رضا ربانی