Express News:
2025-04-22@00:21:23 GMT

تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا (پہلا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام انتہائی مبارک ہے، فاطمہ کے معنی ہوا روکنے اور چھڑانے والی، آتشِ جہنم سے نجات دینے والی۔

 حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ ان کا نام فاطمہ اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اور ان کی نسل کو روزِ قیامت آگ سے محفوظ فرمایا ہے۔‘‘ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس لیے رکھا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے فاطمہؓ اور ان سے محبت کرنے والوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد فرما دیا ہے۔‘‘

حضرت فاطمہؓ کا لقب زہرا ہے، جس کے معنی کلی کے ہیں، آپ اپنے والد حضرت محمد ﷺ کے گلشن کی کلی تھیں، آپؓ کے جسم سے جنت کی خوشبو آتی تھی جسے رسول اللہ ﷺ سونگھا کرتے تھے۔

 ’’زہرا‘‘ کا مطلب انتہائی خوب صورت بھی ہے حضرت فاطمہ حسین و جمیل اور حسن میں بے مثال تھیں، اسی وجہ سے آپؓ کو زہرا کے نام سے پکارا جانے لگا۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہؓ کی پاک دامنی کی گواہی دی ہے۔ فرمایا بے شک فاطمہؓ پاک دامن، پاک دامن ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت فاطمہؓ کی اولاد پر جہنم کی آگ حرام کر دی ہے۔ حضرت فاطمہؓ کا لقب بتول بھی ہے، ان کے کردارکی پاکیزگی اور دنیا کی لذتوں سے دور رہنے اور صبر و استقامت کی حدوں کو چھو لینے کی وجہ سے ’’بتول‘‘ لقب ہوا۔

بتول و فاطمہ زہرا لقب اس واسطے پایا

کہ دنیا میں رہیں اور دیں، پتا جنت کی نگہت کا

آپؓ نے سیدۃ النسا العالمین کا لقب بھی پایا، اس کے معنی ’’ تمام جہان کی عورتوں کی سردار۔‘‘

جب حضرت فاطمہؓ کی ولادت باسعادت ہوئی تو ساری فضا آپؓ کے چہرے کے نور سے منور ہوگئی۔

تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

حضرت فاطمہؓ کا حسن مبارک چودھویں رات کے چاند سے مشابہ تھا یا سورج کی طرح جو بادلوں سے نکلتے وقت گھٹا کو چھپا دے، چہرے کی رنگت سفید اور سرخی مائل تھی، آپؓ اپنے والد ماجد تاجدار مدینہ حضرت محمد ﷺ سے بہت مشابہت رکھتی تھیں،گویا سراپا نور ہی نور تھیں اورکیوں نہ ہوتیں کہ آپ فاطمہؓ حضرت محمد ﷺ کے قلب وجگر کا حصہ تھیں۔ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اے فاطمہ دنیا کی پریشانیوں پر صبر کر۔‘‘

جب حضرت فاطمہؓ کی عمر پندرہ بعض روایتوں میں سترہ سال درج ہے تو اس عرصے میں معززین عرب کے رشتے حضرت فاطمہ کے لیے آئے حتیٰ کہ حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اپنی خواہش سے آگاہ کیا لیکن آپؐ نے یہ ارشاد فرمایا کہ ’’ یہ معاملہ اللہ کے سپرد ہے‘‘ ابھی تک حضرت علیؓ یہ جسارت نہیں کر سکے تھے چنانچہ ایک موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت علیؓ سے فرمایا ’’آپ ہر اچھی عادت سے متصف ہیں اور اللہ کے رسول ﷺ سے خاص رشتہ اور خصوصی محبت میں بندھے ہوئے ہیں، مجھے امید ہے کہ اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ نے ان (حضرت فاطمہؓ) کا معاملہ آپ کے لیے روکا ہوا ہے۔‘‘

حضرت ابو بکرؓ کی بات سن کر آپ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور فرمایا ’’ اے ابو بکر مجھے میری تنگدستی نے ایسا کرنے سے روکا ہوا ہے‘‘ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا’’ اے علی! ایسا نہ کہو کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک دنیا خس و خاشاک کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘ چنانچہ اس واقعے کے بعد آپ کا حوصلہ بلند ہوا اور امید بندھی، تو آپ حضرت محمد ﷺ سے اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے ان سے ملنے تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ ﷺ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرہ اقدس میں تشریف فرما تھے۔ حضرت علیؓ نے ہمت کر کے آپ ﷺ سے اپنا مدعا بیان کیا۔

 ’’یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، آپ جانتے ہیں کہ آپ نے مجھے اپنے چچا ابو طالب اور چچی فاطمہ بنت اسد سے لیا ہے، آپ نے میری رہنمائی کی مجھے ادب آداب سکھائے، آپ ﷺ نے مجھ پر میرے والدین سے بڑھ کر شفقت و احسان فرمایا، آپ ہی دنیا اور آخرت میں میرا وسیلہ ہیں، میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ رب العزت آپؐ کے ذریعے میرے پشت پناہی، یوں فرمائے کہ میرا بھی ایک گھر اور بیوی ہو، میں جس میں چین حاصل کر سکوں لہٰذا میں آپ کی بارگاہ میں آپ کی شہزادی فاطمہؓ کے لیے نکاح کا پیغام لے کر حاضر ہوا ہوں۔‘‘

ام المومنین حضرت ام سلمیٰؓ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضور اکرمؐ کا چہرہ انور خوشی سے کھل اٹھا، آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کی وہ بات سن کر فرمایا، تمہارے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کوئی ایسی چیز ہے جس سے فاطمہؓ کا مہر ادا کرسکو؟ حضرت علیؓ نے فرمایا ’’ اللہ کے رسول ﷺ ! میرے پاس ایک زرہ اور ایک اونٹ ہے‘‘ حضور نبی اکرم ﷺ نے زرہ کو فروخت کرنے کا کہا۔

پھر مبارک باد دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’اے علی! تمہیں مبارک ہو کہ اللہ نے زمین پر فاطمہ سلام اللہ علیہا سے تمہارا نکاح کرنے سے پہلے آسمان میں تم دونوں کا نکاح کر دیا ہے اور تمہارے آنے سے پہلے ایک آسمانی فرشتہ میرے پاس حاضر ہوا، جس کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا، اس نے آ کرکہا’’ السلام علیک یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کو مبارک ملن اور پاکیزہ نسل کی بشارت ہو۔‘‘

حضرت علی کرم اللہ نے اپنی زرہ چار سو درہم میں فروخت کر دی۔ خریدار مبارک ہستی اور مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنیؓ تھے۔ آپؓ غنی تھے حیا دار تھے، سخی تھے، یہ کیسے ممکن تھا کہ علیؓ سے قیمت وصول کرتے لہٰذا حضرت عثمان غنیؓ نے ہدیہ کے طور پر خریدی ہوئی زرہ حضرت علیؓ کو پیش کر دی۔

اپنی لاڈلی اور پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ کے نکاح نے رحمۃ اللعالمین، خاتم النبین کو روحانی خوشی عطا فرمائی، حضرت علیؓ کی خوش نصیبی ہی تو تھی کہ آپؓ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ صحبت نصیب ہوئی لہٰذا خوشیوں کے محور میں جب آپ ﷺ مسجد نبوی تشریف لے گئے تو خوشی و فرحت کا احساس آپ ﷺ کے چہرہ انور پر روشنی بکھیر رہا تھا، آپ ﷺ نے مسجد نبوی پہنچتے ہی حضرت بلالؓ ؓ سے فرمایا کہ’’ مہاجرین و انصار کو بلا لاؤ‘‘ جب ارشاد کی تعمیل ہوگئی تو آپ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد اپنی دلی کیفیت سے آگاہ کیا، دونوں جہانوں کے سردار احمد مجتبیٰ ﷺ کی آواز میں مسرت و خوشی کی دنیا سمٹ آئی تھی، موسم بہار اور چاند تارے جشن منا رہے تھے کہ آج اپنی اس لخت جگر کے نکاح کی خوشخبری اپنے رفقا کار اور ساتھیوں کو سنا رہے تھے جو ہر قدم پر ساتھ تھی۔( جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رضی اللہ تعالی ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ فرمایا کہ حضرت علی کہ اللہ کے رسول کے لیے

پڑھیں:

باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی

گزشتہ ایک صدی میں انسانیت ایک خاموش تبدیلی سے گزری ہے۔ سچا روحانی علم، جو کبھی اخلاص والے دلوں میں چھپا ہوتا تھا، اب مادی حرص و ہوس کے نیچے دفن ہو گیا ہے۔ دین اور روحانیت کے علمبردار علما، مشائخ اور مبلغین اکثر اس علم کو دولت، شہرت اور اقتدار کے لیے استعمال کرنے لگے۔
تزکیہ نفس، ذکر، اور باطنی سچائی کی دعوت اب سیاسی و مالی مفادات کی نذر ہو چکی ہے۔
حدیث ‘ ’’ایسا وقت آئے گا جب لوگ صرف اپنے پیٹ کی فکر کریں گے، دین ان کے لیے مال کا ذریعہ ہوگا، ان کا قبلہ ان کی خواہشات ہوں گی، اور وہ قرآن پڑھیں گے مگر اس پر عمل نہیں کریں گے۔
جب سچے ذکر اور باطنی بیداری کا چراغ بجھنے لگا، تب آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت (AI) جیسے نئے علوم نے دنیا میں جگہ لی شاید ہمیں یہ یاد دلانے کے لیے کہ ہم نے کیا کھو دیا، اور دوبارہ نظام، ترتیب، اور ربانی حکمت کی طرف لوٹنے کا وقت ہے۔
روحانی علم کی آلودگی۔ اخلاص، جو کبھی دین و تصوف کی روح تھی، اب لالچ، شہرت اور طاقت کے ہاتھوں ماند پڑ گئی ہے۔ اکثر مبلغین اور اداروں نے دین کو تجارت بنا دیا ہے۔
حقیقی تصوف، جو کبھی صرف اہلِ دل کے سینوں میں چھپا ہوتا تھا، اب رسموں اور نعروں فتوئوں میں بدل گیا ہے۔علم بغیر عمل کے دیوانگی ہے، اور عمل بغیر علم کے بیکار ہے۔
امام غزالی، احیاء العلوم۔ روح کی کھوئی ہوئی حقیقت ‘ لطائف کا علم‘ جو انسان کے اندر موجود روحانی مراکز کی نشاندہی کرتا ہے صدیوں تک خفیہ طور پر استاد سے شاگرد تک منتقل ہوتا رہا۔
ذکر، مجاہدہ، اور سچائی کے ذریعے یہ لطائف بیدار ہوتے ہیں اور اللہ کی قربت کی راہیں کھولتے ہیں۔مگر آج یہ علم یا تو چھپا لیا گیا ہے یا بیچا جا رہا ہے۔
جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔
حدیث ‘اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘ نور پر نور۔ اللہ جسے چاہے اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (سورۃ النور، 24:35)
آئی ٹی اور AI ‘ واپسی کی ایک نشانی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے پیچھے جو نظریہ ہے، وہ مسلمان سائنسدانوں کی تحقیق پر مبنی ہے۔
الگوردم ‘ کا تصور محمد بن موسی الخوارزمی سے آیا، جو ایک مومن مسلمان ریاضی دان تھے۔ہمیں سچائی کو جہاں سے بھی ملے، قبول کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
الکندی‘یاد رکھیں: ٹیکنالوجی بذاتِ خود نہ حرام ہے نہ حلال اصل چیز نیت اور استعمال ہے۔
کچھ علماء AI اور IT کو کفر یا بدعت کہتے ہیں، مگر خود سوشل میڈیا، آئی فون، اور لیپ ٹاپ پر دن رات سرگرم ہوتے ہیں۔یہ ریاکاری ہے، دین نہیں۔
جبکہ سچے طالبانِ حق جدید علم کو اخلاص اور حکمت سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ علم علمِ نافع ہے جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا:علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر تک۔
حدیث‘ تم میں سے بہترین وہ ہے جو علم سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (صحیح بخاری)
اللہ والے مخلصین ایسے لوگ پوری حکمت اور فراست سے لیس ، کمپاس، GPS اور روحانی WiFi رکھتے ہیں جو انہیں رب سے جوڑ دیتا ہے۔
لطائف دل کی روشنی‘ تصوف کے مطابق، انسان کے اندر کئی لطائف ہیں جو روحانی ترقی کی منزلیں طے کرواتے ہیں۔ لطیفہ قلب‘ ذکر کا مقام۔ لطیفہ روح ‘الہام و وحی کا مرکز۔ لطیفہ سر ‘ دل کی گہرائیوں کا راز۔ لطیفہ خفی و اخفی ‘ باطنی اسرار کی انتہا۔
مولانا روم فرماتے ہیں:تم کمرے کمرے پھر رہے ہو اس ہار کو تلاش کرنے کے لیے جو تمہارے گلے میں پہلے ہی ہے۔
تمہارا کام محبت کی تلاش نہیں، بلکہ ان رکاوٹوں کو ختم کرنا ہے جو تم نے اس کے خلاف کھڑی کی ہیں۔
طالبِ حق کے نام پیغام۔ اے سچے طالب!یہ راہ تیرے لیے ہے۔ نہ ان کے لیے جو دنیا چاہتے ہیں، بلکہ ان کے لیے جو قربِ الہی کے خواہاں ہیں۔
دل کی طرف لوٹ،باطن کو بیدار کر،اس نور کو جگا،جو اللہ نے تیرے اندر رکھا ہے۔خبردار! دلوں کا سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔ (سور ۃالرعد، 13:28؟)
آئو، ذکر کو اپنا ساتھی بنائو،لطائف کو روشن کرو،اور رب کی طرف بڑھو۔
اللہ ھو ۔ ھو کا ورد کرو پھر دیکھو دل میں اللہ کی محبت ا نور افضل الذکر لاا لہ ا لا اللہ۔

متعلقہ مضامین

  • پہلا سسٹین ایبل انویسٹمنٹ سکوک بانڈ جاری کرنے کا فیصلہ
  • ویمنز ورلڈ کپ تک رسائی، پاکستان ٹیم کی کپتان فاطمہ ثنا کیلیے بڑا اعزاز
  • حیا
  • کوفہ، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
  • نجف، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
  • نجف: کامران ٹیسوری کی روضہ حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ پر حاضری
  • یہودیوں کا انجام
  • باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی
  • شہید محمد باقر الصدر کی چھیالیسوں برسی کی مناسبت سے سیمینار کا انعقاد
  • عالمی شہرت یافتہ فلسطینی فوٹوجرنلسٹ اسرائیلی حملے خاندان سمیت شہید