Express News:
2025-04-22@18:58:37 GMT

یوم پاکستان، تجدید عہد کا دن

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں نے سالہا سال تک حکمرانی کی مگر جنگ پلاسی و سرنگا پٹم اور سندھ کی جنگ جیتنے کے بعد انگریز پورے برصغیر پر حکمران بن گئے جب کہ ہندو مسلمان اور دیگر اقوام ان کی غلام بن گئیں۔ 

تاہم مئی 1857 میں اہل ہندوستان نے جنرل بخت خان کی قیادت میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنی جدوجہد کا آغاز کردیا جو مختلف مراحل سے گزر کر بلاخر 14 اگست 1947 کو کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔

مگر اس تحریک میں تیزی 23 مارچ 1940 کے بعد آئی حالانکہ اس سے قبل کوئی بھی یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں منعقد ہونے والا مسلم لیگ کا اجلاس جدو جہد آزادی کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔

23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے 27 ویں سالانہ اجلاس میں لاکھوں مسلمانان ہند نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ ایک الگ وطن حاصل کریں گے۔ بلاشبہ یہ پاکستان کی تشکیل کی جانب مسلمانوں کا پہلا بڑا قدم تھا جس نے آگے چل کر قیام پاکستان کی صورت اختیار کی۔

 قرارداد پاکستان کے مقاصد معلوم کرنے کے لیے ہمیں برصغیر پاک و ہند کے جغرافیہ کے علاوہ ان حالات و واقعات کا جائزہ لینا ہوگا جس کی بنا پر یہ قرار داد 23 مارچ 1940 کو پیش کی گئی تھی اور اس کا مقصد کیا تھا۔

برصغیر پاک و ہند ہزاروں برس قدیم خطہ ہے جس میں قدیم انسانی تاریخ دفن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خطہ جغرافیائی محل وقوع کی بناء پر دنیا کے نقشے پر ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ علاقہ زرخیزی اور بہترین بود و باش کی وجہ سے بیشتر اقوام کا مسکن رہا ہے۔

اسلامی تاریخ مسلمانوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے خود بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ کیا اور ہندوؤں کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلاتے رہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کو مٹا دینے کی انگریز اور ہندوؤں کی خواہش اس قدر خطر ناک ہوتی جا رہی تھی کہ اس کی مدافعت میں بالآخر مسلمانوں نے مسلم لیگ قائم کی۔

مسلم لیگ 1940 سے قبل کبھی بھی باقاعدہ طور پر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزاد خود مختاری ریاست کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔

سرسید احمد خان غالباً برصغیر کے پہلے مسلمان رہنما تھے جنھوں نے 1887 میں مسلمانوں کے لیے قوم کا لفظ استعمال کیا پھر علامہ اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس 1930 میں صدارتی خطبے میں ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا اور برصغیر کے مسلمان اکثریت والے علاقوں کو ملا کر ایک وطن بنانے کی تجویز پیش کی۔

شاعر مشرق علامہ اقبال کے اسی تصور نے 23 مارچ 1940 میں قرارداد پاکستان کی شکل میں تشکیل پائی۔ اس موقعے پر قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی صدارتی تقریر میں مسلمانان ہند کے دلوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ’’ قومیت کی تعریف چاہے جس طرح کی جائے، مسلمان اس تعریف کی رو سے ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس لیے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی اپنی الگ مملکت اور اپنی جدا گانہ ریاست ہو۔ 

ہم مسلمان چاہتے ہیں کہ ہندوستان کے اندر ہم ایک آزاد قوم بن کر اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہم آہنگی اور امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ ہماری تمنا ہے کہ ہماری قوم اپنی روحانی، اخلاقی، تمدنی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو کامل ترین نشوونما بخشنے کے لیے وہ طریق عمل اختیار کرے جو اس کے نزدیک بہترین ہو اور ہمارے نصب العین سے ہم آہنگ بھی ہو۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اس قرارداد کی منظوری کے بعد اپنی آزادی کی جدوجہد کو تیز کردیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ صرف سات سال کے مختصر عرصے میں بیک وقت انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے آزادی حاصل کر لی اور 14 اگست 1947 کو تاریخ عالم میں سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان کے نام پر وجود میں آگئی۔

مگر نئی مملکت کا وجود بھارتی سامراج کے لیے قابل قبول نہیں تھا، چنانچہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی انھوں نے پاکستان کے خلاف اپنی سازشیں شروع کردیں انھوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کرنے والی سب سے بڑی اور سب سے عظیم ریاست مملکت خداداد ریاست بہاولپور کے سربراہ ہز ہائنس الحاج سر صادق محمد خان عباسی کو بھی لالچ اور دھمکی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے سے روکنے کی ہر ممکنہ کوششیں کیں لیکن غیرت مند ہاشمی خاندان کے چشم و چراغ محسن پاکستان سر صادق محمد خان نے نہرو کی ہر پیشکش اور دھمکی کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے پاکستان کے ساتھ نہ صرف الحاق کر لیا بلکہ اس ملک کو چلانے کے لیے اپنے تمام تر وسائل اور فوج بھی بابائے قوم کے حوالے کردی۔

 اس طرح ہر دور میں ہمارا ازلی دشمن بھارت اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے سازشوں کے جال بنتا رہا ہے مگر ہر بار اس نے منہ کی کھائی ہے۔ حال ہی میں اس نے بلوچستان کے علیحدگی پسند دہشت گردوں کی پشت پناہی کر کے جعفر ایکسپریس پر حملہ کروایا لیکن ہمارے جانبازوں نے جلد ہی تمام دہشت گردوں کا صفایا کردیا۔

پاکستان کو تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کا گہوارہ بنانے، دوسرے ممالک سے برابری کی بنیاد پر رشتوں کو استوار کرنے اور قوموں کی برادری میں اسے ممتاز اور سرفراز رکھنے، اسے بنی نوع انسان کی خدمت اور دستگیری کے قابل بنانے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان کے عوام کو یکسوئی اور یکجہتی کے تمام لوازم فراہم کیے جائیں اور انھیں احساس دلایا جائے کہ اگر وہ اپنے اندر وہی جذبہ پھر سے زندہ کر لیں جس کا اظہار انھوں نے تحریک پاکستان کی صورت میں کیا تھا وہ پاکستان کو ایک عظیم الشان فلاحی مملکت بنانے کا مقصد حاصل کر سکتے ہیں اور بیرونی سازشوں کو بھی ناکام بنا سکتے ہیں۔ جب قومیں بیدار، متحد اور منظم ہوں تو اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب اور سرخرو ہوتی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: برصغیر کے مسلمان مسلمانوں کے پاکستان کی پاکستان کے مسلم لیگ کیا تھا کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

وقت وقت کی بات ہے

گزشتہ دنوں بھارت میں شری رام چندر جی کا جنم دن منایا گیا۔ بی جے پی کے غنڈوں نے اس دن جامے سے باہر ہوکر رقصِ ابلیس کیا اور مسلمانوں کو طیش دلانے کے لیے اشتعال انگیز نعرے لگائے، تاہم مسلمانوں کے علمبردار مولانا محمود احمد مدنی نے مسلمانوں کو پرامن اور پرسکون رہنے کی تلقین کی، تاکہ بی جے پی کے غنڈے موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ جیسا کہ اندیشہ اور خدشہ تھا کہ بی جے پی اگر برسرِ اقتدار آگئی تو ہندوستان کے مسلمانوں کی خیر نہیں، ٹھیک ویسا ہی ہو رہا ہے۔

بھارت کے مسلمانوں کو ہر طرح سے تنگ کیا جارہا ہے اور ان پر مظالم پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ بی جے پی کے قائدین جوکچھ کر رہے ہیں وہ ہندو دھرم کے خلاف کر رہے ہیں جوکہ ہندو دھرم کو بدنام کرنے کے مترادف ہے کیونکہ شری رام چندر جی نے نہ تو تشدد کا درس دیا ہے اور نہ ہی کسی کے دھرم کو بُرا بھلا کہنے کی ترغیب دی ہے۔اصل معاملہ اس کے الٹ ہے۔

ہندوؤں کی مقدس کتاب رامائن جسے والمیکی نے سنسکرت بھاشا میں تحریر کیا تھا اور جس کا ہندی ترجمہ کرنے میں دربارِ اکبری کے اہم رکن اور ہندی کے مہا کوی (شاعر) عبدالرحیم خان خانہ نے تلسی داس کی مالی اعانت کی تھی، اس میں رام چندر جی کا جو چرتر (عظیم) کردار بیان کیا گیا ہے، اس کے مطابق ہندوؤں کے پیشوا رام چندر جی نے انسانوں کو امن و آشتی اور بھائی چارے کی تلقین کی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی اور اس کے غنڈے اپنے پیشوا رام چندر جی کی توہین کر رہے ہیں۔رامائن کے مطابق بھارت کو ایک امن پسند اور صلح جو دیس ہونا چاہیے۔

ہمیں یقین ہے کہ آپ کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی کہ بھارت میں بی جے پی کے ہاتھوں مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کی شہادت کی کارروائی شری رام چندر جی کے درس کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھارت کے سیکولر آئین کی بھی خلاف ورزی ہے، جو بلا امتیاز بھارت کے تمام شہریوں کو برابرکے حقوق دیتا ہے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ بھارت کے حالیہ عام انتخابات میں بی جے پی کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوئی ورنہ وہ بھارت کے آئین میں تبدیلی کر کے سیکولر ازم کا خاتمہ کردیتی۔ یہ بات انتہائی خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں نے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے کمر کس لی ہے اور جمعیت العلماء ہند کے مرکزی قائد مولانا محمود اسعد مدنی کو اپنا علمبردار منتخب کرلیا ہے۔

مولانا مدنی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کے باپ دادا کی عظمت مسلمہ ہے۔ اس کے علاوہ مولانا بذاتِ خود بھی بیشمار خوبیوں کے حامل ہیں۔ دور اندیشی، فہم و فراست، قوتِ فیصلہ سازی کے علاوہ ان میں اور بھی بیشمار خوبیاں موجود ہیں۔ وہ مسلمانوں کو کسی بھی حالت میں مشتعل نہ ہونے کی ہدایت اور ضبط و تحمل سے کام لینے کی تلقین کر رہے ہیں۔

انھیں یقینِ کامل ہے کہ اگر مسلمانوں نے ان کی ہدایات پر عمل کیا تو اِن شاء الہ مکمل کامیابی اُن کے قدم چومے گی۔ انھوں نے کہا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں اپنی اپنی جگہ اپنا کردار ادا کرتی رہیں اور کسی بھی حالت میں صبر و استقامت کا دامن اپنے ہاتھوں سے نہ چھوڑیں۔ مولانا محمود اسعد مدنی صبر و استقامت کا کوہِ گراں ہیں۔نریندر مودی جو خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں اپنے پاپوں کا بھگتان بھگتنے والے ہیں اور اِنشاء اللہ ان کے اقتدارکا سورج غروب ہونے والا ہے۔سیاسی نجومیوں کا خیال ہے کہ بھارت کے آیندہ انتخابات میں انھیں منہ کی کھانا پڑے گی۔ ساحرنے کیا خوب کہا ہے:

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

نریندر مودی نے چناؤ سے پہلے بھارتی جنتا کو سہانے خواب دکھائے تھے اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کے دورِ اقتدار میں بھارت سورگ بن جائے گا اور غربت اور بیروزگاری ختم ہوجائے گی۔ ووٹروں نے ان کے کہے پر یقین کرلیا اور وہ جھانسے میں آگئے۔ اب نتیجہ سب کے سامنے ہے اور غریبی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگوں کا جینا حرام ہوچکا ہے اور دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پریشان ہیں۔ دوسری جانب بھارت کے امیر امیر تر ہوتے جا رہے ہیں جن میں اڈانی اور امبانی سرِفہرست ہیں۔جھوٹ اور مکاری کی سیاست نے مودی کو چائے والا سے پردھان منتری بنا دیا ہے۔ وقت وقت کی بات ہے اور وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اور وقت ہمیشہ ساتھ نہیں دیتا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ’ارتھ ڈے‘ منایا جا رہا ہے
  • وقت وقت کی بات ہے
  • عماد عرفانی کی گلوکار علی عظمت کو دلچسپ انداز میں سالگرہ کی مبارکباد
  • شاعر مشرق مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ  کا یوم وفات آج منایا جا ئے گا 
  • وزیراعظم محمد شہباز شریف کا شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے یوم وفات پر پیغام
  • صدر زرداری اور وزیرِاعظم شہباز شریف نے زور دیا کہ قوم علامہ اقبال کے افکار کی پیروی کرے
  • عالمی چلینجز اور سماجی تقسیم کو ختم کرنے کیلیے علامہ اقبال کی تعلیمات مشعل راہ ہیں، وزیراعظم
  • اقبال کے نظریات کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اپنائیں ؛ وزیر اعظم شہباز شریف
  • ایسٹر تجدید اور اُمید کی علامت ہے: وزیرَ اعظم شہباز شریف
  • ایسٹر تجدید اور امید کی علامت ، صدرمملکت اور وزیراعظم  کی  مسیحی برادری کو مبارکباد