سرحد پاردریا کی نذر ہونے والی محبت کہانی، پاکستانی حکام نے لاشیں بھارتی فورسز کے حوالے کردیں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
مظفرآباد:
مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے دولانجا میں خاندان کی مخالفت کے خوف سے دریائے جہلم میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والے جوڑے کی لاشیں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) میں پاکستانی عہدیداروں نے بھارتی فورسز کے حوالے کردیں۔
ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق زندگی میں نہ مل سکے، مگر مرنے کے بعد بھی ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑا کے مصداق ایل او سی کے آر پار دریائے جہلم کی بے رحم موجوں کے سپرد ہونے والی محبت کی ایک اور کہانی سے جڑے نوجوان جوڑے کی لاشیں واپس کردی گئیں۔
مقبوضہ کشمیر کے علاقے دو لانجا کے مقام پر5 مارچ کو دریائے جہلم میں چھلانگ لگانے والے یاسر حسین اور آسیہ بانو کی تشدد زدہ لاشیں چناری اور مظفرآباد سے ملی تھیں۔
پاکستانی حکام نے ہفتے کو ایل او سی کو ملانے والے چکوٹھی-اوڑی کمان پل پر پاک فوج، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی نگرانی میں دونوں کے بے جان جسم واپس بھارتی حکام کے حوالے کر دیے جہاں ان دونوں کے لواحقین بڑی تعداد میں موجود تھے۔
مقبوضہ کشمیرکے علاقے بسگراں تحصیل اوڑی سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ یاسر اور 20 سالہ آسیہ بانو نے مبینہ طور پر گھریلو تنازعات اور ممکنہ جدائی کے خوف سے 5 مارچ کو دریائے جہلم میں چھلانگ لگا کر زندگی کا خاتمہ ایک ساتھ کر دیا تھا۔
یاسر حسین کی لاش 20 مارچ کو آزاد کشمیر کے علاقے چناری کے مقام سے دریائے جہلم سے نکال کر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز اسپتال ہٹیاں بالا کے مردہ خانہ میں رکھی گئی تھی اور آسیہ بانو کی لاش 19 مارچ کو مظفرآباد سے ملی تھی جسے ہفتے کو ہٹیاں بالا پہنچایا گیا۔
بعد ازاں دونوں لاشوں کو چکوٹھی-اوڑی کمان پل پر پاک فوج، ضلعی انتظامہ اور پولیس کی موجودگی میں بھارتی حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے، اس موقع پر یاسر حسین اور آسیہ بانو کے لواحقین کی بڑی تعداد سر حد کے اس پار موجود تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دریائے جہلم کے حوالے کر آسیہ بانو کے علاقے مارچ کو
پڑھیں:
سرینگر، علاقے میں پائی جانے والی خاموشی کو ہرگز امن کا نام نہیں دیا جا سکتا
سرینگر اور دیگر علاقوں میں شہریوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوجیوں اور پیرا ملٹری اہلکاروں نے جبر و استبداد کی کارروائیوں کے ذریعے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول قائم کر رکھا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سرینگر اور دیگر علاقوں میں شہریوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں پائی جانے والی خاموشی کو ہرگز امن کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوجیوں اور پیرا ملٹری اہلکاروں نے جبر و استبداد کی کارروائیوں کے ذریعے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول قائم کر رکھا ہے، قابض بھارتی اہلکار طاقت کے بل پر لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے اگست 2019ء میں علاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد کشمیریوں کے خلاف اپنی پرتشدد مہم میں تیزی لائی، میڈیا پر قدغیں عائد کیں اور صحافیوں کو سچائی سامنے لانے سے روکا۔ شہریوں نے کہا کہ علاقے میں اس وقت جو خاموشی کا ماحول نظر آ رہا ہے اور جسے بھارت امن کا نام دے رہا ہے یہ دراصل امن نہیں بلکہ خوف و دہشت ہے جو طاقت کے بل پر یہاں پھیلایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف ”یو اے پی اے“ جیسے کالے قوانین کا استعمال، این آئی اے اور ایس آئی اے جیسے بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں کے ذریعے ڈرانے دھمکانے کی کارروائیاں یہاں پائی جانے والی خاموشی کا اصل سبب ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی مبصرین کا بھی کہنا ہے کہ بھارت جبر و ستم کی کارروائیوں کے ذریعے مقبوضہ علاقے میں آزادی کی آوازوں کو خاموش کرانے کی کوشش کر رہا ہے اور خوف و دہشت کو امن کا نام دے رہا ہے۔ ایک سابق پروفیسر نے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”یہ وحشیانہ فوجی طاقت کے ذریعے قائم کی گئی خاموشی ہے، لوگ پہلے کی طرح سب کچھ محسوس کر رہے ہیں لیکن انہوں نے ڈر کے مارے اپنے جذبات کا اظہار کرنا چھوڑ دیا ہے۔“