علامہ شبیر حسن میثمی کی حسب سابق امسال بھی نشتر پارک کراچی کے مرکزی جلوس میں شرکت
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
اس موقع پر پاک محرم کے سیکرٹری محترم سرور بھائی مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری علامہ ناظر عباس تقوی، صوبائی صدر علامہ سید اسد اقبال زیدی مرکزی صدر جے ایس او محترم محمد اکبر صدیقی و دیگر رفقاء موجود تھے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی نے روز شہادت مولائے متقیان مشکل کشاء امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ کی مناسبت سے حسب سابق امسال بھی نشتر پارک کراچی کے مرکزی جلوس میں شرکت کی۔ وہ علم حضرت ابوالفصل العباس علمدارؑ کی زیارت کے بعد شیعہ علماء کونسل کراچی ڈویژن کی مرکزی کیمپ بھی پہنچے تو علماء کرام تنظیمی کارکنان و دیگر رفقاء نے انہیں خوش آمدید کہا۔
بعدازاں مومنین اور علماء کرام کی ان سے فرداً فرداً ملاقاتیں ہوئیں۔ انہوں نے مختلف امور پر علماء کرام و کارکنان کی رہنمائی بھی کی۔ اس موقع پر پاک محرم کے سیکرٹری محترم سرور بھائی مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری علامہ ناظر عباس تقوی، صوبائی صدر علامہ سید اسد اقبال زیدی مرکزی صدر جے ایس او محترم محمد اکبر صدیقی و دیگر رفقاء موجود تھے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کراچی میں انتقال کرگئے
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کراچی میں انتقال کرگئے، ان کی عمر 75 برس تھی اور وہ طویل عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔
رپورٹ کے مطابق مرحوم کی نمازِ جنازہ آج (منگل ) نمازِ عصر کے بعد ڈیفنس فیز 8 کی حمزہ مسجد میں ادا کی جائے گی۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی کا شمار پاکستان کی اعلی عدلیہ کے باوقار اور اصول پسند ججوں میں ہوتا تھا، انہوں نے 1998 میں سندھ ہائیکورٹ کے جج کے طور پر خدمات کا آغاز کیا اور 2009 میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججز میں شامل تھے، جس پر انہیں عدلیہ میں آئینی مزاحمت کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔
2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران انہوں نے دوبارہ حلف لیا اور انہیں جسٹس عبدالحامد ڈوگر کی سفارشات پر سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔
جسٹس عثمانی سپریم کورٹ کے اس 14 رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے 3 نومبر کی ایمرجنسی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
اس فیصلے کی روشنی میں جسٹس ڈوگر کے دور میں ججز کی تقرریوں کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
ان کی وفات پر عدالتی حلقوں، وکلا برادری، اور مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور ان کے اہلخانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔