Islam Times:
2025-04-22@14:16:12 GMT

مُنْہ میں رام رام بَغَل میں چُھری

اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT

مُنْہ میں رام رام بَغَل میں چُھری

اسلام ٹائمز: طاقت کے ذریعے امن کی اپنی حکومت کی پالیسی کے مطابق، ٹرمپ نے اس مسئلے میں بھی سب سے آگے دھمکی اور دباؤ کے نقطہ نظر کو رکھا۔ ٹرامپ پرامن جوہری سرگرمیوں کو روکنے کیلئے ایرانیوں کیساتھ نام نہاد جوہری مذاکرات میں واشنگٹن کے دیگر مطالبات کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی دھونس اور دھمکی کے ذریعے۔ ایران کے نقطہ نظر سے، ٹرمپ کے ایران کیساتھ مجوزہ مذاکرات، تہران پر اپنے مطالبات مسلط کرنے، دباؤ بڑھانے اور پابندیوں کا پھندا تنگ کرنے کا محض ایک آلہ و ہتھیار ہیں۔ ایران کیخلاف نئی امریکی پابندیوں کا اعلامیہ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن محض دباؤ بڑھانا اور ایران پر اپنے مطالبات مسلط کرنا چاہتا ہے۔ تحریر: سید رضا میر طاہر

 امریکی محکمہ خزانہ نے نئے ایرانی سال 1404 شمسی کے پہلے دن ایران پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں، جن میں متعدد اداروں، بحری جہازوں اور افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ دوسری طرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نوروز کے پیغام میں ایرانیوں کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایرانیوں کو نوروز کی مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ ان پر پابندیوں میں اضافے اور دباؤ میں اضافہ کا حکم بھی صادر کیا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ امریکی محکمہ خزانہ کے دفتر برائے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول (OFAC) نے ایرانی خام تیل کی خریدار اور ریفائننگ کے لیے ایک کمپنی اور اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پر پابندی عائد کی ہے۔ OFAC کے مطابق یہ کمپنی 19 ملین تیل کی نقل و حمل کی ذمہ دار ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ نے کہا کہ ایرانی ٹینکرز کا یہ "شیڈو فلیٹ" اس کمپنی کے زیر نظر کام کر رہا تھا۔

امریکی محکمہ خزانہ کا یہ فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نوروز 1404 کے موقع پر امریکا اور دنیا بھر میں اس قدیم تہوار کو منانے والے افراد کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ میں امریکا کی جانب سے اس پرمسرت عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ٹرمپ کے نوروز 1404 کے اس پیغام میں ایران اور امریکہ کے درمیان جاری کشیدگی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے اپنی دوسری مدت صدارت کے دوران ایران کے ساتھ معاہدے کی امید کا دعویٰ کیا تھا، انہوں نے 4 فروری 2025ء کو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کو جاری رکھنے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ ایران سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے کہ وہ یادداشت پر دستخط کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، کیونکہ بقول انکے "یہ ایران کے لیے بہت مشکل ہے۔"

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا "مجھے امید ہے کہ ہمیں ان شقوں کو زیادہ استعمال نہیں کرنا پڑے گا اور ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا ہم ایران کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں یا نہیں۔" ایران مخالف اس ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کے بعد ٹرمپ نے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کو ایک خط بھیجا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بدھ 12 مارچ کو اعلان کیا کہ ٹرمپ کا خط متحدہ عرب امارات کے صدر کے سفارتی مشیر انور قرقاش نے تہران کو پہنچایا ہے، Axios ویب سائٹ کے مطابق، ایرانی رہنماء کے نام اپنے خط میں ٹرمپ نے نئے جوہری معاہدے کے لیے  ایران کو دو ماہ کی مہلت دی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی محکمہ خزانہ نے ٹرمپ کے خط کے تہران پہنچنے کے ایک دن بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر تیل محسن پاکنزاد کا نام پابندیوں کی فہرست میں ڈال دیا۔

دوسرے لفظوں میں جب امریکی صدر نے آیت اللہ خامنہ ای کو خط بھیجا اور جوہری معاملے پر مذاکرات کی تجویز پیش کی، عین اس وقت بھی وہ ایران کے خلاف پابندیاں لگانے سے باز نہیں آئے۔ طاقت کے ذریعے امن کی اپنی حکومت کی پالیسی کے مطابق، ٹرمپ نے اس مسئلے میں بھی سب سے آگے دھمکی اور دباؤ کے نقطہ نظر کو رکھا۔ ٹرامپ پرامن جوہری سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ایرانیوں کے ساتھ نام نہاد جوہری مذاکرات میں واشنگٹن کے دیگر مطالبات کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی دھونس اور دھمکی کے زریعے۔ ایران کے نقطہ نظر سے، ٹرمپ کے ایران کے ساتھ مجوزہ مذاکرات، تہران پر اپنے مطالبات مسلط کرنے، دباؤ بڑھانے اور پابندیوں کا پھندا تنگ کرنے کا محض ایک آلہ و ہتھیار ہیں۔ ایران کے خلاف نئی امریکی پابندیوں کا اعلامیہ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن محض دباؤ بڑھانا اور ایران پر اپنے مطالبات مسلط کرنا چاہتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکی محکمہ خزانہ نے پر اپنے مطالبات مسلط کرنا چاہتا ہے پابندیوں کا کے نقطہ نظر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ایران کے ٹرمپ کے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) امریکی نائب صدر جے ڈی وینس آج پیر کی صبح نئی دہلی پہنچے جن کی شام کے وقت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات متوقع ہے۔ اس ملاقات میں دیگر اہم امور کے ساتھ ہی دو طرفہ تجارتی معاہدے پر بات چیت توجہ مرکوز رہنے کا امکان ہے۔

امریکی نائب صدر وینس اپنی اہلیہ کے ساتھ بھارت آئے ہیں، جو بھارتی نژاد ہیں اور ان کا تعلق ریاست آندھرا پردیش سے ہے۔

صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں اس دورے کو اہم سمجھا جا رہا ہے، یاد رہے کہ یہ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کے درمیان ہو رہا ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ دورہ "فریقین کو دو طرفہ تعلقات میں پیش رفت کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرے گا" اور ملاقات کے دوران دونوں رہنما "باہمی دلچسپی کی علاقائی اور عالمی امور کی پیش رفت پر خیالات کا تبادلہ کریں گے۔

(جاری ہے)

"

امریکی ادارے کا بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' پر پابندی کا مطالبہ

وزیر اعظم مودی کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں فروری میں مودی کے دورہ امریکہ کے دوران طے پانے والے دو طرفہ ایجنڈے کی پیش رفت پر توجہ مرکوز کرنے کا امکان ہے۔ اس ایجنڈے میں دو طرفہ تجارت میں "انصاف پسندی" اور دفاعی شراکت داری میں توسیع جیسے امور شامل ہیں۔

بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے، "ہم بہت مثبت ہیں کہ یہ دورہ ہمارے دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دے گا۔"

بھارت کے لیے اہم کیا ہے؟

امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ امریکی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس دونوں ممالک کی باہمی تجارت 129 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی، جس میں بھارت کے حق میں 45.7 بلین ڈالر کا سرپلس ہے۔

مودی ان پہلے عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں، جنہوں نے دوسری بار اقتدار سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ بھارتی حکومت نے امریکہ سے برآمد کی جانے نصف سے زیادہ اشیا پر ٹیرف میں کمی کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔

ٹرمپ کا بڑے پیمانے پر عالمی ٹیرف کا اعلان، پاکستان بھی متاثر

مودی اور ٹرمپ کے درمیان اچھے تعلقات کا ذکر عام بات ہے، البتہ امریکی صدر نے بھارت کو "ٹیرف کا غلط استعمال کرنے والا" اور "ٹیرف کنگ" تک کہا ہے۔

ٹرمپ نے بھارتی درآمدات پر 26 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا ہے، جس پر فی الوقت 90 دنوں تک کے لیے روک لگی ہوئی ہے اور اس سے بھارتی برآمد کنندگان کو عارضی راحت بھی ملی ہے۔

امریکی نائب صدر وینس اس ماہ بھارت کا دورہ کریں گے

وینس کے دورہ بھارت کے ساتھ سے نئی دہلی کو اس بات کی امید ہے کہ 90 دن کے وقفے کے اندر ہی ایک تجارتی معاہدہ ہو جائے گا۔

بھارت رواں برس کواڈ سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والا ہے اور وینس کے دورے کو اس طرح بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اس سے بھارت میں ٹرمپ کی میزبانی کا راستہ بھی ہموار ہو سکتا ہے۔ کواڈ میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔

ادارت رابعہ بگٹی

متعلقہ مضامین

  • صدر ٹرمپ کی فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول پر تنقید ‘مارکیٹ میں ڈالر کی قدرمیں نمایاں کمی
  • ہیگستھ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں‘ میڈیا پرانے کیس کو زندہ کرنے کی کوشش کررہا ہے .ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
  • امریکی نائب صدر جے ڈی وینس تجارتی مذاکرات کے لیے بھارت پہنچ گئے
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
  • چین پر محصولات عائد کرنے سے پیداہونے والے بحران پر وائٹ ہاؤس ایک ٹاسک فورس تشکیل دے گا
  • سینئر امریکی عہدیدار کی امریکا، ایران جوہری مذاکرات میں 'بہت مثبت پیش رفت' کی تصدیق
  • ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ
  • ٹرمپ کی تنبیہ کے باوجود اسرائیل کا ایرانی جوہری پروگرام پر حملے کا امکان