علی سیٹھی کی والدہ کو بیٹے کا عالمی شہرت یافتہ گانا ‘پسوڑی’ ایک آنکھ نہ بھایا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک)گلوکار علی سیٹھی کا عالمی شہرت یافتہ گانا ‘پسوڑی’ ان کی والدہ کو ایک آنکھ نہ بھایا۔
علی سیٹھی اور شے گل کی جانب سے گایا جانے والا پنجابی گانا 2022 کا چارٹ بسٹر گانا تھا جس سے دنیا بھر میں پسند کیا گیا۔
تاہم یہ گانا علی سیٹھی کی والدہ جگنو محسن کو ایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے گانے کو ناپسندیدہ قرار دے دیا۔
گلوکار کی والدہ نے ایک ویڈیو میں کہا کہ ’مجھے پسوڑی گانا پسند نہیں ہے جب کہ یہ گانا اب بلین ویوز حاصل کرچکا ہے، علی نے بھی مجھے کہا تھا کہ امی مجھے پتا ہے آپ کو یہ گانا پسند نہیں آیا جس پر میں نے جواب دیا کہ ہاں مجھے یہ نہیں پسند، مجھے پنجابی راگ اور غزلیں پسند ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’علی کے پیدا ہونے سے قبل میں پنجابی راگ اور کلاسیقی میوزک بہت سنتی تھی اور گھر میں بچوں کے ساتھ 7 سال کی عمر تک میں نے پنجابی میں بات کی ہے، مجھے پنجابی کے ڈھولے، ماہیے جیسے گانے پسند ہیں‘
مزید پڑھیں:دنیا کی وہ مالدار خاتون جو سونے کی دیواروں والے گھر میں رہتی ہے، جو مکیش امبانی کے انٹیلیا اور بَکنگھم پیلس سے بھی بڑا ہے
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
دنیا کا خطرناک ترین قاتل گانا، جس کو سن کر مرنے والوں کی تعداد تقریباً 100 رپورٹ ہوئی
HUNGARY:گانا فلمی صنعت کا اہم جز ہے اور گانا صرف پیار محبت کے اظہار کے لیے نہیں ہوتا بلکہ خوشی اور یادگار لمحات اور خوش گوار یادوں کو مزید پررونق بنانے میں بھی مددگار ہوتے ہیں لیکن ایک گانا تاریخ میں ایسا بھی ہے، جس کو سن کر تقریباً 100 جانیں چلی گئیں اور حکام کو اس کے خلاف اقدامات بھی کرنے پڑے۔
مشہور بھارتی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ہنگری سے تعلق رکھنے والے ایک موسیقار ریزوس سریس نے 1933 میں ایک گانا لکھا جس کو ‘گلومی سنڈے’ کا نام دیا، انہوں نے یہ گانا اپنی گرل فرینڈ کے لیے لکھا تھا جو انہیں چھوڑ گئی تھیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس گانے کی شاعری انتہائی غمزدہ تھی اور جو کوئی بھی اس کو سنتا وہ خودکشی پر آمادہ ہوجاتا اسی لیے اس گانے کو ‘ہنگرین سوسائیڈ سانگ’ کہا گیا۔
ابتدائی طور پر کئی گلوکاروں نے اس کو گانے سے انکار کیا تاہم 1935 میں گانا ریکارڈ اور ریلیز کردیا گیا، جیسے ہی گانا ریلیز ہوا بڑی تعداد میں لوگ مرنے لگے اور ایک رپورٹ کے مطابق ہنگری میں یہ گانا سننے کے بعد خودکشیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا اور کئی کیسز میں یہ دیکھا گیا کہ خودکشی کرنے والے کی لاش کے ساتھ ہی یہ گانا چل رہا تھا۔
رپورٹس کے مطابق شروع میں اس گانے کو سن کو مرنے والوں کی تعداد 17 بتائی گئی لیکن بعد میں یہ تعداد 100 کے قریب پہنچ گئی، صورت حال اس حد تک خراب ہوگئی کہ 1941 میں حکومت کو اس گانے پر پابندی عائد کرنا پڑی۔
ہنگری کے قاتل گانے پر عائد پابندی 62 سال بعد 2003 میں ختم کردی گئی تاہم اس کے بعد بھی کئی جانیں چلی گئیں اور حیران کن طور پر گانے کے خالق ریزسو سریس نے بھی اسی دن کو اپنی زندگی کے خاتمے کے لیے چنا، جو گانے میں بتایا گیا تھا، ‘سن ڈے’۔
رپورٹ کے مطابق اپنی گرل فرینڈ کے نام پر گانا لکھنے والے سریس نے پہلے اپنی عمارت کی کھڑکی سے کود کر خودکشی کی تاہم انہیں اسپتال منتقل کیا گیا لیکن بعد میں انہوں نے ایک وائر کے ذریعے پھندا لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔
اس قدر جانیں لینے کے باوجود اس گانے کو 28 مختلف زبانوں میں 100 گلوکاروں نے گایا۔