امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے پاکستانی دفتر خارجہ کے اس بیان کی بالواسطہ تردید کی ہے جس میں ممکنہ امریکی سفری پابندی کو افواہ قرار دیا گیا تھا، تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس ضمن میں اعلان کب متوقع ہے۔

میڈیا بریفنگ کے دوران سفری پابندی جاری کرنے کی ڈیڈلائن سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ امریکی ویزا کے جائزے کا عمل مکمل ہونے کی ڈیڈلائن آج نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا پاکستان سمیت 41 ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرسکتا ہے، رپورٹ

تاہم اس معاملے پر حتمی اعلان سے متعلق لب کشائی کیے بغیر ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ ویزے کے عمل میں یہ بات یقینی بنائے جائے گی کہ امریکا سفر کرنیوالے مسافر امریکی قومی سلامتی اور پبلک سیفٹی کے لیے خطرہ نہ ہوں۔

ٹیمی بروس کے مطابق سفری پابندی سے متعلق کسی اعلان کی تفصیلات تو فراہم نہیں کی جاسکتیں تاہم یہ آج نہیں ہورہا، انہوں نے زور دیا کہ امریکا اپنے شہریوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا میں داخلے پر پابندی کی تردید اور عمران خان سے متعلق سوال کا جواب دینے سے انکار

’ویزوں کے اجرا کے عمل میں قومی سلامتی اور عوامی تحفظ کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھا جائے گا، جیسا کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر میں کہا گیا ہے، یہ مسئلہ حل کرنا وقت کا تقاضا ہے، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اندرونی بحث مباحثے پر تبصرہ نہیں کرتا۔‘

واضح رہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے ممکنہ امریکی سفری پابندی کو افواہ قرار دیا تھا، دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کئی ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرنے پرغورکررہی ہے، جس سے افغانستان اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا ایگزیکٹیو آرڈر ٹیمی بروس سفری پابندیاں عوامی تحفظ قومی سلامتی محکمہ خارجہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا ایگزیکٹیو آرڈر ٹیمی بروس سفری پابندیاں عوامی تحفظ قومی سلامتی سفری پابندی ٹیمی بروس

پڑھیں:

عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بین الاقوامی مداخلت کوئی نئی بات نہیں۔ جب بھی ملک میں سیاسی کشیدگی عروج پر ہوتی ہے، عالمی طاقتیں خصوصاً امریکی حکومت اپنی خارجہ پالیسی کے تحت مداخلت کرتی نظر آتی ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد کے سیاسی حالات نے عالمی سطح پر خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ اس حوالے سے یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کیا عمران خان کی رہائی کے لیے امریکہ کسی قسم کا دبائو ڈال رہا ہے؟ اگر ہاں، تو اس دبائو کی نوعیت، وجوہات اور ممکنہ اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
امریکہ کا جنوبی ایشیا میں ایک اہم اسٹرٹیجک کردار ہے۔ پاکستان ایک نیوکلیئر ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے حوالے سے بھی اہم جغرافیائی حیثیت رکھتا ہے۔ سی پیک روٹ نے اس اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے، عمران خان کی بطور وزیراعظم خارجہ پالیسی نسبتاًخود مختار اور مغرب سے کچھ فاصلہ رکھنے کی حامل رہی، جس میں چین، روس اور اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات کو کسی حد تک فوقیت دینے کی کوشش کی گئی۔ ان پالیسیوں نے واشنگٹن میں کچھ حلقوں کو پریشان ضرور کیا، مگر عمران خان کی مقبولیت اور عوامی حمایت نے انہیں نظر انداز کرنا مشکل بنا دیا۔
امریکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری اور ان پر مقدمات کو اکثر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں متنازع قرار دیتی رہی ہیں۔ اس تناظر میں امریکی حکام نے کچھ مواقع پر پاکستان کی حکومت سے انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، جسے عمران خان کے حامی ان کی ’’رہائی کے لیے دبائو‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ اس حوالے سے تاحال یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
حال ہی میں امریکی کانگریس کے رکن جیک برگ مین کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح کے کانگریسی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، جسے مبصرین نے عمران خان کے کیس اور انسانی حقوق کی صورتحال کے تناظر میں خاصی اہمیت دی۔ اس وفد نے حکومتی و عسکری حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں سیاسی استحکام، عدالتی شفافیت اور انسانی حقوق کے احترام پر زور دیا۔ اگرچہ ان ملاقاتوں کی تفصیلات مکمل طور پر سامنے نہیں آئیں، لیکن بعض ذرائع یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ عمران خان کی طویل قید اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر بھی غیر رسمی طور پر گفتگو کی گئی۔ اس دورے کو عمران خان کی رہائی کے لیے عالمی دبا ئو کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ میں کئی قانون ساز اور ٹرمپ ٹیم کے کچھ لوگ اپنے ٹویٹس اور بیانات میں عمران خان کی حراست کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دے چکے ہیں۔
کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ پسِ پردہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ ایسے رابطے رکھتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان جیسے مقبول لیڈر کی جیل میں موجودگی پاکستان کے سیاسی منظرنامے کو غیر متوازن کر دے، جس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو۔ امریکہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے کسی ’’نرم مداخلت‘‘ کی پالیسی اپنا سکتا ہے۔
اگر واقعی امریکہ عمران خان کی رہائی کے لیے دبائو ڈال رہا ہے تو اس کے دو بڑے اثرات ہوسکتے ہیں۔
-1سیاسی ریلیف: عمران خان کو کسی عدالتی یا سیاسی ڈیل کے ذریعے ریلیف مل سکتا ہے، جس سے وہ ایک بار پھر سیاسی میدان میں فعال ہو جائیں گے۔
-2 عوامی تاثر: امریکی دبائو سے رہائی کی صورت میں عمران خان کی عوامی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ ’’ بین الاقوامی حمایت رکھنے والے قومی لیڈر‘‘کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی دبائو ایک حقیقت بھی ہو سکتا ہے اور محض سیاسی بیانیہ بھی۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ عمران خان کی شخصیت اور مقبولیت نے پاکستان کی سیاست کو عالمی سطح پر ایک نئے تناظر میں پیش کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر عمران خان کو رہائی ملتی ہے، تو یہ جانچنا ضروری ہوگا کہ اس میں بین الاقوامی سفارت کاری کا کتنا عمل دخل تھا۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو خود عمران خان اور ان کی سیاست کیلئے مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے، کپتان کی سیاست کی بنیاد ان کا یہ بیانیہ رہا ہے کہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں بین الاقوامی مداخلت نہیں ہونی چاہیئے، اس حوالے سے ایک جلسہ عام میں مبینہ سائفر لہرانا ایک بڑا واقعہ تھا، لیکن اگر اب وہ خود امریکی دبا ئوکے ذریعے جیل سے رہائی پاتے ہیں یا اقتدار میں واپس آتے ہیں تو یہ عمل خود ان کے اپنے بیانیہ کی نفی ہوگا۔
دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا دعویٰ ہے کہ جیک برگ مین کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی وفد نے عمران خان کی رہائی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی، حکومت اسے دوٹوک انداز میں پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے رہی ہے، لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب ایسے دو اندرونی معاملات میں پہلے بھی مداخلت کرچکے ہیں، میاں نواز شریف کے حوالے سے سعودی عرب نے دوبار مداخلت کی اور دونوں بار انہیں جیل سے رہائی پاکر بیرون ملک جانے کی سہولت مہیا کی گئی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کیلئے اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کے ساتھ ان کی ڈیل کروانے میں بھی امریکہ کا کردار نمایاں رہا، اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی بھی وقت کوئی بھی معاملہ طے پا سکتا ہے اور اس میں گارنٹر کا کردار کون ادا کرتا ہے یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا، تاہم اس حوالے سے 3ممالک امریکہ ، سعودی عرب اور چین کا نام لیا جا رہا ہے۔ واللہ اعلم باالصواب

متعلقہ مضامین

  • شدید گرمی جاری؛ گرج چمک کیساتھ بارش کہاں ہو سکتی ہے؟ محکمہ موسمیات نے بتادیا
  • افریقہ میں امریکہ کا غیر ضروری سفارت خانے اور قونصل خانے بند کرنے پر غور
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
  • امریکا کا افریقا میں غیرضروری سفارت خانے اور قونصل خانے بند کرنے پر غور
  • توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت
  • یونیورسٹیوں میں توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • امریکا کے یمن پر تازہ حملے، مزید شہری جاں بحق، جوابی کارروائی میں امریکی ڈرون تباہ
  • ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ
  • اسپورٹیج ایل کی قیمت میں 10 لاکھ روپے کمی ، حقیقت یا افواہ؟