Daily Ausaf:
2025-12-13@23:10:11 GMT

نیتوں کا فتور

اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT

موسم بہارکی ڈھلتی رات کا سماں، کھلا آسمان اورایسے میں اکادکاتیرتےبادلوں کے گھونگٹ سے نکلتے کھوئےکھوئےچاند کی اداس چاندنی تو پھر ایسے میں دل پر کیا گزرتی ہو گی ذرا اس قیامت کا تصور کیجئے۔ یہ کسی شاعر کا تخیلاتی خاکہ نہیں بلکہ حقیقت میں یہ ان مناظرکی تصویرکشی ہےجو آج اس دیوانے دل کو پاگل بناکرچھوڑے گی۔ جنوں کی اس کیفیت میں ایک دفعہ پھرکانوں میں محمد رفیع کےاس گانے ’’کھویا کھویا چاند کھلا آسماں آنکھوں میں ساری رات جاگےگی‘‘ کی مدھر دھن اسی طرح رس گھول رہی ہے جیسے آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے کبھی اندرون شہر اپنے گھر کی چھت پر رات کو لیٹے ہوئے آوارہ چاند کو دیکھتےریڈیو سیلون سےاس طرح کے گانے پریوں کے دیس کی سیر پرلےجاتے تھے۔ کتنی بے فکری کا وہ زمانہ تھا۔ محدود سرمایہ ہونے کے باوجود کس قدر معاشی بے فکری تھی۔ وسائل کم تھے تو مسائل بھی کم تھے۔ بقول منو بھائی
او وی خوب دیہاڑے سن
بھک لگدی سی منگ لیندے ساں
مل جاندا سی کھا لیندے ساں
نئیں ملدا سی تے رو پیندے ساں
روندے روندے سوں رہندے ساں
ایہہ وی خوب دیہاڑے نیں
بھگ لگدی اے منگ نئیں سکدے
ملدا اے تے کھا نئیں سکدے
نئیں ملدا تے رو نئیں سکدے
ناں روئیے نے سوں نئیں سکدے!
سوال پیداہوتا ہےاب ایساکیوں؟ سیدھا سا جواب ہے ! نیتوں کا فتور اور فکری اساس کی کمی یہ خاکسار متعدد بار اپنے کالموں میں اس بات کا ذکر کر چکا کہ وہ بزرگوں اور اولیاء اللہ کی جوتیاں سیدھی کرنےوالاایک حقیرسا فقیر ہے اور جہاں کہیں سے بھی اسے روشنی کی ایک باریک لکیر بھی نظر آئے وہ فورا ً اس در پر دستک دینے پہنچ جاتا ہے کہ کیا پتا کہاں سے فیض کا رزق مل جائے۔
فیصل آباد سمندری روڈ پر صوفی برکت صاحب مدفون ہیں اس سے پہلے صوفی صاحب سالار والا جسے اب دارلآحسان کہا جاتا ہے وہاں رہائش پذیر تھے۔ یہ ستر کی دہائی کے وسط کی بات ہے خاکسار ان دنوں ہیلی کالج آف کامرس میں بی کام کا سٹوڈنٹ تھا جب سے اس نے ان کی قدم بوسی شروع کی تھی۔ صاحب اکثر فرمایاکرتے تھے رزق کی فکرچھوڑو اس کی تقسیم اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ انسان کے پیدا کرتے ہی اس کا رزق اور روزی لکھ دیتا ہے۔ ذکر کرو اور فکر کرو اپنے اعمال کی جو تمہارے ساتھ جانے ہیں۔ عبادات کے ساتھ جس عمل کی سب سے زیادہ فضیلت ہے وہ آپ کا حسن معاشرت ہے۔ غور کریں جہاں حضور نبی اکرم رسول اللہ ﷺنے عبادات، معاملات ،اخلاق اور حسن معاشرت سے متعلق تعلیم دی ہے، وہیں آپ نے اسی طرح فتنوں سے بھی آگاہ فرمایا ہے۔ آپ کا فرمان ہے کہ یہ فتنے قربِ قیامت میں اتنے بڑھ جائیں گے جیسے اندھیری رات کی تاریکی ہوتی ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ دراصل یہ فتنہ کیا چیز ہے۔ فتنہ کے لغوی معنوں اور اس کی اقسام پر انشاء اللہ پھر کسی اور کالم میں تفصیل سے بات ہو گی ۔
سر دست دین کے علم کے ایک ادنی طالب کی حیثیت سے راقم کا یہ تصور ہے کہ حب مال یعنی ضرورت سے زیادہ رزق کے حصول کی خواہش کا شمار بھی ایک فتنہ کے زمرے میں آتا ہے اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ انفرادی سطح پر یہ بیماری ہر معاشرہ میں دیکھی جا سکتی ہے لیکن ہمارے اس ملک پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی اس rat race میں لگا ہوا ہے کہ جو بھی ذریعہ ہو hook or by crook ہم نے آج ہی اپنی تجوریوں کے منہ بھرنے ہیں۔ المیہ اگر انفرادی سطح تک ہی رہتاتوفتور شائد ان حدوں کو نہ چھوتا جسے قحط الرجال سے تعبیر کیاجاسکتاہےاب اس بیماری کے کینوس پر اگر ایک نظر ڈالیں اس میں حکومتی سر پرستی کے ڈانڈے بھی ملتے ہیں۔
راقم اپنے اس موقف کی صحت بارے نہ کسی ماضی بعید اور نہ کسی ماضی قریب کا حوالہ دینا چاہتا ہے بلکہ وہ زمانہ حال کے صرف ایک سکینڈل کی طرف توجہ دلا کر ضمیر فروشوں کے ان چہروں سے نقاب اٹھاناچاہتا ہے جو عوام کے سامنے اپنی پارسائی ، وطن سے محبت اور خلق خدا کی بھلائی میں دن رات ایک کرنے کے دعوے کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ آج سے پانچ چھ ماہ پہلے جب ابھی گنے کا کرشنگ سیزن شروع نہیں ہواتھا حکومت وقت نےاس بناپر کہ ملک میں چینی کے ضرورت سے زیادہ سٹاک موجود ہیں شوگر کارٹیل کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ ملکی ضرورت سے زیادہ سٹاک کو برآمد کرلے اور یوں حکومتی سر پرستی میں اس کارٹیل نے برآمدات کی مد میں اربوں روپیہ کمایا۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول کے تحت ان ذخیرہ اندوزوں کے سٹاک کی لوکل مارکیٹ میں رسد اورطلب کےتحت قیمتیں گرنے دیتے لیکن وہ کیوں ایسا کرتےکیونکہ شوگر کارٹیل پر ایک نظر ڈالیں اس میں تو وہ سب خود ہوتے ہیں جو یہ فیصلے کرتے ہیں۔ چلیں اس بلیک گیم کو ایک طرف رکھتے ہیں اور رمضان کے مہینے کی طرف آتے ہیں جب اس ماہ مبارک کے شروع ہونے سے پہلے ہی ایک کمپئین کے ذریعے مارکیٹ میں چینی کے بحران کا تاثر ابھارا گیا اور قیمتیں یکمشت تیس سے چالیس روپے فی کلو بڑھا دی گئیں جب دیہاڑیاں لگ گئیں تو حکومت خواب خرگوش سے جاگی اور پھر سپلائی کو بہتر بنانے کے لئے امپورٹ کی آڑ میں ایک طرف پھر کروڑوں ڈالر کا قومی خزانہ پر بوجھ بڑھایا اور سونے پہ سہاگہ دیہاڑیاں دوسری طرف لگیں۔ اسے وقت کے جبر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے یانیتوں کے فتور سےکہ جادوگر ٹوپی کیسے گھماتے ہیں اور ہم صرف تماشہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سے زیادہ

پڑھیں:

معاشی چیلنجز اور سیاسی پیچیدگیاں

اس کالم کو لکھتے ہوئے ایک اہم خبر سامنے آئی کہ سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید کو چودہ سال قید با مشقت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ اب وہ جنرل کا اعزاز اپنے کاندھوں پر سجانے کے مستحق نہیں رہے۔

یہ حقیقت ہے کہ قصور وارکوئی ایک نہیں ہوتا اور اس تصویرکا دوسرا رخ کیا ہے؟ وہ بھی عیاں ہونا چاہیے۔ ان چہروں کو بھی کٹہرے میں ضرورکھڑا ہونا چاہیے۔ فیض حمید کو سزا پی ٹی آئی سے وابستہ لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہوگی مگر یہاں سوال پھر یہی ہے کہ آخر نو مئی کے واقعے کا ذمے دار اور ماسٹر مائنڈ کون تھا؟

میرے آرکائیو فولڈر میں میرے تمام کالم موجود ہیں۔ ہم عمران خان کی حکومت کے دور میں بھی ایسی ہی باتیں کرتے تھے اور اس کا عتاب بھی بھگت چکے ہیں ، اس دور میں جو چند چینل ہمیں تجزیہ نگاری کے لیے مدعو کرتے تھے، انھوں نے ہمارے لیے اپنے دروازے بند کردیے۔

ایک اور اہم خبر اخبارات کی زینت بنی کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ایک رپورٹ شایع کی ہے جس میں پاکستان کی معیشت کو قدرے مستحکم قرار دیا ہے اور یہ بھی کہ پاکستان مستحکم stability سے ایک قدم آگے جا کر ’’بڑھتی ہوئی معیشت‘‘ ( growing)بن کر ابھر رہا ہے۔

بیرونی مجموعی قرضہ جات میں آیندہ سال ایک فیصد تک کمی ہونے کا امکان ہے۔ افراطِ زر بڑھے گی ضرور لیکن رہے گی سنگل ڈجٹ۔ یعنی ایسا پہلی مرتبہ ہوگا کہ آٹھ سالوں کے بعد پاکستان کی شرح نمو پانچ فیصد تک پہنچنے والی ہے جوکہ اوسطاً پوری ایشیاء میں قائم ہے۔

خان صاحب کے دورِ حکومت کا اگر ہم جائزہ لیں تو ان کی حکومت ایک ہائبرڈ حکومت تھی، ایک ٹرائیکا تھا، خان صاحب کے ساتھ جو چل رہا تھا، دو بڑے چہرے فیض حمید اور جنرل قمر جاوید باجوہ بھی تھے اور جو معیشت کا حال تھا اور جس طرح سے ملک چل رہا تھا وہ ہمارے سامنے ہے۔

امریکا میں بسنے والے پاکستانی نژاد، ماہرِ معاشیات میاں عاطف نے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ایک تجویز دی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کو معاشی سطح پر مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے اشرافیہ کو معیشت کی خرابی کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔

ان کا یہ تجزیہ ہے کہ پاکستان کو پچاس سال تک پانچ فیصد شرح نموکی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ان تجاویز پر عمل درآمد کرنا یا کرانا حقیقتاً مشکل ہے۔ اشرافیہ ہر حکومت کا حصہ بن جاتی ہے ، یہاں بڑے بڑے بزنس ٹائیکونز،کمپنیاں، اسلحے کے کاروباری، منشیات کے کاروبار سے وابستہ ، اسمگلنگ اور ان کو سہولیات فراہم کرنے والے اور ان کی نمایندگی کرنے والے افراد اور گروہ اقتداری ایوانوں تک اثر رسوخ رکھتے ہیں۔

اس اشرافیہ کا ایک حصہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہے اور دوسرا دھڑا پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ نو مئی جیسے ایک اور واقعے کے لیے بھی تیار ہیں، وہ دھڑا جو افغان جہاد کی پیداوار ہے، وہ ملک میں اس وقت خانہ جنگی چاہتا ہے۔

ہر ملک کی معیشت کے پیچھے ایک مخصوص سوچ اور بیانیہ ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے اس بیانیے کو اس ملک کی بنیادوں میں پیوست کیا۔ جنرل ضیاء نے انتہا پرست سوچ رکھنے والوں کو اسی اشرافیہ کی کلب میں شامل کیا، اس طرح سے جناح کی گیارہ اگست کی سیکیولر پالیسی کا خاتمہ کیا گیا۔

ہمارا سیکیولر ہونا، ہماری معیشت اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ سب ہمارے آئین میں موجود تھا مگر ہماری عدالتیں آئین کی صحیح تشریح کرنے سے کتراتی رہیں اور نظریہ ضرورت ان کے لیے ایک پناہ گاہ تھی۔

ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ہماری معیشت کہاں تھی، افغان جہاد شروع ہونے کے بعد جب ملک میں Non-Documented معیشت نے اپنی جڑیں بنانا شروع کیں، تمام شرفاء کو ٹیکس میںسہولیات ملیں، ہم نے انسانی وسائل میں ترقی نہیں کی۔

ہمارے سالانہ بجٹ میں غربت کے خاتمے کے لیے، انسانی حقوق اور ترقی کے لیے، جتنے پیسے مختص کیے جاتے ہیں وہ خود اس بات کاثبوت ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں۔دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں ہمارے حق میں بہتر ثابت ہوئی ہیں۔بانی پی ٹی آئی کے دور میں پھیلی ہوئی معاشی تباہی اگر صحیح ستونوں پرکھڑی نہ ہو سکی تو ہم بکھرکر رہ جائیں گے۔

ہماری بیروزگاری کی شرح 7.1% پر پہنچ چکی ہے اور بیروزگاری کی یہ شرح گزشتہ بیس سالوں میں اس وقت اوپری سطح پر ہے۔ ہماری کل آبادی کے پینتالیس فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جو انتہائی تشویشناک ہے۔

ہماری اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ، ایشیاء کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مارکیٹ ہے لیکن یہ معیشت کے صحت مند ہونے کا پیرامیٹر نہیں ہے۔ لوگ دیہاتوں سے ہجرت کر رہے ہیں، شہروں کی طرف آ رہے ہیں ان ہجرتوں کے اثرات منفی بھی ہیں اور مثبت بھی۔

منفی اس لیے کہ گاؤں اور دیہاتوں میں زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہیں۔ نہ اسکول، نہ اسپتال، نہ صاف پینے کا پانی وغیرہ۔2022 کا ڈیٹا یہ معلومات دیتا ہے کہ اس وقت ملک کی 39% آبادی پینے کے شفاف پانی سے محروم تھی اور آج 45% آبادی صاف پانی کی بنیادی ضرورت سے محروم ہے جو کہ انتہا ئی تشویشناک ہے۔

ہم نے ہمیشہ معیشت کی منصفانہ تقسیم سے اجتناب برتا، بلکہ ایک مخصوص اشرافیہ کو ساتھ لے کر چلے۔ آزادی کے بعد فاٹا کو صرف چند سالوں تک ہی رہنا چاہیے تھا مگر کسی میں بھی اتنی سیاسی جرات نہ تھی کہ فاٹا کے ختم کر کے مستقل طور پر خیبر پختونخوا میں ضم کرتے اور جب ایسا کیا تو افغان جنگ ہماری دہلیز تک پہنچ چکی تھی۔

چلیں دیر ہی سہی مگر دیر آید درست آید۔ سندھ کے دیہات پیروں اور وڈیروں کے زیرِ اثر ہیں وہاں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ سندھ کے کسی حلقے constituency میں مڈل کلاس بیانیہ یا نظریہ موجود نہیں، وہاں کی تمام نشستیں غلامی کا عکس ہیں اور یہ صورتحال وقت کے ساتھ مزید بگڑ رہی ہے۔

سندھ میں مڈل کلاس سیاست نے اب جگہ لی ہے۔ بلوچستان میں ہم نے سرداری نظام کو چلنے دیا اور وہ ریاست کے اتحادی تھے، جس کے نتائج وہاں یہ نکلے کہ ابھرتی مڈل کلاس سیاست، ریاست ہی کے خلاف ہو گئی۔

معیشت کی مضبوطی ا س میں ہے کہ پیداواری حصوں کو آگے لایا جائے اس بات کی اب اشد ضرورت ہے، وہ بیانیہ جو خواتین کو معیشت کی پیداواری اور مضبوطی میں حصہ لینے سے روکے اس بیانیے کی حوصلہ شکنی کی جائے کیونکہ ایسے تمام بیانیہ، نظریات اور روایات کی ہمارے آئین میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

یہ نظریات اور روایات آئین کے اندر موجود بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔حقوقِ نسواں اور خواتین کی فلاح و بہبود کے جو پیمانے دنیا میں مروج ہیں ہم ان میں آخری نمبر پرکھڑے ہیں۔ دنیا میں انصاف فراہم کرنے کے جو مروج پیمانے ہیں وہ ہمیں صحت مند قوم اور ریاست نہیں سمجھتے۔

پاکستان کو بہ حیثیت ریاست اب ایک بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ ریاست کو محض نظریات سے نہیں چلایا جا سکتا۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو یہ رپورٹ دی ہے کہ پچھلے سال پاکستان میں5300 ارب روپے کی خوردبرد ہوئی ہے جو کہ لگ بھگ بیس ارب ڈالرکے برابر ہے۔

ہماری کل وصولیات چالیس فیصد کرپشن میں چلا جاتا ہے جو ایک تشویشناک بات ہے، مگر Transparency International نے ہی رپورٹ دی ہے کہ پچھلے سال کی بہ نسبت پاکستان میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔

 فیض حمید کا کورٹ مارشل اور سزا ، اپنے اختیارات سے تجاوز اورغلط استعمال کی بنیاد پر دی گئی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار اداروں نے جرات کا مظاہرہ کیا اور خود ادارے نے احتساب کیا۔

یہاں سے اس روایت کا آغاز ہونا چاہیے اور یہ روایت تمام اداروں تک جانی چاہیے۔کیسے بلڈرز مافیا اور ٹھیکیداروں سے گٹھ جوڑ بنا کر اس ملک کی معیشت کو تباہ کیا گیا ہے۔

کرپشن اور اقرباء پروری کی داستان بہت طویل ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان ترقی کرسکتا ہے، مگر اس کے لیے ایک مستحکم معیشت کی ضرورت ہے اور ایک مضبوط و مستحکم معیشت کے پیچھے ریاست، معاشرہ، بھرپور سیاست ، انصاف کی فراہمی اور جمہوری رواداری کا بیانیہ جس کو مزید بہترکرنے کی اشد ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین