نوائے حق و صداقت حافظ حسین احمد رحمہ اللہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
جس طرح زمانے کی رفتار نہیں رکتی اسی طرح ہرزمانے میں نابغہ روزگار لوگوں کا پیدا ہونا بھی کبھی نہیں تھما جو ملک کی سیاسی اور سماجی فضا کو آلودگیوں سے محفوظ و مامون رکھنے میں اپنا کردار اداکرتے ہیں ۔جن کی علمی بصیرت ،پر اعتماد شخصیت اور جرت مندانہ قیادت سے معاشرہ اور ملک مستفید ہوتا ہے ۔ایسے ہی افراد اپنے دور ہی کے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لئےایسے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو معاشرے کے ہر طبقے کے لئے روشن مینار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
ایسی ہی ایک شخصیت مولانا حافظ حسین احمد کی بھی تھی جو پاکستان کی دینی اورسیاسی تاریخ کے ایک اہم ستون تھے ۔ جنہوں نے محراب منبر کے ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے جہاں اپنی دینی خدمات سے اسلام کی سربلندی میں اہم کردار ادا کیا وہیں اپنے ملک وملت کی سیاسی تاریخ کے خدوخال کی درستی کے لئے بھی مقدور بھر کوشش کی۔ انہوں نے جمہوری اقدارو روایات کے تحفظ اور وحدت ملی کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ ان کی رحلت ایک دینی سیاسی جماعت کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔
مرحوم و مغفور مولانا حافظ حسین احمد کا تعلق ایک دینی علمی خانوادے سے تھا ،کم عمری ہی میں مصحف رب کریم حفظ کرلینے کے بعد دینی علوم کے حصول کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا۔فقہ و حدیث اور اسلامی تاریخ میں مہارت حاصل کرنے کے بعد عصری سیاسی صورت حال کا عمیق مطالعہ کیا اس کے ساتھ عالمی سیاست اور معیشت آپ کی دلچسپی کامحوررہی۔ تاہم ان کابنیادی ہدف فروغ دین اسلام ہی تھا ۔ان کی تمام تر زندگی صبرواستقامت سے تعبیر تھی ۔
سیاسی میدان میں قدم رکھا تو ایک نڈراور بے باک سیاستدان کے طور پر شہرت پائی۔پارلیمنٹ میں ان کے تاریخ ساز خطبات آنے والے پارلیمانی ممبران کے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہیں گے۔انہوں نے اپنی تمام زندگی ریاست کے ساتھ عوام کے حقوق کے حصول کی خاطر پنجہ آزمائی میں گزاری ۔وہ ایک حق پرست و حق شناس سیاستدان تھے جنہیں اصولوں پر سودے بازی پر کوئی آمادہ نہ کرسکا کہ وہ ذاتی مراعات کے رسیا نہ تھے ۔اپنے موقف پر ڈٹ جانا ان کا سیاسی وتیرہ تھا اس کے لئے وہ اپنے مفاد کی پروا نہیں کرتے تھے ان کے سامنے ہمیشہ ملی اور قومی مفادات کی اہمیت زیادہ رہی۔جمیعت علمائے اسلام کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ایک حلقے نے ان کے اورمرکزی قیادت کے درمیان فاصلے بڑھانے کی سر توڑکوششیں کیں مگر انہیں اپنے بنیادی موقف سے متزلزل کرنے میں بے نیل ومرام رہے۔اسی طرح ریاستی دبائو کے سامنے بھی وہ اپنے مطمع نظر سے ایک قدم ٹس سے مس نہ ہوتے یہی وجہ تھی کہ ہردور میں ایک بار نہیں متعدد بار انہیں پابند سلاسل کیا گیا مگر وہ ایک مستحکم اور سنجیدہ مزاج سیاسی مدبر کی حیثیت میں اپنے نظریئے سے دست بردار نہ کئے جاسکے۔
جادہ حق بہت دشوار گزار اور کانٹوں بھرا ہوتا ہے مگر حافظ حسین احمد وہ شخص تھے جنہوں نے اپنی سیاسی اور دینی حیات آبلہ پائی کی نذر کر دی۔قومی معاملات ہوں یا بین الاقوامی امور ہر حوالے سے انہوں نے جرات مندانہ موقف اپنایا اور کامل بصیرت کے ساتھ سیاسی بیانیہ اپنایا۔سینٹ کے ممبر کی حیثیت سے پارلیمان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات کی۔اسی طرح آئینی ترامیم کے تحفظ کے لئے ہمیشہ ثابت قدم رہے ۔وہ ہر آمر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ایستادہ ہوئے اور جمہوری اقدار پر آنچ آنے کے خلاف دینی سیاسی حلقوں کی طرف سے سب سے توانا آواز انہی کی ہوتی تھی۔ان کا شمار متحدہ مجلس عمل کے سرکردہ رہنمائوں میں ہوتا تھا جب خیبر پختون خوا کی حکومت بنانے کے حوالے سے جماعت کے موقف میں لچک آئی تو مولانا کے تیور مخفی نہ رہے ۔وہ ایم ایم اے کے بنیادی ڈھانچے کے حامی ہونے کے باوجود اس کی حکومت پر تنقید سے گریزنہیں کرتے تھے۔ وہ مجلس کے بعض رہنمائوں پر آمر پرویز مشرف کے ساتھ نرمی کا رویہ رکھنے پر سیخ پا ہوئے اور اپنی جماعت پر مشرف کے ساتھ مفاہمت کے رویئے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔یہاں تک کہ قائد جمیعت مولانا فضل الرحمان کی بعض پالیسیز کو بھی ببانگ دہل تنقید کا نشانہ بنایا۔انہیں یہ قلق تھا کہ متحدہ مجلس عاملہ کی حکومت عوامی مسائل کے حل کی بجائے سیاسی جوڑ توڑ پر زیادہ وقت ضائع کر رہی ہے ۔
2003 ء میں خیبر پختون خوا اسمبلی میں شریعت بل منظور ہوا تو اس پر بھی مولانا حسین احمد کا موقف یہ رہا کہ ’’گو یہ ایم ایم اے حکومت کی کامیابی سہی مگر اس پر عمل درآمد کمزور رہا‘‘۔ان کاخیال تھا کہ ’’مجلس عمل کو اپنے منشور کے مطابق شرعی نظام کے نفاذ میں زیادہ سنجیدگی دکھانی چاہیے تھی ‘‘ وہ مجلس عمل کے فوجی حکومت کے ساتھ سودے بازی کے کئے جانے پر بھی آزردہ خاطر ہوئے۔
19 مارچ 2025ء کو مولانا حافظ حسین احمد کا سانحہ ارتحال پورے ملک پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام کے دینی سیاسی حلقوں کے لئے ایک انتہائی افسوسناک امر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اللہ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے اور پوری جمیعت کو حق کی ایسی آواز بنا دے جیسی ان کی روحانی آرزو اور دلی خواہش تھی ۔آمین
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حافظ حسین احمد کی حیثیت کے ساتھ کے لئے
پڑھیں:
شہید علامہ عارف حسین الحسینی آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں، علامہ غلام حُر شبیری
اسلام آباد میں منعقدہ تنظیمی کنونشن میں ''روش شہید علامہ عارف حسین الحسینی سیمینار'' سے خطاب کرتے ہوئے رفیق شہید حسینی کا کہنا تھا کہ آج وحدت اسلامی کے لیے مجلس وحدت مسلمین اپنا کردار ادا کررہی ہے، آج وحدت کا کردار شہید حسینی اور امام خمینی کا کردار ہے، وحدت اسلامی کو فروغ دینے کے لیے مجلس وحدت کا کردار لائق تحسین ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین یورپ کے مرکزی رہنما علامہ غلام حُر شبیری نے کہا ہے کہ قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری آج شہید قائد کے راستے پر گامزن ہیں، جنہوں نے اپنی کوششوں اور کاوشوں سے شہید کے افکار کو زندہ رکھا ہوا ہے، ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے اسلام آباد میں منعقدہ تنظیمی کنونشن میں ''روش شہید علامہ عارف حسین الحسینی سیمینار'' سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ غلام حُر شبیری نے مزید کہا کہ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی وحدت کے عظیم داعی تھے، وہ وحدت ملی کی وجہ سے شہید ہوئے، آج وحدت اسلامی کے لیے مجلس وحدت مسلمین اپنا کردار ادا کررہی ہے، آج وحدت کا کردار شہید حسینی اور امام خمینی کا کردار ہے، وحدت اسلامی کو فروغ دینے کے لیے مجلس وحدت کا کردار لائق تحسین ہے، ہمارے ملک میں تکفیریت سر اُٹھا رہی تھی لیکن مجلس وحدت نے اپنی کوششوں سے تکفیریت کا قلعہ قمع کردیا، شہید قائد نے سیاسی منشور کو پیش کیا ملک میں اور قوم کو سیاسی حوالے سے باشعور بنایا۔
اُنہوں نے کہا کہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی ہمیں سیاسی رموز سکھائے، یہی وجہ ہے کہ اُن کے دور میں ہم نے پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا، اُس راستے کو جس نے دوبارہ زندہ کیا وہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری ہیں۔ الحمد اللہ آج قیادت بیدار ہے اور میدان میں موجود ہے، آج ہر سیاسی محفل اور پارلیمنٹ کی زینت ہم ہیں، سیاسی و سماجی اعتبار سے ہم باوقار ہیں، آج کوئی فیصلہ ہمارے بغیر ممکن نہیں، ہم فکر خمینی کو زندہ رکھیں گے۔