لمبی عمر کا راز اچھی خوراک، صحت اور ورزش ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’ایک اچھا دماغ ایک اچھے جسم میں پایا جاتا ہے‘‘ ،اس سے متوازن غذا کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ خوراک ویسے بھی آکسیجن کے بعد جاندار زندگی کی دوسری سب سے بڑی ضرورت ہےجبکہ خوراک کا بنیادی جزو پانی ہے۔ اگر ہمیں پینے کا قدرتی اور صاف پانی میسر ہے تو ہم یقینا زیادہ دیر تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ہمارے جسم کا ستر فیصد حصہ پانی پر مبنی ہوتا ہے۔ گندے اور غیر شفاف پانی سے ہیپیٹائیٹس بی جیسی موذی بیماریاں لگ جاتی ہیں یا پھر صاف پانی بھی میسر ہو مگر خصوصی طور پر گرمیوں میں دن کو روزانہ 6 سے 8 گلاس پانی نہ پیا جائے تو جسم میں پانی کی کمی واقع ہو جاتی ہے یعنی ہمیں ’’ڈی ہائیڈریشن‘‘یا جلد کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ 2024 ء کے اعدادوشمار کے مطابق مناکو میں عورتوں اور مردوں میں دنیا کے سب سے لمبی عمروں والے لوگ رہتے ہیں جن کی عمروں کا اندازہ 84 سے 89 سال لگایا گیا ہے۔ اس کے بعد اوسطا ًلمبی عمر کے لوگ ایسٹ ایشین کنٹریز کے ممالک ہانگ کانگ، جاپان اور سائوتھ کوریا میں پائے جاتے ہیں۔موناکو باضابطہ طور پر ایک خود مختار چھوٹی سی شہری ریاست ہے جو فرانسیسی رویرا پر واقع ہے جو دنیا کا دوسرا سب چھوٹا مگر امیر ملک ہے۔ اس ملک کے شہریوں کی لمبی عمر کا راز ان کے استعمال میں آنے والا اعلیٰ معدنیات رکھنے والا صاف ستھرا قدرتی پانی ہے۔
دنیا پاکستان کی ہنزہ وادی کو محض سیر و سیاحت اور تفریحی مقام کے طور پر جانتی ہیں مگر یہاں کے باشندوں کی اوسطا عمریں حیران کن حد تک 90 سے 100 سال تک ہیں۔ ہنزہ ویلی کے لوگ اس عمر تک پہنچنے تک ایک خوبصورت اور صحت مند زندگی گزارتے ہیں، اور سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ اس کا بڑا سبب یہاں کا شفاف پانی ہے۔ہنزہ ویلی، پاکستان کے شمالی علاقے میں واقع ایک قدرتی جنت ہےجو نہ صرف اپنی خوبصورتی بلکہ دنیا کے بہترین اور صحت بخش پانی کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔
یہاں کا پانی قراقرم کے گلیشیئرز، خاص طور پر ’’الٹار‘‘ اور ’’پاسو‘‘ گلیشیئرز سے حاصل ہوتا ہے جو مکمل طور پر قدرتی، آلودگی سے پاک اور معدنیات سے بھرپور ہے۔ اس پانی کا پی ایچ لیول 7.
1970 ء کی دہائی میں ڈاکٹر ہنری کوانڈٹ نے ہنزہ پانی پر تحقیق کی اور اسے ’’قدرتی ہائیڈروجنیٹڈ پانی‘‘قرار دیا، جو دنیا میں سب سے زیادہ مفید ہے۔ جاپان کے ماہر ڈاکٹر شیگیوا اوشیرو نے بھی ہنزہ ویلی کے پانی پر تحقیق کی اور اسے صحت اور لمبی عمر کے لئے حد درجہ منفرد قرار دیا کیونکہ اس پہاڑی علاقے کا پانی عمر کے بڑھنے اور بڑھاپے کے خلاف موثر طریقے سے کام کرتا ہے۔ ہنزہ ویلی میں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں اور یہاں کے لوگوں کی صحت و تندرستی اور حسن کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہاں کا صحت افزا پانی ہے۔ سیاح واپس جا کر ہنزہ ویلی اور یہاں کے لوگوں کے بارے کہانیاں بھی لکھتے ہیں۔ حکومت اگر ہنزہ منرلز واٹر کے نام سے بڑے بڑے پلانٹ لگائے اور دنیا بھر میں اچھی مارکیٹنگ کرے تو یہ بہت اچھا کاروبار ثابت ہو سکتا ہے جسے زرمبادلہ کمانے کے لیے دنیا بھر میں برآمد کیا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہنزہ ویلی ہوتا ہے پانی ہے کا پانی کے لئے
پڑھیں:
تبدیل ہوتی دنیا
صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیز کے تحت پوری دنیا ایک تبدیلی کی لپیٹ میں ہے۔ صدر ٹرمپ کے اقدامات جو وہ آزاد تجارت کو کچلنے کے لیے اٹھا رہے ہیں، ایسی پالیسیز ماضی میں امریکا کے کسی صدر نے نہیں لاگو کیں اور دوسری طرف ہیں ماحولیاتی چیلنجز جن کا سامنا ہم نے کرنا ہے۔
انٹارکٹیکا اور الاسکا جو دنیا کے نارتھ اور ساؤتھ پول ہیں وہاں برف کے گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یقینا سمندر کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہزاروں ارب ڈالر کی اراضی اور اثاثے سمندر نگل رہا ہے۔ بہت سے علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی شروع ہو چکی ہے۔ تیسری مائیکرو چپ نے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ مصنوعی ذہانت ایک حقیقت سے زیادہ ضرورت بنتی جا رہی ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیز دنیا کی آزاد تجارت کو کچلنے کے مترادف ہیں، ان پالیسیز نے نہ صرف دنیا بھرکے ممالک کی اسٹاک ایکسچینج کو شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ یہ پالیسیز خود امریکا کی معیشت کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔
امریکا کی بانڈز مارکیٹ دنیا کی مضبوط ترین مارکیٹ تھی۔ دنیا میں جہاں بھی سر پلس ہوا وہ امریکی حکومت کے (بانڈز) خرید کرتے تھے مگر اب ٹرمپ کی حکومت میں دنیا امریکی بانڈز خریدنے سے شش و پنج میں ہے۔ ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے میں نے اپنے کالم میں یہی لکھا تھا کہ سٹہ لگانے والے اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ ٹرمپ کی حکومت میں ڈرٹی کیپیٹل ازم پروان چڑھے گا۔
اسٹاک ایکسچینج کو ایک دم سے گرایا بھی جائے گا اور اچانک بڑھایا بھی جائے گا اور اس اتار چڑھاؤ سے کچھ مخصوص لوگ مستفید ہوںگے۔ جب صدر ٹرمپ نے چین اور دیگر ممالک جو امریکا کو اپنی اشیاء ایکسپورٹ کرتے تھے، ان پر بھاری ٹیرف عائد کیے تو اسٹاک مارکیٹ نے لگ بھگ پانچ ہزار ارب ڈالرگنوا دیے۔
ان کے اثاثوں کی قیمت گر گئی۔ پھر چند ہی دنوں میں صدر ٹرمپ نے ٹیرف عائد کرنے کا یہ فیصلہ واپس لے لیا اور نیو یارک اسٹاک مارکیٹ واپس چار ہزار ڈالر چڑھ گئی۔ ٹرمپ کے مخالف ڈیموکریٹس کا یہ کہنا ہے کہ ٹرمپ کے قریبی لوگوں کے پاس پہلے سے ہی یہ اطلاعات تھیں جن سے انھوں نے اربوں ڈالرکمائے ہوںگے۔
مشرقِ وسطیٰ کے محاذ پر ٹرمپ کی پالیسیاں، تضادات کو تیزکررہی ہیں۔ یوکرین کی معدنیات پر ٹرمپ حکومت اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہے۔ یورپ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکا کا سب سے بڑا اتحادی تھا، وہ امریکا سے بدظن ہوچکا ہے۔
امریکا کی اب کوشش یہ ہے کہ روس سے تعلقات بہتر کیے جائیں، روس اور چین کے تعلقات میں دراڑیں ڈالی جائیں۔ دوسری طرف یورپین یونین، امریکا کی ان غیر مستقل مزاج پالیسیزکو دیکھتے ہوئے دنیا کے اندر ایک نئے عالمی لیڈر کی طرف دیکھ رہی ہے اور یہ نیا لیڈر چین بھی ہو سکتا ہے۔
اس تمام منظرنامے میں ایک نئی قوت اور تیسری بڑی عالمی قیادت بہت تیزی سے ابھر رہی ہے وہ ہے بھارت۔ امریکا کی بیشترکمپنیوں نے ٹرمپ کے اتحادی ایلون مسک کی گاڑیوں کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ اسی طرح یورپ نے بھی جس سے ایلون مسک کو لگ بھگ ایک ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
مگر اس دنیا کی تیزی میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم اس قابل ہیں کہ آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں؟ کیا ہماری کوئی تیاری ہے؟کیا ہم نے کوئی متبادل راستہ ڈھونڈا ہے، جب صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی ہم پر بھی لاگو ہوںگی۔
ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر امریکا ہے۔ یقینا ہم پر بھی ان پالیسیز کے منفی اثرات مرتب ہوںگے۔ امریکا یہ چاہے گا کہ پاکستان پر اسی طرح کے دباؤ ڈال کرکچھ شرائط عائد کی جائیں اور ان شرائط کی مد میں اپنے من پسند کام لیے جائیں۔
پاکستان کی سیاست میں جب بھی امریکا نے پالیسیز بنائیں، ان سے پاکستان میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچااور خاص کر ان ادوار میں جب امریکا میں ری پبلیکن کا دورِ ہو۔یہ ہماری غلط فہمی ہوگی، اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں افغانستان، امریکا سے ٹکراؤ بڑھائے گا،کیونکہ امریکا کو بٹگرام ایئر پورٹ واپس چاہیے۔
امریکا نے اس حوالے اپنی درخواست ، طالبان کے آگے پیش بھی کردی ہے۔ امریکا، ایران کے ساتھ فوجی محاذ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، اس منظرنامے میں دونوں ہی ممالک ہمارے پڑوسی ہیں۔ دنیا کی تیسری طاقت یعنی ہندوستان بھی ہمارا پڑوسی ہے۔
اگر ہم امریکا کا جائزہ لیں تو داخلی اعتبار سے موجودہ انتظامیہ میں، پاکستان کوئی دیرینہ دوست نہیں رکھتا۔ ہماری موجودہ سول قیادت ایک سال گزار چکی ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کو اس حکومت کو ہٹانے کے لیے زیادہ دقت کا سامنا نہیں ہوگا۔
بس ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ جو معاشی بحران عمران خان کی حکومت میں آیا تھا، اب ملک اس بحر ان سے نکل چکا ہے۔ اس کا کریڈٹ یقینا شہباز شریف اور اس کی ٹیم کو جاتا ہے۔ اس دورِ حکومت میں پارلیمنٹ اور سول حکومت اتنی آزاد نہیں جتنی آزادی بانی پی ٹی آئی کے دور میں میسر تھی۔
بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے صوبوں میں جو ہلچل مچی ہوئی ہے، اس تیزی میں اس حکومت کے خلاف آوازیں ابھر رہی ہیں۔ موجودہ بحران بانی پی ٹی آئی کے لیے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کرنے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ امریکا کی مداخلت ہمیشہ پاکستان کی داخلی سیاست میں رہی۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ہمارے جیسے ممالک اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنانے میں آزاد نہیں رہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کے اسٹیج پر پہلی مرتبہ اتنی نمایاں اور واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اعداد و شمار کے تحت پاکستان دنیا کے سات ملکوں میں شمار ہوتا ہے جو اس بحران کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی ساحلی پٹی پر بڑی واضح تبدیلیاں آئی ہیں جس سے نقل و حمل کے امکانات زیادہ ہوگئے ہیں۔
ہماری داخلی سیاست انتہائی کمزور ہے۔ کسی مضبوط سول قیادت کا وجود نہیں جو ابھرتے ہوئے بین الاقوامی ٹکراؤ میں بھرپور انداز میں ہماری ترجمانی کرسکے بلکہ ایسی مضبوط سول قیادت بھی میسر نہیں جو چار یا تین صوبوں میں یکساں طور پر مقبول ہو۔ فیڈریشن کے حوالے سے پاکستان اس وقت انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ یہاں بلوچستان کا بیانیہ الگ ہے۔ خیبر پختونخوا کا بیانیہ الگ ہے اور اب سندھ میں بھی ایک نیا بیانیہ جنم لے چکا ہے۔
یہ تبدیلیاں بڑی تیزی سے آرہی ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کانگریس نے انگریز حکومت کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو ‘‘ کی تحریک چلائی اور ان تحاریک میں سبھاش چندر بوس جیسے لیڈر تھے جنھوں نے انگریز سامراج کو کمزور دیکھتے ہوئے جارحانہ انداز اپنایا۔صرف امید کی کرن ہے ٹیکنالوجی کے اندر انقلاب ! اس انقلاب میں چین امریکا کے ساتھ کھڑا ہے۔
لاکھ بحران سہی لیکن اس ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک کردیا ہے۔ پچیس سالوں سے دنیا میں آزاد تجارت کا سکہ چل رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی نے مزید سے مزید ترقی پائی۔صدر ٹرمپ اس وقت جو اقدامات کر رہے ہیں وہ دنیا کی آزاد تجارت کو کچل دیں گے۔
دائیں بازو کی پاپولر ازم بھی اس وقت اپنی انتہا پر ہے۔ یقینا اس کا زوال بھی ہوگا مگر جانے سے پہلے جو منفی اثرات چھوڑے گا، وہ دنیا کے لیے بہت خطرناک ہوںگے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں اگر اسی رفتار سے رواں رہیں تو دنیا ایک بہت بڑے بحران میں داخل ہو رہی ہے اور اگر ماحولیاتی تبدیلیاں ایسے بحران کو جنم نہیں دیتیں تو دائیں بازو کے پاپولر ازم کو شکست ہوگی جو دنیا کو اس وقت تیسری جنگِ عظیم کے دہانے لے آیا ہے۔