کترینہ کیف نے وکی کوشل کے بارے میں ایسا کیا کہا کہ سب حیران رہ گئے؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
بالی ووڈ کی معروف اداکارہ کترینہ کیف نے حال ہی میں اپنے شوہر، اداکار وکی کوشل کے بارے میں ایک دلچسپ انکشاف کیا ہے۔ کترینہ نے بتایا کہ وکی ان کی بات کہنے سے پہلے ہی ان کا مطلب سمجھ جاتے ہیں اور یہ بھی جان لیتے ہیں کہ کب انہیں گھر سے باہر جانا ہوگا۔
کترینہ اور وکی نے دسمبر 2021ء میں راجستھان میں شادی کی تھی اور تب سے یہ جوڑی مداحوں میں بے حد مقبول ہے۔ دونوں اکثر سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔
حال ہی میں فوربس انڈیا لیڈرشپ ایوارڈز میں شرکت کے دوران کترینہ نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ جب بھی ان کے گھر پر ان کے بیوٹی برانڈ ‘کے بیوٹی’ کی میٹنگ ہوتی ہے، وکی فوراً پوچھتے ہیں، “آج کیا منصوبہ ہے؟” اور جب وہ جواب دیتی ہیں کہ “کے بیوٹی کی میٹنگ ہے”، تو وکی سمجھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں، “اچھا، مطلب آج تم چاہتی ہو کہ میں پورا دن گھر سے باہر رہوں۔”
کترینہ نے مزید بتایا کہ وکی ہمیشہ انہیں ذاتی اسپیس اور وقت فراہم کرتے ہیں، خاص طور پر جب وہ اپنے بیوٹی برانڈ سے متعلق اہم فیصلے کر رہی ہوتی ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کے بیوٹی برانڈ نے انہیں ذاتی اور پیشہ ورانہ طور پر بہت کچھ سکھایا ہے۔
کترینہ نے کہا، “میں نے ایک بڑی بات سیکھی ہے جو میرے شوہر ہمیشہ کہتے تھے اور وہ یہ ہے کہ مجھے بولنے دو۔ ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا موقع دینا ضروری ہوتا ہے اور اب وکی بھی سمجھ چکے ہیں کہ مجھے بھی اپنی بات مکمل کرنی چاہیے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
امریکی جرائم کے بارے میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کو یمن کا خط
یمنی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک کو ایک خط بھیج کر امریکی جرائم پر بین الاقوامی کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ اس ملک نے یمن پر ایک ہزار کے قریب وحشیانہ حملے کیے ہیں اور اس کا ہدف صیہونیوں اور ان کے جرائم کی حمایت کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایسے وقت جب امریکہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہریوں کے خلاف صیہونی رژیم کے جرائم کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور اس مقصد کے لیے یمن میں عام شہریوں اور شہری مراکز پر وحشیانہ جارحیت انجام دینے میں مصروف ہے اور حالیہ ہفتوں میں اس ملک کے سیکڑوں شہریوں کا قتل عام کر چکا ہے، یمنی وزیر خارجہ جمال عامر نے گذشتہ رات بین الاقوامی تنظیموں اور مختلف ممالک کے سربراہان مملکت کو ایک مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں یمن کے خلاف وحشیانہ امریکی جارحیت کی مذمت کی گئی ہے اور ان سے اس جارحیت کو ختم کرنے کے لیے واشنگٹن پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ خط انسانی حقوق کونسل کے صدر، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور اس کونسل کے اراکین، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر، سلامتی کونسل کے صدر اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک اور بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کو بھیجا گیا ہے۔ ان خطوط میں یمنی وزیر خارجہ نے یمن کے عوام اور خودمختاری کے خلاف تمام امریکی جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد بین الاقوامی کمیٹی کے قیام پر زور دیا اور تاکید کی: "امریکہ نے اب تک یمن کے خلاف تقریباً ایک ہزار فضائی حملے کیے ہیں جن میں خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں بے گناہ افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔"
یمن کے وزیر خارجہ جمال عامر نے اپنے خط میں مزید لکھا: "امریکہ نے یمن میں درجنوں شہری بنیادی ڈھانچوں بشمول بندرگاہیں، ہوائی اڈے، فارمز، صحت کی سہولیات، پانی کے ذخائر اور تاریخی مقامات کو بھی فضائی جارحیت نشانہ بنایا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال راس عیسی کی بندرگاہ کو نشانہ بنانا تھا جس کے نتیجے میں 80 شہری شہید اور 150 زخمی ہوئے۔" اس یمنی عہدیدار نے مزید لکھا: "اس کے علاوہ، امریکہ جان بوجھ کر امدادی کارکنوں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے جن میں دارالحکومت صنعا کے شعوب محلے میں واقع فروہ فروٹ مارکیٹ بھی شامل ہے جو اتوار کی رات مجرمانہ امریکی جارحیت کا نشانہ بنا اور اس کے نتیجے میں 12 شہری شہید اور 30 دیگر زخمی ہو گئے۔" انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا: "یمن کے خلاف امریکی وحشیانہ جارحیت پر عالمی برادری کی خاموشی امریکیوں کو خونریزی جاری رکھنے اور یمنی قوم کے وسائل اور سہولیات کو تباہ کرنے میں مزید گستاخ بنا رہی ہے۔ یمن کے خلاف امریکی جارحیت کا مقصد بحیرہ احمر میں کشتی رانی کی حفاظت نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد غاصب صیہونی رژیم اور معصوم شہریوں کے خلاف اس کے مجرمانہ اقدامات کی حمایت کرنا ہے۔" یمنی وزیر خارجہ جمال عامر نے اپنے خط کے آخری حصے میں لکھا: "یمن کے خلاف امریکہ کی وحشیانہ جارحیت صیہونی رژیم کے خلاف یمن کے محاصرے کو توڑنے اور فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کے مجرمانہ اہداف کے حصول اور ان کے منصفانہ مقصد کو تباہ کرنے میں اس رژیم کی حمایت کی کوششوں کا حصہ ہے اور یمنی عوام کو غزہ میں فلسطین قوم کی حمایت پر مبنی دینی اور اخلاقی موقف سے ہٹانے کی مذبوحانہ کوشش ہے۔"