گلگت بلتستان کے انتخابات میں تحریک انصاف ہی حکومت بنائے گی، پروفیسر اجمل
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
تحریک انصاف گلگت بلتستان کے سینئر رہنما پروفیسر اجمل حسین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات قریب آتے ہی پی ٹی آئی حکومت کو گرانے والے سہولت کار اپنی ہی لانچ کردہ گلبر حکومت پر برسے جا رہے ہیں۔ مخالفین، عوام کی حقیقی ترجمانی کرنے کے بجائے بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک انصاف گلگت بلتستان کے سینئر رہنما پروفیسر اجمل حسین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات قریب آتے ہی پی ٹی آئی حکومت کو گرانے والے سہولت کار اپنی ہی لانچ کردہ گلبر حکومت پر برسے جا رہے ہیں۔ مخالفین، عوام کی حقیقی ترجمانی کرنے کے بجائے بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ آنے والے انتخابات میں تحریک انصاف ایک بار پھر گلگت بلتستان میں حکومت بنائے گی۔ انہوں نے کہا کہ فارم 47 کے ذریعے بننے والی حکومت کے حامیوں کو گلگت بلتستان کے باشعور عوام نے پہلے ہی مسترد کر دیا ہے۔ حفیظ الرحمٰن اور امجد ایڈووکیٹ جتنا مرضی عمران خان اور خالد خورشید کے خلاف جھوٹ بولیں، عوام سچ جان چکے ہیں اور وہ مزید دھوکہ کھانے کے لیے تیار نہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں پی ڈی ایم نے ملکی سیاست کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات میں ہونے والی تاریخی دھاندلی کے شواہد عوام کے سامنے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عوامی مینڈیٹ کو راتوں رات چرایا گیا اور آئین و قانون کی صریح خلاف ورزی کی گئی، جو کسی سے پوشیدہ نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اداروں میں مداخلت اور کرپٹ مافیا کی سرپرستی نے ان کے چہروں سے نقاب ہٹا دیا ہے۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ خود کو ایک جمہوری جماعت قرار دیں؟ حقیقت یہ ہے کہ آج بڑے بڑے دعوے کرنے والے اپنے دورِ حکومت میں اقربا پروری اور کرپشن کے سوا گلگت بلتستان کو کچھ نہیں دے سکے۔ ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دی گئی، جس کے نتیجے میں عوام آج بھی بنیادی ضروریات جیسے بجلی اور پانی سے محروم ہیں۔ مگر جب ان کی تقریریں سنو تو ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے گلگت بلتستان کو جنت بنا دیا ہو۔ یہ تمام عناصر عمران خان کی بے پناہ مقبولیت سے خوفزدہ ہیں، مگر انشاء اللہ گلگت بلتستان کے انتخابات سے پہلے خان صاحب بھی بازیاب ہوں گے اور تحریک انصاف ایک بار پھر عوامی طاقت سے حکومت بنائے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گلگت بلتستان کے انتخابات تحریک انصاف رہے ہیں
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔