لاہور:

غزہ میں امریکی تعاون سے جاری اسرائیلی دہشت گردی اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف ملک بھر میں یوم احتجاج منایا گیا۔

ملک کے مختلف شہروں میں نماز جمعہ کے بعد جماعت اسلامی کی جانب سے احتجاجی مظاہرے منعقد ہوئے جس میں شہریوں کی کثیر تعداد نے شریک ہوکر اپنا پر امن احتجاج ریکارڈ کرایا۔

لاہور میں جماعت اسلامی کے تحت مسجد شہدا سے امریکی سفارت خانے تک مارچ کیا گیا جس میں ہزاروں افراد نے شریک ہوکر امریکا اور اسرائیلی دہشت گردی کی پر زور مذمت کی۔ اس موقع پر سفارت خانے کے باہر کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کیلئے پولیس کی بھاری نفری بھی موجود تھی۔

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے لاہور میں امریکی سفارت خانہ کے باہر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکا برابر کا شریک ہے، آرمی چیف کو فلسطینیوں کی حمایت میں بیان دینا چاہئے اور اسلام آباد میں دنیا کے فوجی سربراہوں کا اجلاس بلاکر پیغام دینا چاہئے اگر تم آگے بڑھے تو ہم بھی آگے بڑھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کچھ صحافی پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل گئے ہیں، حکومت آج ہی موقف قوم کے سامنے پیش کرے، اگر حکمرانوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ایک قدم بھی بڑھایا تو انکے قدم توڑ دیں گے اور یہ عبرت کا نشان بن جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم حکمران خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں، کیا مسلم دنیا کے پاس ٹینک یا میزائل ختم ہوگئے ہیں؟، اگر ہمارے بچے شہید ہورہے ہیں تواگر اس کی ذمہ داری اسرائیل یا امریکا پر ہے تو مسلم دنیا کی فوج اور سپہ سالاروں پر بھی ہے۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ اگر حکمرانوں نے فلسطینیوں کےلیے کردار ادا نہ کیا تو پھر اگلا مارچ سفارت خانہ کے اندر ہوگا، وزیر اعظم سے پوچھتا ہوں اسرائیل دہشت گردی کی تازہ لہر میں بچوں کو شہید کررہا ہے تو شہبازشریف نے کیا کردار ادا کیا ہے؟۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف سعودی عرب کے دورہ پر ہیں تو وہ اسرائیلی دہشت گردی پر مشترکہ اعلامیہ جاری کریں،  دنیا کو پتہ ہے کہ پاکستان کے پاس میزائل اور نیوکلئیر بم موجود ہے، جب ہم نے ایٹمی دھماکے کئے تو پورا عالم اسلام خوش ہوا تھا، ایٹم بم صرف پاکستان کا نہیں پوری امت کا ہے۔

حافظ نعیم نے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکی غلام ہیں اور اپنی مدت کےلئے امریکا کی طرف دیکھتے ہیں، امریکا ان کے سر پر ہاتھ رکھ لیں تو جمہوریت کو بھی الٹ دیتے ہیں۔

حافظ نعیم نے کہا کہ پاکستان کی اپوزیشن اور حکومت میں دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون پہلے امریکا کے پائوں چھوکر آشیر باد حاصل کرتا ہے، ن لیگ یا پیپلزپارٹی سب سے کہتا ہوں سامنے آکر امریکا و اسرائیلی دہشت گردی کی مذمت کرو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیلی دہشت گردی حافظ نعیم نے کہا کہ گردی کی

پڑھیں:

اسحاق ڈار کا دورہ کابل

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات گزشتہ ایک سال سے ٹھیک نہیں تھے۔

پاکستان افغانستان سے ناراض تھا۔ افغانستان نے دہشت گردوں کو پناہ دی ہوئی ہے، جو پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانے ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون نہیں کر رہی ہے۔ اس لیے پاکستان افغانستان سے ناراض تھا۔ اسی لیے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطے بھی ختم تھے۔

اسی ناراضگی میں پاکستان نے پاک افغان بارڈرز پر نقل و حرکت محدود کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ پہلے آمد و رفت عام تھی اب ویزہ کے بغیر کوئی نہیں آجا سکتا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی پاکستان نے افغانستان سے تجارت محدود کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ پاکستان کا موقف تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے میں جب تک تعاون نہیں کیا جائے گا تجارت اور معاشی تعلقات کیسے ہو سکتے ہیں۔اسی لیے دونوں ممالک کا تجارتی حجم بھی بہت کم ہوگیا۔

پاکستان نے اپنے ہاں مقیم افغانوں کو واپس بھیجنا شروع کیا۔کئی دہائیوں سے مقیم افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ پاکستان بھی جو چیزیں افغانستان سے لیتا ہے طالبان حکومت نے اس پر ٹیرف لگا دیا تھا۔ اس میں کوئلہ سر فہرست ہے۔ پاکستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ پر قدغن لگائی۔سادہ بات بارڈر بھی بند تجارت بھی بند۔ دونوں ممالک ایک دوسرے سے ناراض۔

کچھ غیر مصدقہ خبریں ایسی بھی ہیں کہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائیکس بھی کی تھیں۔ افغانستان کے اندر جا کر بھی کارروائیوں کی خبریں بھی آئی ہیں۔ ان کی تصدیق پاکستان نے تو نہیں کی تھی لیکن افغان حکام کے رد عمل نے اس کی تصدیق کی تھی۔ اس لیے جب کشیدگی میں اضافہ ہوا بات چیت اور تعاون کے تمام دروازے بند ہوئے تو کارروائیاں بھی کی گئیں۔

لیکن گزشتہ دو ماہ میں افغانستان کی طرف سے پاکستان کو ایسے پیغامات موصول ہوئے کہ وہ معاملات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کے ان پیغامات کی روشنی میں پاکستان کے افغانستان کے لیے مستقل نمائندے دو دفعہ کابل بھی گئے وہاں بات چیت ہوئی۔ ان کے دوروں کے بعد اسحاق ڈار کابل گئے ہیں۔ یہ پاکستان کے کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کا چار سال بعد افغانستان کا دورہ تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ سب کے ذہن میں یہی سوال ہے۔

جب پاکستان نے افغانستان کے ساتھ معاشی تعلقات محدود کرنے شروع کیے تو شروع میں افغانستان نے اس کا کوئی دباؤ نہیں لیا تھا۔ اب کیا ہوا۔ ایک بات تو سب کو پتہ ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد افغان طالبان کو جو مدد مل رہی تھی وہ بند کر دی گئی ہے۔ جس سے وہ معاشی طور پر مشکل میں ہیں۔ اب انھیں معاشی تکلیف ہوئی ہے۔ اس لیے جو باتیں ان کے لیے پہلے اہم نہیں تھیںِ اب اہم ہیں۔ وہ اب پاکستان سے تجارت کو اہم سمجھتے ہیں۔ امریکی ڈالر جو بند ہو گئے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ گزشتہ ایک سال سے افغانستان میں حقانیوں اور قندھاریوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ طالبان کے قندھار گروپ اور حقانی گروپ کے درمیان لڑائی تھی۔ قندھار گروہ مضبوط ہے لیکن قندھار گروپ کا یہ خیال تھا کہ حقانی ہمیشہ سے پاکستان کے قریب رہے ہیں۔

ان کے تعلقات بھی پاکستان سے زیادہ رہے ہیں اس لیے پاکستان حقانیوں کا ساتھ دے گا، ان کی مدد کرے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں بالکل دخل نہیں دیا ہے۔ حقانیوں اور قندھاریوں کے تنازعہ میں پاکستان فریق نہیں بنا ہے۔ دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بہرحال اس وقت قندھار گروپ نے اقتدار پر اپنا کنٹرول زیادہ مضبوط کر لیا ہے۔ ملا ہیبت اللہ نے اقتدار پر گرفت مضبوط کی ہے۔ اس وجہ سے بھی قندھار گروپ کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور انھوں نے پاکستان کی طرف دوبارہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔

پاکستان نے قندھار گروپ بالخصوص ملا ہیبت اللہ کے مثبت پیغامات کا مثبت جواب دیا ہے۔ ہم نے اس موقع کو ضایع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی لیے پہلے محمد صادق کو بھیجا گیا اور جب کافی معاملات حل کے قریب پہنچ گئے تو اسحاق ڈار گئے ہیں۔ اب سوال یہ ہوگا کہ دہشت گردی میں کیا ہوگا، تو اطلاعات یہی ہیں کہ تعاون ہوگا۔ ویسے تو اعداد و شمار بھی بتاتے ہیں کہ گزشتہ ایک ماہ سے دہشت گردی میں کمی ہوئی ہے۔ کچھ اعداد و شمار کے مطابق ستر فیصد کمی ہوئی ہے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کی رائے میں دہشت گردی میں جب بہت تیزی آتی ہے تو پھر کمی بھی آتی ہے۔

اس لیے اگر تو یہ کمی مستقل ہوئی تو پھر ہی کچھ کہا جائے گا۔ بہر حال اطلاعات یہی ہیں کہ وہ دہشت گردی میں تعاون کرنے پر مان گئے ہیں۔ بالخصوص بلوچ دہشت گردوں پر زیادہ تعاون نظر آئے گا۔ ان کی افغانستان میں کوئی مدد نہیں ہوگی بلکہ پاکستان کی نشاندہی پر ان کے خلاف افغانستان میں آپریشن بھی کیے جائیں گے۔ حال ہی میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ میں بھی بلوچ دہشت گرد افغانستان سے ہدایات لے رہے تھے۔ اس لیے طالبان حکومت ان بلوچ دہشت گردوں کی مدد ختم کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلی بڑی پیش رفت ہے۔ ٹی ٹی پی سے وہ بات کریں گے اور انھیں بھی کارروائیاں بند کرنے کے لیے کہا جائے گا۔

اسی بات پر پاکستان نے معاشی تعلقات بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اور آپ نے دیکھا کہ اسحاق ڈار نے معاشی تعلقات کی بحالی کے لیے اعلانات بھی کیے۔ لیکن پاکستان نے افغان مہاجرین پر کوئی مفاہمت نہیں کی ہے۔ افغان طالبان کی یہ درخواست کہ ان کے رہنے کی مدت بڑھائی جائے، نہیں مانی گئی۔ یہ بتایا گیا کہ اس پر کوئی لچک نہیں ہو سکتی۔ اب افغان طالبان کو ان مہاجرین کو واپس لینا ہی ہوگا۔ یہ ایک مستقل پالیسی ہے۔ اس کا اچھے برے تعلقات سے کوئی واسطہ نہیں۔

لیکن یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچ دہشت گرد افغانستان میں اب ان علاقوں میں ہیں جو افغان ایران کے بارڈر کے ساتھ ہیں۔وہاں طالبان کا کنٹرول بھی محدود ہے۔ لیکن افغان طالبان وہاں آپریشن کرنے اور وہاں اپنا کنٹرول بڑھانے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ اس میں پاکستان ان کی مدد بھی کرے گا تا کہ ان علاقوں کو بلوچ دہشت گردوں سے پاک کیا جاسکے۔ بہرحال پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی میں تعاون پر اتفاق ہو گیا ہے۔امید یہی کی جا سکتی ہے اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • افریقہ میں امریکہ کا غیر ضروری سفارت خانے اور قونصل خانے بند کرنے پر غور
  • لاہور، آئی ایس او کی اسرائیلی بربریت کیخلاف احتجاجی ریلی
  • لاہور، اسرائیل کی غزہ پر بربریت کیخلاف آئی ایس او کا احتجاج
  • بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج
  • غزہ میں اسرائیلی دہشتگردی جاری، چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید 44 فلسطینی شہید
  • امریکا کا افریقا میں غیرضروری سفارت خانے اور قونصل خانے بند کرنے پر غور
  • وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی
  • اسد عمر کی 3 مقدمات میں عبوری ضمانت 13 مئی تک منظور