چاند پر قدیم ترین ٹکراؤ 4.25 ارب سال قبل ہوا تھا، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
چاند پر قدیم ترین ٹکراؤ 4.25 ارب سال قبل ہوا تھا، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 21 March, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چینی سائنس دانوں نے چاند کے سایہ دار علاقے سے لینے والی چاند کی مٹی کے نمونوں کے مطالعہ کے ذریعے ایک اور بڑی پیش رفت کی ہے۔ یعنی یہ طے کیا گیا ہے کہ چاند کا سب سے قدیم اور سب سے بڑے ٹکراؤ کی باقیات ایٹکن بیسن (ایس پی اے بیسن) 4.
چینی سائنسدانوں کےیہ نتائج تعلیمی جریدے نیشنل سائنس ریویو میں شائع ہو گئے ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ ایس پی اے بیسن، جس کا قطر تقریباً 2،500 کلومیٹر ہے، ٹکراؤ کے باعث ایک بہت بڑا گڑھا ہے اور یہ چاند پر قدیم ترین ٹکراؤ کا نشان ہے۔ ایس پی اے بیسن کی تشکیل کے وقت کو نظام شمسی میں ٹکراؤ کی تاریخ کو درست کرنے کے لئے سنہری حوالہ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
لہذا ، ایس پی اے بیسن کی تشکیل کے وقت کی درست وضاحت ، طویل عرصے سے بین الاقوامی خلائی تحقیق کے میدان میں اولین سائنسی اہداف میں سے ایک رہا ہے۔ اس مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ نظام شمسی کی تشکیل کے تقریباً 320 ملین سال بعد، ایک بڑے ٹکراؤ کے واقعے نے ایس پی اے بیسن تشکیل دیا،جو چاند میں ٹکراؤ کے گڑھوں کی شماریاتی تاریخ کے لئے چاند کے سایہ دار حصے سے ابتدائی معیار فراہم کیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
لاہور:پاکستان میں پیچیدہ ٹیکس نظام اور ہر سطح پر رشوت خوری غیر دستاویزی معیشت کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں.
جب کوئی بھی کاروباری شخص اپنے کاروبار کو رجسٹر کرانا چاہتا ہے تو اس کو بار بار دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں اور پھر ہر سطح پر رشوت دینی پڑتی ہے، جس کی وجہ سے تاجر اپنے کاروبار کو رجسٹر کرانے میں دلچسپی نہیں لیتے.
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں غیر رسمی معیشت کا حجم رسمی معیشت سے ڈبل ہے، جو کہ تقریبا 400 سے 500 ارب ڈالر بنتا ہے، ریئل اسٹیٹ میں اس کا حجم تقریبا 70 فیصد تک ہے.
مزید پڑھیں: ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلیے ایف بی آر نے ہفتے کی چھٹی ختم کردی
چھوٹے کاروبار اور ریٹیل دکانوں کا نمبر دوسرا ہے، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (SDPI) کے ایک حالیہ مطالعے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان کا 40% ریٹیل سیکٹر غیر رسمی طور پر کام کرتا ہے، جس سے حکومت کو سالانہ 1.5 ٹریلین روپے سے زائد کا نقصان ہوتا ہے.
چھوٹے کارخانے بھی اس میں پیچھے نہیں ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس کے قوانین کو آسان بنانا، چھوٹے کاروباروں کے لیے شرحوں کو کم کرنا، اور عوامی خدمات کو بہتر بنانا لوگوں کو رسمی معیشت میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکتا ہے.
مزید پڑھیں: وزیراعظم کی ایف بی آر اور وزرا کو 34 ارب 50 کروڑ روپے کی ریکوری پر شاباش
ماہرین کے مطابق جب تک کہ رسمی نظام زیادہ قابل رسائی اور قابل اعتماد نہیں ہو جاتا، غیر رسمی معیشت ترقی کرتی رہے گی، جس سے پاکستان کم آمدنی اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے چکر میں پھنسا رہے گا۔