Daily Ausaf:
2025-04-22@18:59:29 GMT

انسانی سماج اور آسمانی تعلیمات

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

آج مذہبی آزادی، مذہبی حقوق اور مذہبی مساوات کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مذہبی حقوق کے حوالے سے ہم کہیں فرق کرتے ہیں تو اعتراض ہوتا ہے کہ آپ ملک میں رہنے والی کچھ آبادی کے مذہبی حقوق کو اپنے حقوق سے مختلف شمار کرتے ہیں جس سے مذہبی مساوات نہیں رہتی۔ اسی طرح غیرمسلم اقلیتوں پر کسی حوالے سے پابندی لگاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اس سے مذہبی آزادی مجروح ہو رہی ہے اور مذہبی حقوق پامال ہو رہے ہیں ۔
مذہب کے حوالے سے آج کا بنیادی سوال یہ ہے کہ مذہب کا کوئی معاشرتی کردار ہے یا نہیں؟ اجتماعی معاملات میں مذہب کی ہدایات لی جائیں گی یا نہیں؟ مغرب نے انقلابِ فرانس یعنی ۱۷۹۰ء کے بعد طے کر لیا تھا کہ مذہب کا تعلق عقیدے، اخلاقیات، عبادات اور چرچ کے ساتھ ہے، اجتماعی معاشرت کے ساتھ نہیں ہے۔ یعنی معاشرے کے جو قومی شعبے ہیں تجارت، معیشت، قانون سازی، عدالت وغیرہ ان سے مذہب کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ انقلابِ فرانس کے بعد مغرب نے جو نئی بنیادیں نظامِ زندگی کے لیے طے کی تھیں ان میں یہ تھا کہ ہم مذہب سے رہنمائی حاصل نہیں کریں گے، مذہبی احکام کی پابندی ضروری نہیں ہے، بلکہ اجتماعیات میں ہم مذہب کی دخل اندازی قبول نہیں کریں گے کہ حکومت ایسی ہونی چاہیے، عدالت ایسی ہونی چاہیے، معیشت ایسی ہونی چاہیے، اور یہ کہ حلال حرام اور جائز ناجائز کے دائرے مذہب کی رو سے طے ہونے چاہئیں، وغیر ذالک۔ اور جس طرح مغرب نے خود کو مذہب کے معاشرتی کردار سے الگ کر لیا، ہم سے تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی مذہب کے معاشرتی کردار سے لاتعلق ہو جائیں۔ یہ کشمکش دو سو سال سے چل رہی ہے جس میں ہمارے حکمران طبقے تو گول مول چلے آ رہے ہیں لیکن سول سوسائٹی اور عام مسلمان مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔
مثال کے طور پر مغربی دنیا میں خاندانی قوانین سول لاء کے تحت ہیں اور ان پر مذہبی احکامات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ان کا انسانی حقوق کا فلسفہ نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ میں بائبل کے احکام قبول نہیں کرتا۔ عقلِ عامہ جسے کامن سینس کہتے ہیں، اس کی رو سے پارلیمنٹ یا سول سوسائٹی جو طے کر دے اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ مغرب کے ہاں مذہب انفرادی اور اختیاری چیز ہے کہ کوئی اختیار کرنا چاہے یا نہ کرنا چاہے۔ لیکن مسلم معاشروں میں ابھی تک الحمد للہ عام آدمی نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ میں مذہب ہی سے رہنمائی حاصل کرتا ہے، کوئی مسلمان اگر امریکہ میں بھی رہتا ہے تو خاندانی معاملات میں وہ علماء سے ہی فتویٰ کے لیے رجوع کرتا ہے۔
مذہب کے معاشرتی کردار میں تجارت اور معیشت بھی ہیں کہ اس میں مذہبی احکام کا کیا دخل ہے۔ اور اس میں سیاست بھی ہے کہ حکومت مذہبی اصولوں کے مطابق قائم ہو، یا حکومت مذہبی احکام کے نفاذ کی ذمہ داری قبول کرے، یا حکومت مذہبی احکام کے نفاذ میں کوئی کردار ادا کرے۔ یہ سب باتیں مغرب کے ہاں ناقابل قبول ہے۔ خاندانی نظام میں، معیشت اور تجارت میں، عدلیہ اور قانون میں ، سیاست اور حکومت میں ، ان چاروں بڑے دائروں میں کہیں بھی مذہب، مذہبی احکام اور مذہبی روایات کی بالادستی کو مغرب تسلیم نہیں کرتا۔
آج کے مسلم معاشروں میں حکومت و سیاست اور قانون و عدالت کے معاملات میں مذہب کا کردار کسی جگہ ہے اور کسی جگہ نہیں ہے، لیکن دو دائروں میں مسلمان ابھی تک مذہب سے وابستہ ہیں اور اس سے دستبرداری کے لیے تیار نہیں ہیں: ایک حلال و حرام کا دائرہ اور دوسرا خاندانی نظام یعنی نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ کے معاملات۔ اگرچہ حکومتی سطح پر مذہبی احکام کو گول مول کرنے کے لیے مختلف حیلے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایوب خان مرحوم کے زمانے میں ۱۹۶۲ء میں عورت کو طلاق کا حق دلوانے کے نام پر نکاح فارم میں تفویض ِطلاق کا خانہ رکھا گیا تاکہ مغرب کو مطمئن کر سکیں کہ ہمارے ہاں عورت کو بھی طلاق دینے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس کا کچھ خاص نتیجہ نہیں نکلا کہ اب بھی نکاح ہوتے وقت کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی کہ یہ دفعہ کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ عام معاشرے نے اسے قبول نہیں کیا۔ عام مسلمان نکاح، طلاق، وراثت اور حلال و حرام کے مسائل میں مذہب سے رہنمائی لیتے ہیں اور اس کے لیے مسجد اور مدرسہ میں ہی جاتے ہیں۔
مغرب کا کہنا ہے کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور حکومت کی بنیاد مذہب پر نہیں ہونی چاہیے۔ آج کے متجددین اور دانشور بھی یہ بحث چھیڑتے ہیں کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا ایک پہلو عرض کرتا ہوں۔ مجھ سے جب دوست پوچھتے ہیں کہ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ہے؟ تو میں ان سے مختصراً یہ کہا کرتا ہوں کہ اگر تو ریاست و حکومت میں ہمارے آئیڈیل حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ ہیں تو اس کی تو بنیاد ہی مذہب پر ہے۔ ہمارے ہاں ریاست کا آغاز، جسے خلافت کہتے ہیں، حضرت صدیق اکبرؓ سے ہوتا ہے۔ جب انہوں نے حکومت سنبھالی تھی تو اس کا دائرہ جزیرۃ العرب تھا، حکومت سنبھالتے ہی آپؓ نے پہلی بات یہ کی تھی کہ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ ’’اقودکم بکتاب اللہ وسنۃ نبیہ‘‘ میں تمہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق چلاؤں گا۔ اگر میں کتاب اللہ اور سنت کے مطابق نہ چلوں تو میری اطاعت تم پر فرض نہیں ہے۔ یہی بات حضرت عمرؓ نے کہی تھی جب آپؓ خلیفہ منتخب ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست و حکومت اور رعایا کے تعلق کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔ جبکہ مغرب اس بات کو تسلیم نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ ریاست کی بنیاد سول سوسائٹی کی خواہشات پر ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مذہب کے معاشرتی کردار مذہبی احکام ہونی چاہیے کہ مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہے کے لیے

پڑھیں:

بحرین کے بے گناہ قیدیوں کی آواز

اسلام ٹائمز: بحرین کی سماجی و قانونی کارکن ابتسام الصیغ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حالیہ دنوں میں "جو" جیل میں پیش آنے والے واقعات کوئی اتفاقی حادثاتہ نہیں تھے، بلکہ یہ ایک ایسے قانونی بحران کا حصہ تھے، جس سے بحرین برسوں سے نبرد آزما ہے۔ انٹرویو: معصومہ فروزان

بحرین ایک ایسا ملک ہے، جو حالیہ برسوں میں شدید بین الاقوامی دباؤ میں رہا ہے، کیونکہ اس ملک میں انسانی حقوق کی پامالی عروج پر ہے۔ یہ ملک خاص طور پر انسانی حقوق کے شعبے نیز انفرادی آزادیوں اور سیاسی حقوق کے شعبوں میں شدید مسائل سے دوچار ہے۔ اس بحران کا سب سے واضح مظہر سیاسی قیدیوں کی صورت حال ہے، جو بحرین کی جیلوں بالخصوص" الجو" جیل میں برسوں سے دباؤ اور بدسلوکی کا شکار ہیں۔ ان مسائل نے نہ صرف بحرین میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بہت زیادہ توجہ حاصل کی ہے۔

بحرین کی قانونی ایکٹیوسٹ اور ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال کے شدید ناقدین میں سے ایک "ابتسام الصیغ" نے "اسلام ٹائمز" کے نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے" الجو" جیل میں سیاسی قیدیوں کی نازک صورتحال پر ایک بار پھر تاکید کی ہے۔ اس انٹرویو میں انہوں نے اس جیل میں سیاسی قیدیوں کے مشکل حالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بحرین میں انسانی حقوق کا بحران صرف خاص مواقع پر ہی نہیں بلکہ مسلسل، خاص طور پر قیدیوں کے روزمرہ کے حالات میں جاری و ساری ہے۔

الصیغ نے حالیہ تعطیلات کے دوران خاص طور پر قیدیوں کے لیے مذہبی سہولیات کے میدان میں پیدا ہونے والے مسائل کا خاص طور پر حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں، "جو" جیل میں، ہم نے قیدیوں کی مذہبی رسومات ادا کرنے کے امکان کے حوالے سے جیل حکام کی طرف سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس کارروائی کی وجہ سے قیدیوں نے احتجاج کیا اور انہیں سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، جس میں ان کے باہمی رابطوں کے خاتمے، اہل خانہ سے ملاقات پر پابندی اور قیدیوں کو سخت تشدد کا نشانہ بنانا شامل ہے۔

بحرین کی اس سماجی کارکن نے اصلاحی وعدوں کے میدان میں درپیش چیلنجوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے حکام نے قیدیوں کے حالات کو بہتر بنانے کے وعدے کیے ہیں، لیکن بعض سابق اہلکاروں کی شدید مزاحمت نے جیلوں کی صورت حال کو پیچیدہ بنا دیا ہے اور اس سلسلے میں ہر طرح کی پیش رفت کو روک دیا ہے۔ بحرین میں انسانی حقوق کی اس سماجی کارکن نے اصلاحات کے وعدوں پر عوامی عدم اعتماد کے مسئلے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ حقیقی اصلاحات اسی صورت میں حاصل کی جاسکتی ہیں، جب قیدیوں کے حالات کو بہتر بنانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے مضبوط سیاسی ارادہ ہو۔

متعلقہ مضامین

  • بحرین کے بے گناہ قیدیوں کی آواز
  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • ہمارے حاجی وی وی آئی پی کی طرح حج کریں گے: وفاقی وزیر مذہبی امور
  • 67 ہزار عازمین حج کا کوٹہ بحال کرنے کی کوشش کی، سعودی عرب نے 10 ہزار کی اجازت دی ہے، وزیر مذہبی امور
  • جے یو آئی اور جماعت اسلامی اتحاد سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • تحریک طالبان پاکستان کا بیانیہ اسلامی تعلیمات، قانون، اخلاقیات سے متصادم قرار
  • عالمی چلینجز اور سماجی تقسیم کو ختم کرنے کیلیے علامہ اقبال کی تعلیمات مشعل راہ ہیں، وزیراعظم
  • حیدرآباد انڈیا میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف انسانی سروں کا سمندر امڈ پڑا
  • حکومت کو کوئی حق نہیں کہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی مارچ کو روکے: لیاقت بلوچ
  • باجوڑ میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعے میں درجنوں بکریاں ہلاک