مولانا نے بجلی کا بل کم لانے کا انتہائی آسان وظیفہ بتادیا، ویڈیو وائرل، سوشل میڈیا صارفین کے دلچسپ تبصرے
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتے ہی مختلف ٹی وی چینلز پر سحر وافطار کی ٹرانسمیشنز کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جسے عوام بہت شوق سے دیکھتے ہیں لیکن اکثر ان نشریات کو عوام کی جانب سے خوب تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے کیونکہ اس میں متنازعہ سوالات کو شامل کیا جاتا ہے۔
رمضان شوز میں ایک خصوصی سیگمنٹ ہوتا ہے جس میں لوگ فون کر کے اسلامی سکالرز سے وظائف اور مسائل کے حل پوچھ سکتے ہیں۔ لیکن ان سیگمنٹس میں کچھ عجیب و غریب اور غیر مناسب کالز کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رمضان ٹرانسمیشنز سے پہلے زندگی کیسی ہوتی تھی؟ اداکارہ بشریٰ انصاری کی بے لاگ گفتگو وائرل
اداکارہ و ٹی وی میزبان جویریہ سعود کی رمضان ٹرانسمیشن کو خاص طور پر صارفین کی جانب سے آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے جس کی وجہ پروگرام میں شامل کیے جانے والے کالرز ہیں، کیونکہ ان کے پروگرام میں متنازعہ سوالات پوچھے جاتے ہیں جس کا مولانا آزاد جمیل جواب دیتے ہیں جو خوب وائرل ہوتے ہیں۔
حال ہی میں ان کے پروگرام میں ایک شہری کی جانب سے بجلی کم کرنے کا وظیفہ مانگا گیا۔ جواب میں مولانا آزاد جمیل نے بجلی کا بل کم آنے کا وظیفہ بتایا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔
مولانا آزاد جمیل نے تاکید کی جن لوگوں کے ہاں بجلی کا بل زیادہ آتا ہے وہ اپنی شہادت کی انگلی سے میٹر پر ’زم زم‘ لکھیں تو بجلی کا بل کم آئے گا اور یہ وظیفہ ایک مہینے میں 2 بار (ہر 15 دن بعد) کریں۔
https://Twitter.
انٹرنیٹ پر ان کالز کو جعلی اور پلانٹڈ قرار دیا جا رہا ہے اور صارفین کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سعدیہ احمد نے سوال کیا کہ کیا جویریہ عباسی اور مولانا آزاد جمیل خود بھی یہ وظیفہ کرتے ہیں ؟ یا بس عوام ہی ملی ہے پاگل بنانے کو؟
https://Twitter.com/SadiaTheSadia/status/1902755860075401399
ایک صارف نے لکھا کہ ان پڑھ اور شعور سے عاری معاشرے میں اسی طرح کے شاہکار جنم لیتے ہیں۔
https://Twitter.com/_MT__46/status/1902745748120211945
عمران نامی صارف نے طنزاً لکھا کہ یہ وظیفہ بالکل درست ہے۔ ایک دن میں نے ہمسائے کی گاڑی کے فیول ٹینک پر انگلی سے زم زم لکھ دیا اس کی فیول لائن جیم ہو گئی۔ ایک برف والا جون جولائی کے مہینے میں برف کے پھٹے پر زم زم لکھ بیٹھا وہ آج تک برف پگھلنے کا انتظار کر رہا ہے۔
https://Twitter.com/ideas2025/status/1902702409933115581
ایک صارف نے لکھا کہ وہ سوچ رہی ہیں کہ جن لوگوں کو وہ جانتی ہیں انہیں وظیفہ بتائیں وہ بیچارے ایسے ہی 20 ہزار کا بل دیتے ہیں۔
https://Twitter.com/OfficialDadiAmi/status/1902779900919971876
ایک ایکس صارف نے مولانا آزاد جمیل سے درخواست کی کہ وہ وظیفہ بتائیں جس سے بجلی نان اسٹاپ چلتی رہے اور بل بھی نہ آئے۔
https://Twitter.com/KhanPtipak/status/1902775856411320437
سعود نامی صارف نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے کسی نے گیس کے بل پر ’زم زم‘ لکھ دیا ہے، 2 دن سے گیس ہی نہیں آ رہی۔
مجھے لگتا ہے کسی نے گیس کے بل پر لکھ دیا ہے
زم زم
دو دن سے گیس ہی نہیں آرہی!! ????
— SuaadHashmat#804 (@SuaadHashmat) March 20, 2025
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ان کی رمضان ٹرانسمیشن میں اس طرح کے سوالات پوچھے گئے ہوں یا ان کے متنازعہ جواب نہ دیے گئے ہوں۔ اس سے پہلے ان کے پروگرام میں ایک کال آئی جس میں خاتون یہ سوال کرتی سنائی دیں کہ ‘میں اسکول میں کام کرتی ہوں، وہاں ایک پرنسپل ہیں شادی شدہ مجھے ان سے محبت ہوگئی ہے لیکن ان کی پہلی اہلیہ راضی نہیں ہیں’۔
پھر ایک شخص نے کال کی اور کہا کہ وہ پہلے سے ہی چار بیویاں رکھتے ہیں اورپانچویں بیوی کے لیے وظیفہ مانگ رہے تھے۔
جویریہ سعود نے اپنے پروگرام کے حوالے سے وضاحت بھی پیش کی اور کہا کہ ہمارے پاس جو کالز آتی ہیں ہم وہی کالز اٹھاتے ہیں، حالانکہ ہماری ٹیم پہلے ان سے سوال کرتی ہے کہ وہ آن ایئر کیا پوچھنا چاہتے ہیں اور وہ بتاتے بھی ہیں لیکن کال آن ایئر آتے ہی وہ کچھ اور بات شروع کردیتے ہیں۔ کالرز کی اس حرکت پر ہماری ٹیم یا مولانا صاحب کا کوئی قصور نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بجلی کا بل جویریہ عباسی رمضان ٹرانسمیشن مولانا آزاد جمیلذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بجلی کا بل جویریہ عباسی مولانا ا زاد جمیل مولانا ا زاد جمیل پروگرام میں کی جانب سے بجلی کا بل جا رہا ہے
پڑھیں:
سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چاہے وہ فیس بک کے جلوے ہوں یا انسٹا گرام اور تھریڈزکی شوخیاں، X نامی عجب نگری ہو یا ٹک ٹاک کی رنگینیاں، ایک نقلی دنیا کے بے سروپا تماشوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ میں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہے، ’’ دنیا بدل گئی ہے‘‘ جب کہ ذاتی طور پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کبھی بدل نہیں سکتی ہے۔
دنیا ویسی ہی ہے، زمین، آسمان، سورج، چاند، ندی، دریا، سمندر، پہاڑ، پیڑ، پودوں اور قدرت کے کرشموں سے لیس انسانوں اور جانوروں کے رہائش کی وسیع و عریض پیمانے پر پھیلی جگہ جو صدیوں پہلے بھی ایسی تھی اور آیندہ بھی یوں ہی موجود رہے گی۔
البتہ دنیا والے ہر تھوڑے عرصے بعد اپنی پسند و ناپسند اور عادات و اطوار سمیت تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اُن کی یہ تبدیلی اس قدر جادوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے جُڑی ماضی کی ہر بات سرے سے فراموش کر بیٹھتے ہیں۔
تبدیلی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اس دنیا کے باسی صرف گزری، بیتی باتیں نہیں بھولتے بلکہ وہ سر تا پیر ایک نئے انسان کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
جس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ انسان بے چین طبیعت کا مالک ہے، وہ بہت جلد ایک جیسے ماحول، حالات اور واقعات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ ہر نئے دورکا انسان پچھلے والوں سے مختلف ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اُن کو نت نئے نام دیے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں،
Millennials, G i generation, Lost generation, Greatest generation, Generation Alpha, Silent generation,
Generation Z
یہ سب نام انسان کی ارتقاء کی مناسبت سے اُس کی نسل کو عنایت کیے گئے ہیں، جب ہر دورکا انسان دوسرے والوں سے قدرے مختلف ہے تو اُن کی تفریح کے ذرائع پھر کس طرح یکساں ہوسکتے ہیں۔تاریخِ انسانی کے اوائل میں مخلوقِ بشر داستان گو سے دیو مالائی کہانیاں سُن کر اپنے تصور میں ایک افسانوی جہاں تشکیل دے کر لطف اندوز ہوتی تھی، وہ دنیاوی مسائل سے وقتی طور پر پیچھا چھڑانے کے لیے انھی داستانوں اور تصوراتی ہیولوں کا سہارا لیتی تھی۔
چونکہ انسان اپنی ہر شے سے چاہے وہ فانی ہو یا لافانی بہت جلد اُکتا جاتا ہے لٰہذا جب کہانیاں سُن سُن کر اُس کا دل اوب گیا تو وہ خود افسانے گھڑنے لگا اور اُسے اس کام میں بھی خوب مزا آیا۔ دراصل داستان گوئی کا جو نشہ ہے، ویسا خمارکہانی سننے میں کہاں میسر آتا ہے مگر انسان کی بے چین طبیعت نے اس شوق سے بھی زیادہ عرصے تک اُس کا جی بہلنے نہ دیا اور بہت جلد وہ داستان گوئی سے بھی بیزار ہوگیا پھر وجود میں آئے انٹرنیٹ چیٹ رومز جہاں بِن دیکھے لوگ دوست بننے لگے، جن کی بدولت’’ ڈیجیٹل فرینڈ شپ‘‘ کی اصطلاح کا جنم ہوا اور اس طرح تفریح، مزاح، لطف کی تعریف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔
زمانہ حال کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ماضی کے اُنھی انٹرنیٹ چیٹ رومز کی جدید شکل ہیں، ان بھانت بھانت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے آج پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے اور تقریباً ہر عمر و طبقے کا انسان اپنی زندگی کا بیشمار قیمتی وقت ان پر کثرت سے ضایع کر رہا ہے۔ پہلے پہل انسان نے تفریح حاصل کرنے کی نیت سے داستان سُنی پھر افسانے کہے اور اب خود جیتی جاگتی کہانی بن کر ہر روز سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس خود ساختہ کہانی کا مرکزی کردار وہ خود ہی ہوتا ہے، جو انتہائی مظلوم ہوتا ہے اور کہانی کا ولن ٹھہرتا ہے ہمارا سماج۔
دورِ حاضر کا انسان عقل و شعور کے حوالے سے بَلا کا تیز ہے ساتھ کم وقت میں کامیابی حاصل کرنے میں اُس کا کوئی ثانی نہیں ہے مگر طبیعتاً وہ بہت خود ترس واقع ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد نے جہاں انسان کو افسانوی دنیا کی کھڑکی فراہم کی ہے وہیں اُسے انگنت محرومیوں کا تحفہ بھی عنایت فرمایا ہے۔
زمانہ حال کا انسان سوشل میڈیا پر دکھنے والی دوسرے انسانوں کی خوشحال اور پُر آسائش زندگیوں سے یہ سوچے بغیر متاثر ہو جاتا ہے کہ جو دکھایا جا رہا ہے وہ سچ ہے یا کوئی فرد اپنی حسرتوں کو وقتی راحت کا لبادہ اُڑا کر اُس انسان کی زندگی جینے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے جو وہ حقیقت میں ہے نہیں مگر بننا چاہتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بہت کم ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو دنیا کو اپنی حقیقی شخصیت دکھانے پر یقین رکھتے ہوں۔ سوشل میڈیا پرستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے، دراصل یہ وہ جہاں ہے جدھر ہر جانب فرشتہ صفت انسان، عدل و انصاف کے دیوتا، سچ کے پجاری، دوسروں کے بارے میں صرف اچھا سوچنے والے، ماہرِ تعلیم، حکیم، نفسیات شناس اور بندہ نواز موجود ہیں۔
حسد، جلن، نظر بد کس چڑیا کا نام ہے، اس سے یہاں کوئی واقف نہیں ہے، سب بنا مطلب دنیا کی بھلائی کے ارادے سے دوسروں کی اصلاح میں ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔جب کوئی فرد کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا حصہ بنتا ہے تو اُسے استقبالیہ پر ایک مکھوٹا پیش کیا جاتا ہے جسے عقلمند انسان فوراً توڑ دیتا ہے جب کہ بے عقل اپنی شخصیت کا اہم جُز بنا لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تب اپنی اندرونی کیفیات کو من و عن ظاہرکردیتا ہے جب کہ دکھ کی گھڑیوں میں اپنے حقیقی جذبات کو جھوٹ کی رنگین پنی میں لپیٹ کر خوشی سے سرشار ہونے کی بڑھ چڑھ کر اداکاری کر رہا ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا اپنے صارفین کو اُن کے آپسی اختلافات کے دوران حریفِ مقابل پر اقوالِ زریں کی مار کا کھلم کھلا موقع بھی فراہم کرتا ہے، ادھر کسی کی اپنے دوست سے لڑائی ہوئی اُدھر طنز کی چاشنی میں ڈوبے اخلاق کا سبق سموئے نرم گرم جملے اُس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔
انسان کو سوشل میڈیا پر ملنے والے دھوکے بھی دنیا والوں سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اب چاہے وہ اپنے شناسا لوگوں سے ملیں یا اجنبیوں سے، کڑواہٹ سب کی ایک سی ہی ہوتی ہے۔ جوش میں ہوش کھونے سے گریزکرنے والے افراد ہی سوشل میڈیا کی دنیا میں کامیاب گردانے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قطعی برے نہیں ہیں بلکہ یہ تو انسانوں کے بیچ فاصلوں کو کم کرنے، بچھڑے ہوئے پیاروں کو ملانے، نئے دوست بنانے اور لوگوں کو سہولیات پہنچانے کی غرض سے وجود میں لائے گئے تھے۔
چونکہ انسان ہر اچھی چیزکا بے دریغ استعمال کرکے اُس کے تمام مثبت پہلوؤں کو نچوڑ کر اُس کی منفیت کو منظرعام پر لانے میں کمال مہارت رکھتا ہے لٰہذا یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ انسان جب تک تفریح اور حقیقت کے درمیان فرق کی لکیرکھینچنا نہیں سیکھے گا تب تک وہ بندر کی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی ڈگڈگی پر ناچ کر خود کا اور قوم بنی نوع انسان کا تماشا بنواتا رہے گا۔