صدر زرداری کا عیدالفطر کے موقع پر قیدیوں کی سزاؤں میں خصوصی چھوٹ کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
صدر آصف علی زرداری نے یوم ِ پاکستان اور عیدالفطر کے موقع پر قیدیوں کی سزاؤں میں 180 روز کی خصوصی چھوٹ دے دی۔ صدر مملکت نے سزاؤں میں کمی کی منظوری آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت دی ہے۔
پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی ) سے جاری بیان کے مطابق سزاؤں میں کمی کا اطلاق قتل، جاسوسی، ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث قیدیوں پر نہیں ہوگا۔ سزاؤں میں کمی کا اطلاق زنا، چوری، ڈکیتی، اغوا، دہشتگردی میں سزا یافتہ مجرموں پر بھی نہیں ہوگا۔
مزید پڑھیں: پیکا ایکٹ میں مزید ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش، فیک نیوز پر 5 سال کی سزا ہوگی
سزا میں کمی کا اطلاق مالی جرائم، قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے مجرموں پر بھی نہیں ہوگا۔ سزا میں کمی کا اطلاق غیر ملکی افراد ایکٹ، 1946 اور منشیات کنٹرول (ترمیمی) ایکٹ 2022 کے تحت سزا یافتہ افراد پر نہیں ہوگا۔
ایک تہائی قید کاٹ چکنے والے 65 سال سے زائد عمر کے مرد قیدیوں پر سزا میں کمی کا اطلاق ہوگا۔ ایک تہائی قید کاٹ چکنے والی 60 سال سے زائد عمر کی خواتین قیدیوں پر بھی سزا میں کمی کا اطلاق ہوگا۔
بچوں کے ساتھ جیل میں موجود خواتین قیدیوں پر بھی سزا میں کمی کا اطلاق ہوگا۔ ایک تہائی سزا کاٹ چکنے والے 18 سال سے کم عمر افراد پر بھی سزا میں کمی کا اطلاق ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جیل صدر آصف علی زرداری عیدالفطر قیدی یوم ِ پاکستان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جیل صدر آصف علی زرداری عیدالفطر یوم پاکستان سزا میں کمی کا اطلاق ہوگا نہیں ہوگا قیدیوں پر پر بھی
پڑھیں:
اسرائیل کی غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ناقابلِ قبول شرائط
ایک اسرائیلی میڈیا آؤٹ لیٹ نے اتوار کو غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے چار ناقابل قبول اسرائیلی شرائط کا انکشاف کیا۔ اسلام ٹائمز۔ آج بروز اتوار، ایک اسرائیلی میڈیا چینل نے غزہ میں نسل کشی کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی چار ناقابلِ قبول شرائط کو بے نقاب کیا۔ فارس نیوز مطابق، اسرائیلی چینل i24NEWS نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں جنگ کا خاتمہ اسرائیل کی درج ذیل چار شرائط کی تکمیل پر منحصر ہے، تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، حماس کا مکمل طور پر اقتدار سے دستبردار ہونا، غزہ پٹی کا مکمل غیر مسلح ہونا اور حماس کے درجنوں رہنماؤں کو ملک بدر کرنا۔ یہ شرائط ایسے وقت میں پیش کی جا رہی ہیں جب حماس کئی بار واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی جنگ کے خاتمے سے مشروط ہے، اور وہ مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنے یا اپنے رہنماؤں کو وطن سے نکالنے کی شرائط کو قبول نہیں کرے گی۔
اس سے قبل، حماس کے ایک رہنما نے المیادین ٹی وی کو بتایا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا اور اس کی غزہ میں واپسی کو روکنا اسرائیل کے پیش کردہ جنگ بندی کے منصوبے کا مرکزی نکتہ ہے، جبکہ اس میں مستقل جنگ بندی یا اسرائیلی افواج کی مکمل واپسی جیسے بنیادی مطالبات شامل نہیں ہیں۔ اسرائیل صرف حماس سے قیدیوں کا کارڈ چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔ حماس نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ ایک جامع قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ جنگ مکمل طور پر بند کی جائے، اسرائیلی فوج غزہ سے نکل جائے، باریکے کی تعمیر نو کا آغاز ہو، اور محاصرہ ختم کیا جائے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیراعظم نے گزشتہ شب مظاہروں اور طوماروں کے باوجود جن پر عام شہریوں، ریزرو فوجیوں اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں نے دستخط کیے تھے تاکہ قیدیوں کی واپسی کے لیے جنگ بندی کی جائے کہا کہ ہمارے پاس فتح تک جنگ جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم ایک نازک مرحلے میں ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حماس نے زندہ قیدیوں میں سے نصف اور کئی ہلاک شدگان کی لاشوں کی رہائی کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جو ناقابلِ قبول ہے۔ یہ دعویٰ ایسی حالت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے جمعرات کی شب اعلان کیا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ فوری طور پر ایک جامع پیکیج مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
اس پیکیج میں تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، متفقہ تعداد میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، مکمل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی انخلاء، تعمیر نو کی بحالی اور محاصرہ ختم کرنا شامل ہیں۔ خلیل الحیہ، جو مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ غزہ سے متعلق جزوی معاہدے دراصل نیتن یاہو کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں، جو جنگ، نسل کشی اور بھوک کے تسلسل پر مبنی ہے۔