لاہور (خصوصی نامہ نگار) سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا بائیکاٹ جمہوری رویوں کے منافی ہے۔ عمران خان کے ساتھ افراتفری، انتشار اور گھیراؤ جلاؤ جیسی چند باتیں جڑی ہیں بس۔ پاکستان کی عوام نے دہشت گردی کے خلاف بڑی قربانیاں دیں۔ پاکستان کی افواج بہادر اور عوام ثابت قدم ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کی حیثیت کو کمزور کرنا قومی مفاد کے خلاف ہے۔ صوبائی حکومتیں شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کی گورننس میں بڑے پیمانے پر ریفارمز ناگزیر ہیں۔ اگر صوبائی حکومت سکیورٹی فورسز کو آپریشن سے روکتی ہے تو حالات کی ذمہ داری بھی قبول کرے۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس دو گھنٹے 24 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس کی صدارت سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کی۔ اپوزیشن اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے احتجاج کرتے ہوئے ایوان میں داخل ہوئی، پلے کارڈ اٹھا کر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے نعرے لگائے۔ سپیکر ملک محمد احمد خان نے اپوزیشن کو پلے کارڈز ایوان میں لہرانے سے منع کیا۔ اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے پنجاب اسمبلی میں سپیکر ملک محمد احمد خان کو حکومتی ایک سالہ کارکردگی پر وائٹ پیپر پر مشتمل کتابچہ پیش کیا، اور کہا کہ سپیکر صاحب کو وائٹ پیپر کا کتابچہ ضرور بھجیں گے تاکہ پتہ چلے صوبہ میں ہو کیا رہا ہے، حکومت نے اپنی کارکردگی کی ایک سالہ رپورٹ پیش کی جس کے جواب میں ہم نے عوام کے سامنے متوازن حقائق رکھے ہیں۔ سپیکر ملک محمد احمد خان نے کہا کہ اچھا لگا صحت مند جمہوری روایت قائم کی گئی ہے، اعتراضات حکومت کے سامنے رکھے، اس پارلیمانی پریکٹس کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں، ہم چاہتے ہیں کہ بات گالی، دشنام طرازی سے آگے بڑھے اور ریکارڈ پر آئے، جو اعتراضات ہیں حکومت کے پاس موقع ہے ان کے اعتراضات دور کرے، گالی کے بجائے دلیل، گریبان کے بجائے کتاب، تقریر بحث کی اہمیت ہونی چاہئے، اپوزیشن کو مثبت تنقید کی طرف آنا چاہیے۔ اپوزیشن ارکان نے حکومت کی جانب سے گندم خریداری کی پالیسی کا اعلان نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور اپوزیشن رکن وقاص مان نے کہا کہ گندم کی کٹائی شروع ہونے والی ہے لیکن پنجاب حکومت کی گندم خریداری کی کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی، کسانوں میں گندم کی خریداری کے حوالے سے بہت اضطراب پایا جارہا ہے۔ وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن نے یقین دہانی کرائی کہ اگلے ماہ سے گندم کٹائی سے پہلے حکومتی پالیسی آ جائے گی۔ وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن کی ایوان میں امن امان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں سے 2024-25 میں کارکردگی بہتر رہی۔ حکومتی رکن راجہ شوکت بھٹی نے کہا کہ جو کچھ اپوزیشن ظلم و ستم کی بات کررہی ہیں تو جو جو یہ کرتے گئے وہ مکافات عمل ہے، ہماری لیڈر شپ کو بھی جیل میں ڈالا تھا، بیٹی کو باپ کے سامنے گرفتار کیا گیا۔اپوزیشن رکن شیخ امیر نے کہا کہ 23 سال میں دہشت گردی پر قابو کیوں نہ کر سکے، کبھی دہشت گردی بڑھی تو کبھی کم ہوجاتی ہے، لوگ سوال کرتے ہیں دہشت گردی اتنی کیسے بڑھ گئی ہے، بلوچستان کے سارے لیڈرز اور مولانا فضل الرحمن سے بات کرنا ہوگی۔اپوزیشن رکن حسن بٹر نے کہا کہ کرم ، بنوں ، جعفر ایکسپریس واقعہ پر سب کو مل کر سوچنا ہوگا، قوم کی قوت کے بغیر دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ حکومتی رکن امجد علی جاوید نے کہا کہ جب تک پولیس والے کا احتساب پولیس والا کرے گاتو نظام ٹھیک نہیں ہوگا۔اپوزیشن رکن زاہد اسماعیل بھٹہ نے کہا کہ اگر جرائم پر پولیس نے روک تھام نہیں کرنی اور پی ٹی آئی کے لیڈران یا ورکرز کو گرفتار کرنا ہے تو پھر اس پر پولیس کا نام تبدیل کرکے پولیس روک تھام تحریک انصاف رکھ دیا جائے۔حکومتی رکن اسمبلی احمد خان لغاری نے کہا کہ پولیس و افواج کے باعث اپنے گھروں میں سکون سے سو سکتے ہیں، مذہبی جنونیت اور دہشت گردی کو حکومت اپنی پالیسی سے روکے گی۔ اپوزیشن رکن علی امتیاز وڑائچ نے کہا کہ جعفر ایکسپریس کوئی عام حملہ نہیں بلکہ دشمن نے اعلان جنگ کردیا ہے۔ سب حکومت میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کا حل نکالنا ہوگا۔ حکومتی رکن احمد اقبال نے کہا کہ نو مئی کا دن پاکستان کی تاریخ کا معمولی دن نہیں، کئی بار بغاوت دیکھی ،نومئی کو بغاوت ریاست کے خلاف ناکام ہوئی۔ پنجاب کو اسلحہ سے پاک کرنا ہوگا۔ لاہور شہر میں پرائیویٹ ڈالہ بڑی بندوقیں راہ چلتے لوگوں کو ہراساں کرنا اور سڑک پر گالیاں دینا عام ہوگیا ہے۔ اپوزیشن رکن حافظ فرحت عباس نے کہا کہ جس طرح اسلحہ بردار کلچر آ رہا ہے وہ بہت خوفناک ہے۔ حکومتی رکن احسن رضا نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو یا کراچی کا امن نوازشریف حکومت ہی لائی۔  فضل الرحمن کو پہلے ڈیزل کہتے رہے آج ان کے پاپا بنے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن رکن ندیم قریشی نے کہا کہ جہاں پی آئی اے کا طیارہ ایک پہیہ پر اتارا گیا اس ملک کو بھی ایک پہیہ پر اتارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن رکن شیخ امتیاز نے کہا کہ اصل بغاوت آٹھ فروری کو ہوا، اس اسمبلی میں فارم سینتالیس سے لوگ آ گئے جو وزیر بھی بن گئے۔ بانی کو سازش سے اتارا گیا تو اس حکومت سے تباہ کاریاں ہوئیں جس میں امن و امان اور مہنگائی شامل ہیں۔ حکومتی رکن اسمبلی عظمی کاردار نے کہا کہ پی ٹی آئی کا سب شور شرابا این آر او کا ہنگامہ ہے، یہ تو ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر چھوڑ کر چلے گئے تھے، معیشت اور سٹاک ایکسچینج کے اعشاریہ مثبت ہیں۔ وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی والے سب لوگوں کو این آر او مانگ رہے ہیں، ان کا لیڈر قیدی نمبر 804 منہ پر ہاتھ پھیر کر کہتا تھا اے سی بند کردوں گا، جیل میں بند کروا دوں گا، نیازی نے جس طرح بطور وزیر اعظم ظلم و ستم ڈھائے ہمارے وزیر اعظم نے خان کو دیکھا بھی نہیں، جو کیسز ہیں ان پر کوتوتوں و کرپشن کی وجہ سے ہے، وزیر اعلی مریم نواز نے آج تک کسی کیبنٹ میٹنگ میں کبھی نیازی پر بات نہیں کی، اپوزیشن لیڈر کہتا نیازی سے ملنے نہیں دیا جاتا تو نواز شریف سے وکلاء کے علاوہ کسی کو ملنے نہیں دیا جاتا تھا، ہم نے پی ٹی آئی سے سیاسی انتقام نہیں لیا۔ ایجنڈا مکمل ہونے پر پینل آف چیئر سمیع اللہ خان نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: ملک محمد احمد خان نے پنجاب اسمبلی اپوزیشن رکن پاکستان کی حکومتی رکن پی ٹی ا ئی نے کہا کہ کے خلاف

پڑھیں:

اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری ہوتی تقسیم

اسلام ٹائمز: فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔ خصوصی رپورٹ:

غاصب صیہونی ریاست کی فضائیہ کی پائلٹوں سے لے کر موساد کے افسران تک، جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج کی لہر اسرائیل میں اندرونی تقسیم اور دراڑ کی گہرائی کیسے ظاہر کرتی ہے؟ اس بارے میں عبرانی حلقوں کا خیال ہے کہ جنگ کے خلاف مظاہرے اور پٹیشن، جو فضائیہ کے اندر سے شروع کی گئی اور موساد جیسے حساس اداروں کے افسران میں شامل ہوتے گئے، اب نتن یاہو کی جنگی کابینہ کے خلاف اس احتجاج میں سول ملٹری اور سیاسی اشرافیہ بھی شامل ہو چکی ہے۔ یہ احتجاج اسرائیلی معاشرے میں دراڑ کی گہرائی، اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی و سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کے بڑھتے ہوئے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ صیہونی آبادکاروں کے درمیان بے چینی اور اضطراب کو ظاہر کرنیوالا ایک بے مثال منظرنامہ ہے، جس میں صیہونی حکومت کی جانب سے بڑھتے ہوئے مظاہروں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ احتجاج حکومتی، فوجی اور سیکورٹی اداروں سے نکل کر ماہرین تعلیم، ڈاکٹروں، مصنفین وغیرہ سمیت اعلیٰ طبقات تک پہنچ گیا ہے، یہ سب غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی قیدیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ احتجاج کی یہ لہر 9 اپریل کو شروع ہوئی تھی۔ جب 1200 سے زائد پائلٹوں اور فضائیہ کے ریزرو دستوں نے غزہ جنگ کے جاری رہنے اور غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے خلاف احتجاج کے طور پر خدمت جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔

معاشرے اور ریاست و حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضا:
 ملٹری برانچز کے مختلف افسروں اور اہلکاروں نے بھی پٹیشن پر دستخط کیے، جن میں فوج کے سابق چیف آف اسٹاف اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ بین گوریون، تل ابیب اور ایریل یونیورسٹیوں کے سابق ڈینز سمیت 1800 سے زائد افراد نے 11 اپریل کو ایک احتجاجی پٹیشن جاری کی۔ ان مظاہروں کی لہر برف کے گولے کی مانند تھی جس نے پورے صہیونی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور فضائیہ کے یونٹوں کے علاوہ بحریہ کے افسران، بکتر بند فوج، ریزرو فورسز اور ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹ، انٹرنل سیکیورٹی وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہم جنگ کو مسترد کرتے ہیں اور قیدیوں کی فوری واپسی چاہتے ہیں۔

لیکن ان مظاہروں میں صہیونی حکام کو سب سے بڑا جھٹکا یہ لگا کہ موساد کے اندر سے مختلف عناصر بھی جنگ کے خلاف مظاہروں کی تازہ لہر کا حصہ بن گئے۔ جہاں اسپائی سروس کے 250 سابق ملازمین بشمول اس کے تین سابق سربراہان نے ایک احتجاجی پٹیشن تیار کی اور جنگ کی مخالفت کا اعلان کیا۔ ایلیٹ یونٹس جیسے شیلڈگ، شیطت 13، اور ریٹائرڈ پولیس افسران اور سابق کمشنر بھی ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ ان پٹیشنز پر دستخط کرنیوالوں میں سب سے نمایاں موساد کے سابق سربراہان جیسے ڈینی یتوم، ابراہم حلوی اور تمیر پارڈو شامل ہیں۔

 اسرائیلی محکمہ صحت کے 3000 سے زائد ملازمین، نوبل انعام یافتہ شخصیات 1700 فنکاروں، اور سینکڑوں ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ، اس سلسلے میں احتجاجی پٹیشنز پر دستخط کر چکی ہیں، جس میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر، 3500 ماہرین تعلیم، 3000 تعلیمی شعبے کے ملازمین، اور 1000 طلباء ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ یہ پٹیشنز اب محض علامتی بیانات نہیں ہیں، بلکہ صیہونی حکومت کے لئے کئی دہائیوں سے اس کی بقا کا سب سے اہم عنصر سمجھنے والی اشرافیہ میں عدم اطمینان اور تقسیم اور دراڑ کی عکاسی ہے۔

قیدیوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کا اختتام اور جنگ کے خاتمے کے لیے واضح سیاسی نقطہ نظر کی عدم موجودگی صیہونی اشرافیہ کی احتجاجی مظاہروں کی لہر میں شمولیت اسرائیلی معاشرے میں گہری تقسیم کی علامت بن گئی ہے جو اسے اندر سے درہم برہم کر سکتی ہے۔ ان احتجاجی تحریکوں اور مظاہروں کی اہمیت کے حوالے سے عبرانی حلقوں کا کہنا ہے یہ رجحان اسرائیل مقتدرہ، اشرافیہ اور اداروں میں اندرونی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے اور گہری ہوتی سماجی تقسیم کے علاوہ سیاسی پولرائزیشن میں اضافے کا سبب ہے، فوجی اور سیکورٹی یونٹس کے ارکان کی جانب سے احتجاجی پٹیشنز پر دستخط اسرائیلی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں، کیونکہ اسرائیل کے فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اندر سے اتنے بڑے پیمانے پر داخلی مظاہرے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔

سیاسی اور عسکری اداروں میں عدم اعتماد کا بحران:
یہ تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنگ کے خلاف احتجاجی پٹیشنز اسرائیل کی سیاسی قیادت اور عسکری کمانڈروں پر اعتماد میں کمی کی عکاسی کرتی ہیں اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے خصوصاً اشرافیہ کا کابینہ اور فوج سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اسرائیلی فوج اور سول اداروں کی طرف سے جاری احتجاجی درخواستیں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے کی بے نتیجہ جنگ کے بعد سیاسی ذرائع سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ پر بڑھتے ہوئے احتجاج اور اندرونی دباؤ کی مثال ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ایک ریزرو جنرل اسرائیل زیو نے اعلان کیا ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والی درخواستیں سول نافرمانی تو نہیں، لیکن یہ اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی کابینہ کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں اور بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔

اس صہیونی جنرل، جو اس سے قبل انفنٹری اور پیرا ٹروپرز ڈویژن کے کمانڈر، غزہ ڈویژن کے کمانڈر اور اسرائیلی فوج کے آپریشنل شعبے کے سربراہ جیسے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، نے اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کی سائیٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں تاکید کی ہے کہ جن لوگوں نے احتجاجی درخواستوں پر دستخط کیے ہیں وہ فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اشرافیہ کے اہم لوگ ہیں، یہ اس جنگ میں اسرائیل کی سیاسی قیادت کی ناکامی پر گہری تشویش کا اظہار ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پٹیشنز پر دستخط کرنے والے نیتن یاہو پر بھروسہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے، ذاتی مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لیے اسرائیلیوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں، اور وہ غزہ سے قیدیوں کی واپسی کے لیے کوشش نہیں کر رہے، اس کا مطلب ہوگا واضح قومی اور فوجی اہداف کے بغیر جنگ جاری رہے گی، جس سے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں ہے۔

صیہونی فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اراکین اسمبلی کو اجلاس میں شرکت کا سخت پیغام غلطی سے پی ٹی آئی رکن کو بھی ارسال
  • جے یو آئی دیگر اپوزیشن اور پی ٹی آئی سے علیحدہ اپنا الگ احتجاج کرےگی، کامران مرتضیٰ
  • جے یو آئی، جماعت اسلامی اتحاد خوش آئند ہے، حکومت کو خطرہ نہیں، ملک محمد احمد خان
  • بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری قبول نہیں، دھرنا جاری رہے گا، رخسانہ انور
  • حکومتی ارکان مائنز اینڈ منرلز بل پر رو رہے ہیں کابینہ نے کیوں منظور کیا؟ اپوزیشن لیڈر کے پی
  • جے یو آئی اور جماعت اسلامی اتحاد سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج
  • اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری ہوتی تقسیم
  • اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری تقسیم
  • پنجاب میں اسپتالوں کی نجکاری کے خلاف ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال جاری