غزہ پر اسرائیلی حملوں میں تیزی ‘ مزید 95 فلسطینی شہید
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
Azad Trade Center Behind Civic Center Gulshan e Iqbal Block 14 Karachi., Pakistan
.ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
دنیا میں تیزی سے فروغ پا رہا سود سے پاک مالیاتی نظام
دنیا کی غالب تہذیبیں ہمیشہ مالیاتی وسائل پر قابض رہی ہیں۔ تاریخی طور پر یورپی طاقتوں نے اطالوی بینکوں کے سود پر مبنی قرض کے نظام کو عالمی مالیاتی معیار کے طور پر مسلط کیا، لیکن حالیہ دہائیوں میں اسلامی مالیات نے یہ تصور بدل کر رکھ دیا ہے۔
اسلامی معیشت آج فلاح و بہبود اور پائیدار ترقی کے لیے ایک موثر اور متبادل نظام کے طور پر سامنے آئی ہے، اور سود پر مبنی مغربی مالیاتی نظام کی اجارہ داری کو چیلنج کر رہی ہے۔ سعودی عرب اور ایران اسلامی مالیات کے سب سے بڑے مراکز ہیں، جہاں مارکیٹ شیئر 25 تا 30 فیصد ہے، اس کے بعد ملائیشیا (12 فیصد)، متحدہ عرب امارات (10 فیصد)، کویت اور قطر (5.5 فیصد)، ترکی اور بحرین (3.5 فیصد)، جبکہ انڈونیشیا اور پاکستان (2 فیصد) شامل ہیں۔
یہ ممالک نہ صرف اسلامی مالیات کی ترقی کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ جدت اور پائیدار اصولوں کے ذریعے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اسلامی معیشتی نظام مضبوط، قابل عمل اور عالمی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے مؤثر ہے۔ آج دنیا بھر میں اقتصادی بے یقینی کے دوران سود سے پاک مالیاتی نظام ایک امید کی کرن کے طور پر ابھر رہا ہے، جو نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل کے مالیاتی ڈھانچے میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔
اسلامی مالیاتی اصولوں پر مبنی یہ نظام تاریخی مالیاتی اقدار کی تجدید بھی ہے، جو مدینہ سے قسطنطنیہ تک عظیم اسلامی سلطنتوں کے مالیاتی ڈھانچے کی بنیاد تھی۔ اسلامی معاشی فکر مسلمانوں کے لیے مذہبی ذمہ داری ہے، تاہم یورپی سودی نظام نے وقت کے ساتھ اس کی جگہ لے لی۔ اب جب دنیا اقتصادی دباؤ اور غیر یقینی حالات سے دوچار ہے، یہ نظام انصاف، شراکت داری اور فلاح و بہبود پر مبنی ایک مؤثر متبادل کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
ملائیشیا کے محقق عبدالعظیم اصلاحی کے مطابق، اسلامی بینکاری کی ترقی ماضی کی روایات کی بازگشت نہیں بلکہ ایک جدید مالیاتی ماڈل کی علامت ہے، جو پائیدار ترقی، شراکت داری اور اخلاقی اصولوں کے امتزاج پر مبنی ہے۔
تاریخی طور پر اسلامی بینکاری کا آغاز مصر کے چھوٹے زرعی قصبے مت غمر سے ہوا، اور 1950 کی دہائی میں پاکستان کے دیہی علاقوں میں زمینداروں نے بغیر سود قرض دینے کے نیٹ ورک قائم کیے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں ملائیشیا نے بھی اسلامی مالیات کو فروغ دیا، جبکہ 1973 میں فلپائن میں امانہ بینک قائم ہوا، جو آج بھی فعال ہے۔
اسلامی بینکاری کے سب سے اہم سنگ میل میں 1975 میں نجی شعبے کے تحت پہلا جدید اسلامی بینک قائم ہوا، اور اسی سال اسلامی ترقیاتی بینک بھی وجود میں آیا۔ 1970 کی دہائی کے آخر اور 1980 کی دہائی میں خلیجی ممالک، پاکستان، ایران اور سوڈان نے اپنے بینکاری نظاموں کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا شروع کیا، جس سے دنیا بھر میں اسلامی بینکاری کی پذیرائی میں اضافہ ہوا۔
پاکستان میں بھی اسلامی بینکاری نے قدم جمایا اور آج یہ شعبہ روایتی اور ڈیجیٹل دونوں میدانوں میں ترقی کر رہا ہے۔ ایک نجی بینک کو مکمل طور پر اسلامی بینک میں تبدیل کرنے کا کامیاب تجربہ پاکستان میں موجود ہے، جسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے دیگر بینکوں کے لیے رہنمائی کے طور پر استعمال کیا۔
اسلامی بینکاری کا بنیادی مقصد سود سے پاک نظام ہے، اور یہ شراکت داری، ضمانتی سرمایہ کاری اور نفع و نقصان کی شراکت کے اصولوں پر مبنی ہے۔ آج یہ نظام کمزور اور قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے روایتی معیشتی ڈھانچے کو سہارا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور پائیداری، شمولیت اور اجتماعی ترقی کے لیے ایک مؤثر متبادل فراہم کرتا ہے۔ یہ دراصل سرمایہ داری اور اشتراکیت کا متوازن امتزاج ہے، جو اہلیت، مساوات اور دیانت کے اصولوں پر ترقی کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
اسلامی مالیات نہ صرف تاریخی اصولوں کی تجدید ہے بلکہ آج کی بدلتی ہوئی دنیا میں بھی ایک مضبوط، قابل عمل اور پائیدار مالیاتی متبادل کے طور پر اپنی جگہ بنا رہی ہے۔