Express News:
2025-04-22@14:29:57 GMT

ریاست اپنی رٹ کیسے قائم کرے

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

یوں لگتا ہے کہ جیسے خدا نخواستہ پاکستان ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے۔پچھلے چند ہفتوں سے دہشت گردی کی لہر آئی ہوئی ہے۔دہشتگردی کے واقعات اتنی کثرت اور تسلسل سے ہو رہے ہیں کہ جیسے ملک میں شرپسندوں کا راج ہو۔بنوں کینٹ، جعفر ایکسپریس اور نوشکی حملہ اتنے بڑے واقعات ہیں کہ مقتدر حلقوں کو جھنجھوڑنے کے لیے بہت کافی ہیں لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔مذمتی اور للکارنے والے بیانات کی بھرمار ہے لیکن یہ حملے رک نہیں رہے۔

ہمارا ملک تو1980کی دہائی سے اس مشکل سے گزر رہا ہے، اتنے لمبے تجربے کے ہوتے ہوئے ہمارے اداروں کو تو کسی کو ہلنے نہیں دینا چاہیے۔ ٹیکنالوجی کی تیز ترین ترقی اور اے آئی کی کرشماتی ایکٹوٹی نے دنیا بدل دی ہے۔ ان کی موجودگی میںمنصوبہ بندی اور کاروائی کا دائرہ بہت بدل گیا ہے۔شرپسند سوشل میڈیا کے نت نئے پلیٹ فارموں سے بخوبی آگاہ ہو کر اور انھیں استعمال کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں جب کہ ہمارے سرکاری اداروں اور اہلکاروں کی وہ Efficiency نہیں ہوتی۔وہ پہل کرنے اور سرپرائز دینے سے عاری صرف ری ایکٹ کرتے ہیں۔

کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا۔ابھی چند مہینے پہلے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر کھڑی اسی گاڑی پر حملہ ہوا تھا جس میں بہت سی جانیں گئیں۔اس مرتبہ جعفر ایکسپریس کوئٹہ ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہو کر کوئی ایک بجے جائے وقوعہ پر پہنچی۔ ڈرائیور جو معجزانہ طور پر بچ نکلا،اس کا کہنا ہے کہ سبی سے پہلے اوسی پور پہنچنے پر گاڑی کے انجن کے نیچے زوردار دھماکہ ہوا جس سے انجن پٹڑی سے اتر گیا اور اسے خاصا نقصان پہنچا۔ٹرین رک گئی تو ہر طرف سے فائرنگ کی زد میں آ گئی۔

مسافروں نے جان بچانے کے لیے بوگیوں کو اندر سے بند کر لیا لیکن حملہ آور دروازے توڑ کر اندر گھس آئے اور مسافروں کو دھمکا کر باہر نکالا۔بچ جانے والے کچھ مسافروں کے مطابق حملہ آوروں نے مسافروں کو مختلف گروپوں میں تقسیم کیا۔یوں ان مسافروں کو تین چار ٹولیوں میں کھلے آسمان کے نیچے بٹھا کر ان پر پہرہ لگا دیا۔وقفے وقفے سے کچھ مسافروں کو لے جا کر مار دیا گیا۔کوئٹہ سے ٹرین جب چلی تو اس میں عملے کے علاوہ425کے قریب مسافر تھے۔

سب سے پہلے حملے کی اطلاع چار کلومیٹر دور سبی سکاؤٹس کو پہنچی اور پھر یہ اطلاع انتظامیہ اور سیکیورٹی اداروں کو ملی۔سیکیورٹی ادارے فوراً حرکت میں آ گئے۔ایس ایس جی کی ضرار کمپنی جوAnti Terroristآپریشن میں انتہائی مہارت رکھتی ہے،وہ بھی وہاں پہنچ گئی اور سب نے مل کر صورتحال کا جائزہ لے کر مسافروں کو بازیاب کرانے کے لیے آپریشن شروع کر دیا۔آپریشن کم و بیش 36گھنٹے جاری رہا۔آپریشن اگلے دن 12مارچ کی شام اختتام پذیر ہوا۔354یرغمالیوں کو بازیاب کروا لیا گیا۔علیحدگی پسندوں کی ظالمانہ فائرنگ سے 26افراد شہید ہوئے۔18شہیدوں کا تعلق سیکیورٹی اداروں سے تھا۔آئی ایس پی آر کے مطابق33حملہ آور جہنم واصل ہوئے باقی وہاں سے نکل گئے۔وقوعہ کی تمام تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں ۔

بنوں کینٹ ، جعفر ایکسپریس اور نوشکی حملہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ناکامی ہے۔بنوں کینٹ پر اس سے پہلے بھی حملہ ہو چکا تھا اور کیونکر اتنا بڑا دوسرا حملہ ہوا۔حملہ آور دہشت گرد بارود سے بھری دو گاڑیاں لے کر خاصا فاصلہ طے کر کے بنوں کینٹ تک پہنچے۔راستے میں کئی چیک پوسٹیں تھیں لیکن نہ اس حملے کی بروقت اطلاع ملی، نہ ہی ان کو راستے میں کہیں پر روکا گیا۔کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر کھڑی جب اسی گاڑی کو پہلے نشانہ بنایا جا چکا تھا،پھر جعفر ایکسپریس پر حالیہ حملہ کیسے ہو گیا۔کیوں نہ اس کا تدارک کیا گیا۔نوشکی میں حملہ بھی بالکل ایسا ہی ایک جانکاہ اور انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔اس قافلے کو بھی سیکیورٹی مہیا نہیں کی گئی۔

شرپسندوں،دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کو ظالمانہ،مجرمانہ لیکن کامیاب کارروائیاں کرنے کے لیے ریکروٹمنٹ،فنڈنگ اورموثر پروپیگنڈے کی ضرورت ہوتی ہے۔حالیہ حملوں کے بارے میں ملنے والی تفصیلات سے عیاں ہوتا ہے کہ ان عناصر کو اب خاصی تعداد میں ریکروٹ منٹ کے لیے نفری دستیاب ہے۔اس کی وجہ ان کا موثر پروپیگنڈہ ہے جس سے لوگوں کے ریاست مخالف جذبات بھڑکتے ہیں۔خیبر پختون خواہ میں ٹی ٹی پی کی کارروائیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ اب دہشت گرد قبائلی اضلاع سے آگے بڑھ کر حملہ آور ہو رہے ہیں۔رات ہوتے ہی حکومت کی عملداری ختم ہو جاتی ہے۔حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ٹی ٹی پی نے کئی اضلاع کے لیے اپنے نام نہاد نمائندے اور گورنرز مقرر کر رکھے ہیں۔

پچھلے پچیس ،تیس سال سے دہشت گردی و علیحدگی پسندی پنپ رہی ہے اور ریاست الجھن کا شکار ہے کہ اس کی جڑ کاٹنے کے لیے آپریشن کیا جائے کہ نہیں۔ ریاست کے پاس واضح ٹارگٹ اور لائحہ عمل ہونا چاہیے کہ کیا کرنا ہے اور کتنے عرصے میں مکمل کرنا ہے۔صاف نظر آتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ صرف بیانات جاری ہو جاتے ہیں اور اگلے ہی دن شرپسند ایک اور مہلک کارروائی کر دیتے ہیں۔

شرپسندوں کو پتہ ہے کہ ان کارروائیوں سے ان کا کام نہیں ہوگا۔ان حملوں سے آزادی نہیں ملنے والی لیکن وہ بیان دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔وہ اپنے چند بندے مرواکر،پروپیگنڈے کے زور پر ایک بڑا Impact پیدا کر لیتے ہیں۔ریاست کی استطاعت بے حد و حساب ہے۔اگر ریاست کچلنے کا تہیہ کر لے تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی سر اٹھا سکے،لیکن اس کے لیے اٹل عزم کی ضرورت ہے۔حکومت کی رٹ قوت،طاقت اور violenceسے قائم ہوتی ہے۔خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور ہونے دیا جا رہا ہے،وہ غماز ہے کہ ریاست کا عزم نہیں ہے۔گو مگو کی حالت میں رٹ قائم نہیں ہوتی۔

لگتا ہے کہ ہمارے ڈی این اے میں کوئی خرابی ہے۔جب کوئی برائی جنم لے رہی ہوتی ہے تو ہم آنکھیں موندے بے فکر لیٹے رہتے ہیں لیکن جب وہی برائی عفریت بن کر ہم پر حملہ آور ہونے لگتی ہے تو تب ہم اس سے نبٹنے کا سوچتے ہیں۔ہم پرو ایکٹو ہونے کے بجائے صرف ری ایکٹ کرنے والے ہیں۔شرپسندوں کے ساتھ مذاکرات Position of strengthسے کرنے چاہیئیں۔شرپسندوں کی کمر توڑنی ہوگی تاکہ سول انتظامیہ پوزیشن آف سٹرنتھ سے بات کر سکے۔بلوچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ بھی فی الفور کرنا چاہیے۔

بلوچستان میں opinion makersجن کی تعداد کسی صورت ایک سو سے زیادہ نہیں ان پر کام کر کے انھیں پاکستان دوست بنانا ہو گا۔انٹیلی جنس کو جن مقاصد کے لیے کام میں لایا جائے وہی حاصل ہوتے ہیں۔

اگر counter intelligence,counter terrorism ,counter insurgency کے لیے استعمال میں لایا جائے تو اس فیلڈ میں کامیابی ملے گی اور اگر پولیٹیکل معاملات میں لگایا جائے گا تو پھر وہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔ہم نے فی الحال پولیٹیکل شعبے کو ترجیح دی ہوئی ہے،اس لیے دوسرے انتہائی اہم شعبے توجہ نہیں پا رہے۔ ہمارے ملک کی ناؤ پیچیدہ بھنور میں پھنس چکی ہے۔خدا کے واسطے صرف اورصرف پاکستانی بن کر اور سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اسے بھنور سے نکالیں ورنہ ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جعفر ایکسپریس مسافروں کو بنوں کینٹ حملہ ا ور کے لیے ا رہا ہے ہیں کہ

پڑھیں:

’اداکارہ نہیں بننا چاہتی تھی‘، خوشبو خان اس فیلڈ میں پھر کیسے آئیں؟

 فلم اسٹار خوشبو خان کا کہنا ہے کہ وہ اداکارہ نہیں بننا چاہتی تھیں انہیں زبردستی چائلڈ آرٹسٹ بنایا گیا۔

خوشبو خان حال ہی میں نجی ٹی وی کے شو کی مہمان بنیں جہاں انہوں نے مختلف موضوعات پر کھل کر بات کی۔ اداکارہ نے انکشاف کیا کہ انہوں نے 7سات سال کی عمر میں کام کرنا شروع کیا تھا اور 11 سال کی عمر تک وہ ہیروئن بن چکی تھیں۔

اداکارہ نے کہا کہ وہ کسی پر یا کسی چیز پر اعتماد نہیں کرتیں۔ جو کچھ بھی انہوں نے دوسروں کے لیے کیا، اس کا کبھی کوئی صلہ نہیں ملا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سی قربانیاں دیں لیکن بدلے میں صرف دھوکہ ہی ملا اور آخر میں وہ ایک ٹوٹے دل کے ساتھ تنہا رہ گئیں۔

خوشبو خان نے بتایا کہ انہوں نے کبھی اداکارہ بننے کا خواب نہیں دیکھا تھا، وہ ہمیشہ ایک استاد بننا چاہتی تھیں۔ مگر بچپن میں انہیں زبردستی چائلڈ آرٹسٹ بنا دیا گیا اور پھر یہ سب ایک معمول بن گیا۔ وہ مسلسل کام کرتی رہیں اور انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنے کا بھی موقع نہیں ملا، جس کا آج بھی انہیں افسوس ہے۔ انہوں نے اپنے پورے خاندان اور یہاں تک کہ کزنز تک کو پال پوس کر بڑا کیا۔ وہ سب کی مالی مدد کرتی رہیں اور آج وہ سب اپنی زندگیوں میں سیٹلڈ ہیں، جبکہ وہ خود اکیلی رہ گئیں۔

اداکارہ کے مطابق وہ پچھلے چند سالوں میں ڈپریشن کا شکار رہی ہیں۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھی رہتی تھیں۔ ان کا دل چاہتا کہ وہ زور زور سے روئیں، اور وہ ایسا ہی کرتی تھیں۔ انہیں یہ تک نہیں معلوم تھا کہ یہ ڈپریشن ہے۔ انہوں نے خود ہی اس کیفیت سے نکلنے کی کوشش کی اور باہر آئیں۔ وہ آج بھی تنہا ہیں اور اب اس تنہائی کو شدت سے محسوس کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ویٹرن اداکار آصف خان اپنی اداکارہ بہو سے ناراض

 واضح رہے کہ خوشبو خان کئی سالوں سے شوبز انڈسٹری کا حصہ ہیں۔ وہ ڈراموں، فلموں اور تھیٹر میں کام کر چکی ہیں۔ خوشبو خان کی شادی اداکار ارباز خان سے ہوئی ہے، جو خود بھی ایک فلم اسٹار ہیں، اور اس جوڑے کے دو بچے ہیں۔

اس سے قبل ارباز خان کے والد آصف خان کا کہنا تھا کہ خوشبو سے شادی ان کے بیٹے ارباز کی بڑی غلطی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ 5 سال ہوگئے ان کی بیٹے بہو سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔

ویٹرن اداکار نے کہا کہ وہ اس شادی کے خلاف تھے لیکن ارباز خان نے پھر بھی کرلی اور اب اس ماحول میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیر اب جو ہوگیا سو ہوگیا، اب تو اس کے 2 جوان بچے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ارباز خان پاکستانی فلمیں تھیٹر خوشبو خان

متعلقہ مضامین

  • فلم اسٹار خوشبو خان نے اپنی زندگی کے دکھوں سے پردہ اٹھا دیا
  • ’اداکارہ نہیں بننا چاہتی تھی‘، خوشبو خان اس فیلڈ میں پھر کیسے آئیں؟
  • پیپلز پارٹی کو حکومت سے علیحدہ ہونا پڑا تو 2 منٹ نہیں لگائیں گے، ناصر حسین شاہ
  • ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب 
  • ’بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے‘، برسوں پیسہ جوڑ کر فراری خریدنے والے کی خوشی چند منٹوں کی نکلی
  • بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری قبول نہیں، دھرنا جاری رہے گا، رخسانہ انور
  • بلاول کو پنجاب کے کسان کا خیال آگیا لیکن سندھ کے کسان کی بات نہیں کی، عظمی بخاری
  • ریاست اپنی جگہ لیکن کسی کی زندگی سےکھیلناقابل قبول نہیں:عظمیٰ بخاری
  • مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟
  • فیکٹ چیک: کیا سابق چینی وزیر اعظم نے واقعی سزائے موت کی تجویز دی؟