اسرائیل کو مزید ظلم سے باز رکھا جائے
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
اسرائیل کی فورسز نے غزہ کو دوبارہ دو حصوں شمالی اور جنوبی غزہ میں تقسیم کردیا ہے اور فلسطینوں کی نقل و حمل محدود کردی گئی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے حالیہ دنوں میں شروع کیے جانے والے تازہ حملوں میں فلسطینی شہدا کی تعداد ساڑھے چار سو تک پہنچ گئی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں نئے فضائی حملے صرف ابتدا ہیں، جنگ بندی کے لیے بات چیت صرف شعلوں کے درمیان ہی ہوگی۔
غزہ میں اسرائیل کی جارحیت جاری ہے۔ اسرائیل کا ظلم اب جواز اور عدم جوازکی بحث سے آگے نکل چلا۔ ظلم کا جواز تو خیر ہر صورت میں بے معنی بات ہے۔ آج معاملہ حماس کا نہیں، ان مظلوموں کا ہے جنھیں ان کے گھروں میں مارا جا رہا ہے۔ ان بچوں کا ہے جو جنگ کے ہجے بھی نہیں جانتے۔ ان اسپتالوں کا ہے جن پر بم برسائے جا رہے ہیں۔
ان بستیوں کا ہے جنھیں تاراج کیا جا رہا ہے۔ ان بے گناہوں کا ہے جنھیں گھر سے بے گھر کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے جواز اور عدم جواز کی بحث بے معنی ہے۔
بلاشبہ جب اسرائیل کی بے جا حمایت اور مدد جاری ہو، تو اسے من مانی کی عادت پڑ جانا فطری بات ہے۔ اسرائیل نے جنگ بندی خود توڑی، مرضی سے جنگ بندی قبول کی تھی، اسے خود ہی توڑ دیا ہے۔ اسرائیل نے امریکا کی مدد سے ایسی جنگ لڑی ہے جس میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور تقریباً سارا یورپ اس کی پشت پر رہا ہے، اس لیے اسرائیلی قائدین کا دہن بگڑنے پر حیرت نہیں ہے۔ اسرائیل کے وجود میں لانے سے لے کر اب تک اس کے سرپرستوں نے جس ناجائزکاری کو ایک اصول کے طور پر اپنا رکھا ہے۔
اس ناجائز کاری کا سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں اور عرب دنیا کو ہوا ہے۔ فلسطینی مغربی کنارے کے ہوں یا یروشلم اور غزہ کے، اسرائیل نے جب بھی کند چھری سے ذبح کرنا چاہا، اس کے سرپرستوں نے اسرائیل کی سہولت کاری کا خوب اہتمام کیا۔ تا آنکہ غزہ میں اسرائیل کی سات اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی جنگ کی نوبت آ گئی۔
اسرائیل کی ہر جائز و ناجائز خواہش و کوشش اور سازش و کاوش کے ساتھ یہ سرپرست کھڑے ہی نہیں پوری طرح متحرک و سرگرم نظر آئے۔ ساڑھے پندرہ ماہ تک اسرائیلی فوج نے غزہ میں خوفناک تباہی مچائی اور تقریباً پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ 50 ہزار تک فلسطینیوں کو قتل کر دیا۔ فلسطینی بچوں اور عورتوں کا قتل عام سب سے زیادہ کیا، لیکن جنگ بندی کے مرحلے تک پہنچنے کے بعد، جنگ بندی معاہدے کو توڑ کر دوبارہ وحشیانہ بمباری کی کارروائیوں اور ناجائز ارادوں میں اسرائیل و امریکا قدم بہ قدم اور ساتھ ساتھ ہیں۔
جو چہرہ ڈونلڈ ٹرمپ نے خود اپنا اور امریکا کا مشرق وسطیٰ کے لیے دکھانا چاہا ہے وہ ایک آتش بردار کا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جنھوں نے محض چند ہفتے قبل کہا تھا کہ وہ دنیا سے جنگوں کا خاتمہ کردیں گے۔ لیکن خود ہی اسرائیل کو آگ کا ایندھن فراہم کردیا ہے۔ غزہ کی پٹی تو پہلے ہی امریکی مدد سے ملبے اور راکھ کا ڈھیر بن چکی ہے۔
اس کے علاوہ لبنان، شام کو بھی خاکستر کرنے کی مہم آگے بڑھ چکی۔ یمن کی بربادی ہو چکنے کا بھی پورا خطہ گواہ ہے۔ عراق کو تباہی کے ہتھیاروں کے نام پر تباہ کیا جا چکا ہے۔ ایران کے لیے مناسب وقت کا انتظار ہے۔ افغانستان اور پاکستان کو باہم دست و گریبان کرنے میں مزید کسی کاوش کی ضرورت نہیں۔ تو باقی چند مملکتیں موجود ہیں جن کے ہاں اندوختے اور ایندھن کی خوب فراوانی ہے۔ ایسے میں امریکی جہنم کے دروازے مشرق وسطیٰ میں کھول دینے کا ایسا کھلا اعلان خوفزدگان کی خوفزدگی میں مزید اضافہ کیوں نہیں کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کو ’مشرق وسطیٰ کا ریویرا‘ (واٹر فرنٹ پارک) بنانے کا خیال غیر متوقع نہیں تھا ۔
ایک امریکی صدر کی جانب سے پوری آبادی کو نسلی طور پر ختم کرنے یا یوں کہیے کہ جبری طور پر نکالنے کی حمایت کرنا شرمناک ہے۔ پھر اس کو کسی بیچ ریزورٹ سے جوڑنا، کیسی دیدہ دلیری ہے۔ یہ سچ ہے کہ لبنان کے پرانے خوش حال دنوں کی طرح غزہ میں ترقی کے امکانات تھے لیکن جنگ، شدت پسندی، اسرائیل اور حماس کی بدنیتی پر مبنی حکمرانی نے اس کو فلسطینی عوام کے فائدے کے لیے اسے ممکن نہیں ہونے دیا۔ فلسطینی جن کے گھروں کو بم باری کا نشانہ بنایا گیا، انھیں خوف ہے کہ ان پر ایک اور قیامت ٹوٹنے والی ہے۔
تازہ ترین مثال غزہ سے فلسطینیوں کو مصر اور اردن میں منتقل کرنے کے ٹرمپ منصوبے اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے جنگی جرائم کی بنیاد پر وارنٹ گرفتاری جاری کرنے والی بین الاقوامی فوجداری عدالت پر امریکا کی لگائی گئی انتقامی پابندیوں کی بھی ہے۔ ادھر حماس نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج شمالی غزہ کے بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھروں میں واپس جانے سے روک کر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کررہی ہے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان کھلی جنگ ابھی ختم نہیں ہوپائی کہ اسرائیلی جارحیت کا شکار لبنان کے بعد اب یمن بھی ہوگیا ہے۔ صیہونیت تو فلسطین، لبنان، اردن،عراق، ایران، شام، مصر، ترکی اور مشرقی سعودی عرب کو ملا کر گریٹر اسرائیل کی دعویدار ہے ۔ 1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو الگ الگ ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی اور بیت المقدس کوایک بین الاقوامی شہر قراردیا گیا۔ لیکن یہودی دانشوروں نے کہا تھا کہ ’’فلسطین کی تقسیم غیرقانونی ہے۔ یروشلم ہمارا دارالحکومت تھا اور ہمیشہ رہے گا ۔‘‘
آج کے اسرائیل میں ایک زیادہ حقیقت پسندانہ سوچ یہ ہے کہ اس میں اسرائیل کی سرحدوں سے باہر کے وہ علاقے مغربی کنارے کے علاقے، غزہ اور گولان کی پہاڑیاں بھی شامل ہیں جن پر اس نے طویل عرصے سے قبضہ کر رکھا ہے۔
یقینا اسرائیلی فطرت اور تاریخ پر نظر رکھنے والے اسے گریٹر اسرائیل کی منزل کی طرف بغیر لڑے بڑی پیش قدمی اور فتح مندی کا مظہر ہی سمجھیں گے۔ جیسا کہ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا شام کے اندر سفر گولان کی پہاڑیوں سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جس ’’نارملائزیشن‘‘ کا لبادہ اسرائیل اب نئے سرے سے اوڑھ رہا ہے اس کی کوکھ سے خطے میں حد سے زیادہ ’’ ابنارملیسی‘‘ جنم لے گی۔ جو اس معاملے میں بے خبری یا تجاہل کا شکار ہیں، ان کے لیے بھی یہ کافی ہے کہ غزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے نفاذ کے ساتھ ہی اسرائیل نے امریکی صدر ٹرمپ کی قیادت میں گنگا الٹی بہانا شروع کر دی ہے کہ غزہ کے فلسطینی غزہ کو چھوڑ جائیں۔ کیا یہ اطلاق 1948 میں یورپ و امریکا سے لا کرفلسطینی سرزمین پر بسائے جانے والے یہودیوں پر نہیں ہوتا۔
اس بڑھی ہوئی یہودی آبادی نے خطے میں سکون و چین اور امن و استحکام کا کوئی لمحہ نہیں آنے دیا۔ اس لیے یورپ و امریکا یہودی آبادکاری کے اس تحفے کو فلسطین اور مشرق وسطیٰ سے واپس لے جائیں یا کم از کم شرمندہ ہوں، لیکن کہنا یہ شروع کر دیا گیا ہے کہ فلسطینی غزہ بھی چھوڑ کر مصر، اردن یا سعودی عرب چلے جائیں۔
یہ اب کوئی مذہبی مقدمہ نہیں رہا۔ یہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ ہے۔ یہ مسلمانوں کے لیے زیادہ باعثِ اذیت ہے تو اس کا وجہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ اس فکری یکسوئی کے بعد ایک مشکل سوال سامنے آ کھڑا ہوتا ہے کہ اس ظلم کو کیسے روکا جائے؟ صورتحال اقوام عالم کے سامنے ہے۔ امریکا اعلانیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔
مغربی یورپ بھی اسرائیل کا حامی ہے جب کہ روس ، بھارت اور چین بھی مفادات کے تابع ہیں۔ گویا ایک طرف تنہا فلسطینی ہیں اور دوسری طرف امریکا ہے ۔ دوسری طرف کوئی ریاست فلسطینیوں کے لیے ایک حد سے آگے نکل کر کوئی اقدام پر آمادہ نہیں۔
وہ بس اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کر رہے ہیں، یا فلسطینیوں کو مرہم پٹی کا سامان بھیج رہے ہیں۔سیدھی بات ہے کہ وہ اسرائیل اور امریکا کے ساتھ لڑنا نہیں چاہتے۔ایسے حالات میں فلسطینیوں کے پاس بظاہر کوئی راستہ نہیں ہے ۔ غزہ ہاتھ سے نکلتا نظر آتاہے ، آج اگر عرب ممالک اور مسلم دنیا ، دیگر اقوام کے ساتھ مل کر غزہ فلسطنیوں کو دلوا دیں تو یہی بڑی کامیابی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو میں اسرائیل اسرائیل نے اسرائیل کی کا ہے جن کے ساتھ کہ غزہ کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
غزہ پٹی: اسرائیلی حملوں میں مزید نوے افراد ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے بتایا ہے کہ تازہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مزید نوے فلسطینی مارے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ہلاکتیں گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں کے دوران کیے گئے حملوں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اسرائیلی دفاعی افواج حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔
ہلاک ہونے والے افراد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ غزہ پٹی میں وزارت صحت کے مطابق کچھ افراد ایسے علاقوں میں بھی مارے گئے ہیں، جو اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی ہمدردی کے زون قرار دیے گئے تھے۔
جنوبی شہر خان یونس میں بھی کم از کم گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس شہر کے علاقے مواسی کو اسرائیل نے انسانی ہمدردی کا زون زون قرار دیا ہوا ہے۔
(جاری ہے)
یہاں عارضی بنائی گئی پناہ گاہوں میں لاکھوں بے گھر فسلطینی رہائش پذیر ہیں۔ تاہم اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جنگجو شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، اس لیے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری عسکریت پسند حماس پر ہی عائد ہوتی ہے۔ انسانی بحرانی المیہ شدید ہوتا ہوااکتوبر 2023ء سے جاری جنگ نے غزہ کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں وہاں کے باسی خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت سے تقریبا محروم ہو چکے ہیں۔
اس مسلح تنازعے کے باعث غزہ پٹی کی نوے فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ لاکھوں افراد خیموں یا تباہ شدہ عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔نئے اسرائیلی فضائی حملے ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں، جب امدادی تنظیمیں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر عائد مکمل ناکہ بندی پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ غزہ پٹی میں گزشتہ چھ ہفتوں سے تمام اشیائے خور و نوش اور دیگر ضروریات زندگی کی رسد بند ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ہزاروں بچے غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں اور بیشتر افراد بمشکل ایک وقت کا کھانا کھا پا رہے ہیں کیونکہ خوراک کے ذخائر ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
محاصرے اور جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار افراد خوراک کی شدید قلت کے باعث سمندری کچھوؤں کا گوشت کھانا شروع ہو گئے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق کچھ مجبور خاندانوں نے پروٹین کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر ایسا اقدام اٹھایا ہے۔
جنگ بندی کی جامع ڈیل چاہتے ہیں، حماسدریں اثنا حماس نے فائر بندی کی اسرائیلی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ اس عسکریت پسند تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ کسی جزوی ڈیل کو قبول نہیں کرے گی بلکہ وہ جنگ بندی کا ایک جامع معاہدہ چاہتی ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کی نئی کوششیں جاری ہیں لیکن حماس کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی معاہدے کو قبول کرے گی جو جنگ کا مکمل خاتمہ کرے۔
غزہ میں حماس کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا، ''ہماری تحریک (حماس) جنگ بندی کے ایک ایسے معاہدے پر فوری مذاکرات کے لیے تیار ہے، جس کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی طے شدہ تعداد کی رہائی کے بدلے یرغمالیوں کی آزادی ممکن ہو سکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس نئی ڈیل کے تحت ہماری عوام کے خلاف جنگ کا مکمل خاتمہ ہو، اسرائیلی افواج غزہ سے مکمل طور پر نکل جائیں اور غزہ پٹی کی تعمیر نو کا آغاز ہو۔
‘‘ اسرائیل نے کیا پیشکش کی تھی؟اسرائیل 45 دن کی جنگ بندی کے بدلے مزید 10 یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ تجویز بھی ہے کہ اس مدت میں فریقین مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات کریں گے۔
اسرائیلی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے تاہم یہ عسکری گروہ اس مطالبے کو مسترد کر چکا ہے۔
مذاکرات ابھی تک تعطل کا شکار ہیں جبکہ غزہ میں لڑائی جاری ہے۔
اس صورتحال میں غزہ کے عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تنازعہ کیسے شروع ہوا تھا؟غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق دو ماہ کی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد دوبارہ شروع کیے گئے اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں میں اب تک کم از کم 1,691 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سات اکتوبر سن 2023ء سے جاری اس جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اکاون ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
سات اکتوبر سن 2023ء کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سرزمین پر حملہ کرتے ہوئے اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1,218 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ ڈھائی سو سے زائد افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔ اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج نے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی شروع کر دی تھی۔ یورپی یونین، امریکہ اور متعدد دیگر مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
ادارت: عرفان آفتاب، مریم احمد