مولا علیؑ، فتنہ الخوارج اور پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ہمارے حکمرانوں اور سکیورٹی اداروں کو اہل کرم کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ یہ ہمیشہ وطن کی سالمیت و حفاظت کیلئے گریز نہیں کرتے، بلکہ سب سے، جو کام سکیورٹی اداروں اور فورسز نے کرنا ہوتا ہے، اسکو بھی بخوبی کرتے ہیں، اسوقت جب افغانستان کیساتھ بارڈرز کے شدید مسائل، پاکستان کے دشمنوں حتیٰ بلوچ عسکریت پسندوں کو بھی افغانستان کی نام نہاد اسلامی امارت پناہ دیئے ہوئے ہے تو دیگر تمام قبائلی علاقوں کی بہ نسبت کرم ایجنسی کے وہ علاقے جن میں طوری و بنگش شیعہ قبائل آباد ہیں، محفوظ ترین ہیں۔ ان علاقوں میں افواج و سکیورٹی اداروں کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ یا ڈر نہیں، جبکہ دیگر ایریاز میں افواج و فورسز کی موومنٹ محدود ہوتی ہے اور انکی سکیورٹی چوکیوں و پوسٹس پر خارجیوں کے حملے ہوتے ہیں، جنکو مقامی قبائیلیوں کی بھرپور مدد و سہولت کاری حاصل رہتی ہے۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
تاریخ اسلام میں ایک نام خوارج کا ملتا ہے، یہ خوارج کون تھے، ان کے کونسے کام ایسے تھے کہ یہ باعث نفرین ہوگئے اور آج چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی انہیں ملعون سمجھا جا رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد اس امت پر آنے والی مصیبتوں میں سے ایک خارجی فرقے کا ظہور بھی تھا، جنہوں نے اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکفیر کرکے ان کا خون حلال قرار دیا اور اختلاف کو لڑائی اور خونریزی اور عزتوں کی پامالی میں بدل دیا، وہ بے گناہوں کا خون بہاتے اور توحید پرست مسلمانوں کو کافر قرار دیتے تھے۔ حتیٰ کہ امام علی بن ابو طالبؑ کو بھی کافر کہہ دیا اور پھر آپؑ کو شہید کر دیا، حالانکہ آپ وہ تھے، جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "تمہارا میرے ہاں وہی مرتبہ ہے، جو ہارون علیہ الصلاۃ والسلام کا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے ہاں تھا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔"
اس فرقہ کے خطرات میں سے ایک خطرہ یہ ہے کہ وہ ظاہراً نماز اور روزہ کثرت سے ادا کیا کرتے تھے تو سادہ لوح لوگ فریب میں آجاتے اور سمجھتے کہ وہی حق پر ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف ہمیں خبردار کیا ہے۔ صحیح بخاری میں امام علی بن ابو طالب ؑ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: "عنقریب آخری زمانے میں کچھ ایسے لوگ مسلمانوں میں نکلیں گے، جو نوعمر بیوقوف ہوں گے (ان کی عقل میں فتور ہوگا) ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے (یعنی حدیث شریف) وہ پڑھیں گے، مگر درحقیقت ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے، جیسے تیر شکار کے جانور سے پار نکل جاتا ہے۔"
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ مولائے کائنات امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو مسجد میں شہید کرنے والا ابن ملجم ایک خارجی تھا، جسے اس کے گروہ نے یہ ٹاسک سونپا تھا، تاریخ کی ورق گردانی سے یہ سامنے آتا ہے کہ ویسے تو رسول خداؐ کی مخالفت کرنے والے بھی خوارج کی ذیل میں آتے ہیں، مگر باقاعدہ طور پر ان کا آغاز جنگ صفین کے موقع پر ہوا، خَوارِج دراصل امام علیؑ کی سپاہ میں سے تھے اور جنگ صفین میں حضرت علیؑ پر نعوذ باللہ کفر کا الزام لگاتے ہوئے آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہیں خلیفہ مسلمین کے خلاف قیام کرنے کی بنا پر خوارج کا نام دیا گیا ہے۔ یہ لوگ حکمیت کو قبول کرنے اور حضرت علیؑ کو کافر نہ سمجھنے والوں کو کافر سمجھتے ہیں۔
امیر المومنین نے چونکہ کوفہ کو اپنا دارالخلافہ بنایا تھا اور مسجد کوفہ میں آپ امور حکومت انجام دیتے تھے، یہ لوگ مسجد کوفہ میں امام علیؑ کے خلاف نعرہ بازی اور آپ کو قتل کی دھمکیاں دیتے تھے۔ حکمیت کو قبول کرنے کی وجہ سے یہ لوگ امام علیؑ کے سر سخت دشمن بن گئے اور عبداللہ بن وہب کی بیعت کرکے کوفہ سے نکل کر نہروان چلے گئے اور راستے میں بہت سے بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا۔ فقط اس بات پر کہ وہ مولائے علی ؑ کو حق پہ سمجھتے تھے۔ امام علیؑ نے اتمام حجت کرنے کے بعد سنہ 38 ہجری کو ان کے ساتھ نہروان کے مقام پر جنگ کی، جس میں ان کی اکثریت ماری گئی، لیکن ان میں سے بعض زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ خوارج کے مختلف فرقے تاریخ میں منقرض ہوئے ہیں اور ان میں صرف فرقہ اباضیہ جن کے عقائد تقریباً دوسرے مسلمانوں کے قریب ہیں، عمان اور الجزائر کے بعض مناطق میں اب بھی موجود ہیں۔
پاکستان کی حکومت نے تمام وزارتوں اور سرکاری محکموں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ دہشت گرد گروہ بالخصوص کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے "فتنہ الخوارج" جیسے الفاظ کا استعمال کریں۔ پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کچھ عرصہ قبل ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے حال ہی میں ایک اہم مراسلے کے ذریعے ٹی ٹی پی کو "فتنہ الخوارج" کے نام سے نوٹیفائی کیا ہے، جس کے بعد اس دہشتگرد تنظیم کو اسی نام سے لکھا اور پکارا جائے گا، کیونکہ "یہ ایک فتنہ ہے اور اس کا دین اسلام اور پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔" حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں پاکستان کی وزارت داخلہ نے تمام سرکاری محکموں کو یہ بھی احکامات دیئے کہ تمام سرکاری دستاویزات میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں سے منسلک افراد کے لیے "مفتی" یا "حافظ" جیسے القابات نہیں استعمال کیے جائیں بلکہ ان کے ناموں سے پہلے لفظ "خوارج" کا استعمال کیا جائے۔
آج کل ہمارے ملک میں فتنہ الخوارج کا سدباب اور صفائی عروج پر ہے، حکومت اور اپوزیشن سمیت ادارے بھی ان کے خلاف موثر کارروائی کرنے پر تقسیم نظر آتے ہیں۔ ان فسادیوں کے خلاف مختلف ادوار میں آپریشن کیے جاتے رہے ہیں، مگر چونکہ ان پر پس پردہ عالمی قوتیں کافرما ہیں تو ان کا مکمل سدباب کبھی نہیں ہوسکا، بلکہ ہر آپریشن نامکمل ہی رہا ہے، کوئی بھی کام شروع کرکے اگر نامکمل چھوڑ دیا جائے تو اس کے فائدے کم اور نقصان زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی ہمارے ملک کیساتھ ہو رہا ہے کہ جب بھی ان کے خلاف موثر کارروائی یعنی آپریشن کا آغاز ہوا تو ان کے سہولت کار باہر نکل آئے اور مختلف بہانوں اور الزامات سے آپریشن پر اثر انداز ہوئے، جس سے خارجیوں کے حوصلہ بڑھ جاتے ہیں، ان کو سانس مل جاتا ہے اور وہ نئی تیاری کرکے زیادہ خطرناک انداز میں فتنہ و فساد اور شر و دہشت گردی کا کھیل شروع کر دیتے ہیں۔
اس وقت اگرچہ بلوچستان کے بیشتر ایریاز، kpk کے سابق قبائلی علاقوں اور ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں وغیرہ دہشت گردوں، خارجیوں کی دہشت گردیوں اور ملک دشمن کارروائیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور مسلسل سکیورٹی فورسز و عوام کو اپنے شر و فساد کے ذریعے مذموم مقاصد کو پورا کیا جا رہا ہے، مگر سب سے زیادہ سابق کرم ایجنسی کے پاراچنار کے خلاف گذشتہ چھ ماہ سے تسلسل سے ان خوارج کی کارروائیاں حکمرانوں اور سکیورٹی اداروں کیلئے کھلا چیلنج بن چکا ہے، بلکہ دہشت گردوں کو دی جانے والی ڈھیل سے ایک طرف کرم ڈسٹرکٹ کے نہتے، معصوم اور بے گناہ لوگوں کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف حکمرانوں اور سکیورٹی اداروں کے کردار پر سوال بھی اٹھے ہیں، جو بالکل جائز ہیں کہ چند کلومیٹر روڈ کی بندش اور خوارج کی منہ زوری، بدمعاشی اور کھلے عام لوٹ مار کے بعد یہ سوال اٹھنا فطری بات ہے۔
ابھی حکومت و فورسز نے ان علاقوں جن میں بگن، اوچت، مندوری شامل ہیں، ان کو خالی کرنے کا کہا ہے، تاکہ دہشت گرد خوارج کے خلاف بھرپور کارروائی کی جاسکے اور عام لوگ متاثر نہ ہوں۔ حقیقت میں یہاں اب عام لوگ نہیں رہتے، یہ سب مجرم ہیں، اس لیے کہ سب کے سب پاراچنار کی سینکڑوں ٹرکوں کے محصور پاراچناری طوری و بنگش قبائل کے اربوں روپے کے ذاتی سامان کو لوٹنے، انہیں جلانے اور بے گناہ ڈرائیورز کے گلے کاٹنے میں ملوث ہیں۔ ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی ہونا چاہیئے اور انہیں کسی دوسرے ایریا میں جا کر کھل کھیلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔ چھ ماہ تک مسلسل اہل کرم نے جس صبر و استقامت سے مصائب و مشکلات کو جھیلا ہے اور خارجیوں کے سامنے نہیں جھکے، اس کو سلام پیش کرنا چاہیئے۔
ہمارے حکمرانوں اور سکیورٹی اداروں کو اہل کرم کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ یہ ہمیشہ وطن کی سالمیت و حفاظت کیلئے گریز نہیں کرتے، بلکہ سب سے، جو کام سکیورٹی اداروں اور فورسز نے کرنا ہوتا ہے، اس کو بھی بخوبی کرتے ہیں، اس وقت جب افغانستان کے ساتھ بارڈرز کے شدید مسائل، پاکستان کے دشمنوں حتیٰ بلوچ عسکریت پسندوں کو بھی افغانستان کی نام نہاد اسلامی امارت پناہ دیئے ہوئے ہے تو دیگر تمام قبائلی علاقوں کی بہ نسبت کرم ایجنسی کے وہ علاقے جن میں طوری و بنگش شیعہ قبائل آباد ہیں، محفوظ ترین ہیں۔ ان علاقوں میں افواج و سکیورٹی اداروں کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ یا ڈر نہیں، جبکہ دیگر ایریاز میں افواج و فورسز کی موومنٹ محدود ہوتی ہے اور ان کی سکیورٹی چوکیوں و پوسٹس پر خارجیوں کے حملے ہوتے ہیں، جن کو مقامی قبائیلیوں کی بھرپور مدد و سہولت کاری حاصل رہتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حکمرانوں اور سکیورٹی اداروں سکیورٹی اداروں کو فتنہ الخوارج میں افواج خارجیوں کے ان کے خلاف امام علی ہے اور رہا ہے کو بھی کے بعد اور ان
پڑھیں:
یہودیوں کا انجام
دنیا ایک بار پھر ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں حق اور باطل کی جنگ واضح ہو چکی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر بہنے والا معصوم خون، بچوں کی لاشیں، ماں کی آہیں اور بے گھر ہوتے خاندان ہمیں ایک بار پھر اس یاد دہانی کی طرف لے جا رہے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو اللہ کی پکڑ بھی قریب آ جاتی ہے۔ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ ایک روحانی اور ایمانی آزمائش بھی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق یہودیوں کا ماضی، حال اور مستقبل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی سرکشی، ان کی نافرمانیاں اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے ساتھ ان کے سلوک کا بارہا ذکر آیا ہے۔ ان کی فطرت میں دھوکہ، فریب، اور سازش شامل ہے۔ انہوں نے نہ صرف اللہ کے انبیا ء کو جھٹلایا بلکہ انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک وقت کی نشاندہی فرمائی ہے جب یہودیوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ اس وقت حق اور باطل کا آخری معرکہ ہو گا جسے ’’ملحمہ کبریٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس معرکے میں مسلمان غالب آئیں گے اور اللہ کے وعدے کے مطابق زمین پر عدل اور انصاف قائم ہو گا۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے ۔ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں، اور مسلمان انہیں قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے مگر وہ درخت اور پتھر بھی پکار اٹھیں گے: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آئو اور اسے قتل کرو، سوائے ’’غرقد‘‘ کے درخت کے، کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔(صحیح مسلم: 2922)
یہ حدیث نہ صرف مستقبل کے ایک یقینی واقعے کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یہودیوں کا انجام عبرتناک ہو گا۔ وہ جہاں بھی چھپیں گے قدرت انہیں بے نقاب کر دے گی۔یہ حدیث ہمیں نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ یہودیوں کا انجام تباہی ہو گا بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ اس معرکے میں اللہ کی قدرت براہِ راست کام کرے گی۔ یہاں تک کہ جمادات(درخت اور پتھر) بھی بول اٹھیں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک الہامی سچائی ہے جس پر ہمیں کامل یقین رکھنا ہے کیونکہ یہ بات بات دنیا کے سب سے عظیم ، سچے انسان اور خاتم النبیین جناب محمد الرسول اللہ نے ارشاد فرمائی ہے۔
فلسطین میں ہونے والی نسل کشی انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب بن چکی ہے۔ ہزاروں بچوں، عورتوں اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام، ہسپتالوں، مساجد اور سکولوں پر بمباری، اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جنگ صرف زمینی نہیں بلکہ ایمانی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ وہ طاقت کب، کہاں اور کیسے مسلمانوں کو حاصل ہو گی جس کے ذریعے وہ یہودیوں کو شکست دیں گے؟ اس کا جواب بھی قرآن اور سنت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں’’ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم‘‘ (سورۃ محمد: 7)
ترجمہ: اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔یعنی جب مسلمان دین اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوں گے، جب وہ فرقوں، تعصبات، اور دنیاوی لالچ سے نکل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں گے تب ہی اللہ کی نصرت نازل ہو گی۔میرا رب وہ ہے جو تقدیر بھی بدلتا ہے اور حالات بھی۔ غم کا موسم کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ مگر یہ معرکہ جسے ہم دیکھ رہے ہیں اس نے نہ صرف دشمن کو بے نقاب کیا ہے بلکہ ہمارے اپنے مسلمان حکمرانوں کو بھی۔ وہ حکمران جن کی زبانیں خاموش، ضمیر مردہ اور آنکھیں بند ہیں۔ جن کے محلات تو چمک رہے ہیں مگر ان کے دل سیاہ ہو چکے ہیں۔ وہ یہودیوں کے سامنے اس لیے جھک چکے ہیں کیونکہ انہیں مسلمانوں کی جانیں اور عزتیں نہیں بلکہ اپنی بادشاہتیں، اپنی دولت اور دنیاوی آسائشیں عزیز ہیں۔یہی معرکہ ہم عام مسلمانوں کے ایمان کا بھی امتحان ہے۔ اربوں کی تعداد میں ہم مسلمان دنیا بھر میں بستے ہیں مگر افسوس کہ ہمارا طرزِ زندگی، ہماری خریداری، ہماری ترجیحات سب اسرائیل کی مدد کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ہم ان ہی یہودی مصنوعات کو خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیل کے فوجی بجٹ میں شامل ہوتا ہے۔ہم میں سے کتنے ہی افراد روزانہ یہودی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم انہی کمپنیوں کی چیزیں خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیلی فوج کے اسلحہ اور بارود پر خرچ ہوتا ہے۔ ہم اپنی لاعلمی، غفلت یا لاپرواہی کے باعث اس ظلم میں شریک ہو رہے ہیں۔ ہم خود اپنے ہاتھوں سے ان ظالموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جو ہمارے ہی بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں۔افسوس، صد افسوس! کہ ہم صرف سوشل میڈیا پر پوسٹس اور احتجاج تک محدود ہو چکے ہیں جبکہ عمل کے میدان میں ہماری موجودگی ناپید ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے خود کو بدلیں، اپنی ترجیحات کو ایمان کی روشنی میں دیکھیں، اور ہر وہ قدم اٹھائیں جو ظالم کی طاقت کو کمزور کرے۔اللہ کی مدد صرف انہی کو حاصل ہوتی ہے جو خود کو اس کے دین کے لیے وقف کرتے ہیں۔ ہمیں آج سے یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم صرف باتوں سے نہیں، بلکہ عمل سے اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اپنے گھر سے، اپنی خریداری سے، اپنی دعائوں سے اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ہم ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہوں گے۔دنیا اس وقت ظلم، فتنہ اور نفاق کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر جو خون بہایا جا رہا ہے جو لاشیں گرائی جا رہی ہیں اور جو بچے ماں کی گود سے چھینے جا رہے ہیں تاریخِ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک منظم نسل کشی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دنیا بالخصوص مسلم حکمران تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔یہودیوں کا انجام اللہ کے فیصلے کے مطابق ہونا ہے۔ مگر وہ دن کب آئے گا؟ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مسلمان کب جاگتے ہیں؟ کب ہم دنیا کی محبت اور موت کے خوف کو ترک کر کے اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں؟ کب ہم قرآن کو صرف ثواب کے لیے نہیں بلکہ رہنمائی کے لیے پڑھنا شروع کرتے ہیں؟یقین رکھیں! وہ وقت ضرور آئے گا جب ہر درخت اور پتھر بھی گواہی دے گا، اور مظلوموں کے آنسو ظالموں کے لیے آگ بن جائیں گے۔یہودیوں کا انجام طے شدہ ہے لیکن اس انجام کو لانے کے لیے ہمارا کردار کیا ہو گا؟ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔