پارلیمانی کمیٹی اجلاس کے معاملے پر بلال اظہر کیانی اور حامد رضا میں نوک جھونک
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
پارلیمانی کمیٹی اجلاس کے معاملے پر وزیر مملکت ریلویز بلال اظہر کیانی اور سربراہ سنی اتحاد کونسل حامد رضا کے درمیان نوک جھونک ہوئی۔
جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے بلال اظہر کیانی کا کہنا تھا کہ وفاقی وزراء 90 فیصد کیسز میں اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں۔
صاحبزادہ حامد رضا بولے آج ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے حکومت کو چارج شیٹ کیا ہے۔
بلال کیانی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن والے عمر ایوب کی تقریر کے بعد احتجاج کرتے ہیں، کاغذات پھاڑتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔
حامد رضا نے سوال کیا کہ جب ہمارے ارکان کو پکڑا جائے، تشدد کیا جائے کیا تو ہم ایوان میں احتجاج نہ کریں؟
بلال کیانی نے کہا کہ ایک سال سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ٹھنڈے گرم بیانات سنتے آرہے ہیں، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کا نہ آنا مناسب نہیں تھا۔
حامد رضا کہا کہنا تھا کہ علی امین فارم 45 کے ذریعے عوام کے منتخب کردہ وزیراعلیٰ ہیں، فارم 47 پر نہیں آئے۔
انہوں نے کہا کہ طے ہوا تھا وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اجلاس میں جاکر موقف دیں گے، ہمیں چیزوں کا اندازہ تھا اس لیے قومی سلامتی کی کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
سربراہ سنی اتحاد کونسل کا کہنا تھا کہ صرف آپریشن سے مسئلہ حل ہوتا تو آج تک کیوں نہیں ہوا؟ مشیر داخلہ پرویز خٹک بےچارے نحیف آدمی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جے یو آئی نے کہا کہ جو اعلامیہ جاری ہوا اس پر ہم سے مشاورت نہیں کی گئی۔
بلال اظہر کیانی کا کہنا تھا کہ الیکشن دھاندلی پر مولانا فضل الرحمان کا گلہ تو خیبر پختونخوا میں ہے، جس پر حامد رضا کا کہنا تھا کہ ہم خیبر پختونخوا کا کوئی بھی حلقہ کھولنے کےلیے تیار ہیں۔
بلال اظہر کیانی نے کہا کہ نواز شریف کی دونوں حکومتیں اجلاس میں موجود تھیں، ان کے دور میں ہم تو نہیں کہتے تھے کہ نواز شریف کو پرول پر لائیں تو ہم بیٹھیں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں آنا تحریک انصاف کی ذمہ داری تھی یہ اس سے بھاگے ہیں۔ جس پر حامد رضا کا کہنا تھا کہ تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم کی بھی اجلاس میں آنا ذمہ داری تھی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بلال اظہر کیانی کا کہنا تھا کہ اجلاس میں نے کہا کہ
پڑھیں:
نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کا 56واں اجلاس: عدالتی اصلاحات اور جدید اقدامات پر زور
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی زیر صدارت نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کا 56واں اجلاس منعقد ہوا، جس میں تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز اور وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان نے شرکت کی۔ اجلاس میں عدالتی نظام میں اصلاحات، مقدمات کی جلد نمٹار اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم: سپریم جوڈیشل کونسل، جوڈیشل کمیشن اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی ازسرِنو تشکیل
اجلاس میں جبری گمشدگیوں کے مقدمات پر مؤثر ادارہ جاتی ردعمل دینے اور گرفتار ملزم کو 24 گھنٹے میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہ کرنے کی صورت میں نیا میکنزم لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کمرشل مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے کمرشل لٹیگیشن کوریڈور نافذ کرنے اور ایف بی آر میں اسکریننگ کمیٹی اور غیر ضروری مقدمات کے خاتمے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
مقدمات کے فیصلوں کے لیے مقررہ ٹائم لائنز پر سختی سے عملدرآمد کرنے اور ضلعی عدلیہ میں اصلاحات کی سفارشات 30 دن کے اندر مکمل کرنے کی ہدایت دی گئی۔
لاہور ہائی کورٹ نے 4 لاکھ 65 ہزار سے زائد مقدمات نمٹا کر ریکارڈ قائم کیا جبکہ پشاور ہائی کورٹ میں وراثتی مقدمات اور ڈبل ڈاکٹ نظام کی تعریف کی گئی اور 2019 تک کے تمام پرانے وراثتی کیسز 30 دن میں نمٹانے کی ہدایت دی گئی۔
ماڈل ٹرائل کورٹس کی کارکردگی کو قابلِ تحسین قرار دیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کو سرفہرست قرار دیا گیا۔ عدالتی نظام میں مصنوعی ذہانت (AI) کے استعمال کے لیے قومی گائیڈ لائنز تیار کرنے اور تمام ضلعی عدالتوں میں ای فائلنگ کے فوری آغاز کی منظوری دی گئی۔ سندھ ہائی کورٹ کو ای فائلنگ اقدامات پر سراہا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:ججز میڈیا پر بات نہیں کر سکیں گے، سپریم جوڈیشل کونسل نے ترمیم شدہ ضابطہ اخلاق جاری کردیا
خواتین اور خاندانی سہولت مراکز کے قیام کی اصولی منظوری دی گئی جبکہ ایکسیس ٹو جسٹس فنڈ کے تحت 2 ارب 58 کروڑ روپے سے زائد فنڈز جاری کیے گئے۔ عدالتوں کی سولرائزیشن کے لیے صوبائی حکومتوں سے اضافی فنڈز لینے کی ہدایت بھی کی گئی۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ اجلاس میں عدلیہ کی استعداد بڑھانے، مقدمات کی رفتار اور عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے جامع اور عملی اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سپریم کورٹ لاہور ہائی کورٹ نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی