نیوزی لینڈ کے خلاف اگلا ٹی 20، قومی ٹیم میں تبدیلیوں کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
نیوزی لینڈ کے خلاف آکلینڈ میں ہونے والے ٹی 20 سیریز کے تیسرے میچ کے لیے چند تبدیلیوں کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا اصل ہدف ایشیاکپ اور ٹی 20 ورلڈکپ مقابلے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ سے شکست کے باوجود مثبت چیزیں ہوئی، سلمان علی آغا
عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ مشکل کنڈیشنز میں کھیل کر برصغیر میں شیڈول ایشیاکپ اور ٹی 20 ورلڈکپ میں اچھی پرفارمنس کا یقین ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیم میں نئے کرکٹرز ضرور موجود ہیں لیکن ہم ان کے ساتھ ہی سیریز جیتنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی ٹیم میں صائم ایوب اور فخر زمان شامل ہوں گے تو اچھا کمبینیشن بن سکتا ہے۔
نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان کی مسلسل شکستوں پر انہوں نے اپنی مایوسی کا بھی اعتراف کیا تاہم انہوں نے اس پر شائقین کو صبر کی تلقین بھی کی۔
مزید پڑھیے: نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستانی ٹیم کو ایک اور شکست، ’کلب لیول کا بولر بھی شاہین آفریدی سے اچھی بالنگ کرلیتا‘
انہوں نے کہا کہ ہم 2 میچ ہار گئے اور اس پر لوگ پریشان ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ہر کوئی ہر وقت جیتنا چاہتا ہے اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں لیکن کبھی کبھار اس میں وقت لگتا ہے۔
ہیڈ کوچ نے کہا کہ نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز میں میچ جیتنا ضرور مشکل ہوتا ہے لیکن کم بیک کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تیسرے میچ کے لیے ٹیم میں ایک یا 2 تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں۔
عاقب جاوید نے کہا کہ پاکستان کی ٹی20 میں بہتر پرفارمنس کو 2 سال ہوچکے ہیں۔
مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ کیخلاف پہلے ٹی20 میچ میں کون سا ناپسندیدہ ریکارڈ پاکستان کے نام رہا؟
انہوں نے امید ظاہر کی کہ ایشیا کپ اور ورلڈ کپ کے لیے پاکستان ایک مضبوط ٹیم تیار کرنے میں کامیاب ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی 20 میں 4 چھکے لگ جانا اتنی بڑی بات نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شاہین شاہ آفریدی کو بھی اپنی پرفارمنس بہتر کرنی ہوگی۔
عاقب جاوید نے کہا کہ شاہین شاہ آفریدی کا آغاز بہت شاندار تھا لیکن انجری کےبعد ان کو مسائل درپیش ہوئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان کرکٹ ٹیم میں تبدیلیاں عاقب جاوید ہاک نیوزی لینڈ ٹی 20.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان کرکٹ ٹیم میں تبدیلیاں عاقب جاوید نیوزی لینڈ کے خلاف عاقب جاوید نے کہا کہ انہوں نے ٹیم میں کے لیے
پڑھیں:
پاکستان میں زچگی کے دوران اموات ایک سنگین مسئلہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) اقوامِ متحدہ کی رواں ماہ سات اپریل کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2023 میں دنیا بھر میں زچگی کے دوران دو لاکھ 60 ہزار خواتین کی اموات ہوئیں، جن میں سے نصف کا تعلق صرف چار ممالک (نائجیریا، بھارت، جمہوریہ کانگو، پاکستان) سے تھا۔ اُس سال پاکستان میں 11 ہزارخواتین زچگی کے دوران ہلاک ہوئیں، جو عالمی اموات کا 4.1 فیصد بنتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سی اموات رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتیں۔ نبیلہ کی کہانیراولپنڈی کے مضافاتی گاؤں میں رہنے والی 35 سالہ نبیلہ، جو چار بچوں کی ماں تھیں، زچگی کے دوران پیچیدگیوں کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔ ہیلتھ ورکر رفعت جبین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' نبیلہ کی مسکراہٹ آج بھی گاؤں کی گلیوں میں گونجتی ہے۔
(جاری ہے)
وہ ہر عورت کا دکھ بانٹتی تھیں لیکن اب اس کے گھر میں خاموشی چھائی ہے۔‘‘ رفعت جبین کے مطابق نبیلہ کی کہانی ان ہزاروں پاکستانی خواتین کی نمائندگی کرتی ہے، جو صحت کی سہولیات، شعور اور وسائل کی کمی کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ زچگی کے دوران اموات کی وجوہاتماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر عظمیٰ الماس کے مطابق خون کی کمی (اینیمیا) حاملہ خواتین میں عام ہے، خصوصاً ان میں، جن کی کم عمری میں شادی ہو جاتی ہے۔
شہری علاقوں میں خواتین حمل کے دوران باقاعدہ طبی معائنہ کراتی ہیں اور غذائیت کا خیال رکھتی ہیں لیکن دیہی علاقوں میں خون کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے، جو زچگی کی اموات کی شرح بڑھاتی ہے۔ دیگر وجوہات میں ہائی بلڈ پریشر، نفلی خون بہنا، انفیکشنز اور غیر محفوظ اسقاط حمل شامل ہیں۔ زچگی کے دوران اموات اور زمینی حقائقماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر اُمِ حبیبہ نے بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ زمینی حقائق کی عکاسی کرتی ہے۔
سن 2015 میں زچگی کے دوران اموات کم کرنے میں پیش رفت ہوئی تھی لیکن حالات اب بھی جوں کے توں ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کا صحت کا نظام مسائل کا شکار ہے کیونکہ کوئی جامع پالیسی موجود نہیں، جو زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہو۔ بنیادی مراکز صحت (بی ایچ یوز) اور تحصیل ہیلتھ مراکز (ٹی ایچ یوز) قائم تو کیے گئے لیکن یہ خستہ حال عمارتوں، عملے کی کمی اور ناقص انتظامات کا شکار ہیں۔ کئی علاقوں میں صحت کے افسران صرف کاغذوں پر موجود ہیں۔ صحت کا مسئلہ صرف سیاسی نعرہقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے رکن ڈاکٹر امجد علی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صحت پاکستان میں محض ایک سیاسی نعرہ ہے، جو انتخابات کے بعد دم توڑ دیتا ہے۔ ان کے مطابق، ''سیاسی جماعتیں صحت کو منشور کا حصہ بناتی ہیں لیکن بجٹ میں اسے نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور یہ رویہ سن 1947 سے جاری ہے۔
‘‘انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں میں مہنگے علاج پر توجہ دی جاتی ہے لیکن صحت کی بنیادی دیکھ بھال نظر انداز ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین کو زچگی سے متعلق بنیادی معلومات کی کمی ہے جبکہ غیر تربیت یافتہ دائیوں سے زچگی کرانے سے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آگاہی پروگرامز سے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔
وسائل کی کمی یا ترجیحات کا فقدان؟ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وسائل کی کمی کے ساتھ ساتھ ترجیحات کا فقدان بھی زچگی کے دوران اموات کی شرح بڑھانے کا سبب ہے۔
ڈاکٹر امجد علی خان نے کہا کہ اگر دفاع پر اربوں روپے خرچ ہو سکتے ہیں تو عوام کے لیے ہیلتھ انشورنس بھی فراہم کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''صرف 250 روپے ماہانہ فی فرد سے ہر پاکستانی کو یونیورسل ہیلتھ کوریج دی جا سکتی ہے۔ عالمی معیار کے مطابق صحت کے لیے پانچ فیصد بجٹ مختص ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں یہ صرف ایک فیصد کے قریب ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ زچگی جے دوران اموات کی اصل تعداد سرکاری اعداد و شمار سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سی اموات رجسٹرڈ نہیں ہوتیں۔
ماہرین کی رائے میں مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرتے ہوئے صورت حال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
آگاہی مہمات: دیہی علاقوں میں زچگی سے متعلق آگاہی پروگرامز شروع کیے جائیں۔ صحت کے بجٹ میں اضافہ: صحت کے لیے کم از کم پانچ فیصد بجٹ مختص کیا جائے۔ ہیلتھ انشورنس: یونیورسل ہیلتھ کوریج کے ذریعے ہر شہری کو صحت کی سہولیات دی جائیں۔ دائیوں کی تربیت: غیر تربیت یافتہ دائیوں کی جگہ تربیت یافتہ عملہ متعارف کرایا جائے۔ مراکز صحت کی بحالی: بی ایچ یوز اور ٹی ایچ یوز کو فعال بنایا جائے اور تربیت یافتہ عملہ تعینات کیا جائے۔ادارت: امتیاز احمد