یوکرین کا روسی نیوکلئیر بمبار طیاروں کے بیس پر حملہ، بڑی تباہی پھیل گئی
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
کیف(انٹرنیشنل ڈیسک)یوکرین نے جمعرات کو روس کے اینجلس اسٹریٹجک بمبار ایئربیس کو ڈرونز سے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایک زبردست دھماکہ ہوا اور آگ لگ گئی۔ یہ ایئربیس جنگی محاذ سے تقریباً 700 کلومیٹر دور واقع ہے۔ روسی حکام نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حملے کے نتیجے میں قریبی رہائشی علاقے بھی متاثر ہوئے۔
روئٹرز سے تصدیق شدہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں ایئربیس پر بڑے دھماکے اور قریبی مکانات کی تباہی کو دکھایا گیا ہے۔ روسی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں فضائی دفاعی نظام نے 132 یوکرینی ڈرون مار گرائے۔
روس کا جوہری بمبار طیاروں کا اہم اڈہ متاثر
اینجلس بمبار ایئربیس، جو سوویت دور سے قائم ہے، روس کے ٹوپولیف Tu-160 جوہری صلاحیت کے حامل اسٹریٹجک بمبار طیاروں کا اہم اڈہ ہے۔ ان طیاروں کو غیر رسمی طور پر ”وائٹ سوانز“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ساراتوف کے گورنر رومن بوسرگین نے تصدیق کی کہ اینجلس شہر میں یوکرینی ڈرون حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں ایک ایئرفیلڈ میں آگ لگ گئی اور نزدیکی رہائشیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنا پڑا۔
پہلے بھی یوکرین کی جانب سے حملے ہو چکے ہیں
یوکرین اس سے قبل بھی اینجلس ایئربیس پر حملے کر چکا ہے۔ دسمبر 2022 میں اس ایئربیس کو نشانہ بنایا گیا تھا، جبکہ جنوری میں یوکرین نے ایک آئل ڈپو پر حملے کا دعویٰ کیا تھا، جس کے نتیجے میں پانچ دن تک شدید آگ لگی رہی۔
روسی شہر سیزران میں آئل ریفائنری پر حملہ
روسی حکام کے مطابق، یوکرین نے سمارا ریجن کے شہر سیزران میں ایک آئل ریفائنری پر بھی حملہ کیا۔ گورنر ویچسلاو فیڈوریشچیف کے مطابق، ایمرجنسی سروسز فوری طور پر کارروائی میں مصروف ہیں، اور ابتدائی معلومات کے مطابق کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
روسی وزارت دفاع نے مزید بتایا کہ فضائی دفاعی نظام نے بریانسک، تاتارستان، تولا ریجن اور بحیرہ اسود کے اوپر 9 یوکرینی ڈرون مار گرائے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے نتیجے میں
پڑھیں:
غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، روسی قونصل جنرل
جامعہ کراچی میں خطاب کرتے ہوئے آندرے وکٹرووچ فیڈروف نے کہا کہ پاک روس تعلقات ہر روز ایک نئی سطح پر ترقی کر رہے ہیں اور جلد ہی ہمیں بریک تھرو سے حیرانی ہوگی کیونکہ دونوں تاریخوں کے درمیان متعدد معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں جن کے لیے بات چیت جاری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کراچی میں تعینات روس کے قونصل جنرل آندرے وکٹرووچ فیڈروف نے کہا کہ فلسطین میں نسل کشی کی وجہ سے روس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو روک دیا ہے، ہمارے اس وقت اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات نہیں، غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بنیادی ذمہ داری ہے، اگرچہ اقوام متحدہ کا ڈھانچہ کسی بھی لحاظ سے مثالی نہیں ہے اور تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی ماحول کی وجہ سے اکثر اس کے بہت سے نمائندوں بشمول روس کی طرف سے اصلاحات پر زور دیا جاتا ہے، پاک روس تعلقات ہر روز ایک نئی سطح پر ترقی کر رہے ہیں اور جلد ہی ہمیں بریک تھرو سے حیرانی ہوگی کیونکہ دونوں تاریخوں کے درمیان متعدد معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں جن کے لیے بات چیت جاری ہے۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز جامعہ کراچی کے زیر اہتمام چائنیز ٹیچرزمیموریل آڈیٹوریم جامعہ کراچی میں منعقدہ لیکچر بعنوان ”دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ اور نئے عالمی نظام کا ظہور“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آج کل ہم بین الاقوامی قانون کو کسی نہ کسی قسم کے من مانی اور مبہم قوانین سے بدلنے کی زیادہ سے زیادہ کوششیں دیکھ رہے ہیں اور اس تحریک کو مغربی ممالک نے پروان چڑھایا ہے، جو اپنی زوال پذیری کے باوجود خود کو نام نہاد مہذب سمجھتے ہیں، اگرچہ کسی نے بھی ان سے ان قوانین کو نافذ کرنے کے لیے نہیں کہا اور نہ ہی ان کی نمائندگی کی لیکن مغرب اب بھی ان پر عمل کرنے کے لیے سب کو دباؤ یا بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ اپنے متکبرانہ رویے کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ آندرے وکٹرووچ فیڈروف نے کہا کہ نوآبادیات، غلامی اور ترک جنگوں سے لے کر پہلی اور دوسری عالمی جنگوں تک، یہ سب یورپ کی مختلف طاقتوں کی طرف سے اپنے حریفوں کو دبانے کی کوششیں تھیں، اس کے برعکس روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کئی بار بین الاقوامی قانون کا احترام بحال کرنے پر زور دیا۔
قونصل جنرل نے مزید کہا کہ بلجیم جیسے نام نہاد مہذب یورپ کے ممالک میں دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی انسانی چڑیا گھر موجود تھے جہاں افریقہ کے لوگوں کو عوامی تفریح کے لئے جانوروں کی طرح رکھا جاتا تھا، کچھ ممالک میں ایسے قوانین بھی تھے جن کے مطابق آپ کو بچے پیدا کرنے کی اجازت نہیں تھی، اگرچہ اس طرح کی انتہائی مثالیں اب کہیں بھی برداشت نہیں کی جاتی ہیں، مغرب اب بھی نازیوں کی کھلی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوویت یونین کے لوگوں نے نازی ازم کے خلاف جنگ میں سب سے بڑی قربانی دی، اس جنگ کے دوران سوویت یونین کے 27 ملین شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ایک بھی ایسا خاندان تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہے جو اس واقعہ سے متاثر نہ ہوا ہو، یہی وجہ ہے کہ یہ قربانیاں ہمیشہ قابل قدر رہیں گی اور تاریخ کو نئے سرے سے لکھنے کی مختلف بدنیت قوتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود ہمارے عوام انہیں کبھی فراموش نہیں کریں گے۔